344

حیا اور بے حیائی
(چھٹی اور آخری قسط)
اس ساری گفتگو کا ماحصل یہی ہے کہ حیا ایک ایسا جزوِِ دین ہے جو ہماری زندگی کے ہر پہلو میں اسی طرح موجود ہے جس طرح ہماری روح۔ جسم سے روح پرواز کرجائے تو جسم کو دفنا دیا جاتا ہے۔ اگر اسے زمین میں نہ دفنایا جائے تو اس سے جو تعفن اٹھے گا اور جو خرابیاں پیدا ہوں گی وہ آس پاس موجود آبادی کی ہلاکت کا سبب بن جائیں گی۔ بالکل اسی طرح ہر وہ فرد جس نے اللہ کی نافرمانیوں پر کمر کس لی ہے وہ ایک ظالم اور بے حیا انسان ہے، لیکن حیف اس کے لاشے کو کوئی بھی دفنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں بے حیائیاں اور بگاڑ بڑھتا چلا جا رہا ہے، اور جو لوگ اس کے آس پاس ہیں اور پاکیزہ اور حیا والی زندگی گزارنا چاہ رہے ہیں وہ بھی اس کی زد میں آتے چلے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے معاشرہ روز بروز انحطاط کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کے بعد اُسے لاوارث نہیں چھوڑ دیا، بلکہ زندگی گزارنے کے سارے طور طریق بتادیئے۔ مغربی دنیا میں عورت کے حقوق اور انسانی حقوق کی بہت بات کی جاتی ہے لیکن اُن کے یہ حقوق ہاتھی کے دانتوں کی طرح دکھانے اور کھانے کے جدا جدا ہیں۔ آزادی اور حقوق کے نام پر خواتین اور مردوں کے حقوق میں اتنا عدم توازن پیدا کردیا گیا کہ وہاں بہت کم لوگ ایسے رہ گئے جو باقاعدہ نکاح و شادی کی ذمے داریاں نبھا سکیں، اور باحیا زندگی گزار سکیں۔ قانونی طور پر خواتین کو اتنا بااختیار بنادیا گیا ہے کہ کسی مرد کی ہمت ہی نہیں پڑتی کہ وہ شادی کرنے کے بعد ان کے حقوق ادا کرسکے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک جانب تو مرد جانوروں کی طرح آزاد ہوگیا کہ جہاں چاہے منہ مارتا پھرے، کیونکہ ایسا کرنے پر بھی اس کی آزاد خیالی بدکاری کو کوئی عیب نہیں مانتی۔ اس معاشرے میں جو خواتین و حضرات کسی حد تک پابند زندگی گزارنا چاہتے ہیں اُن کو بھی یہ اجازت حاصل ہے کہ وہ میاں بیوی کی طرح دوست بن کر رہیں اور اولادیں پیدا کریں، دل بھر جائے تو اپنے اپنے ساتھی جب اور جس وقت چاہیں بدل لیں۔ اب کوئی یہ بتائے کہ حد سے زیادہ حقوق اور قانونی تحفظ نے کیا وہاں کی خواتین کو زیادہ محفوظ اور باعزت بنایا؟ یا وہ کرائے کی ٹیکسیاں بنا دی گئیں؟
اللہ تعالیٰ نے کس حد تک ایک عورت کو حقوق دیئے اور اس کی عزت و آبرو کو کس حد تک پاکیزہ و باحیا بنایا، اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے ان آیات کا حوالہ ہی کافی ہے:
’’جو باپ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد پوری مدتِ رضاعت تک دودھ پیے تو مائیں اپنے بچوں کو دو سال دودھ پلائیں۔ اس صورت میں بچے کے باپ کو معروف طریقے سے انھیں کھانا کپڑا دینا ہوگا۔ مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالنا چاہیے۔ نہ تو ماں کو اس وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے کہ بچہ اس کا ہے، اور نہ باپ کو ہی اس وجہ سے تنگ کیا جائے کہ بچہ اس کا ہے۔ دودھ پلانے والی کا یہ حق جیسا بچے کے باپ پر ہے ویسا ہی اس کے وارث پر بھی ہے۔ لیکن اگر فریقین باہمی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اور اگر تمہارا خیال اپنی اولاد کو کسی غیر عورت سے دودھ پلوانے کا ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ اس کا جو بھی معاوضہ طے کرو وہ معروف طریقے پر ادا کرو۔ اللہ سے ڈرو اور جان رکھوکہ جو کچھ تم کرتے ہو، سب اللہ کی نظر میں ہے۔‘‘ (البقرۃ، آیت 233)
’’پھر اگر (دوبار طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار) طلاق دی تو وہ عورت پھر اس کے لیے حلال نہ ہوگی اِلاّ یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دے دے۔ تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدودِ الٰہی پر قائم رہیں گے تو ان کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں جنھیں وہ ان لوگوں کی ہدایت کے لیے واضح کررہا ہے جو (اس کی حدوں کو توڑنے کا انجام) جانتے ہیں۔‘‘ (البقرۃ، آیت 230)
’’تم میں سے جو لوگ مرجائیں اُن کے پیچھے اگر اُن کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن روکے رکھیں۔ پھر جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو انھیں اختیار ہے، اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے جو چاہیں کریں۔ تم پر اس کی کوئی ذمے داری نہیں۔ اللہ تم سب کے اعمال سے باخبر ہے۔ زمانۂ عدت میں خواہ تم ان بیوہ عورتوں کے ساتھ منگنی کا ارادہ اشارے کنائے میں ظاہر کرو، خواہ دل میں چھپائے رکھو، دونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘ (البقرۃ، آیت 234)
