آنکھ دیکھتی ہے، مگر ہم؟

794

قاضی مظہرالدین طارق
جو آنکھ دیکھتی ہے، وہ ہم نہیں دیکھتے!
یہ کیا بات ہے!!
پھر ہم کیا دیکھتے ہیں؟
ہم کچھ بھی تو نہیں دیکھتے!!!
یہ بات تو کچھ انہونی سی لگ رہی ہے،کیا ہم نابینا ہیں؟
نہیں ہم نابینا تو نہیں ہیں!
پھر بھی جو آنکھ دیکھتی ہے،وہ ہم نہیں دیکھ سکتے!!
……………
اس بات کے جواب کے لئے ہم کو معلوم کرنا ہوگاکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو جو بصارت کی صلاحیّت عطا کی ہے،وہ کس طرح عمل پَزِیر ہوتی ہے ، اُس نے اِس کام کے لئے ہم کو کچھ اعضاء عطا کئے ہیں۔
ایک تو ہے آنکھ،دوسری’آپٹک نَروو ‘اور تیسرا دماغ کا وہ حصہ جس کو ’آپٹک لوب‘ کہتے ہیں۔
……………
خالق نے آنکھ کی صفائی کے لئے ہم کو پپوٹوں (eye lids) کے پیچھے کچھ ’گلینڈز ‘ دیئے ہیںجو خون سے دو نمکیات کشید کرکے ’آنسو ‘ بنا تے ہیں جو آنکھ پر پھیل کر اُس کی صفائی کرتے ہیں، پپوٹے بھی وائیپر کی طرح مدد دیتے ہیں۔
رب العٰلمین نے انسان کی ہر چھوٹی بڑی ضرورت کا خیال رکھا اور اس کا انتظام کیاہے۔
اُس کا ایک احسان یہ ہے کہ اس نے آنسو میں پانی کے ساتھ ایک ’انزائیم‘ بھی دیا ہے جو بکٹیریاکومار بھگاتا ہے۔
آنکھ کو رب نے دو نالیاںبھی دی ہیں جس سے گزر کر آنسو کا کچھ حصہ ناک میں جاتا ہے۔
……………
یہ تو اللہ ربّ ِکریم و حکیم کا کمال ہے، اس نے آنکھ کے مختلف حصے
بنائے جوسب اپنا اپنا کام کرتے ہیں، ان سب کے کاموں کے نتیجے میں اللہ ہم کو بینا کرتا ہے ۔
……………
آنکھ کا ہر حصہ اپنا کام کرتا ہے دوسرے کو نہیں دیکھتا کہ وہ کیا کر رہا ہے، بظاہر سب مختلف کام کرتے ہیں مگر سب کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ انسان کی خدمت کریں،تا کہ انسان دیکھ سکے ۔
……………
آنکھ کے ایک مددگار پپوٹے اورآنسوآورگلینڈز ہیں، رب کا شکرہے کہ اس نے آنکھ کے نازک جسم کو تین طرف سے ہڈیوں کے قلعہ میں محفوظ کیاہوا ہے ۔
یہ سامنے جو سفید حصہ نظر آرہا ہے یہ ’اِسکیلرا‘(sclera)ہے، یہ سخت غیرشفاف غلاف ،ایک کرّہ کی طرح ہے مگر اس کا سامنے کاحصہ ’کورنیا‘ (cornea) بالکل شفاف ہے، اگریہ شفاف نہ ہوتا تو اس سے گزر کر روشنی اندر نہیں آتی اور ہم دنیا کو دیکھ ہی نہ سکتے۔
……………
انسان کو دنیا دکھانے کے لئے ربِّ حکیم نے اورجن انتظامات سے نوازا ہے،اُن میں سے ایک تو(lens) ہے، یہ شفاف ہوتاہے جس کو اطراف سے رباطی ریشوں نے سنبھالا ہوا ہوتا ہے۔ شیشے سے بنے ہوئے لینس کے برخلاف یہ لچکدار ہوتا ہے اور اپنی موٹائی کم یا زیادہ کر سکتا ہے۔
اس طرح لینس،’فوکس‘ (focus) کو حتمی طور پر درست کرتا ہے۔
ہم خود اپنے اِرادے سے تو لینس کو موٹا پتلا نہیں کر سکتے، مگرجب ہم دور دیکھنا چاہتے ہیں،تویہ رب کے حکم سے پتلا ہو جاتا ہے اور جب قریب دیکھنا چاہتے ہیں تواسی کے حکم سے موٹا ہوکر عکس (image) کے ’فوکس ‘کو درست کر دیتا ہے۔
