کہیں محروم نہ رہ جانا

546

ماریہ محمد حنیف
جامعۃ المحصنات سنجھورو
رمضان المبارک آپ کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے ۔ صرف چند دن کی بات ہے کہ ایک دفعہ پھر رمضانِ مبارک کابا برکت مہینہ ہمارے اوپر سایہ فگن ہو گااور اس کی رحمتوں کی بارش ہماری زندگیوں کو سیراب کرنے کے لئے برس رہی ہو گی اس مہینے کی عظمت و برکت کا کیا ٹھکانا جسے خود نبی کریم ﷺ نے شھرِ مبارک کہا ۔۔ایک انوکھا مہینہ اپنی ساری برکتوں ،مغفرتوں، سعادتوں اور رحمتوںکے ساتھ آپ کا مہمان بننے والا ہے ایک ایسا مہمان جس کے آتے ہی محبتیں ہی محبتیں ،نہ کوئی چھوٹا نہ کوئی بڑا ،نفس کی پاکی، اپنائیت کا احساس، نیکی کرنا آسان اور گناہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔یہ شہر عظیم ہے بے شمار نعمتوں کا پیام لارہا ہے۔جن کی عظمت کا کوئی حساب نہیں ۔۔۔ آج سنتِ نبوی ﷺکی پیروی میں ہمیں بھی اس سے پورا فائدہ اٹھنے کے لئے بہت اہتمام اور تیاری کی ضرورت ہے۔
ارشاد ربانی ہے
روزہ تم پر اس لئے فرض کیا جا رہا ہے کہ تم میں تقوی پیدا ہو۔
رسول ﷺ نے فر مایا
اللہ تعالی کو اس کی پرواہ نہیں کہ کوئی شخص بھوکا رہتا ہے یا پیاسا اس کا تعلق حصول تقوی سے ہے ۔
،اے بندہ مسلم! اطاعت و تسلیم کے مومن ۔۔۔ تقوی ہی وہ اجالا ہے جو زندگی کی شاہراہ کو روشن کرتا ہے اور اس صلاحیت پر ابھارتا ہے کہ اپنے دامن کو زندگی کی خاردار جھاڑیوں سے بچاتے ہوئے اپنا سفر حیات طے کرلے۔اس ماہ تقدس میں روزہ کھلوانے کے لئے خواہ دودھ کا کٹورا،کھجور کا ٹکرا یا نمک کے چند دانے ہوں۔اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس طرح محترم و معزز ہیں ۔۔۔جیسے غزوہ تبوک کے موقع پر ایک مسلمان کی شب بھر کی کمائی حضر ت ابو بکر صڈیق ؓ کے گھر کے ذرے ذرے اور عمر فاروق ؓ کے گھریلو سامان کے ڈھیر پر بھاری تھے۔۔۔۔اس ماہ کیا کیا رب کی راہ میں دیناہے کسے دینا ہے ابھی طے کرلیں۔۔۔زیادہ سے زیادہ انفاق۔۔۔
اے نیکیوں کے طلب گار ۔۔۔۔آگے بڑ ھ
رمضان فی الحقیقت جشن نزول قرآن ہے ۔تاجدار نبوت ﷺ اپنی عمر عزیز کے اکتالیسویں سال اتر کر حرا سے سوئے قوم آئے اور اپنے ہمراہ ابدی نسخہ کیمیاء ساتھ لائے اس عظیم قرآن کو سنبھالنے اور اس کا بوجھ اٹھانے سے زمین و آسمان نے انکار کردیا مگر انسان کے نصیب میں یہ سعادت کبری لکھی گئی ۔ ماہ رمضان میں اس کتاب سے فیض اٹھانے کی پلاننگ آج ہی سے کرلیجئے۔۔
