جدید تر اردو غزل کا فنّی مطالعہ

1640

ڈاکٹر ارشد محمد ناشاد
ان حالات میں ضروری تھا کہ غزل کے ہیئتی ڈھانچے میں کْچھ ایسی تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں جو اس کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے احیاء￿ کی ضامن ہوں اور مستقبل میں اس کی نشاۃ الثانیہ کا باعث بن سکیں۔‘‘(۵۱)
۲۔ ’’غزل پر آج تک جتنے اعتراضات ہوئے ہیں ان میں صرف ایک اعتراض نہایت معقول ہے اور وہ یہ کہ غزل میں بھرتی کے اشعار کی بھرمار ہوتی ہے اور شاعری کے آغاز سے متاخرین کے دور تک تو یہ بھرتی اتنی بے انتہا رہی ہے کہ پوری غزل میں دوربین لگا کر ڈھونڈنے سے بھی کام کا ایک آدھ شعر مشکل ہی سے ملتا ہے۔۔۔۔۔غزل کی مروجہ ہیئت میں شعر دو مصرعوں کے مجموعے کا نام ہے اور ایک مصرع مفہوم کے اعتبار سے خواہ کتنا ہی مکمل کیوں نہ ہو اسے شعر بنانے کے لیے جا و بے جا دوسرے مصرعے کی گرہ لگانا شاعر کی مجبوری ہے کہ اس کے بغیر شعر نہیں ہو سکتا اور ایک اچھے سے اچھا مصرع بھی اگر شعر نہ بن سکے تو بے مصرف ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیش تر شعرا کے ایسے کئی مصرعے کْچھ اس طرح ضرب المثل بن گئے ہیں کہ ان کے دوسرے مصرعے کسی کو یاد نہیں۔‘‘(۶۱)۳۔ ’’ غزل کے شاعر کی دوسری مجبوری قافیہ اور ردیف کی قیود ہیں غزل کا ایک شعر تو بسا اوقات اس کی جولانیِ طبع کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن جب تک چند شعر اور نہ کہے جائیں غزل نہیں ہوتی اور جب تک غزل نہ ہو اس ایک شعر کا کوئی مصرف نہیں ہوتا ، اس لیے شاعر کو جبراً قافیہ ردیف کو نبھانے کے لیے ایسے شعر کہنے پڑتے ہیں جو خود اس کے معیار پر بھی پورے نہیں اترتے۔‘‘ (۷۱)فارغ بخاری کا شمار اگرچہ جدید غزل کے اچھے شاعروں میں ہوتا ہے مگر ان کا یہ کہنا کہ غزل نے تمام امکانی مراحل طے کر لیے ہیں اور اب اس میں بہ جْز ہیئتی تجربوں کے کوئی نئی صورت پیدا نہیں ہو سکتی،ایک گم راہ کن مفروضہ ہے۔ غزل نے ہر دور کے تقاضوں کے مطابق موضوعات ،اسالیب، لفظیات اور اظہار کے دیگر قرینوں کو قبول کر کے ایک زندہ اور متحرک صنف ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ غالب کی غزل موضوعات اور اظہار کے حوالے سے میر کی غزل سے مختلف ہے، اسی طرح اقبال ، فراق ، ناصر ، منیر اور غزل کے دوسرے رجحان ساز شعرا کے ہاں غزل کا انفرادی زاویہ ابھرتا ہے جو غزل کے متنوع اسالیب کی نشان دہی کرتا ہے۔ جدید تر غزل اپنے موضوعات کے اعتبار سے جدید غزل سے ایک قدم آگے بڑھ آئی ہے ، اسی طرح جدید غزل کے موضوعات روایتی غزل کے موضوعات سے یک سر مختلف ہیں۔