سفید کے درمیان یہ رنگین حصہ ’ایرِس‘(iris)ہے…اس کا رنگ ہی آنکھ کا رنگ ہے۔
آنکھ کے درمیان ایک ’سوراخ‘ ہے جو ’ایرِس ‘کے گھٹنے بڑھنے سے گھٹتا بڑھتا ہے اور’پیوپِل ‘ (pupil)کہلاتا ہے۔
یہ کالا اس لئے نظر آتا ہے کہ جو روشنی’پیوپِل‘ سے اندر جاتی ہے اس کو ’شیرُآئیڈ‘ (choroid)جذب کر لیتا ہے۔
یہ ’پیوپِل‘ سکڑتا پھیلتا ہے،تو یہ خالق کی مرضی سے! کہ روشنی تیز ہو تواُس کے حکم سے یہ سُکڑ جاتا ہے اورکم ہو تو یہ پھیل جاتا ہے۔
جب ہم تیز روشنی کی طرف دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھیں چندھیا جاتی ہے، دُکھنے لگتی ہیں ، ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اگر پھر بھی دیکھنے کی کوشش کریں توہم نابینا ہوسکتے ہیں، ایسے میں ربِ علیم و قدیر ’ایرِس‘ کو حکم دیتا ہے کہ سُکڑ جاؤاور جب روشنی کم ہوتی ہے توحکم ہوتا ہے کہ پھیل جاؤ اور یہ پھیل جاتا ہے۔اِس کے پھیلنے کی وجہ سے ہم کم روشنی میں بھی دیکھ سکتے ہیں،اورسُکڑنے کی وجہ سے بصارت محفوظ رہتی ہے۔
یہ بھی انسان کے اختیار میں نہیں، ورنہ ہم کو کیا علم ہے کہ کتنی روشنی میں ’ایرِس‘ کو کتنا سکیڑیں۔
……………
’شیرُآئیڈ‘ آنکھ میں چاروں طرف ہے اس میں خون کی رگیں ہیں، پیچھے یہ ’رٹینا‘(retina) اور’اِسکیلرا‘ (sclera) کے درمیان گزرتا ہے اور سامنے یہ’سیلیری بوڈی‘(ciliarybody) اور ’ایرِس‘ (iris) بناتا ہے۔
’رَیٹنا‘ آنکھ کی اندرونی پرت ہے جس میں لاکھوں ’فوٹو ریسپٹر سیلز‘ ہوتے ہیں جو روشنی کو محسوس کرتے ہیں۔
’ سیلیری بوڈی‘ آنکھ کا پانی بناتیں ہیں تاکہ پانی کے دباؤ سے اِس کی گولائی برقرار رہے۔
……………
’رَیٹینا ‘پر عکس بنانے میں لینس،کورنیا اور اندر کا پانی جو لینس کے سامنے بھی اور اس کے پیچھے بھی ہے ۔
آنکھ میں داخل ہونے والی روشنی’رَیٹینا‘ پرعکس بناتی ہے (جیسے کیمرے کے اندر)،کورنیے اور لینس کی گولائی، لینس کے سامنے اور اندر کا مائع سب مل کر روشنی کو خم دیتے ہیں، پھرلینس موٹا پتلا ہوکر ’فوکس‘ کو حتمی طور پر درست کرتا ہے۔ اس عمل سے ’رَیٹینا‘ پر چھوٹا اور اُلٹا ’عکس‘ بنتا ہے۔
……………
اُلٹے، سیدھے سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ جو کچھ آ نکھ دیکھتی ہے وہ ہم نہیں دیکھتے، ’رَیٹینا‘ میں موجود ’فوٹو ریسَپٹر سلز‘ اس کو بجلی میں تبدیل کرکے دماغ کے ’آپٹک لوب‘ کو بھیج دیتے ہیں پھر وہ اَیلیکٹریکل کوڈز کو’ ڈی کوڈ‘ کر کے بتاتا ہے ہم کیا دیکھ رہے ہیں،توجہ کریں وہ دیکھاتا کچھ نہیں،صرف بتاتا ہے کہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں،اس لئے کہاگیا کہ جو کچھ آنکھ دیکھتی ہے ہم نہیں دیکھتے۔
……………