رمضان۔۔۔۔استقامت،اطاعت و فرمابرداری ابتلا و آزمائش پر ڈٹ جانے کا مہینہ ہے۔ہوا ہوگو تندو تیز لیکن۔۔۔چراغ حق جلائے رکھنے کا مہینہ۔۔اس ماہ محترم میںایک نیکی کا اجر ۷۰۰ گنا سے زیادہ بڑھا دیا جاتا ہے ۔مومن کے رزق میںمعمول سے کہیں زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔۔ سحر و افطار کی ان سعید ساعتوں میں رب پکار پکار کر کہتا ہے کہ جب تم مجھے پکارو گے تو اپنے پاس پائو گے ۔۔۔
اور فرشتوں کو فارغ کرکے زمین کی جانب روانہ کر دیا جاتا ہے کہ روزہ داروں کی دعائوں پر آمین کہیں ۔۔۔لیکن کیا ہم دعائوں کے اس وقت کو سحر و افطار میں انواع و اقسام کے کھانوں کی تیاری ہی میں ضائع کر دیں گے !!!!۔۔اس حوالے سے ابھی سوچ بچار کرلیں کہ وقت کیسے بچاناہے۔۔۔
اے روزہ دار ۔۔۔۔۔۔۔ تیرے لئے نیکیوں کے اس موسم بہار میں خوشیوں اور فرحتوں کے لمحے ہیں ۔ایک خوشی آقا کے حکم کی بے لوث عبادت ،بے ریا ،بے خطاتکمیل پر رمضان کی ہر شام ڈھلنے پر۔۔۔۔ دوسرا لمحہ اپنے رب کی بارگاہ میں حاضری ،اپنے رب کا دیدار اور اس سے ملاقات ۔۔پھر کیا ہم اس وقت کو بازاروں میں شاپنگ اور عید کی تیاریوں میں ضائع کریں گے۔۔ یکسوئی سے عبادت کے لئے سب تیاریاں ابھی کرلیں۔۔
اے نیکیوں کے طلبگار ۔۔۔۔۔۔۔آگے بڑھ
نبی کریم ﷺنے فرمایا !
اور یہ وہ مہینہ ہے جس کے آغاز میں رحمت،وسط میں مغفرت اور آخر میں دوزخ سے رہائی ہے ۔
اے بندہ مومن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے بڑھ ماہ صیام روح کی تسکین کا سامان ہے۔۔ ۔دن کو روزہ رکھ کر تمام لغویات سے اجتناب ۔رات کو اٹھ کر بارگاہ الہی میں طویل قیام سے اپنے دلوں کو منور کرنا ۔یہ مہینہ شکر گزاری،تقوی اور ہدایت کا ہے جس کی تمنا ہر حمد و ثناء کرنے والا مومن اپنی دعائوں کے ساتھ کرتا ہے۔
اے نیکی کے طلب گار ۔۔۔۔خوش ہوجا کہ رمضان اور قرآن دونوں تیرے لئے شفیع بن جائیں گے ۔اس روز جب کوئی سفارش ،کوئی فدیہ اور مدد کام نہ آئے گی۔۔۔۔
آگے بڑھ اے نیکیوں کے طلبگار۔۔آگے بڑھ کر اس کی تمام برکتوں کو سمیٹ لے ۔اے غافل و بے خبر ۔۔۔۔ٹہر!جا کہ رمضان تجھے پکار رہا ہے ۔گمراہی، بدی اور شیطان کی رفاقتوں کے جنگل سے واپس پلٹ آ۔
تیرے جرم خانہ خراب کو اسی رب رحمن و رحیم کی بارگاہ سے عفو و
کرم کی امان مل سکتی ہے۔
رک جا! تھم جا!بلا تاخیر اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجا ۔۔۔ آج ہی کمر کس لے اس مہمان کے استقبال کے لئے۔۔کہیں محروم نہ رہ جانا۔۔۔