غزل کی یہ ساری صورتیں اس بات کی شاہد ہیں کہ غزل کی روایت کا کارواں ایک دریائے سبک رفتار کی طرح رواں دوا ں ہے جس میں مسلسل نئے ندی نالے شامل ہوتے رہتے ہیں اور اس کی توانائی میں ہر لحظہ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ غزل میں حشو و زواید کی موجودگی فارغ بخاری کے نزدیک ہیئت کی پابندی کے باعث ہے۔کیا باقی اصنافِ سخن جیسے نظم ، قصیدہ، مرثیہ، رباعی وغیرہ اس عیب سے مکمل طور پر پاک ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو محض غزل پر نکتہ چینی کرنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔
فارغ بخاری نے ’’تنگ نائے غزل‘‘ کی ’’گھٹن ‘‘ اور ’’ یتیمانہ بے بسی‘‘ کو ختم کرنے کے لیے ہیئت میں جو تجربے کیے ہیں ان کی تفصیل درجِ ذیل ہے:
۱۔ ایک ہی بحر کے مکمل مصرعوں کی مکمل غزل:ان ’’غزلوں ‘‘ میں مختلف مصرعے جمع کر دیئے گئے ہیں جو ایک دوسرے سے کوئی ربط نہیں رکھتے۔ شعر غزل کی بنیادی اکائی ہے مگر اس تجربے میں فارغ بخاری نے مصرع کو بنیادی اکائی کی حیثیت میں پیش کیا ہے۔ کئی ’’غزلوں ‘‘ میں مصرعوں کی تعداد طاق رکھی گئی ہے۔ ایک ہی بحر کے مکمل مصرعوں کی ’’غزل‘‘ کا نمونہ دیکھیے:
زرد پتوں کو بھی ہے تاز0ہ ہواؤں کی طلب
ہر مسافر اک نئی منزل کا راہی ہے یہاں
جانے کب سے ہوں معلق زندگی کی لفٹ میں
اب زمیں کی بات کرنے سے بھی شرماتے ہیں لوگ
۲۔ مختلف وزن کے مختلف قافیہ ردیف کے مکمل مصرعوں کی غزل: ان ’’غزلوں ‘‘ میں بھی شعر کی بہ جائے مصرع کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ان ’’غزلوں‘‘ میں مختلف اوزان کے مصرعے یک جا کر دیئے گئے ہیں جن میں قافیہ ردیف، وزن اور موضوع کے حوالے سے کوئی ربط اور مطابقت نہیں۔ اس ہیئتی تجربے کا نمونہ دیکھیے:
ہواؤں کے لبوں پر بے ثمر شاخوں کا نوحہ ہے
میں تنہائی کا چہرہ ہوں
لہو اْترا ہوا ہے جاگتی راتوں کی آنکھوں میں
شکستیں کامرانی کا ہمیں مڑدہ سناتی ہیں
۳۔ ڈیڑھ مصرع کی مربوط غزل: اس ہیئتی تجربے میں خیال کی پیش کش کے لیے ڈیڑھ مصرعے کا ہیتئی التزام رکھا گیا ہے۔یہ ڈیڑھ مصرعی ’’غزلیں ‘‘ بھی ردیف و قافیہ سے عاری ہیں۔ اس ہیئتی تجربے کی مثال دیکھیے:
لغزشِ پا سے بھی بن جاتے ہیں نقشِ پا کبھی
آدمی قطرہ کبھی ،دریا کبھی
کیا یہی تعبیر ہے ان خوش نما خوابوں کی ،جو
ہم نے دیکھے تھے کبھی
۴۔ مختلف بحور کے مختلف قافیہ ردیف کے اشعار کی غزل: یہ ’’ غزلیں‘‘ مختلف اوزان کے حامل اشعار کا مجموعہ ہیں۔ ان اشعار میں بھی کوئی ہیئتی وحدت موجود نہیں۔ ان اشعار کو فردیات ،ابیات اور متفرق اشعار کا نام دیا جا سکتا ہے۔اس طرز کی ’’غزل‘‘ کے دو اشعار ملاحظہ ہوں:
ہر پھول کے وجود میں عکسِ بہار ہے
ہر نو شگفتہ غنچے سے خوش بو کو پیار ہے
سمندروں پہ جھکے بادلوں کی سرگوشی
ترے ملن کے نشیلے سمے میں ڈوب گئی
