وہ لمحہ

449

عشرت زاہد
’’ہیلو… جی… جی… اچھا… جی میں 11 بجے تک آتا ہوں… جی نہیں اس سے پہلے نہیں آسکتا… ہاں کوشش کروں گا، آج ہی کرنے کا…جی جی… میں نے کہا نا… اچھا جی آج ہوجائے گا… اچھا اچھا اللہ حافظ۔‘‘
ناظم آباد سے سلمان صاحب کا فون آیا تھا، ان کا پنکھا خراب تھا، بہت آواز کررہا تھا، شاید بیئرنگ بدلنے تھے۔ گرمیاں شروع ہوچکی تھیں اس لیے آج ہی ٹھیک کرکے دینا تھا ورنہ رات میں ان کو مسئلہ ہوجاتا۔
یہ لوگ بھی ایسی جلدی مچاتے ہیں کہ بس… اگر ایک رات بنا پنکھے کے گزار لیں تو کیا ہوجائے گا…! ہماری تو نہ جانے کتنی راتیں ایسی گزرتی ہیں۔ اکثر لائٹ ہی نہیں ہوتی، اس کچی آبادی میں تو انسان جانور سے بدتر زندگی گزارتے ہیں، پانی بھی نہیں آتا اور بجلی تو دن میں اور رات میں کئی بار جاتی ہے… مچھر الگ کاٹ کاٹ کر بدن کا سارا لہو نچوڑ لیتے ہیں… کیا زندگی ہے یار۔
اور ان کو دیکھو، ایک رات گزارنا بھی مشکل ہے۔ ایک کمرے میں ہی پنکھے کا مسئلہ ہے۔ دوسرے کمرے میں چلے جائیں، اتنا بڑا تو گھر ہے۔ لائٹ چلی جائے تو جنریٹر بھی ہے۔ وہ بڑبڑاتا رہا۔
یہ صابر الیکٹریشن تھا۔ کراچی کی ایک کچی آبادی کے ایک کمرے میں اپنے ماں باپ اور دو بہنوں کے ساتھ رہتا تھا۔ باپ بوڑھا تھا، ساتھ ہی دمے کا مریض، جو ذرا موسم بدلنے پر کھانسی اور سانس کے مرض میں مبتلا ہوجاتا۔ پھر رات دن کھانستا رہتا۔ اماں پہلے سلمان صاحب کے گھر ہی کام کرتی تھیں، مگر جب سے بچیاں بڑی ہوئی تھیں اور صابر کچھ کمانے کے لائق ہوگیا تھا، انہوں نے کام چھوڑ دیا تھا اور اب گھر میں ہی رہ کر میاں کی دیکھ بھال کرتیں، ساتھ ہی بیٹیوں کے ساتھ مل کر ازاربند بناتیں، جس سے گھر بیٹھے کچھ آمدنی ہوجاتی۔ اس طرح عزت سے گزربسر ہورہی تھی۔ صابر نے بجلی کا کام سیکھا تھا اور بجلی کے سامان کی ایک دکان پر بیٹھتا تھا۔ اکثر وہیں سے اسے کام مل جایا کرتا۔ اب تو خاصی جان پہچان ہوگئی تھی۔ وہ کام اچھا کرتا تھا اور پیسے بھی مناسب بتاتا، اس لیے روزانہ کچھ نہ کچھ کام مل ہی جاتا، اور اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اکثر اس کو گھروں کے اندر کام کرنا پڑتا تو خواتین سے بھی واسطہ پڑتا، مگر وہ ہمیشہ شرافت سے نظریں نیچی کرکے اپنا کام کرتا اور سب کو باجی اور آنٹی کہہ کر بات کرتا۔ اب تو اکثر اس کو نئے گھروں کے مکمل کام کے ٹھیکے بھی ملنا شروع ہوگئے تھے۔ لیکن ظاہر ہے اس مہنگائی کے دور میں جتنا کماتا تھا بس گزارہ ہی ہوتا تھا۔ گھر کرائے کا تھا، تھوڑی بہت ہی بچت ہو پاتی۔ اور جب سے امی نے اس کو سلمیٰ کی شادی کے بارے میں بتایا تھا، وہ اور بھی فکرمند ہوگیا تھا۔
