شریک مطالعہ

465

نعیم الرحمٰن
ڈاکٹرکاشف مصطفی امراضِ قلب کے ماہرکے طور پر بین الاقوامی شہرت یافتہ ڈاکٹر ہیں۔ انہیں نیلسن منڈیلا کا معالج ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور قیام جوہانسبرگ جنوبی افریقا میں ہے۔ پیشہ جراحی، اور شوق سفرکا۔ اسی شوق میں جنوبی افریقی شہری ہونے کے ناتے انہیں اسرائیل کا سفر کرنے کا موقع ملا، تو مشہور اور منفرد ادیب محمد اقبال دیوان کی تحریک پر اسرائیل کا سفرنامہ ’’دیوارِگریہ کے آس پاس‘‘کے نام سے تحریرکیا، جس کا اردو ترجمہ وتدوین بھی اقبال دیوان نے کی۔ اس منفرد سفرنامے کو قوسین پبلشرز نے انتہائی خوبصورتی سے شائع کیا ہے۔ عمدہ کاغذ پر دلکش 224 صفحات کی کتاب کی قیمت آٹھ سو روپے بھی کچھ زیادہ نہیں ہے۔ انتہائی مقدس مقامات کی متعدد رنگین تصاویر سے کتاب کی اہمیت اور افادیت دوچند ہوگئی ہے۔
کاشف مصطفی کا کہنا ہے کہ ’’کرغزستان اورکوہ قاف سے لے کر الاسکا تک کیا کیا نہ دیکھا، مگر عجب بات تھی کہ لکھنے کا اُس وقت تک دھیان نہ آیا جب تک گزشتہ سال فلسطین اور اسرائیل کی سرزمین پر قدم نہ رکھا۔ یہ ارضِ مقدس اپنے اندر ایک باشعور مجذوب کی سی کیفیت چھپائے بیٹھی ہے۔ اس کے اندر جوکچھ ہے وہ باہر والے نہ دیکھ سکتے ہیں، نہ محسوس کرسکتے ہیں۔ سربستہ رازوں کے اس خزانے کا خود عالمِ اسلام کی بڑی اکثریت کو بھی صحیح ادراک نہیں۔ میرے لیے یہ سب نظارے بہت دیدنی مگر اپنی روحانی کیفیت میں اعصاب شکن تھے۔ ان جلووں کو تنہا سمیٹ کر جذب کرتے کرتے میری ہڈیاں سرمہ بن گئیں۔ یہ مسافت جتنی جسمانی تھی اس سے کہیں زیادہ روحانی تھی۔‘‘
اسرائیل کا ایک سفرنامہ پاکستانی نژاد نارویجین اظہرعلی نے بھی کچھ عرصے قبل ’’ایک پاکستانی کا سفرِاسرائیل‘‘ کے نام سے تحریر کیا تھا، جس میں بہت سے انکشافات کیے گئے تھے۔ ڈاکٹر کاشف مصطفی کا کمال یہ ہے کہ وہ اسرائیل کی سیر کر آئے۔ یہی نہیں، انہوں نے کئی ایسے گوشوں میں بھی جھانکا جہاں تک رسائی دشوار تھی۔ پیغمبروں کی یہ سرزمین اپنے تمام قدیم و جدید جلال و جمال کے ساتھ، اس سفرنامے میں پڑھنے والوں کے دل میں حیرت، عقیدت اور حسرت کی کیفیات جگاتی ہے۔ مسافر کی دل سوزی، دردمندی اور انسان دوستی ہر قدم پر نمایاں ہے۔
مترجم محمد اقبال دیوان ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد تحریر سے ناتا جوڑا اور اردو ادب کو کیا خوب تین کتابوں کا تحفہ دیا۔ منفرد انداز اور اسلوب سے اقبال دیوان کی کتاب قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، اور بار بار پڑھ کر بھی سیری نہیں ہوتی۔ وہ اب تک تین کتابیں تحریر کرچکے ہیں جن کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ ’’دیوارِگریہ کے آس پاس‘‘ کا ترجمہ انہوں نے اپنے شاندار اور دل میں اترجانے والے اسلوب میں کیا ہے، جس سے اردو قاری کے لیے کتاب کی دلچسپی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
