جیل کہانی، خودکشی

487

قدسیہ ملک
خودکشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فعلِ حرام ہے۔ اِس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے۔ درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی عطا کردہ امانت ہے۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو بقیہ تمام نعمتوں کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ بہرصورت زندگی کی حفاظت کریں۔ اسلام نے خودکشی (suicide)کو حرام قرار دیا ہے۔ اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔
اپنی زندگی کو ختم کرنا یا اسے بلاوجہ تلف کرنا اللہ کے ہاں ناپسندیدہ فعل ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے شک اللہ احسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘ (البقرۃ 2: 195)
نبی کریم، تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خودکشی کے مرتکب شخص کو دُہرے عذاب کی وعید سنائی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گرا کر ہلاک کیا تو وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کیا تو وہ زہر دوزخ میں بھی اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ میں کھاتا ہوگا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا‘‘۔
ایک اور جگہ حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے کسی بھی چیز کے ساتھ خودکشی کی تو وہ جہنم کی آگ میں (ہمیشہ) اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جاتا رہے گا۔‘‘(صحیح بخاری)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص لایا گیا جس نے اپنے آپ کو نیزے سے ہلاک کرلیا تھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔(مسلم)
ترقی یافتہ جی سیون ممالک میں خودکشی کے اعتبار سے جاپان سرفہرست ہے۔ اس ملک میں ہر سال بیس ہزار افراد اپنی جان لیتے ہیں۔ جاپانی پولیس کے ایک سروے کے مطابق 2009ء کے دوران ملک میں 33 ہزار سے زائد افراد نے خودکشی کی۔ یہ مسلسل بارہواں سال ہے کہ جاپان میں اتنی زیادہ تعداد میں عام شہریوں نے خودکشی کی۔ آن لائن ڈی ڈبلیو رپورٹ کے مطابق ’’صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملک جاپان میں خودکشی کا رحجان ہمیشہ ہی زیادہ رہا ہے۔ قومی اعدادوشمار کے مطابق وہاں کی آبادی میں ہر ایک لاکھ شہریوں میں سے اوسطاً 24 افراد خودکشی کرلیتے ہیں‘‘۔ اقوام متحدہ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کے گروپ جی ایٹ میں روس کے بعد خودکشیوں کے حوالے سے جاپان سب سے بڑا ملک ہے۔ اس سروے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق جاپان میں خود اپنی ہی جان لے لینے والے شہریوں کی روزانہ اوسط تعداد 90 کے قریب بنتی ہے۔ بھارت جو کہ اپنے اندر بے پناہ مسائل، فسادات، الجھنیں اور مایوسیاں لیے ہوئے ہے ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق یہاں ہر گھنٹے میں ایک طالب علم کی خودکشی ہوتی ہے۔ بھارتی تعلیمی اداروں میں طلبہ کی خودکشی کا سلسلہ جاری ہے۔ ترقی کے تمام دعووں کے باوجود مایوسی، غیر یقینی مستقبل اور دیگر اسباب کی وجہ سے ہر گھنٹے میں ایک طالب علم اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے پر مجبور ہورہا ہے۔ بھارت میں جرائم کے اعدادو شمار جمع کرنے والے ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر روز بیس سے زائد طلبہ خودکشی کرلیتے ہیں، یعنی تقریباً ہر ایک گھنٹے میں ایک طالب علم اپنی زندگی کا چراغ گل کررہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ بین الاقوامی جریدے لانسیٹ کے مطابق بھارت میں پندرہ سے انتیس برس کی عمر کے نوجوانوں میں خودکشی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر خسرو کلیم رضا نے کے آئی یو میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں ’’یونیورسٹی میں سوشل سائنس کے طلبہ میں تعلیمی بے چینی‘‘ کے موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ پڑھا تھا، اس دوران اُن کا کہنا تھا کہ بے چینی (انگزائٹی) اور دباؤ (ڈپریشن) میں فرق یہ ہے کہ بے چینی کا تعلق کسی ایسے کام یا واقعے سے ہوتا ہے جو مستقبل میں وقوع پذیر ہونے کا خدیشہ ہو، جبکہ ڈپریشن یا دباؤ کا تعلق ماضی کی کسی یاد سے ہوتا ہے۔ خودکشی کا تعلق ہمیشہ ماضی سے یعنی ڈپریشن سے ہوتا ہے۔ اگر مریض کی بروقت نشاندہی کی جائے تو علاج کے ذریعے اس کو خودکشی سے بچایا جاسکتا ہے۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر دریا خان لغاری کا کہنا ہے کہ خودکشی میں مختلف اقسام کی ذہنی خرابیوں (ملٹی ڈائمینشنل ڈس آرڈرز) کا بیک وقت عمل دخل ہوتا ہے جن میں حیاتیاتی، جینیاتی، نفسیاتی اور ماحولیاتی خرابیاں شامل ہیں۔ بر وقت تشخیص سے ان سب کا علاج ممکن ہے۔
خودکشی کا تعلق انسان کی سوچ اور ذہنی حالت سے ہوتا ہے جس میں بیرونی محرکات بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں کُل پانچ کروڑ لوگ مختلف نفسیاتی مسائل اور ذہنی امراض کا شکار ہیں، جبکہ ان کے علاج کے لیے ملک میں نفسیاتی امراض کے صرف 320 ماہرین اور 5 ہسپتال ہیں۔ بلاگر اسرار الدین اپنے کالم ’’انسان اپنا قاتل کیوں بنتا ہے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ پاکستان میں پانچ سے سات ہزار افراد سالانہ خودکشی کے ذریعے اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں، جبکہ سالانہ پچاس ہزار سے ڈیڑھ لاکھ لوگ خودکشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آج کی جیل کہانی بھی خودکشی سے ہی متعلق ہے، جس میں ایک ہنستا بستا گھر کس طرح اس جرم کی نذر ہوا اور اب ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہا ہے، آئیے آپ کو بتاتے ہیں:
خالدہ کی شادی غیروں میں ہوئی۔ وہ رخصت ہوکر مشترکہ خاندانی نظام میں آئی تھی۔ شوہر، ساس سسر اور نند سبھی اچھے تھے، البتہ شوہر کچھ جذباتی تھا۔ لیکن سسرال والوں کی ڈھارس کے باعث خالدہ شوہر کا یہ جذباتی پن سہار لیتی تھی۔ شادی کے دوسال میں اللہ نے دو خوبصورت بچے اُس کی جھولی میں ڈالے۔ وہ یہ تحفے پاکر شوہر کے رویّے کو یکسر نظرانداز کرگئی۔ اور یہی چیز بعد میں بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ بچے کچھ بڑے ہوئے تو معمولی معمولی باتوں پر لڑائیاں شروع ہوگئیں۔ وہ لڑائی سے بہت خوفزدہ سی رہتی تھی اس لیے کچھ نہ کہتی۔ شوہر دفتر سے واپس آکر کسی بھی بات پر زچ ہوجاتا اور کھری کھری سنانا شروع کردیتا۔ بالآخر روز روز کی لڑائی سے بچنے کا خالدہ نے یہ حل نکالا کہ وہ اپنے شوہر ندیم کی تمام چیزیں نظروں کے سامنے رکھ کر خود وہاں سے غائب ہوجاتی، وہ یا تو کچن میں مصروف ہوجاتی یا بچوں کو لے کر کسی اور کمرے کا رخ کرتی۔ یہ بات سسرال والے پسند نہ کرتے۔ وہ بس یہ چاہتے کہ صرف وہی ندیم کے عتاب کا شکار رہے، کیونکہ وہ لائے ہی اُسے ندیم کی نگرانی کرنے کے لیے تھے۔ خیر، کچھ دنوں بعد ندیم آفس سے آکر گھر والوں سے بات بات پر الجھ جاتا۔ اپنی چھوٹی بہن کے پیچھے پڑجاتا کہ وہ اتنی دیر سے کالج سے گھر کیوں آتی ہے۔ گھر والے اس رویّے کے عادی نہ تھے۔ شادی سے پہلے وہ گھر سے باہر ہی اپنا وقت گزارتا تھا۔ بالآخر بات بڑھتے بڑھتے الگ گھر پر آگئی۔ گھر والوں نے ندیم کو اُس کے بیوی بچوں سمیت گھر سے نکال دیا۔ وہ اب کرائے کے مکان میں رہنے لگا۔ کرایہ، راشن، بیوی اور دو بچوں کے اخراجات… وہ اب اور زیادہ مشتعل ہوگیا۔ بات بات پر بیوی کو موردالزام ٹھیراتا کہ تمہاری وجہ سے الگ گھر لیا۔ خالدہ کے گھر والے اسے مکمل سپورٹ کرتے، اس کی ماں اس کے گھر گوشت، راشن اور ضرورت کی اشیاء ہر ماہ باقاعدگی سے پہنچاتی۔ لیکن ندیم کو ان چیزوں سے کوئی غرض نہ تھی، وہ بس اپنے خیالوں اور الجھنوں میں ہی رہتا۔ الگ گھر کے بعد سسرال والوں کا رویہ ندیم اور بچوں سے تو اچھا ہوگیا لیکن وہ خالدہ سے ملنا پسند نہ کرتے۔ اس کی ساس کہتی: اس نے میرے بچے کو مجھ سے چھین لیا۔ خالدہ بہت پریشان رہتی، بات بات پر لڑائیاں ہوتیں، اور ہر لڑائی کی خبر ندیم اپنی ماں کو بذریعہ موبائل دیتا۔ اس کی ماں کہتی تُو اسے چھوڑ دے، میں تیرے لیے اس سے بہتر لڑکی لے آؤں گی۔ خالدہ اللہ سے اپنے حالات کا شکوہ کرتی کہ نہ جانے کب اس کے حالات اچھے ہوں گے۔ ایک دن دفتر سے آکر ندیم نے حسبِ معمول خالدہ پر برسنا اور ہاتھ اٹھانا شروع کیا۔ بچے سہم گئے۔ وہ مارپیٹ کر تھک گیا تو اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کرلیا۔ بائیک کے پیٹرول کی ایک بوتل وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اس نے کمرے میں جاتے ہی اپنے اوپر پیٹرول ڈالا۔ پیٹرول کی بو سونگھ کر خالدہ اور بچے زور زور سے دروازہ پیٹنے لگے۔ تھوڑی ہی دیر میں کمرے سے آگ کے شعلے نکلنے لگے۔
خودکشی کی جو وجوہات ہیں ان میں ذہنی ونفسیاتی بیماریاں یعنی ڈپریشن، انگزائٹی، پرسنالٹی ڈس آرڈر، شیزو فرینیا، بائی پولرڈس آرڈر وغیرہ شامل ہیں۔ ان ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کو فروغ دینے میں جو بیرونی عوامل کارفرما ہوتے ہیں ان میں کوئی تکلیف دہ تجربہ جس میں جسمانی تشدد، جنسی تشدد، جنگ کا ماحول، کسی عزیز کی موت، مسلسل غنڈہ گردی کا شکار ہونا، منشیات کا استعمال، خوراک میں عدم توازن، بے روزگاری، تنہائی پسندی، غربت، رشتوں میں عدم توازن، جینیاتی مسئلے، وجود کا بحران یعنی اپنی زندگی کو بے معنی سمجھنا، مہلک یا ناقابلِ علاج یا دائمی بیماری، دائمی درد، ادویہ کا بے دریغ استعمال وغیرہ شامل ہیں۔ ندیم کی کبھی کونسلنگ نہیں کی گئی بلکہ ایک دفعہ ماہر نفسیات سے رجوع کرنے پر ندیم کے گھر والے خالدہ کے گھر والوں سے اپنے تمام تعلقات توڑ چکے تھے۔ ماہر نفسیات کو دکھانا وہ اور ندیم اپنی توہین سمجھتے تھے۔ جب برنس وارڈ میں ڈاکٹروں نے ندیم کا معائنہ کیا تو وہ 75 فیصد جل چکا تھا لیکن پھر بھی چلاّچلاّ کر خالدہ کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔اسی اثناء میں پولیس اور ندیم کے گھر والے آگئے۔ پولیس نے ندیم کا بیان لیا، اُس نے فوری طور پر ذمے دار خالدہ کو ٹھیرایا۔ اس کے گھر والوں نے بھی اس کی تائید کی۔ خالدہ کو شہر سے باہر نہ جانے کی ہدایت کرکے پولیس چلی گئی۔5 دن بعد ندیم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ اور خالدہ کو اسپتال ہی سے پولیس گرفتار کرکے تھانے لے آئی۔ پولیس کے پاس سارے شواہد ہیں کہ ندیم نے کمرہ بند کرکے خود کو آگ لگائی، اہلِ محلہ تک گواہ ہیں، لیکن خانہ پری سے مجبور پولیس نے مرنے والے کے بیان پر یقین کرکے خالدہ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ یہاں آکر وہ اپنے بچوں کے لیے بہت روتی ہے جنہیں اُس کے سسرال والے اپنے ساتھ لے گئے۔ ویمن ایڈ ٹرسٹ کی جانب سے خالدہ کی روحانی، علمی اور نفسیاتی کونسلنگ کی گئی۔ اسے مایوسیوں سے نکالنے کے لیے قرآن کا سہارا لیاگیا۔ یہ امید دلائی گئی کہ رب کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ ابھی بھی خالدہ کی کونسلنگ کی جارہی ہے، جبکہ ’’ویٹ‘‘ کی جانب سے اسے اس کے بچوں سے ملوانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

حصہ