صدقے کا بکرا ، صدقے کی بکری

2760

زاہد عباس
رشید بھائی بھی خوب ہیں، ان کی ہر بات میں کوئی نہ کوئی منطق ہوتی ہے۔ پیشے کے اعتبار سے تو وہ قصاب ہیں لیکن باتوں میں کسی ماہر نفسیات یا ایف سی پی ایس ڈاکٹر سے کم نہیں۔ لوگوں کے گھریلو مسائل سے لے کر ان کی ذہنی و جسمانی بیماریوں کا علاج رشید صاحب کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ پچھلے دنوں میں ان کی دکان پر جا بیٹھا، کمر کے درد میں مبتلا گاہک کو مفت قیمتی مشورہ دیتے ہوئے بولے ’’ارے میاں اس عمر میں ہی جھکنے لگے ہو، کھاتے پیتے نہیں ہو کیا؟ میاں مال کھاؤ مال، پھر اگر کبھی کمر میں درد ہوجائے تو رسید بھائی کا نام بدل دینا، کمر مجبوط کرنے کے لیے پُٹ کا گوش کھاؤ پُٹ کا گوش، کمر کو لوہا لاٹ کردیتا ہے، دیکھتے نہیں بیل کی پیٹھ کتنی مجبوط ہووے ہے، اور بچھڑے سارا دن کھڑے رہنے کے باوجود نہیں تھکتے، تم یہ بتاؤ پٹ کا گوش کتنا دوں؟ ابھی پکوا کر کھا لینا، شام تک نتیجہ دیکھ لینا، یہ تجربے کی باتیں ہیں لالا، ڈاکٹر واکٹر تو بے وقوف بناویں ہیں، بے فجول لوگوں کو دوائیوں پر لگا دیویں ہیں، بس دو گولیوں کے نام یاد کرکے ڈاکٹر بن گئے ہیں سُسرے، سارے مریجوں کو ایک ہی لال سربت دے کر پیسے بنا رہے ہیں، ہر ڈاکٹر آپریسن نہیں کرسکتا مگر قصاب روج جانور کاٹے ہیں، یہ ہمارا کھاندانی کام ہے، ہمارے گھر کا بچہ بچہ جانور کے ایک ایک جوڑ کے بارے میں جانے ہے، جو اَلات (اعضاء) جانوروں میں ہووے ہیں وہی انسانوں میں بھی ہووے ہیں، تبھی تو ہمارا تجربہ جیادہ (زیادہ) ہے، اسی لیے کہتا ہوں کہ ان کا پیچھا چھوڑو اور میری بات مانو! اور ہاں اگر جوڑوں میں درد ہو تو ہڈی گڈی لے جائو، ہلکی آنچ پر پکنے کے لیے چڑھا دو، یخنی تیار ہوجاوے تو دو پیالے پی لو، جوڑوں کے درد سے ہمیسہ کے لیے جان چھوٹ جاوے گی، ساتھ میں اگر دو نلیاں بھی ڈال دو تو کام پینتیس ہوجاوے گا، ایک اور کام کی بات بتاؤں دھیان سے سنو، اگر کسی کو سوگر ہو تو اسے بکرے کا تازہ لبّا (لبلبہ)کھلائو، سنو! جب کسی انسان کا لبّا کھراب ہوجائے تو اسے سوگر ہوجاتی ہے، لبّا کھانے سے سوگر بالکل ٹھیک ہوجاوے ہے۔‘‘
رشید بھائی کے فلسفے کے مطابق جو بھی چیز بطور غذا کھائی جاتی ہے، انسانی جسم میں اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوتے ہیں، یعنی ایک طرف اگر کمر درد کے لیے پٹ کا گوشت فائدے مند ہے تو دوسری طرف ہڈی گڈی کا سوپ جوڑوں کے درد کے لیے پین کلر ثابت ہوتا ہے۔
رشید بھائی کو یوں مسلسل بولتے دیکھ کر مجھے بھی اندازہ ہونے لگا تھا کہ ضرور ان کی پسندیدہ ڈش زبان فرائی اور مغز نہاری ہی ہوگی۔