اسرائیل کے شہر یروشلم کے حوالے سے اُس کے تین بڑے مذاہب کا مرکز ہونے کا ذکرکچھ یوں ہے: ’’یروشلم کا قدیم شہر، جس کے چار طرف پرانے پتھروں کی ایک دیوار نے گھیرا ڈال رکھا ہے، دنیا کے تین بڑے مذاہب کی جولان گاہ رہا ہے۔ ایک کو، یعنی یہودیت کو وہاں پناہ ملی، دوسرے کو، یعنی عیساعیت کو جنم، اور اسلام وہاں فاتح بن کرآیا، اور جس کے پیروکار مفتوح بن کر رہتے ہیں۔ عقائد یا یہ ایک دوسرے سے الجھتا سنگم کیسا ہے جس کی انسانی شعور پر حکمرانی ایسی ہے کہ سائنس دان، فلسفی اور ملحد بے پناہ مخالفت اور تنقید کے باوجود اس کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ اللہ نے اس نیم بنجرسرزمین پرکیا ایسا کرم کیا ہے کہ انبیاء کی ایک کثیر تعداد نے ہیبرون سے یروشلم کی اس تنگ سی پٹی کو مقام ِ سکونت و دعوت ورفعت بنایا۔‘‘
سفرنامے میں اسرائیل کی سیاسی تقسیم کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’اسرائیل کو اس کی حکومت نے تین انتظامی یونٹوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ زون اے میں فلسطینی علاقے، جن میں مغربی کنارہ، غزہ وغیرہ شامل ہیں۔ اسرائیلی باشندوں کو ایک سرخ وارننگ بورڈ جسم و جان کو لاحق خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ تمام علاقہ ایک باڑ اور دیوار سے احاطہِ زنداں میں بدل دیا گیا ہے۔ خروج اور دخول کے مقامات متعین اور سنتریوں کی تحویل میں ہیں۔ اندر سے کوئی باہر نہ جاسکے، باہر سے کوئی اندر نہ آسکے۔ وہاں کوئی نہیں کہتا کہ سوچوکبھی ایسا ہو تو کیا ہو! کیوں کہ اب جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات مانی جاتی ہے۔ زون بی کے انتظامی علاقے میں فلسطینی کام کاج کے لیے آتو سکتے ہیں مگرقیام نہیں کرسکتے۔ زون سی میں فلسطینیوں کا داخلہ یکسر ممنوع ہے۔ اس زون میں دارالحکومت تل ابیب بھی شامل ہے۔ مگر یہاں آج بھی دس فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ ان کی اکثریت جافا میں رہتی ہے۔ ان جڑواں بستیوں، یعنی تل ابیب اور جافا کا انتظام ایک ہی میونسپلٹی کے پاس ہے۔‘‘
غرض سفرنامہ اسرائیل کے بارے میں دلچسپ معلومات کا خزانہ ہے، جس میں اہم مذہبی مقامات کے تقدس اور اہمیت اور اس کے سادہ اور دلنشین انداز میں بیان نے قاری کے تجسس کو قائم رکھا ہے: ’’یروشلم (بمعنی گہوارہِ امن) کا نام حضرت داؤدؑ نے جیبس کی ایک چھوٹی سی بستی کو حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے ہزار برس پہلے فتح کرنے کے بعد رکھا۔ اسے انہوں نے اپنی راج دھانی بنادیا۔ یہ بھی تاریخ کا عجب تمسخر ہے کہ اس دارالامان کا 23 مرتبہ محاصرہ کیا گیا، 52 مرتبہ اس پرفوج کشی ہوئی اور44 دفعہ اس پرقبضہ ہوا۔‘‘