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی

سھیمہ در مختار
جامعتہ المحصنات پشاور
وقت زندگی کا بڑا قیمتی سرمایہ ہے اس لئے اس کی قدر کرنی چاہئے۔ہر گزرتا لمحہ یہ اعلان کئے جا رہا ہے کہ اے غافل انسان بیدار ہو جا میں دوبارہ لوٹ کر نہیں ٓنے والا اس لئے اپنے آنے والے کل کے لئے کوئی ایسا عمل کرو جو آپ کے کام آئے۔حدیث شریف میں آتا ہے: ــــــ ’’ فرصت کو غنیمت جانو مصروفیت سے پہلیــ‘‘
آج اللہ تعالی نے ہمیں وقت دیا ہے اور ہم لوگ فضول قسم کی مصروفیات ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ وقت کٹ جائے،لیکن جو انسان اپنے مقصدِ حیات کو پہچان لیتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت اور خدمت خلق کے کاموں میں اپنے آپ کو تھکاتا ہے،اور ہر وقت آخرت کے کاموں میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔انسان کی مصروفیت ایسی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے ایک ایک لمحہ سے فائدہ اٹھائے کہ جو وقت گزرگیا وہ دوبارہ کسی صورت نہیں مل سکتا اس لئے وقت کو سب سے قیمتی متاع سمجھنا چاہئے اور اپنی زندگی کے ہر لمحے کو آخرت کا سرمایہ سمجھتے ہوئے اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے رہنا چاہئے۔ حضرت امام رازی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ میرا جو وقت کھانے پینے میں صرف ہوتا ہے اس پر بھی افسوس ہوتا ہے کہ اس وقت میں مطالعہ نہیں کر سکتاــ‘‘۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ تندرستی اور فرصت کے لمحات دو ایسی نعمتیں ہیں جن مین اکثر لوگ گھاٹے میں مبتلا ہیں۔‘‘
ہمارے اسلاف کو وقت کے صحیح استعمال اور محنت کی وجہ سے اللہ تعالی نے سر فرازی اور سر بلندی سے اس طرح نوازا کہ ہر میدان میں تعمیر،ترقی اور عظمت ان کا مقدر بنی۔عامر بن قیس رحمتہ اللہ ایک زاہد تابعی تھے ایک شخص نے ان سے کہا کہ آئو بیٹھ کر باتیں کریں۔انھوں نے جواب دیا ’’ تو پھر سورج کو بھی ٹہرا لو‘‘ یعنی وقت تو گزرتا رہتا ہے اور گزرا ہوا زمانہ واپس نہیں آتا،انسان کو اپنے کام سے غرض رکھنی چاہئے اور لا یعنی باتوں میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جتنے لوگوں نے بھی ترقی کی ہے ان کو وقت کا احساس تھا ۔خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب ؓ کا ارشاد گرامی ہے:
’’ میں اس بات کو بہت معیوب سمجھتاہوں کہ تم میں سے کوئی لا یعنی زندگی بسر کرے نہ دنیا کے لئے کوئی عمل کرے نہ آخرت کے لئے۔‘‘ حضرت ابو نصر صفار انصاری اپنے نفس سے مخاطب ہو کر اشعار فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے ’’ اے میرے نفس! فرصت کے دنوں میں احسان،عدل اور نیکی کے کاموں میں سستی مت کرو کیونکہ سست اور وقت ضائع کرنے والا آدمی مصیبت اور نحوست میں رہتا ہے۔‘‘ جو لوگ وقت کی قدر کرکے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو صلہ ضرور ملتا ہے لیکن تھوڑی سی تکلیف اٹھانی پڑے گی یہ تکلیف عارضی ہوگی اور خوشی دائمی۔ بلند مراتب کا شائق راتوں کو سویا نہیں کرتا،موتیوں کا شوقین سمندر میں غوطے لگایا کرتا ہے،محنت کے بغیر ترقی کی آرزو کرنے والانا ممکن کی تلاش میں اپنی عمر برباد کرتا ہے۔لہذا وقت سے فائدہ اٹھایئے تاکہ کامیابی آپ کا مقدر بن سکے۔ ؎
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