۵۔ ہم وزن مگر مختلف قافیہ ردیف کے اشعار کی غزل: یہ ہیئتی تجربی بھی چوتھے ہیئتی تجربے کی طرح متفرق اشعار پر مشتمل ہے۔اس نوع کی ’’غزل ‘‘ میں چند ہم وزن اشعار جمع کر دیئے گئے ہیں۔ یہ اشعار الگ الگ قافیہ ردیف کے حامل ہیں۔ دو شعر ملاحظہ ہوں:
ہم ہیں ان قافلوں میں شامل ،جو
منزلیں پا کے لوٹ آئے ہیں
ہے وہ عالم کہ صاف سْنتا ہوں
زندہ لمحوں میں ٹوٹنے کی صدا
’’غزلیہ‘‘ کے یہ تمام ہیئتی تجربے غزل کی مروجہ ہیئت سے کوئی تعلق نہیں رکھتے اس لیے ان کو کسی صورت میں بھی غزل کا نام دینا مناسب نہیں۔ غزل کی شناخت کا دارومدار جن عناصر پر ہے ’’غزلیہ‘‘ میں ان عناصر سے مکمل طور پر انحراف کیا گیا ہے۔ فارغ بخاری نے غزل کی مروجہ ہیئت کی جن کم زوریوں کو جواز بنا کر یہ تجربے کیے ہیں وہ کم زوریاں خود ان تجربات میں جا بہ جا موجود ہیں۔ اتنی آزادیوں کے باوجود’’ غزلیہ ‘‘ میں کئی مصرعے تعقید اور غرابت کا شکار ہوئے ہیں۔ حشو و زواید کی بھرمار جو فارغ بخاری کے نزدیک غزل کی مروجہ ہیئت کی پابندی کا نتیجہ ہے وہ ’’غزلیہ‘‘ کے من پسند ہیئتی ڈھانچوں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ چند مصرعے دیکھیے:
اونگھتے لمحوں سے یارو، دوستی اچھی نہیں
ازل کے دن سے وہی دل کی خستہ حالی ہے
کتنے ہی اور بھی تو ہنر ہیں،فقط
جب بھی سچائی کے پانے کو کوئی نکلا ہے
مختلف ہیں رنگ یارو اپنے اپنے کرب کے
ان مصرعوں میں بالترتیب یارو، کے دن، بھی تو، فقط، کے اور یارو کے الفاظ کیا حشو و زواید میں شمار نہیں ہوتے؟’’غزلیہ‘‘ کے ان شعوری ہیئتی تجربات میں تکلف اور تصنع کی فضا ہر جگہ موجود ہے۔ اکثر و بیش تر اشعار اور مصرعے تغزل اور شعریت کی چاشنی سے تہی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ دو شعر دیکھیے:
ہم پہاڑوں کو پھاند آئے ہیں
تْم فصیلوں کی بات کرتے ہو
مْلا ناراض ہے کہ کیوں مْرغا
اس سے پہلے اذان دیتا ہے
فارغ بخاری کے ان تجربات کے بعد معروف شاعر قتیل شفائی نے بھی اسی طرح کا ہیئتی تجربہ کیا۔ ان کی اس نوع کی چار ’’تجرباتی غزلیں‘‘ پہلی بار ماہ نامہ ’افکار‘۔ کراچی کے اگست ۰۸۹۱ء￿ کے شمارے میں شائع ہوئیں۔ بعد میں یہ’’ غزلیں‘‘ دو ’’غزلوں‘‘ کے اضافے کے ساتھ ان کے مجموع? کلام ’’آموختہ‘‘ (مطبوعہ ۱۸۹۱ء￿ )میں شامل ہوئیں۔ اس تجربے کے جواز میں قتیل شفائی نے لکھا کہ:
’’غزلوں کی ہیئت میں تبدیلی بظاہر محال ہے۔ مگر کیوں نہ اس ضمن میں بھی تجربہ کر لیا جائے۔۔۔ غزل کی ہیئت میں جو عناصر زیادہ اہم ہیں وہ قافیہ ردیف ہیں کہ انہی سے غزل کو صوت و آہنگ کی دل کشی ملتی ہے۔ ردیف کو نظر انداز بھی کر دیں تو قافیہ بہ ہر حال غزل کی جان رہے گا۔سو میں نے قافیہ ردیف کو نہیں چھیڑا، صرف کبھی مصرع ہائے اولیٰ میں اور کبھی مصرع ہائے ثانی میں چند رکن کم کر دیئے ہیں۔ اس طرح نہ تو غزل کی نغمگی مجروح ہوتی ہے اور نہ ہی مؤثر طور پر مضامین باندھنے میں دقت پیش آتی ہے بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ غزل کی یہ ہیئت بعض صورتوں میں صوت و آہنگ کے تقاضے زیادہ خوش اسلوبی سے پورے کرسکتی ہے۔‘‘ (۸۱)