اس مقام کا ذکر جہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے لیے تشریف لے گئے تھے، دل کو چھو لیتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’اس کمرہ نما کنویں میں داخل ہوتے ہی لگاکہ حاتم نے مجھے موقع دیا ہے کہ میں سیڑھیاں اُترکر عین اس سوراخ کے نیچے فرش پرکھڑا رہوں۔ یہ عین وہ مقام ہے جہاں سے ہمارے نبیِ محترم صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے لیے بلندیوں پر تشریف لے گئے تھے۔ مجھے اس سوراخ کے نیچے کھڑے ہوکر باہر آسمانوں میں جھانکتے ہوئے پہلی دفعہ سمجھ میں آیا کہ اس سنہری گنبد کی چھت سے آرپارگزرکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عام سے ایک امتی کے ناتے، سعادتِ حضوری کے انعام کے طور پر، ہزارہا اشعاع ِ انوار مجھ پر برس رہی ہیں۔ یہ وہ کیفیات ہیں جن کا بیان بہت ہی مشکل ہے۔ مجھے اس کے نیچے منڈیر کو چھوکر لگاکہ میری روح میں برکات اور ادراک کا ایک نیا باب وا ہوگیا ہے۔ مجھے وقت اور فاصلوں کے وہ حوالے، جو دنیا میں رائج ہیں، اللہ کے نزدیک بے معنی دکھائی دیے، جو مالکِ کُن فیکون ہے۔ اس مقام پر میرے ایمان کو، مغرب کے کھرے سچے سائنس دانوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی ایسا استحکام ملا کہ میرے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اللہ کی بندگی کا جواز خالصتاً اسلامی ہے۔‘‘
روح پرور اور ایمان افروز سفرنامے کے ہر صفحے پر قاری کو ایک نئے تحیر اور حیرت کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں: ’’یہاں آمد سے بہت پہلے تک مجھ پر بھی مسجد الاقصیٰ اور قبۃ الصخرا کا فرق کچھ ایسا خاص واضح نہ تھا جب کہ میں بھی اپنے آپ کو کسی حد تک باخبر افراد میں شامل کرتا ہوں۔ اس میں کچھ قصور تو اقصیٰ کی اپنی سادگی کا بھی ہے جو دور سے کھینچی گئی تصاویر، بالخصوص ان تصاویر میں جو بلندی سے لی گئی ہوں، قبۃ الصخرہ کا تعمیراتی حسنِ جہاں تاب شناخت سے محروم رہ جاتا ہے۔ بے شمار مسلمان یہ جان ہی نہیں پاتے کہ سنہری گنبد سے دور ہٹ کر چپ چاپ کھڑی یہ سفید پلاستر والی اُداس سی ایک منزلہ عمارت ہی دراصل ان کا قبلہِ اول ہے۔ مکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ کے بعد… تیسرا اہم ترین مقدس مقام… ان کی مسجد الانبیاء یعنی مسجد اقصیٰ ہے۔‘‘
کاشف مصطفی کو اسرائیل کے اس منفرد سفر میں کئی انبیاء ؑ کی قبورکو دیکھنے کا شرف اور اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے بعض ایسے مقامات کی بھی زیارت کی جن کا کوئی عام انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ایک حدیثِ مبارکہ میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قدس شریف کے نزدیک ایک شاہراہ کے کنارے ایک سرخ پہاڑی کے دامن میں میرے بھائی نبی موسیٰ ؑ کی قبر ہے، اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں وہاں لے جاتا۔‘‘ عیسائی اور یہودی اس مرقد کو موسیٰ ؑ کی جائے تدفین ہونے کے دعوے کو درست نہیں مانتے۔ وہ دریائے اردن کے مغربی کنارے پرکوہِ نیبوکے دامن میں ان کے مدفن کو مستند مانتے ہیں۔ میرامعاملہ مختلف ہے۔ ساری دنیا کے یہودی اور عیسائی اپنے اس دعوے میں اکٹھے ہوجائیں تب بھی میں تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی مانوں گا۔ سوچیے تو سہی،آج سے پندرہ سوسال پہلے وہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم شاہراہ کے کنارے ایک سرخ پہاڑی کے دامن میں مدقدِ عالیہ کی نشانی بتارہے ہیں اور وہ سو فیصد اپنے محل ِ وقوع پر پوری اُترتی ہے۔‘‘
