شاہدہ عروج کے شعری مجموعے ’’جھیل میں اترا چاند ‘‘ کی تعارفی تقریب

654

ڈاکٹر نثار احمد نثار
ایوانِ ادب کراچی کے زیر اہتمام شاہدہ عروج کے شعری مجموعے جھیل میں اترا چاند کی تعارفی تقرب کے ڈی اے آفیسرز کلب کشمیر روڈ کراچی میں منعقد ہوئی۔ سینیٹر عبدالحسیب خان اس تقریب کے صدر‘ ڈاکٹر پروفیسر شاداب احسانی مہمان خصوصی اور محمد سلیم خان مہمان توقیری تھے۔ مقررین میں محمود شام‘ مہتاب اکبر راشدی‘ رضوان صدیقی اور ڈاکٹر رخسانہ صبا شامل تھے۔ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ رونق حیات اور تنویر سخن نے منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ تلاوتِ کلام پاک اور نعت رسولؐ کی سعادت قاری حامد محمود نے حاصل کی۔ سلمان صدیقی نے ابتدائی کلمات ادا کرتے ہوئے شاہدہ عروج کے بارے میں کہا کہ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’بکھرے موتی ذات کے‘‘ شائع ہوچکا ہے آج ہم ان کی غزلوں‘ نظموں اور ہائیکوز پر مشتمل کتاب کی تقریبِ اجرا میں موجود ہیں انہوں نے سیدھے سادے الفاظ میں نسائی مسائل اور سچے جذبات کی ترجمانی کی ہے یہ اپنے محسوسات کو قاری تک پہنچانے میں کس حد تک کامیاب ہوئی ہیں اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے تاہم ان کے اشعار دل میں اترنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے چھوٹی اور مترنم بحروں میں خوب صورت اشعار نکالے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ شاہدہ عروج اپنی رہائش گاہ ’’ایوانِ ادب‘‘ میں تواتر کے ساتھ شعری محفلیں سجاتی ہیں اس تناظر میں وہ علم و ادب کی ترقی میں سرگرم عمل ہیں۔ ڈاکٹر رخسانہ صبا نے کہا کہ شاہدہ عروج اربابِ سخن کی بھیڑ میں اپنا راستہ بنا رہی ہیں اگرچہ یہ ادب میں نووارد ہیں تاہم ان کے ہاں جذبوں کی صداقت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے بہت سادہ لفظوں میں اپنی دلی کیفیات بیان کی ہیں انہیں اظہارِ عشق کا سلیقہ آتا ہے ان کے اشعار میں وصال و ہجر کے مناظر نظر آتے ہیں ان کی شاعری میں سادگی اور اثر پزیری ہے انہوں نے انسانی رویوں پر قلم اٹھایا ہے ان کی غزلوں میں غزل کے اصل مضامین کے ساتھ ساتھ موجودہ عہد کی ناانصافیاں بھی ملتی ہیں۔ انہوں نے اپنے اردگرد پھیلے ہوئے مناظر سے چشم پوشی نہیں کی بلکہ نہایت جرأت مندانہ طریقے سے انہیں شاعری میں ڈھالا ہے یہ نئے امکانات کی گامزن ہیں ان کی ترقی کا سفر جاری ہے۔
تقریب کے میزبان رضوان صدیقی نے کہا کہ شاہدہ عروج شاعرہ ہونے کے علاوہ افسانہ نگار بھی ہیں ان کے افسانے نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں زیادہ تر گھریلو مسائل ڈسکس کیے ہیں لیکن کہانی‘ کرداروں کی تخلیق‘ رواں اور عمدہ طرزِ تحریر کے علاوہ ان کے ہاں مشرقی اقدار و تہذیبی رویوں کا اظہار بھی ملتا ہے جہاں تک ان کی شاعری کا تعلق ہے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ انہیں لفظوں کو برتنے کا سلیقہ ہے یہ مستقل مزاجی کے ساتھ اشعار کہہ رہی ہیں ایسی جواں فکر شاعرہ کی حوصلہ افزائی کرنا ہمارا فرض ہے۔ مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ شاہدہ عروج میں شاعرانہ صلاحیتیں موجود ہیں انہیں زبان و بیان پر دسترس حاصل ہے۔ شائستگی اور شگفتگی ان کے کلام کا خاصا ہے انکے کلام میں رونا دھونا نہیں ہے بلکہ وہ اپنی آسودہ حال زندگی کا برملا اظہار کررہی ہیں۔ ان کا مجموعہ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ وہ اچھی شاعرہ ہیں یا اچھی افسانہ نگار ہیں۔ یہ گھریلو خاتون ہیں لیکن اردو ادب کی خدمت کے لیے وقت نکال لیتی ہیں یہ بھی ایک خوش آئند ہے۔ محمود شام نے کہا کہ آج کی تقریب بہت کامیاب ہے کہ یہاں زندگی کی بہت سی اہم شخصیات موجود ہیں مجھے شاہدہ عروج کے اشعار پڑھ کر اندازہ ہوا کہ یہ جعلی شاعرہ نہیں ہیں ان کی غزلوں میں روانی پائی جاتی ہے ان کے اشعار وزن میں ہیں یہ خود سراپا غزل ہیں ان کی شاعری کی کیا بات ہے ان کے کلام میں نغمگی ہے زبان سادہ اور حسیت موجود ہے انہوں نے نئے نئے موضوعات نظم کیے ہیں انہوں نے بہت سلیقے سے محبت کا اظہار کیا ہے قافیے‘ ردیف کے ساتھ چسپاں ہیں ہر مصرع بامعنی ہے ان کے ہاں وجودیت موجود ہے یہ روشن خیال ہیں اور صبحِ نو کے منتظر ہیں کراچی کے ادبی منظر نامے میں نظر آتی ہیں۔ انہوٍں نے شاہدہ عروج کو مشورہ دیا کہ وہ اساتذہ کو ضرور پڑھیں کہ ان کا کلام پڑھنے سے ذہن روشن ہوتا ہے اور علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس موقع پر شاہدہ عروج نے اپنا کلام پیش کرنے سے پہلے کہا کہ وہ اردو ادب کی طالبہ ہیں‘ وہ اپنے ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہیں لیکن مجھ میں آگے بڑھنے کا جذبہ موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے والد امریکا سے تشریف لائے ہیں۔ میں نے اپنے والد کے حکم پر یہ کتاب شائع کی ہے انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنے شوہر کی ممنون و شکر گزار ہیں کہ جن کی اجازت و تعاون سے میں ادبی محفلوں میں شریک ہو رہی ہوں۔ انہوں نے قدم قدم پر میری حوصلہ افزائی کی ہے جس کی بدولت میں نے ادبی دنیا میں نام کمایا ہے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ ’’جھیل میں اترا چاند‘‘ شاہدہ عروج کی ایک ہائیکو سے ماخوذ ہے ان کا سارا کلام پڑھنے کے بعد مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ سارا کلام شاہدہ عروج کا ہے کسی استاد کا نہیں ہے کیونکہ ان کی یہاں کئی جگہوں پر عروضی معاملات بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاہم انہوں نے سہل ممتنع میں خوب اشعار نکالے ہیں انہیں لفظوں کے دروبست کا سلیقہ آتا ہے۔ صدرِ تقریب عبدالحسیب خان نے کہا کہ شاہدہ عروج ایک جینوئن شاعرہ ہیں یہ اپنی پہچان کرا رہی ہیں ہمارا وتیرہ یہ ہے کہ جب کوئی شاعرہ ادبی منظر نامے میں In ہوتی ہے تو ہم اس کے بارے میں فتویٰ دے دیتے ہیں کہ یہ فلاں صاحب سے لکھوا رہی ہیں‘ ادا جعفری اور پروین شاکر کو بھی لوگوں نے متشاعرہ قرار دیا تھا لیکن ایک وقت آیا کہ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ حسیب خان نے شاہدہ عروج کو مشورہ دیا کہ وہ لوگوں کے دلبرداشتہ جملوں سے خوفزدہ نہ ہوں اپنا کام کرتی رہیں۔ اس موقع پر شاہدہ عروج نے اپنا مجموعہ کلام مہمانوں کی خدمت میں پیش کیا اور پھولوں کے تحائف بھی۔ یہ ایک یادگار اور اچھی محفل تھی۔