قتیل شفائی کی ان ’’غزلوں ‘‘ میں یہ اہتمام ملتا ہے کہ تمام اشعار کے مصرع ہائے اولیٰ کا وزن مصرع ہائے ثانی کے وزن سے مختلف ہے۔ ردیف و قوافی کی موجودگی نے ان ’’غزلوں‘‘ میں نغمگیت کی تاثیر کو بکھرنے نہیں دیا تاہم مجموعی طور پر یہ ہیئت بھی غزل کے مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں۔ تخلیقی سرشاری اور وجدانی کیف سے محروم ان ’’غزلوں‘‘ میں تکلف کی فضا ملتی ہے۔ ایک’’ غزل‘‘ کے چند شعر دیکھیے:
رات کے رنگ رسیلے کب تھے
مجھ کو حاصل ترے وعدوں کے وسیلے کب تھے
مجھ پہ طاری تھا خود اپنا ہی خمار
میری آنکھوں میں ترے خواب نشیلے کب تھے
اب ہوا سانس بھی لیتی ہے جہاں
اس جگہ پچھلے برس ریت کے ٹیلے کب تھے
۱۸۹۱ء￿ میں کہنہ مشق غزل گو شان الحق حقی کا مجموع? کلام ’’ حرفِ دل رس‘‘ شائع ہوا تو اس میں بھی دو غزلیں ایسی تھیں جو غزل کی مروجہ ہیئت سے بغاوت کے نتیجے میں سامنے آئیں۔حقی نے انہیں ’’ غزل نما‘‘ کا نام دیا ہے۔ اپنے مجموع? مضامین ’’نقد و نگارش‘‘ میں وہ اپنے اس تجربے کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’ غزل نما میں غزل کی لازمی شرط موجود ہے،یعنی وحدت ردیف و قافیے پر مبنی ہے،لیکن مصرعوں کے ارکان بڑھا کر اسٹینزا کی شکل دے دی گئی ہے اور ہر یونٹ یا فرد کا مضمون الگ ہے۔‘‘ (۹۱)
ہیئت غزل کی بنیادی شرط ہے اس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل اس کے تشخص کو ختم کر دیتا ہے۔ حقی کی ان ’’غزلوں‘‘ میں ردیف و قوافی کی موجودگی کے باوجود غزل کا حسن کہیں دکھائی نہیں دیتا ، ان کی ظاہری صورت بڑی حد تک آزاد نظم سے مماثل دکھائی دیتی ہے۔ان کی ’’غزل نما‘‘ کا ایک اسٹینزا دیکھیے:
شامِ وعدہ کی وہ سرمئی سی فضا
رسمسی روشنی
بادلوں میں سے چھنتی ہوئی چاندنی
تیری آمد کے لمحے پگھلتے رہے
شمع جلتی رہی
رات آہستہ آہستہ ڈھلتی رہی
آزاد غزل کے اس رجحان کو فروغ دینے میں کئی رسائل و جرائد نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ پاکستانی ادبی رسائل میں صریر۔کراچی، اوراق۔ لاہور۔ دریافت۔ کراچی اور جدید ادب۔خان پور نے خاص طور پر آزاد غزل کے تجربات کو پذیرائی بخشی۔۵۹۹۱ء￿ میں محمد اقبال نجمی نے ’’پاکستانی آزاد غزل‘‘ کے نام سے ایک مجموعہ مرتب اور شائع کیا۔اس مجموعے میں قتیل شفائی، ماجد الباقری، سجاد مرزا، محمد اقبال نجمی، قاضی اعجاز محور اور سعید اقبال سعدی کی آزاد غزلیں شامل ہیں۔ ان آزاد غزلوں میں ردیف اور قافیہ کا التزام رکھا گیا ہے۔
جاری ہے

حصہ