ہاسٹل میں میرا پہلا دن

طیبہ یاسمین
جامعۃالمحصنات جھنگ
بعض اوقات کچھ غیر معمولی واقعات ہمارے لئے خاص بن جاتے ہیں۔اور وہ ہمارے لئے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں بالکل ایسے ہی میرا ہاسٹل کا پہلا دن کچھ خاص واقعات کی بناء پر میری یاد داشتوں میں محفوظ ہے یہی وجہ ہے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود میں اسے نہیں بھول سکی اور اب آپ کے ساتھ شئیر کررہی ہوں اس دن صبح ہی میں نے اپنے گھر والوں سے کہہ دیا تھا کہ میں کوئی کام نہیں کروں گی کیو ں کہ آج مجھے ہاسٹل جانا ہے میرا پہلا دن ہے جلد پہنچنا چاہتی ہوں تاکہ جلد جاکر طالبات سے تعارف حاصل کرسکوں میں ویسے تو میں خاصی پرجوش تھی کہ اب میں ہاسٹل میں رہوں گی لیکن اندر سے اچھی خاصی ڈری سہمی کہ پتا نہیں لڑکیوں کا رویہ کیا ہوگا؟وہ مجھے تنگ کریں گی ؟ کیوں کہ میںنے سن رکھا تھا کہ ہاسٹل یونیورسٹی میں اچھی خاصی معصوم لڑکیوں کو بھی تھوڑا چالاک بننا پڑتا ہے کیونکہ پہلے سے موجود لڑکیاں انہیں تنگ کرتی ہیں ویسے بھی بقول میرے گھر والوں کے گھر میںتو ہر وقت پٹرپٹڑ بولتی ہو اور دوسروں کے سامنے بولتی بند ہوجاتی ہے اور ایسے موقعے پر یوں لگتا ہے کہ طیبہ نے گونگے کا گڑ کھا لیا ہے۔ایک محاورہ جو اپنے بارے میں بہت دیر سے ذہن میں گردش کر رہا تھا ’’گھر کا شیر باہر کی بلی‘‘ آخر ساری باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے بھائی اور امی کے ساتھ نکلی تو اس احساس نے میری آنکھیں نم کر دیں کہ اب گھر میں مہینہ میں ایک دو بار آنا ہوگا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ خوشگوار احساس بھی تھا کہ میں علم کے حصول کیلئے گھر چھوڑ رہی ہوں جیسے ہی میں جامعہ میں داخل ہوئی میرا تعارف ہاسٹل وارڈن رومانہ باجی سے ہوا مجھے وہ ایک شفیق سی خاتون لگیں لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جامعہ کی لڑکیاں ان کا نام سن کر کانپ رہی تھیں ۔آخر کا رمیں اپنے کمرے میں داخل ہوئی وہاں تین چار لڑکیوں سے ملاقات ہوئی جو دیکھنے میں تھوڑی تیز لگیں اس وقت گیم پیریڈ تھا لڑکیا ںکھیل کود میں مصروف تھیں میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئی جس میں بہت اچھا سا تعارف بھی مل گیا تھوڑی دیر بعد اسٹڈی پیریڈ شروع ہو گیا مجھے ا س دوران جماہیاں آنے لگیں میں کلاس میں سو گئی لڑکیوں نے مجھے اٹھایا کہ سٹڈی پیریڈ میں صرف پڑھائی کرنا ہوتی ہے مجھے اچھا خاصہ غصہ آگیا اور ساتھ ہی یہ احساس بھی ہوگیا کہ ہاسٹل کے بارے میں رسالوں میں جیسا پڑھا تھایہ سب عیاشیا ں بس رسالوں کی حد تک ہوتی ہیں حقیقت بہت مختلف ہے۔کچھ دیر میں بھوک نے ستایا تو میں نے اپنا اٹیچی کیس کھولا اس کے کھلتے ہی میرا دل دھک سے رہ گیا کہ میری امی نے اپنی پیٹو بیٹی کے لئے جو’’ زادراہ‘‘ دیا تھا وہ غائب ہے ساتھ ہی وہ سب لڑکیاں جو کچھ دیر پہلے سرگوشیوں میں مصروف تھیں ان کی سرگوشیوں کی وجہ بھی سمجھ آگئی۔پہلے تو میری ان لڑکیوں سے تلخ کلامی ہوگئی اس کے بعد میں حسب معمول رونے بیٹھ گئی اور ساتھ ہی یہ خوف کہ اب میں مہینہ کیسے گزاروں گی ۔ اچانک مجھے وارڈن کی بات یاد آگئی کہ ’’جو بھی بات ہو مجھے بتانا‘ ‘میں نے ان کو شکایت کرد ی وارڈن نے ان لڑکیوں کی سخت سرزنش کی اور مجھے تسلی دی ۔ اب جب کہ مجھے ہاسٹل میں ایک عرصہ ہو چکا ہے اور وہ سب لڑکیاں اجنبی نہیں بلکہ میری بہت اچھی ساتھی و دوست بن چکی ہیں مجھے اب بھی چھیڑتی ہیں لیکن ان کی باتوں پر اب میں رونے کی بجائے ہنستی ہوں اور اپنی بیوقوفیوں سے لطف اندوز ہوتی ہوں یہ تھا میرا ہاسٹل کا پہلا دن ۔

حصہ