برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

672

قسط نمبر 137
پندرہواں حصہ
ہندوستان کی جانب سے 6 ستمبر 1965ء کو لاہور کے تین اطراف سے بھرپور حملے کی ابتدا ہوچکی تھی۔ پاکستان کا مؤقف تھا کہ ہندوستان نے بین الاقوامی حد بندی (سرحد) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کی حدود میں جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے حملہ کیا ہے، جبکہ ہندوستان کا کہنا تھا کہ کیونکہ پہل پاکستان کی طرف سے ہوئی اور اس نے یکم ستمبر 1965ء سے بھی پہلے اپنے فوجی ہندوستانی کشمیر میں بھیج کر خانہ جنگی کی شروعات کی، جس کے جواب میں ہندوستان کو حملہ کرنا پڑا۔ اس کے جواب میں پاکستان کا کہنا تھا کہ اس نے کبھی بھی ہندوستانی کشمیر کو ہندوستانی علاقہ تسلیم ہی نہیں کیا، اور اقوام متحدہ بھی اس علاقے کو کیونکہ ایک متنازع علاقہ قرار دیتی ہے، پھر کس طرح سے ہندوستان اس علاقے کو ہندوستانی کشمیر کہہ سکتا ہے؟ مزید یہ کہ ہندوستان نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ قائم کررکھا ہے اور کشمیری عوام پر ظلم و ستم کی حد کردی تھی، جس کے جواب میں پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کررہا ہے۔
دونوں ممالک کے اپنے اپنے مؤقف پر تو گفتگو ہر فورم پر اٹھتی رہی ہے، مگر اس وقت ہمارا موضوع چونکہ جنگِ ستمبر1965ء کے حالات اور افواجِ پاکستان کے کارناموں پر نظر ڈالنا ہے اس لیے کوشش ہوگی کہ فی الوقت اسی پر بات کی جائے۔
ہندوستان نے کشمیر کے محاذ پر پاکستان کے حملے کا جواب دینے کے لیے جو حکمت عملی ترتیب دی وہ یہ تھی کہ پاکستان پر ابتدا میں تین جانب سے حملہ کیا جائے۔ چنانچہ قریب ترین ہدف لاہور کا انتخاب کیا گیا، اور ہندوستان نے اپنی فوج کو شمال کی جانب ’جسٹر‘ کے علاقے اور جنوب میں ’قصور‘ پر حملہ کرنے کا حکم جاری کیا۔
6 اور 7 ستمبر کو پاکستان کی فضائیہ نے ’ہلواڑہ، پٹھان کوٹ، اور آدم پور‘ پر یکے بعد دیگرے تین حملے کرکے ہندوستان کو شدید پریشانی میں ڈال دیا تھا۔ فضائی کارناموں کے ساتھ ہی پاکستان نے زمینی مقابلے میں بھی دشمن کو خاصا نقصان پہنچایا۔ ہندوستانی زمینی حملے کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے کہ لاہور اور سیالکوٹ کے بارڈر پر ہندوستان نے اپنی افواج کو مجتمع کرنے کے بعد بھرپور حملہ کرنے کا فیصلہ کیا، اور یہ ٹاسک ہندوستانی میجر جنرل نرنجن پرشاد کو سونپا گیا، جو رات کی تاریکی میں اپنے 25 ڈویژن کے ساتھ اپنے ٹینکوں کی فارمیشن میں آگے بڑھتا چلا آیا، اور آرٹلری و بھاری توپ خانے زمینی فوج کو مدد دینے کے لیے ان کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
5 میل طویل اس سرحد پر پاکستان کی پہلی دفاعی لائن صرف سات بٹالینز پر مشتمل تھی۔ پاکستان کی انتہائی کم نفری پاکستانی فوج کے لیے انتہائی مشکل چیلنج تھا کہ وہ ہندوستانی یلغار کو لاہور شہر کی جانب بڑھنے سے کیسے روکے؟ ہندوستان کے لیے ضروری تھا کہ لاہور میں داخل ہونے کے لیے باٹا پور جانے والے واحد پل پر کسی طرح اپنا قبضہ جمایا جائے، تاکہ اپنی آرٹلری اور ٹینکوں کو لاہور شہر میں داخل کروایا جاسکے۔ یہ علاقہ جس فوجی نام سے جانا جاتا تھا اسے برکی سیکٹر کہا جاتا ہے جو میجر راجا عزیز بھٹی شہید کی کمانڈ میں تھا۔