ان آیات کی روشنی میں ذرا اس بات کا جائزہ لیں کہ دنیا بھر کی انسانی اور نسوانی حقوق کی آوازیں بلند کرنے والی نام نہاد تنظیموں کے پاس کسی عورت کو دینے کے لیے ایسے پاکیزہ حقوق ہیں؟ یہ ساری تنظیمیں اپنے اپنے مذموم مقاصد کے لیے کام کررہی ہیں، جن کا مقصد معاشرے میں بے حیائی اور اللہ سے بغاوت کے قوانین بنانے کے سوا کچھ نہیں۔
اسلام سراسر حیا و پاکیزگی کا مذہب ہے اور دنیا میں حیا و پاکیزگی پھیلانا چاہتا ہے۔ جب تک معاشرہ اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں چلایا جائے گا یہ ممکن ہی نہیں کہ دنیا میں امن، آشتی، سکون اور اطمینان حاصل ہو سکے۔ اور جب تک امن، آشتی، سکون اور اطمینان انسانوں کو حاصل نہیں ہوگا اُس وقت تک دنیاجہنم کا نمونہ تو بن سکتی ہے جنت نظیر کبھی نہیں بن سکتی۔ دنیا کو جنت نظیر بنانا ہے تو ’’باحیا‘‘ بنانا ہوگا، کیونکہ حیا اور امن، آشتی، سکون و اطمینان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ بات محض قیاس پر نہیں کہی جارہی بلکہ جو لوگ چشم بینا رکھتے ہیں اور صاحبِ بصیرت ہیں وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت عالمِ انسانیت جس کرب کا شکار ہے اس کی وجوہات کیا ہیں۔ روزروز بڑھتی بے چینی، اضطراب، افراتفری اور بے یقینی کی کیفیت اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ہم بے حیائی کا شکار ہوتے جارہے ہیں، اور یہی حال رہا تو انجام ہلاکت و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
اگر ہم اپنی تباہی و بربادی کا جائزہ لیں اور اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں تو جو چیز بعد از تحقیق سامنے آئے گی وہ ’’ماضی سے سبق حاصل نہ کرنا‘‘ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھا کر صاف صاف بتا دیا کہ انسان سخت خسارے میں ہے۔ زمانہ دراصل ماضی اور حال پر مشتمل ہوتا ہے۔ جو قومیں اپنے ماضی کو ٹٹول کر اور حال کا جائزہ لے کر یہ عہد کرلیتی ہیں کہ وہ اپنی کمزوریوں پر قابو پالیں گی اور غلطیوں کو نہیں دہرائیں گی وہی اپنے مستقبل کو روشن بنالیتی ہیں، اور جو اپنی غلطیوں کا ازالہ ہی نہیں کرتیں بلکہ غلطیوں پر ڈٹ جاتی ہیں وہ تباہ و برباد ہوکر رہ جاتی ہیں۔ اسی قسم کی بات قرآن میں کچھ یوں بیان کی جا رہی ہے:
’’اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہلِ زمین کے بعد زمین کے وارث ہوئے ہیں، اس امرِ واقع نے کچھ سبق نہیں دیاکہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصور پر انھیں پکڑ سکتے ہیں؟ (مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے ہیں) اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سنتے۔ یہ قومیں جن کے قصے ہم تمہیں سنا رہے ہیں (تمہارے سامنے مثال میں موجود ہیں)، ان کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، مگر جس چیز کو وہ ایک مرتبہ جھٹلا چکے تھے پھر اسے وہ ماننے والے نہ تھے۔ دیکھو اس طرح ہم منکرینِ حق کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔ ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاسِ عہد نہیں پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا۔‘‘ (الاعراف 100تا102)
زمانے کی قسم یونہی نہیں کھائی گئی۔ اس قسم میں بڑی گہرائی ہے۔ انسانی تاریخ قوموں کے عروج و زوال سے بھری پڑی ہے۔ وہ بام عروج کو کیوں چھونے لگتی تھیں اور زوال پذیر کیوں اور کیسے ہوگئیں؟ سارے احوال درج ہیں۔ عروج پر ان کی اچھی، بہتر اور منظم زندگی لے گئی۔ وہ اصول لے گئے جن میں ظلم و زیادتی کا کوئی دخل نہیں تھا، یا باَلفاظِ دیگر ’’حیا‘‘ کے تقاضوں پر پوری اترتی تھیں، لیکن جب وہ کج رو ہوگئیں، ظلم و زیادتی والی بن گئیں، اللہ سے اور فطرت سے بغاوت پر اتر آئیں تو ایسی تہذیبوں اور قوموں کو برباد اور ہلاک ہونا پڑگیا اور بے حیائی ان کے لیے سم قاتل بن گئی۔
ساری گفتگو کا اگر نچوڑ نکالا جائے تو حاصل گفتگو اس کے سوا کچھ نہیں کہ اگر ہمیں معاشرے میں پیار محبت کو پروان چڑھانا ہے، امن و امان کو بحال کرنا ہے، معاشرے کے ہر فرد کو خوشحال بنانا ہے اور ہر فرد کو خطروں اور وسوسوں سے آزاد کرانا ہے، تو لازمی ہے کہ معاشرے کو بہر لحاظ شرم و حیا والا بنایا جائے۔ اس کو اُن باتوں سے روک دیا جائے جو منکرات میں سے ہوں، اللہ سے بغاوت والی ہوں، خداخوفی سے بے بہرہ ہوں، فطرت کی مخالف ہوں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے اصول، قواعد اور قوانین سے مطابقت نہ رکھتی ہوں۔ یہ سب کچھ ہوگا تو دنیا و آخرت سنورے گی، ورنہ دنیا جہنم بن کر رہ جائے گی۔

حصہ