جشنِ اختر سعیدی اور کُل پاکستان مشاعرہ

اختر سعیدی جواں فکر شاعر‘ ممتاز صحافی اور معروف سماجی شخصیت ہیں وہ اپنی خداداد صلاحیتوں سے لوگوں کے دلوں میں گھر بنا لیتے ہیں ان کی صحافتی خدمات بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ادارۂ فکر نو کراچی کے روح رواں اور ینگ کلچرل سوسائٹی کے بانی چیئرمین کے علاوہ بھی وہ بہت سی ادبی انجمنوں کی سرپرستی کر رہے ہیں‘ بہت اچھے منتظم ہیں اور بے شمار کامیاب پروگرام ان کے کریڈٹ پر ہیں ان کے تین شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ قادرالکلام شعر ہیں‘ پاکستان کے دبستانوں میں اپنی شناخت رکھتے ہیں اور بیرونی ممالک میں کئی عالمی مشاعرے پڑھ چکے ہیں ان کا تعلق ایک علمی و ادبی خاندان سے ہے ان کے والد‘ چچا اور بھائی شاعر تھے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر منظر ایوبی نے حلقۂ یارانِ سخن کے زیر اہتمام دی سٹی ہائر سیکنڈری ٹنڈو آدم کے تعاون سے ٹنڈو آدم میں منعقدہ جشن اختر سعیدی اور کل پاکستان مشاعرے کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اختر سعیدی 16 اکتوبر 1958ء کو ٹنڈو آدم میں پیدا ہوئے‘ ان کی خدمات کے اعتراف میں متعدد تنظیموں نے انہیں اعزازات اور کیش ایوارڈز سے نوازا ہے۔ آج غلام مصطفی تبسم اور ان کے ساتھیوں نے جشن اختر سعیدی کا اہتمام کرکے انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کا یہ اقدام قابلِ تحسین ہے۔ اختر سعیدی کی شعری محسوسات و کیفیات اور وارداتِ قلبی سے عبارت ہے ان کے ہاں اظہار و ابلاغ کی وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو انہیں اپنے دوسرے ہم عصر شعرا سے ممتاز کرتی ہیں۔ پروگرام کے مہمان امتیازی قادر بخش جونیجو نے اختر سعیدی کی تاج پوشی کی۔ پارس ڈیرو‘ چاچا غلام مصطفی جونیجو‘ پروفیسر عبدالحمید شیخ‘ پروفیسر یاسین آرائیں‘ مرزا اشفاق بیگ‘ نثار احمد خان مہمند‘ محمد حمید شیخ اور ملک ایوب اختر مسند نشینوں میں شامل تھے۔ تلاوت قرآن مجید کی سعادت محمد امر مصطفی نے حاصل کی۔ عاشق بلوچ نے نعتِ رسولؐ پیش کی۔ غلام مصطفیٰ تبسم‘ رشید خان رشید‘ آفتاب عالم قریشی اور آئرن فرحت نے نظامتی فرائض انجام دیے۔ جشن اختر سعیدی اور کل پاکستان مشاعرے سے پہلے بحریہ فائونڈیشن کالج گرین سٹی کیمپس ٹنڈو آدم میں مہمان شعرا کو استقبالیہ دیا گیا جس سے پروفیسر عبدالحمید شیخ‘ ملک غلام مصطفی تبسم‘ اختر سعیدی اور پروفیسر منظر ایوبی نے خطاب کیا۔ اس سیشن میں نظامتی فرائض شہباز نیر نے انجام دیے جب کہ آئرن فرحت کے شوہر زلفیرین نے نغمہ سنا کر خوب داد سمیٹی اس موقع پر ریفریشمنٹ کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ جشنِ اختر سعیدی اور آٹھواں کل پاکستان مشاعرہ احمد پیلس ٹنڈو آدم میں 28 اپریل 2018ء کو منعقد ہوا تھا جس میں غلام مصطفی تبسم نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ان کی ادبی تنظیم نامساعد حالات کے باوصف بھی شعر و سخن کی محفلیں سجا رہی ہے۔ آج ہم اختر سعیدی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں ان کی چالیس سالہ ادبی کارکردگی سے انکار ممکن نہیں یہ فرزند ٹنڈو آدم ہیں ہم انہیں اہالیان ٹنڈوآدم کی جانب سے سلام پیش کرتے ہیں یہ ہمہ جہت شخصیت ہیں شاعری انہیں ورثے میں ملی ہے‘ صحافت ان کا ذریعہ معاش‘ ادبی و سماجی تقریبات ان کا شوق ہے اردو ادب میں یہ ایک قد آور شخصیت ہیں انہوں نے بہت سے شعرا کو پروموٹ کیا‘ ان کا شمار بھی اساتذہ فن میں ہوتا ہے میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائے۔اس موقع پر صاحبِ جشن اختر سعیدی نے کہا کہ وہ حلقۂ یارانِ سخن کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ میرے لیے اتنا شان دار پروگرام ترتیب دیا جس کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ غلام مصطفی تبسم ایک ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے شاعر اور بہت عمدہ منتظم ہیں آج کی تقریب ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے اس موقع پر اختر سعیدی نے ایک قطعہ پیش کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ٹنڈو آدم ان کی جنم بھومی ہے انہیں ’’مہمان نہ سمجھا جائے‘‘ جشنِ اختر سعیدی کے دوسرے دور میں آٹھواں کُل پاکتان مشاعرہ منعقد ہوا جس میں صاحبِ صدر‘ صاحبِ جشن اور نظامت کاروں کے علاوہ ظفر محمد خان ظفر‘ راشد نور‘ انور انصاری‘ حجاب عباسی‘ الیاس شاہد‘ بشیر احمد موج‘ کاظم حسنی رشید ہمدم‘ رعنا ناہید رعنا‘ محمد علی گوہر‘ علاء الدین خان زادہ‘ کشور عدیل جعفری‘ تبسم صدیقی‘ شاہد اقبال شاہد‘ ظفر بھوپالی‘ عاشق بلوچ‘ ندیم ریاض نیازی‘ صفدر علی انشا‘ افروز رضوی‘ سحر علی‘ فخر اللہ شاد‘ شہباز نیر‘ ڈاکٹر لبنیٰ عکس‘ یاسر سعید صدیقی‘ تنویر سخن‘ وکیل شہزاد‘ ذوالفقار قائم خانی‘ قیوم علی طاہر‘ امین زرداری‘ الیاس کامل اختر عادل‘ امین او ڈیرائی‘ علی کوثر‘ عاشق شوکی‘ صدیق ہمایوں‘ احساس میرل سہتو‘ مٹھو سانگھڑائی‘ خالد جہانگیر‘ عقیل شاکر‘ نور چاکرانی‘ نجیب مہران‘ امتیاز خاصخیلی‘ اکبر چنا اور میزبانِ مشاعرہ ملک غلام مصطفی تبسم نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ پنڈال میں موجود علم دوست اور شعر فہم خواتین و حضرات نے اچھے شعروں کو سراہا۔

عالمی اردو مرکز (جدہ) کراچی کے زیراہتمام محفل مشاعرہ