’’دیوارِگریہ کے آس پاس‘‘ روح پرور اور ایمان افروز سفرنامہ ہے، جس میں دیوارِگریہ کی وجہِ تسمیہ کچھ اس طرح بیان کی ہے: ’’اہلِ یہود کے ہاں دیوارِگریہ سب سے مقدس مقام تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حضرت داؤدؑ کی آمد سے ایک ہزار برس پہلے ایک عبادت گاہ کی تعمیرکا آغاز ہوا، جو کئی بار بنی اور اجاڑی گئی۔ موجودہ دیوار چونکہ اس احاطے کی بیرونی دیوار تھی لہٰذا اسے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ یہودیوں کے لیے وہ ہیکل سلیمانی کی آخری نشانی ہونے کی وجہ سے مقدس ترین مقام بنی ہوئی ہے۔ جب رومی یہاں حکمران بن گئے اور بعد میں یہ حکمران لادینیت چھوڑ کرعیسائیت کو اپنا بیٹھے تو انہوں نے یہودیوں پر بہت سختیاں کیں۔ یروشلم سے انہیں نکال باہر کردیا گیا۔ انہیں سال میں صرف ایک دفعہ آنے کی اجازت ملتی تھی۔ اس محرومی پر یہودی بہت گریہ کرتے تھے اور دل گرفتہ ہوتے تھے۔ سال میں ایک دفعہ آتے تو دیوار سے لپٹ کر روتے تھے۔عیسائی حاکموں اور ان سے وابستہ افراد کے لیے یہ بہت قابلِ تمسخر و تضحیک موقع بن جاتا۔ انہوں نے ہی اسے دیوارِ گریہ کا نام دیا۔ خود یہودی اسے دیوارِ گریہ نہیں کہتے۔ وہ اسے اپنی عبرانی زبان میں کوتل یعنی مغربی دیوار کا نام دیتے ہیں۔ اس کی دراڑوں میں وہ اپنی دعائیں اور مطالبات اور منتیں اُڑس دیتے ہیں۔ یہ اب ایک اچھا خاصا بین الاقوامی کاروبار ہے۔ وہ یہودی، جو یہاں پہنچ نہ پائیں، ای میل کے ذریعے یہ دعائیں اور منتیں بھجوا دیتے ہیں جو ان کی جانب سے یہاں اُڑس دی جاتی ہیں۔‘‘
’’دیوارِگریہ کے آس پاس‘‘ دلچسپ، معلومات افزا، ایمان افروز سفرنامہ ہے۔ کاشف مصطفی نے بہت شاندار سفرنامہ تحریر کیا، اور محمد اقبال دیوان نے اپنے منفرد اور بے مثال اسلوب اور طرزِ تحریر میں اسے اردو کا جامہ پہنایا۔ کتاب پڑھ کر قاری کی پیاس میں اضافہ ہوتا ہے، اور ان کے اگلے سفرنامے’’الٹے قدم‘‘ کا بے چینی سے انتظار ہے۔
٭٭
اردو کے معروف افسانہ نگار ڈاکٹر امجد طفیل اور ریاض احمد نے سہ ماہی ادبی کتابی سلسلہ ’’استعارہ‘‘ لاہور سے شروع کیا ہے۔ استعارہ کے نام سے مرحوم صلاح الدین پرویز بھارت سے ادبی جریدہ شائع کرتے تھے، جس میں اردو میں شائع ہونے والی کتابوں پر تفصیلی تجزیاتی مضامین شائع کیے جاتے تھے۔ پہلے شمارے کے اداریے میں بجاطور پر لکھا ہے کہ ’’موجودہ عہد میں نئے ادبی رسالے کا اجراء کارِ محبت کے سوا کچھ نہیں۔ اور جب بہت سے دوستوں اور بزرگ لکھاریوں کی محبت اور قلمی تعاون بھی میسر ہو تو اسے کرگزرنا چاہیے۔ استعارہ کے اداریے میں پرچے کی مشمولات کا اجمالی جائزہ پیش کرنے کا سلسلہ اچھا ہے۔ رسالے کا دوسرا شمارہ بروقت شائع ہوا ہے، جس سے اس کی باقاعدگی کی امید بندھی ہے۔ کیونکہ ادبی رسائل کا مسئلہ بروقت اشاعت ہی رہا ہے۔
