وقت کی قدر

372

حذیفہ عبداللہ
آج اسکول کا آخری دن تھا الوداعی پارٹی کا اہتمام کیا گیا کچھ افسردگی بھی تھی دوستوں کا بچھڑ جانا، اسکول کی باتیں، شرارتیں، خوش گوار یادیں اداسی کے ساتھ نئی منزل کی طرف گامزن ہونے کا عزم بھی تھا روشن اور پر عزم چہرے روشن مستقبل کا پتا دے رہے تھے ایسے میں ہیڈ ماسٹر فضلِ حق صاحب کا خصوصی خطاب جس میں وہ امتحانات کی تیاری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتا رہے تھے بچوں اسکول اور کالج کی زندگی میں خاصا فرق ہوتا ہے اسکول میں قواعد کی پابندی کا اہتمام ہوتا ہے جب کہ کالج کی فضا میں میں طالبِ علم خود کو ایک آزاد فرد محسوس کرتا ہے یہاں سنبھلنے کی ضرورت ہوتی ہے اور خود کو ایک ضابطے کا پابند بنانا ہوتا ہے کالج کے ابتدائی دو سال ہی مستقبل کے حوالے سے اہم ہیں اگر ان دو سالوں میں وقت کی قدر نہ کی آگے نقصان ہی نقصان ہے بچوں وقت کی قدر کرنا، کتاب سے تعلق رکھنا اگر ایسا کیا تو مستقبل روشن ہے بصورتِ دیگر خسارہ ہی خسارہ ہے۔
بعض بچے میٹرک کے امتحانات کی ناکافی تیاری کی وجہ سے پریشان تھے جبکہ محمود اور ارشد مطمئن تھے کیونکہ انہوں نے پورے سال اپنی تعلیم پر توجہ دی تھی یہ دونوں گہرے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہی محلے میں رہتے تھے اور اکثر شام کے اوقات میں ساتھ ہی کھیلا کرتے تھے۔ میٹرک کے امتحانات ہوئے نتیجہ آیا محمود اور ارشد دونوں اچھے نمبروں سے پاس ہو گئے انہیں اہلیت کی بنیاد پر شہر کے اچھے کالج میں داخلہ مل گیا اور دونوں نے تعلیمی سال کے آغاز سے ہی اپنی پڑھائی پر توجہ دی شہر کا ایک معیاری کالج ہونے کے باعث یہاں نظم و ضبط کی پابندی کرائی جاتی تھی ماہانا ٹیسٹ کا طریقہ رائج تھا پہلے اور دوسرے ماہ محمود اور ارشد دونوں کے ٹیسٹ اچھے ہوئے اور اساتذہ کی نظر میں دونوں اچھے طالب علم قرار پائے دوسرے ماہانہ ٹیسٹ کے بعد ارشد کی توجہ پڑھائی کی طرف کم ہونے لگی وہ اکثر کلاسسز سے غائب ہوتا کالج آتا مگر پریڈ اٹینڈ نہیں کرتا محمود نے ارشد کی توجہ اس طرف دلائی تو ارشد نے کہا یار کچھ تو کالج کی زندگی کا مزا لینے دو ابھی بہت وقت ہے میں ایک ذہین طالب علم ہوں تیاری کر لوں گا ارشد کو اپنی ذہانت پر غرور ہو گیا تھا اور اس نے محنت کو ترک کر دیا تھا اس کی ایک بڑی وجہ اس کی دوستیاں تھیں جو کالج کے ایسے لڑکوں سے ہو گئیں تھیں جو پڑھائی کے بجائے لڑائی، شغل اور سیر و تفریح کے شوقین تھے ارشد کو ان کے ساتھ مزا آنے لگا تھا محمود نے بارہا سمجھانے کی کوشش کی ارشد محمود کی باتوں کو نہ صرف نظر انداز کرتا رہا بلکہ اب تو وہ نصیحت پر ناراض ہونے لگا تھا۔
تیسرے ماہانہ ٹیسٹ سر پر آگئے کالج کا ایک قاعدہ تھا کہ سب طالب علموں کو لازماً ٹیسٹ میں شریک ہونا ہوتا تھا ورنہ ان کے والدین کو تحریری طور پر مطلع کیا جاتا ارشد نا مکمل تیاری کے ساتھ ٹیسٹ میں شریک ہوا جب نتیجہ آیا تو محمود تمام پرچوں میں اچھے نمبروں سے پاس ہوا جبکہ ارشد تمام پرچوں میں فیل ہو گیا اور نمبرز بھی انتہائی کم کلاس ٹیچر نے تمام بچوں کو رزلٹ کارڈ دیئے اور والدین سے دستخط کراکے لانے کی تاکید کی ارشد نے رزلٹ کارڈ لے تو لیا مگر بہت پریشان تھا کہ وہ اپنے والد کو یہ کارڈ کیسے دیکھائے گا کلاس ٹیچر نے ارشد کو کارڈ دیتے ہوئے ناراضگی کے انداز میں دیکھا اور کہا کہ آپ اسٹاف روم میں آئیں۔
ارشد اسٹاف روم میں اپنے کلاس ٹیچر کے سامنے شرمندہ سا بیٹھا ہوا تھا وہ اسے سمجھا رہے تھے کہ بیٹا تم ایک اچھے طالب علم ہو دو ماہ ٹیسٹ میں اچھے نمبرز آیے اس کے بعد آپ نے غلط دوستوں میں اپنا وقت ضائع کیا اور آج تیسرے ماہ کے ٹیسٹ آپ فیل ہوگئے وقت کی قدر نہ کی، پڑھائی سے غفلت برتی جو سراسر آپ ہی کا نقصان ہے آج میرے سامنے شرمندہ ہو والد صاحب کے سامنے یہ رزلٹ کارڈ کیسے پیش کرو گے۔ ارشد نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ وہ غلط دوستوں کی دوستی چھوڑ کر علم سے دوستی کا رشتہ جوڑوں گا اور آئندہ ٹیسٹ میں اچھے نمبر لوں گا۔ کلاس ٹیچر نے کہا کہ غلطی تسلیم کر لینا اپنی اصلاح کرنا کامیابی کی دلیل ہوتی ہے آپ محنت کریں آئندہ ٹیسٹ میں اچھے نمبر حاصل کریں میں آپ کی ہر طرح مدد کرنے کو تیار ہوں محمود نے بھی ارشد کی حمت بندھائی اور ساتھ پڑھنے کی دعوت دی جب ماہانہ ٹیسٹ ہوتے تو دونوں دوست اچھے نمبر سے پاس ہوئے ارشد کا اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اصلاح کرنا اور محمود کا تعاون کامیابی کا زینہ ثابت ہوا۔