۔29 اپریل بروز اتوار سید فرید حسن کی رہائش گاہ پر عالمی اردو مرکز (جدہ) کی کراچی شاخ کے زیراہتمام پروفیسر منظر ایوبی کی صدارت میں محفل مشاعرہ سجائی گئی۔ حسینہ معین مہمان خصوصی اور پروفیسر سحر انصاری مہمان اعزازی تھے جب کہ رشید خان رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوتِ قرآن مجید کی سعادت محسن علوی نے حاصل کی اور شہاب اقتدار القدر نے نعت رسولؐ پیش کی۔ فرید حسن نے کلماتِ استقبالیہ پیش کیے انہوں نے کہا کہ میں اپنے غریب خانے پر آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں‘ عالمی اردو مرکز (جدہ) ایک مشہور و معروف ادبی تنظیم ہے جو عرصۂ دراز سے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں سرگرم عمل ہے اب ہم نے کراچی میں اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے ادبی تقریبات کا آغاز کر دیا ہے اس تناظر میں آج ہمارا دوسرا مشاعرہ ہے ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا انہوں نے مزید کہا کہ مشاعروں کے ذریعے بھی اردو زبان ترقی کر رہی ہے شعرا بھی محبت و اخوت کی تعلیم د یتے ہیں۔ ہر شاعر معاشرے کا نقیب ہوتا ہے وہ لوگوں کو بتاتا ہے کہ ان کے مسائل کیا ہیں ان کا حل کیا ہے وہ معاشرے کو آئنہ دکھاتا ہے تاکہ معاشرہ میں نظم و ضبط امن وامان کا فروغ ہو۔ اس موقع پر شان الحق حقی نے صاحبزادے کی طرف سے اعلان کیا کہ وہ ایک شان دار مشاعرہ کرائیں گے۔ یاسین حیدر رضوی نے کہا کہ اردو مرکز (جدہ) کا قیام 1996ء میں عمل میں آیا تھا ہم نے سعودی عرب میں بہت مشاعرہ کرائے ہیں اب ہم چاہتے ہیں کہ کراچی میں بھی اس کے ممبران بنائے جائیں اس سلسلے میں ہمارا کام جاری ہے ہم بہت سی اہم ادبی شخصیات سے رابطے میں ہیں ان شاء اللہ نتائج برآمد ہوں گے۔ پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ وہ عالمی اردو مرکز (جدہ) کے پروگراموں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ فرید حسن‘ یاسین حیدر رضوی اور ان کے دیگر رفقائے کار اردو زبان و ادب کی خدمت گزاروں میں شامل ہیں ان کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ا نہوں نے مزید کہا کہ جو تنظیمیں اردو کے فروغ میں مصروف عمل ہیں ان کے ہاتھ مضبوط کرنا ہمارا فرض ہے‘ اردو ہماری قومی زبان ہے‘ مجھے امید ہے کہ ایک دن یہ سرکاری زبان بھی بن جائے گی۔ پروفیسر منظر ایوبی نے کہا کہ آج کا مشاعرہ بہت اچھا ہے ہر شاعر نے اپنا منتخب کلام سنایا میں سید فرید حسن کو مبارک باد پیش کرتا ہوں انہوں نے مزید کہا کہ شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے ہر شخص شاعر نہیں بن سکتا۔ شاعر بہت حساس ہوتا ہے وہ اپنے اطراف جو کچھ دیکھتا ہے شاعری بنا کر پیش کر دیتا ہے ادب اور زندگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے ادب کے بغیر زندگی میں رنگینیٔ حیات ممکن نہیں۔ اس موقع پر صاحب صدر‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے اشعار پیش کیے ان میں انور انصاری‘ اختر سعیدی‘ خلیل احمد خلیل‘ عنبرین حسیب عنبر‘ محمد علی گوہر‘ ڈاکٹر نثار‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ صفدر علی انشا‘ مونا نجمی اور کاشف علی ہاشمی شامل تھے۔

حصہ