رَیٹینا میں موجود ’فوٹوسَلز‘ ایک جیسے نہیں ہیں، اپنی شکلوں اور کاموں کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ اِن کی دو قسمیںہیں،ایک ’رَوڈز‘ (rods) کی طرح اوردوسری’کونز‘ (cones) کی طرح ،’ رَوڈز سَیلز‘ بہت حساس ہوتے ہیں ہلکی سی روشنی کو بھی محسوس کرتے ہیں جبکہ ’کون سَیلز‘ رنگ بتاتے ہیں۔
……………
یہ سارے رَیٹینا میں کمپیوٹر کے’ پکسلز‘ کی طرح ایک جیسے پھیلے ہوئے نہیںہیںخالق نے جہاں جیسی ضرورت سمجھی ویسے اِن کوجمایاہے ۔ ’رَوڈسَیلز‘رَیٹینا کے چاروں طرف زیادہ ہیں اور’کونز‘ ،’رَیٹینا ‘کے درمیان میں زیادہ ۔
’کون سَیل ‘ کوخالق نے بڑی تعداد میں ’رَیٹینا‘ کے درمیان، خاص کر اس کے ایک گڑھے (fovea) میں زیادہ قریب قریب اور صرف اِن کوہی رکھا ہے تاکہ وہ ہم کو زیادہ تفصیل بتا سکیں۔
اِن کی بھی تین قسمیں ہیں ایک سرخ رنگ کی اطلاع دماغ کو دیتے ہیں، دوسرے سبز کی، تیسرے نیلے کی خبر دیتے ہیں۔
……………
خالقِ دوجہاںنے اِن میں سے ہرسَیل کو ایک کام دیا ہے، اسی کے مطابق جسم رنگ اور صلاحیتیں دیں ہیں، اِن میں کوئی ادنیٰ و اعلیٰ نہیں ہے،نہ کوئی وی آئی پی ہے ۔یہ سب مل کر ایک ہی مقصد پرکام کر رہے ہیں وہ ہے انسان کی خدمت اور بس!!!
……………
ہر’فوٹوسَیل‘ پر عکس کا ایک چھوٹاسا حصہ پڑتا ہے وہ اس نقطے کی خصوصیات کو محسوس کرتا ہے اور اس کو بجلی میں تبدیل کرکے دماغ کے خاص حصے تک پہنچادیتا ہے۔
……………
پھر دماغ اپنے علم اور پچھلے مشاہدے و تجربات بنیاد پر اِن کا تجزیہ کرتا ہے اورہم کو بتاتا ہے کہ وہ کیا ہے، کتنا بڑا ہے کتنی دور ہے، سیدھا یا اُلٹا ہے، کتنا روشن اور کس رنگ کا ہے۔یاد رہے دیکھاتا نہیں، بتاتا ہے!
……………
اندھا نقطہ(blind spot) وہ جگہ ہے جہاں سے’ آپٹِک نروو‘ سب ’فوٹوسَیلز‘ کے اشارے لے کر دماغ کی طرف جا رہی ہے، اس جگہ پر کوئی ’فوٹوسَیل‘ نہیں ہے اس لئے یہاں پر پڑنے والے عکس کے حصے کا اشارہ بھیجا نہیں جا سکتا، اس طرح اس نقطے کی اطلاع دماغ کو نہیں ملتی، جس کے نتیجہ میںوہ نہیں بتا سکتاکہ یہاں کیا ہے۔
……………
دوآنکھوںکاکیافائدہ؟ اگر ایک آنکھ ہوتی تو ہم دنیا کو اس طرح دیکھ رہے ہو تے جیسے سادی سنیما اِسکرین دیکھتے ہیں، سارا منظر ایک سطح پر نہ کوئی آگے نہ پیچھے!
مگر دو آنکھوں اور ان کے درمیان مناسب فاصلے کی وجہ سے ہم اِس دنیا کو 3D سنیما کی طرح دیکھ سکتے ہیں،کہ کون سی چیز کتنی دور ہے اور کتنی قریب ہے۔
……………
کیا انسان کی بصارت کے اس انتظام کو دیکھ کر، اِس کے بنانے والے کے بارے میں کسی طرح کا شک و شبہ باقی رہ سکتا ہے کہ وہ کتنا :عظیم، عزیز(طاقت والا)،قدیر(ہر کام پر قادر)،مالکُ الملک (اس جہاں کی ہر شئے کا مالک)،مختار(مکمل اختیار والا)،حکیم(کیمیا بنانے اور اس جہاں کو حکمت سے چلانے والا) ہوگا۔
اِن سب صفات کے حامل اللہ تعالیٰ کے احسانات کے بغیر،کیا! اپنے آپ خود بخودیہ کام ہو سکتے تھے؟
اس لئے واقعی سب تعریفیں اللہ ربُّ العٰلمین ہی کے لئے ہیں!
٭…٭…٭

حصہ