اچھی، میٹھی اور پیاری باتیں

محمد علیم نظامی
’’ان باتوں پر عمل کرکے ہم اپنی زندگی کو اسلامی سانچے میں ڈھال سکتے ہیں‘‘
٭ علم حاصل کرنا عبادت ہے، دوسروں کو سکھانا صدقہ جاریہ ہے۔
٭ اچھا اخلاق یہ ہے کہ انسان اعمال کا عوض ہی نہ چاہے۔
٭ موقع اور وقت پر احساس کرنا ہی بہترین طرزِ عمل ہے۔
٭ ماں باپ کا طرزِ زندگی سب سے مؤثر ذریعہ تعلیم ہے۔
٭ لاجواب کرنا اور بات ہے جبکہ قائل کرنا دوسری بات ہے۔
٭ حقیقی آئینہ دکھانے والا کم ہی قابلِ تعریف ٹھہرتا ہے۔
٭ خود پر اعتماد کرو دوسرے بھی تم پر احسان کریں گے۔
٭ جب ارادہ بن جائے تو راستہ مل ہی جاتا ہے۔
٭ زور دار الفاظ اور تلخ کاری کمزوریٔ استدلال کی دلیل ہوتی ہے۔
٭ زور دار الفاظ تلخ کلامی انتہائی برا فعل ہیں۔
٭ وضاحتیں جتنی کم ہوں گی خیال اتنا ہی مضبوط قرار پائے گا۔
٭ کوئی بھی اچانک اتنا بڑا نہیں بنتا بلکہ بتدریج معاشرہ اسے پروان چڑھاتا ہے۔
٭ بدی کا راستہ روکو جدائی کو خودہی راستہ مل جائے گا۔
٭ توقع جتنی بڑی ہوگی مایوسی بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔
٭ تندخو اور بدمزاج آدمی کبھی اچھا رہنما نہیں بن سکتا۔
٭ برائی کھوٹے سکے کی مانند ہوتی ہے جو فوراً لوٹا دی جاتی ہے۔
٭ دنیا کی بڑی بڑی نفرتیں الفاظ ہی سے جنم لیتی ہیں۔
٭ کسی وحشی کے لیے اچھے اصول قید کی مانند ہوتے ہیں۔
٭ کمزور اس وقت تک کمزور نہیں رہتا جب وہ منظم ہو جاتا ہے۔
٭ اچھے انسان کی سوچ تعصب سے بالاتر ہوتی ہے۔
٭ اپنے ماں باپ کا کہا مانو راحت نصیب ہوگی۔
٭ بڑوں کا احترام کرو منزل خود ہی مل جائے گی۔
٭ جھوٹ نہ بولو بلکہ ہمیشہ سچ بولو خوشی ملے گی۔
٭ صفائی نصف ایمان ہے۔ ہمیشہ اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھو۔
٭ جو لوگ دوسروں کو اذیت دیتے ہیں وہ خود بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔

رمضان کی تیاری

مریم شہزاد
’’اور بھئی ہو گئی رمضان کی تیاری،‘‘
’’رمضان کی تیاری، رمضان سے پہلے کر لینی چاہئے‘‘
رمضان اور رمضان المبارک کی تیاری سے متعلق مختلف جملے بچوں کے کانوں میں پڑرہے تھے اور سب سے وہ مختلف جواب بھی سن رہے تھے۔
کوئی بھائی سے پوچھتا تو وہ ادب سے جواب دیتے ’’جی بالکل آپ بھی آیئے گا، تراویح پڑھنے‘‘ کوئی امی سے پوچھتا تو وہ کہتی۔
’’بس لگی ہوئی ہوں، سوچ رہی ہوں عید کی بھی ساتھ ہی کر لوں‘‘
آنٹی کہتی ’’رول سموسے، چٹنیاں بنا کر فریز کر لی ہے‘‘
دوسری آنٹی کہتی ’’ہاں، سب کے لیے نئے کپڑے بنالیے ہیں‘‘
اور زینب اور کاشان کی سمجھ نہیں آتا کے وہ کیا تیاری کرے۔
ایک دن ان کی ٹیچر نے سب بچوں سے سوال کیا ’’جی بچوں سب کی رمضان کی تیاری ہو گئی؟‘‘
اس سے پہلے کہ کوئی بچہ جواب دیتا کاشان نے ہاتھ کھڑا کیا کہ اس کو کچھ پوچھنا ہے۔
’’جی کاشان‘‘
’’مس، کیسے ہوتی ہے، رمضان کی تیاری؟‘‘
کاشان نے پوچھا۔
’’بہت اچھا سوال کیا آپ نے،‘‘ اور سب کی طرف متوجہ ہو کر کہا ’’کوئی جواب دے گا؟‘‘
کسی نے کہا نئے کپڑے بنائے، کسی نے امی کے ساتھ مل کر صفائی کرائی ،کوئی ابو کے ساتھ راشن لایا، مگر مس نے سب کے جواب غلط کر دیئے، اور بتایا۔
’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، روزہ میرے لیے ہے اور اس کا اجر بھی میں خود دوں گا، اس لیے ہم کو اللہ کو خوش کرنے والے کام کرنے چاہیے‘‘
تو مس ہم کیا کریں؟
ہم اچھی اچھی دعائیں یاد کریں، چھوٹی چھوٹی سورتیں یاد کریں غریبوں کی مدد کریں تاکہ وہ بھی رمضان اچھی طرح گزار سکیں، اور ہاں کچھ بچے جو ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہتے ہیں جیسے شفق اور زید اس کو کم کرنے کی کوشش کریں تاکہ روزہ میں پریشانی نہ ہو، اب آگیا سمجھ سب کے۔
’’جی مس‘‘
سب نے ایک ساتھ کہا
’’اور جو سب سے زیادہ دعائیں اور سورتیں یاد کر ے گا میں اس کو گفٹ بھی دوں گی‘‘
مس نے کہا۔

حصہ