سلمیٰ کی شادی بہت عرصے سے اس کے چچا کے بیٹے سے طے تھی، جو درزی کا کام کرتا تھا۔ پنجاب کے گاؤں محمد پور میں چچا کا اپنا گھر تھا، اور اب تو انہوں نے دلہن کے لیے کمرہ بھی تیار کرلیا تھا۔ پچھلی عید پر جب چچا کراچی آئے تھے تو کہہ گئے تھے کہ اب کی عید میں شادی کی تیاری کرلو۔ پھر پندرہ بیس دن پہلے ابا کے پاس اُن کا فون آیا تھا کہ بھائی جی آپ کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہتی، جلدی سے اپنے فرض سے فارغ ہوجائیں، ہماری تو پوری تیاری ہے۔ آپ لوگ عید بھی گاؤں میں ہی کرنا اور پھر ایک ہفتے بعد شادی رکھ لیں گے۔
ابا نے بھی ہامی بھرلی تھی۔ اماں نے کچھ پیسے جوڑ کر تھوڑا بہت سامان تیار کرلیا تھا، مگر ابھی بہت کچھ باقی تھا۔ چھوٹا موٹا زیور، کچھ کپڑے اور گاؤں جانے آنے کا خرچا اور ساتھ ہی ساری برادری کو ایک وقت کا کھانا کھلانا تھا۔ باقی پلنگ، الماری اور سنگھار میز تو چچا خود ہی بنوا رہے تھے، اس کی فکر نہیں تھی۔ لیکن ان سب چیزوں کے لیے بھی خاصے پیسے چاہیے تھے، بس اسی بات کی فکر صابر کو پریشان کررہی تھی۔ وہ دعا کررہا تھا کہ کوئی بڑا کام مل جائے تو یہ فرض آسانی سے ادا ہوجائے۔ وہ اسی سوچ میں تھا کہ سلمان صاحب کا فون آگیا تھا۔ ان کے گھر بجلی کا سارا کام اب صابر ہی کرتا تھا۔ اس نے اماں کو ناشتا دینے کو کہا اور خود غسل خانے کی طرف چل دیا۔
ٹھیک گیارہ بجے وہ سلمان صاحب کے گھر پہنچ چکا تھا۔ دھوپ خاصی تیز تھی۔ دروازہ کھلنے تک باہر انتظار کرنا مشکل لگ رہا تھا۔ سلمان صاحب کے بیٹے نے دروازہ کھولا اور اس کو سیدھا اپنے کمرے میں لے گیا۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے اس کی شادی ہوئی تھی۔ کمرہ خوب سجا ہوا تھا۔ چھت پر نقش ونگار بنے ہوئے تھے۔ ایک طرف سوکھے ہوئے پھولوں کے ہار لٹکے تھے، جن سے اب بھی بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی۔ صابر نے پنکھا چلا کر دیکھا تو واقعی بہت آواز کررہا تھا۔ ’’اس کو کھولنا پڑے گا، پھر دیکھتا ہوں کیا کیا خراب ہے، بیئرنگ تو خراب لگ ہی رہے ہیں۔ اسٹول کہاں ہے؟‘‘
’’اسٹول تو چھت پر ہے۔ آؤ میرے ساتھ‘‘… ’’پہلے یہ پلنگ تھوڑا سائیڈ پر کرنا پڑے گا تاکہ اسٹول کی جگہ بن جائے۔‘‘
اوپر سے اسٹول لاکر جب وہ اوپر چڑھا اور پنکھا کھولنے لگا تو اس کی نظر الماری کے اوپر رکھے ہوئے زیورات کے دو ڈبوں پر پڑی، اس کے اوپر چوڑیوں کا چھوٹا ڈبہ بھی رکھا تھا جس میں چم چم کرتی ہوئی سونے کی چوڑیاں صاف نظر آرہی تھی۔ اس کا دل زور سے دھڑکا اور ہاتھ سے پلاس نیچے گر گیا۔
’’ارے ارے کیا ہوا؟ آرام سے یار! یہ لو ذرا سنبھال کر، میں اسٹول پکڑ کر کھڑا ہوا ہوں۔‘‘
’’ارے نہیں بھائی، یہ تو میرا روز کا ہی کام ہے، بس وہ ذرا ہاتھ پھسل گیا تھا۔‘‘
’’خیر ہے کہ ہاتھ پھسلا ہے … پیر نہ پھسلے… ورنہ گر جائو گے بری طرح۔‘‘
صابر کو لگا جیسے اس کے دل کا چور پکڑا گیا ہے۔ پھیکی سی ہنسی ہنس کر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا۔