دوسرا شمارا بلاشبہ پہلے سے بہتر ہے اورمدیران نے اس یقین کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ادب سے وابستہ افراد کو زیادہ پسند آئے گا۔ شمارے کا آغاز سلیم احمد کی حمد اور انورشعور کی نعت سے کیا گیا ہے۔ طویل انٹرویو استعارہ کا منفرد سلسلہ ہے جس میں اس بار بھارت کے مشہور ادیب اور نقاد شمیم حنفی کا انٹرویو شامل ہے، جن کی لاہورآمد عمدہ انٹرویو کا یادگار موقع بن گئی۔
اس بار نیا سلسلہ ’’نیاقلم‘‘ شروع کیا گیا ہے، جس میں محمد اویس ملک کی دس غزلیں شامل کی گئی ہیں۔ تازہ کار و پختہ کار میں شفیق احمد خان کی نظموں اور غزلوں کو جگہ ملی ہے۔ دونوں عمدہ سلسلے ہیں جن کے ذریعے نوجوان ادیب اور شعراء کو صلاحیتوں کے اظہارکا ایک اچھا پلیٹ فارم میسر آیا ہے۔ موضوع بحث طلب میں ’’سراج منیرکا تصور تہذیب‘‘ پر ڈاکٹر عزیزابن الحسن کا مضمون اور عاصم بخشی کا تبصرہ شامل اشاعت ہے۔ افسانوی گوشہ تقریباً ساٹھ صفحات پر مشتمل ہے، جس میں رشید امجد، خالد فتح محمد، محمود احمد قاضی اور نجم الدین احمد جیسے سینئر اور مستند افسانہ نگاروں کے ساتھ منفرد افسانہ نگار محمد عاطف علیم، سہیل ممتازخان، مریم عرفان اورسارہ احمد بھی موجود ہیں۔ عالمی ادب سے معین نظامی نے ایرانی ادیب حسن اصغری کے افسانے ’’ایک ٹہنی‘‘ کا ترجمہ کیا ہے۔ حصہ غزل میں ظفراقبال اپنے منفرد انداز کے ساتھ موجود ہیں، جبکہ نظموں میں نسرین انجم بھٹی، شاہد شیدائی اور شازیہ مفتی کی نظمیں متاثرکن ہیں۔ مضامین میں سینئر ادیب فتح محمدملک نے ’’اردو شاعری میں سچل سرمست کا مقام‘‘ پر شاندار مضمون تحریرکیا ہے۔ محمد جواد کا ’’مارکیزکے افسانے‘‘ اور امجد طفیل کا ’’اجتماعی حافظے کی بازیافت کے افسانے‘‘ منفرد موضوع پر بہت اچھی تحریریں ہیں۔
اردو کے منفرد اور طرح دار شاعر جون ایلیا کے گوشے میں سلیم جعفری، عالمتاب تشنہ اور مرحوم صغیر ملال کی تحریریں پیش کی گئی ہیں۔ جون ایلیا کی غزلوں کا بھی اچھا انتخاب شامل ہے۔ حاصل ِ مطالعہ میں آفتاب جاوید کے نظموں کے مجموعے ’’گیان ‘‘ پر زاہد مسعود نے تبصرہ کیا ہے۔ پروین سجل نے آصف عمران کی کتاب ’’لوحِ تحیر‘‘ پر قلم اٹھایا ہے، جبکہ امجد طفیل نے ممتاز احمد شیخ کے ادبی جریدے ’’لوح‘‘ کے شاندار افسانہ نمبر، اور عرفان جاوید کے خاکوں کے مجموعے ’’دروازے‘‘ پر تبصرے کیے ہیں۔ استعارہ کا دوسرا شمارہ ہر اعتبار سے مکمل ادبی جریدہ ہے۔

غزل

صائمہ اسحاق

کب سے پنپ رہا ہے ترے لب پہ چھل کا سانپ
ڈسنے لگا ہے دل کو وہ بن کر عمل کا سانپ
آج اور آستیں سے نکل آیا دفعتاً
مارا نہیں گیا ہے ابھی تک تو کل کا سانپ
مانگی تھیں بارشیں کہ نمو یاب ہو سکیں
کیا ہو نگل گیا مری بستی جو جل کا سانپ
بے کار ہی گئیں مری جانب شرارتیں
رُخ پھیرنے لگا ترے افکارِ شل کا سانپ
آخر گراوٹوں نے گرا ہی دیا مجھے
کھا ہی گیا تجھے ترے پیچاک و بل کا سانپ
ہونے لگی ہیں خواہشِ معصوم نیلگوں
احساس پر لپٹ گیا مصروف پل کا سانپ
کھلیان آج بھی مرے خالی پڑے رہے
ڈس کر نکل گیا کہیں فصلِ امل کا سانپ
اے کاش ابتدا میں کچل دیتے صائمہ
یوں تو نہ پالتے مرے پیارے جہل کا سانپ

حصہ