میجر شفقت بلوچ جو بعد میں کرنل بنے [جنہوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں ستارہ جرات حاصل کیے]۔ میجر شفقت بلوچ نے 1965ء کی جنگ میجر عزیز بھٹی شہید کے شانہ بشانہ لڑی۔ ہندوستانی فوج ایک ڈویژن سے زیادہ تھی۔ میجر عزیز بھٹی کمپنی 12 پنجاب کی قیادت کررہی تھی جبکہ کمپنی 17 پنجاب شفقت بلوچ کی کمانڈ میں وطن عزیز کا دفاع کررہی تھی۔ شفقت بلوچ نے کمال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’ہڈیارہ گائوں‘ کے مقام پر اپنے صرف 90 جوانوں کے ساتھ ہندوستانی افواج کے ناپاک قدموں کو کامیابی سے روکے رکھا۔
ہندوستانی ٹروپس اور زمینی فوج کے دو ڈویژن بھاری گولہ باری کرتے ہوئے پاکستان کے اندر بی آر بی نہر کے ایک جانب اپنی پوزیشن سنبھال چکے تھے اور آرٹلری بھی ان کے ساتھ اپنی توپوں کو فٹ کرچکی تھی۔ ہماری فوج نے انتہائی کم نفری کے ساتھ کئی گھنٹوں تک ہندوستانی یلغار کا مقابلہ کیا۔ یہ مقابلہ شدید ترین شکل اختیار کرتا جارہا تھا کہ اچانک ہندوستانی فوج نے ایک بریگیڈ اور ایک ٹینک رجمنٹ کے ساتھ شدید ترین بمباری کرتے ہوئے باٹا پور کی جانب بڑھنا شروع کیا۔ ان کے پیچھے ہندوستانی فوجی فائرنگ کرتے ہوئے پل کی جانب بڑھ رہے تھے۔ اس شدید ترین حملے میں پاکستانی فوج نے لاہور کو بچانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے باٹاپور پل تباہ کرنا بہت ضروری تھا۔ مگر پل پر تباہ کن مواد پہنچانا وہ بھی دن کی روشنی میں، ناممکن تھا… اور رات تک دشمن کو روکے رکھنا اس سے بھی زیادہ مشکل کام تھا۔ دشمن چوکنا تھا اور مسلسل فائرنگ کرکے پاکستانی فوج کو پل کے نزدیک آنے سے روک رہا تھا۔ پل تک دھماکا خیز بارود لے جانے کی کوشش میں ہمارے کچھ جوان زخمی اور ایک شہید بھی ہوچکا تھا، مگر ان سخت ترین حالات میں بھی جذبۂ ایمانی کم نہ ہوا اور چند جوان دن کی روشنی میں ہی کسی نہ کسی طرح سینکڑوں پونڈ دھماکا خیز مواد کو پل کی بنیادوں تک لے جانے میں کامیاب ہوگئے، اور چھوٹے چھوٹے گڑھے بناکر اُن میں بارود فٹ کرنے کے بعد آگ لگانے والے دھاتی تاروں کو جوڑ کر اپنے ساتھ چار پانچ سپاہیوں کے کور میں بحفاظت پل کے پار آنے میں کامیاب رہے۔
اس محاذ کے اگلے مورچے پر جنگ کی شروعات میں ہی دشمن کی ایک گولی میجر شفقت بلوچ کے کاندھے پر لگ چکی تھی، عالم یہ تھا کہ میجر کے بازو سے مستقل خون بہہ رہا تھا اور انہیں ابتدائی طبی امداد تک میسر نہیں تھی۔ قریبی سپاہی نے شفقت بلوچ کے کاندھے پر ایک بڑا رومال مضبوطی کے ساتھ باندھ کر ان کے بازو کو جسم کے ساتھ لپیٹ دیا تاکہ کچھ آرام مل سکے۔ اس عالم میں بھی وہ اپنے ساتھیوں کی ہمت بڑھاتے رہے اور ’ہڈیارہ نالے‘ کے کنارے توپ خانے کے فائرچی کو صحیح صحیح نشانے کے لیے رہنمائی کرتے رہے۔ گھمسان کے اس معرکے میں زخمی میجر شفقت بلوچ کے سپاہیوں نے متواتر کامیاب نشانے لگاکر دشمن کے تین ٹینک تباہ کر ڈالے۔ ٹینکوں کا تباہ ہونا تھا کہ جنگ کا پانسہ پلٹتا دکھائی دینے لگا اور دشمن کے بڑھتے ہوئے قدم اکھڑتے چلے گئے۔ سیالکوٹ، قصور، سلیمانکی سیکٹرز میں دشمن اپنا بہت سا سامان چھوڑ کر پسپا ہونے پر مجبور ہوا۔