آج تک ایسا نہیں ہوا تھا، اس نے کبھی کسی کی کوئی چیز نہیں اٹھائی تھی، نہ ہی کسی چیز پر نیت خراب کی تھی… بس بہن کی شادی کی فکر ذہن پر سوار تھی، اس لیے اُس نے اپنے آپ کو تسلی دی اور پنکھا کھول کر نیچے اتر گیا۔ چیک کیا تو بیئرنگ خراب تھا، اس کی وجہ سے پنکھا دکان پر لے جانا پڑے گا۔ اتنے میں انہوں نے دو تین چھوٹے موٹے کام اور بتا دیے۔ اس نے کہا ’’میں یہ پنکھا دکان پر دے کر آتا ہوں، پھر یہ کام کرلوں گا۔ شام تک پنکھا تیار ہوجائے گا تو لاکر لگا دوںگا۔‘‘
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے، چل جلدی سے آجا، پھر مجھے بھی کام سے جانا ہے‘‘۔ وہ دکان پر پہنچا، پنکھا بننے دیا اور ضروری سامان خریدنے لگا، مگر اس کے دماغ پر مسلسل ہتھوڑے برس رہے تھے۔ بار بار زیورات کے وہ ڈبے اور چم چم کرتی چوڑیاں اس کی آنکھوں کے سامنے آرہی تھیں۔ اس نے کئی بار لاحول پڑھی، مگر شیطانی خیالات پیچھا نہیں چھوڑ رہے تھے۔ وہ واپس ان کے گھر گیا۔ کچھ بٹن بدلنے تھے، ایک جگہ نیا ہولڈر لگانا تھا اور صحن میں ایک لائن دے کر واشنگ مشین کے لیے ایک سوئچ بورڈ لگانا تھا۔ یہ سارے کام کرتے کرتے شام ہوچکی تھی۔ انہوں نے اس کو دوپہر کا کھانا اور دو بار چائے بھی دی تھی۔ کام کے دوران وہ کمرے میں کئی مرتبہ اکیلا ہی تھا، مگر اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ زیور کو ہاتھ بھی لگائے۔ اس کو اپنے آپ پر غصہ بھی آرہا تھا کہ ایسے خیال دل میں کیوں آرہے ہیں… پھر سوچتا، صرف چوڑیاں ہی مل جائیں تو میرا کام ہوجائے گا۔ پھر دماغ دل کو سرزنش کرتا… میں نے تو ہمیشہ حلال کمایا ہے، پھر آج یہ شیطانی وسوسے کیوں آرہے ہیں… پھر سوچتا کہ چوڑیاں کم از کم ایک لاکھ کی تو ہوں گی، میرا تو سارا ہی کام ہوجائے گا، اس میں اچھی طرح شادی نمٹ جائے گی… نہیں نہیں… اور اگر پکڑا گیا تو ساری ساکھ خراب ہوجائے گی… ہاتھ سے روزی بھی چلی جائے گی… پھر تو کھانے کے بھی لالے پڑ جائیں گے، اللہ نہ کرے… اسی ادھیڑ بن میں سارا دن گزر گیا، کام مکمل ہوچکا تھا، وہ پنکھا لے کر آیا اور لگانے کے لیے جب دوبارہ اوپر چڑھا تو خودبخود اس کی نظر وہیں گئی… مگر یہ کیا! اب کی بار وہاں کچھ بھی نہیں تھا، شاید ڈبے اٹھاکر حفاظت سے رکھ دیے گئے تھے۔
پنکھا فٹ کرکے صابر اطمینان سے نیچے اترا اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے باہر نکلا کہ اللہ نے آزمائش سے بچا لیا تھا۔ سلمان صاحب اسے دروازے پر ہی مل گئے۔ ’’آؤ آؤ برخوردار! بڑا ہی اچھا کام کیا ہے تم نے… خوش رہو۔ کتنے پیسے ہوئے؟‘‘
’’جی سترہ سو روپے۔‘‘
’’چل یہ دو ہزار رکھ لے، اور ہاں پتر! بات سن، اگلے ہفتے سے اوپر کی منزل کا کام شروع کررہا ہوں۔ سارا کام تجھے ہی کرنا ہے…‘‘
اور صابر ہلکا پھلکا ہوکر گھر کی طرف چل پڑا، اللہ نے اس کا کام آسان کردیا تھا۔ حلال آمدنی کا انتظام ہوگیا تھا۔
nn

حصہ