اس محاذ پر موجود ایک غازی کرنل (ر) سردار عبدالرئوف مگسی جو میجر عزیز بھٹی کے ساتھ موجود تھے، بتاتے ہیں کہ جب دشمن’بی آر بی‘ نہر ایک طرح سے عبور کرچکا تھا، تب اللہ نے ان کی راہنمائی کرتے ہوئے کس طرح دشمن کے جارحانہ عزائم کو خاک میں ملایا۔
کرنل (ر) سردار عبدالرئوف مگسی کے مطابق ’’میجر شفقت بلوچ اور میجر عزیز بھٹی اپنے جوانوں کے ساتھ دشمن کو پیچھے دھکیل رہے تھے کہ 7 اور 8 ستمبر کی رات ہماری کمپنی کو حکم ملا کہ دشمن سے بھسین کا علاقہ خالی کرائو۔ ہم نے اس علاقے کی پہلے سے ریکی نہیں کی تھی، یہ کام دوسری کمپنی کی زیر نگرانی تھا۔ اس کمپنی کا ایک جوان ہمارے ساتھ ہوا اور ہم اس کی رہنمائی میں آگے بڑھنے لگے۔ جوان راستہ بھول گیا تھا، اور ہم اُس کی غلطی سے اُس جانب نکل گئے کہ جہاں ہمیں کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آنے لگیں۔ کتوں نے کچھ لوگوں کو چلتے پھرتے دیکھ لیا تھا۔ یہ علاقہ ہمارے منصوبے میں شامل نہیں تھا۔ جب ہم وہاں سے چکر کاٹ کر آگے بڑھے، تو احساس ہوا کہ ہم دشمن کے دائیں جانب عقب میں پہنچ چکے ہیں۔ یہ دشمن کی 15ڈویژن کی دو بٹالین فوج تھی جو ’بی آر بی‘ نہر پر قابض ہوکر آگے کی جانب بڑھ رہی تھی۔ ہمارے پاس صرف 119افراد کی کمپنی تھی۔ ہم نے اللہ کا نام لیا اورعقب سے حملہ کردیا۔ دشمن بوکھلا گیا۔ ہم نے 351 دشمن مارے اور 187گرفتار کرلیے۔ اس دوران 15ڈویژن کے کمانڈر جنرل نرنجن پرشاد کی جیپ اور ڈائری بھی ہمارے قبضے میں آگئی جس میں لاہور پر حملے کا پورا منصوبہ درج تھا اور نقشے مارک کیے گئے تھے۔ ان دستاویزات کے ہاتھ لگنے سے ہمیں اپنی دفاعی حکمت عملی تیار کرنے کا موقع مل گیا۔ یہ جیپ آج بھی 18بلوچ پلٹن کوارٹر گارڈ میں وار ٹرافی کے طور پر موجود ہے۔ ہم نے 8 ستمبر کو نہ صرف بھسین کا علاقہ بلکہ دشمن کا وسیع علاقہ پل کنجری، ککڑ اور مقیم پور بھی قبضے میں لے لیا (یہاں سے امرتسر صرف 12میل دور تھا)۔ ہم پیش قدمی کرتے آگے بڑھتے جارہے تھے کہ ہائی کمان کے حکم پر ہماری پلٹن کو مناسب حد تک پیچھے ہٹا لیا گیا۔ لاہور کے مکمل دفاع کے لیے یہ بھی ضروری تھا۔ ہماری یونٹ 8 ستمبر کو بھسین ڈے کے طور پر مناتی ہے۔‘‘
کرنل (ر) سردار عبدالرئوف مگسی نے مزید بتایا کہ ’’یہ کہنا کہ پاکستان کی انٹیلی جنس ہندوستانی حملے سے باخبر تھی انتہائی غلط ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ’’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم اُس وقت ہاکی کا فائنل میچ کھیل رہے تھے کہ اس اثناء میں جنگی بگل بج اٹھا۔ ہم سب حیران ہوئے کہ اس وقت بگل اچانک کیوں بجا ہے؟ کیونکہ یہ حالت امن کی نشاندہی نہیں کررہی تھی، ہم فوراً بھاگے، جس کے ہاتھ جو اسلحہ لگا اس نے اْٹھایا، وردی پہننے کا ہوش نہ رہا۔ کسی نے مشین گن اٹھائی، تو کوئی ہینڈ گرنیڈ بکس اٹھا رہا تھا۔ جنگ کا بلاوا جس انداز میں آیا تھا وہ یہی بتاتا ہے کہ دشمن نے شب خون مارا ہے، اسی لیے افراتفری برپا ہوئی۔ ہم جس وقت محاذ پر پہنچے ہیں وہاں ہماری مدد کو اور کوئی نہیں تھا، ہماری باقاعدہ بریگیڈ اس کے دو تین دن بعد پہنچی تھی۔ ہماری کمپنی کے ذمے بی آر بی، جلو اور سائفن کے آگے پیچھے کے کچھ علاقے تھے۔ جب کہ دوسرا گروپ کرنل شفقت بلوچ کی زیر قیادت آگے ’ہڈیارہ‘ میں تھا، اور ان سب کے پیچھے میجر عزیز بھٹی تھے۔‘‘
(جاری ہے)

حصہ