خیر، رشید بھائی کی دکان پر پھیپھڑوں کی تیزی سے ہوتی فروخت کو دیکھ کر مجھ سے خاموش نہ رہا گیا، لہٰذا میں نے ان سے انہی کی منطق کے مطابق سوال کر ڈالا ’’میں خاصی دیر سے دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی دکان پر آنے والا ہر دوسرا گاہک پھیپھڑے ہی خرید رہا ہے، کیا انہیں دیکھ کر نہیں لگتا کہ شہر میں سانس کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے؟‘‘
’’نہیں، تمہیں کچھ نہیں پتا، میاں جی بات دراصل یہ ہے کہ لوگ پھیپھڑوں کا صدقہ دیوے ہیں، پھیپھڑے کی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں بناکر صدقہ خیرات کے نام پر چیل کوّوں کو کھلاوے ہیں، پرندوں اور جانوروں کا پیٹ بھرنا ثواب ہے، اس عمل سے آنے والی بلائیں بھی ٹل جاوے ہیں‘‘۔ یوں رشید بھائی نے ہمیں بلائیں ٹالنے کا مروجہ طریقہ بھی بتادیا۔
یہ بلائیں بھی خوب ہیں، جو نظر تو نہیں آتیں لیکن ٹل جاتی ہیں۔ ہم بچپن سے یہی سنتے آرہے ہیں کہ صدقہ کرنے سے آفتوں اور بلاؤں کو ٹالاجاسکتا ہے۔ صدقے کا سنتے ہی ہمارے ذہن میں کالا بکرا، کالی بکری، یا کالی مرغی گھومنے لگتی ہے۔ صدقے کا بکرا اور بکری تو اس قدر مشہور ہوئے کہ ہمارے ملک میں کام کرتی اکثر فلاحی تنظیمیں اسی نعرے کے تحت ہی کھا کما رہی ہیں۔ آپ اپنے اطراف نظر دوڑا کر دیکھ لیں، محلے میں گھومتی کالی مرغی کو کوئی بھی اس ڈر سے ہاتھ نہیں لگاتا کہ کہیں یہ صدقے کی نہ ہو۔ اگر کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو اسے کسی بڑی مصیبت کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ ایک طرف کالا رنگ افضل ترین، تو دوسری طرف نحوست کی علامت بنا دیا گیا ہے۔
خیر، بات ہورہی تھی صدقے کے نام پر قربان کیے جانے والے بکرے، اور پرندوں کو کھلانے سے بلائیں ٹلنے کی۔ آپ بکرا ذبح کریں، غریبوں کو ایک وقت کا کھانا کھلائیں، نیٹی جیٹی کے پل پر کھڑے ہوکر سمندر میں مچھلیوں کی خوراک گرا دیں، چیونٹیوں کو آٹا ڈالیں، اور چیل کوّوں کو پھیپھڑے کھلا دیں، اللہ اللہ خیر صلا… ہوگیا دین کے بتائے ہوئے طریقے کے عین مطابق صدقہ خیرات۔
اس سے پہلے کہ اپنی بات کو آگے بڑھاؤں، ایک ایسے واقعے کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جسے سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میرے کئی دوست انڈسٹری سے وابستہ ہیں، اُس دن کچھ فراغت تھی، اس لیے میں اپنے ایک دوست سے ملاقات کی غرض سے اس کی فیکٹری کی جانب چل پڑا۔ فیکٹری کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی گارڈ روم ہے، کیونکہ میرا اکثر وہاں آنا جانا رہتا ہے اس لیے فیکٹری میں تعینات سیکورٹی اہلکاروں سمیت سارے ہی عملے سے میری اچھی خاصی سلام دعا ہے۔ جیسے ہی اندر داخل ہوا میری نگاہ گارڈ روم کے ساتھ بنے برآمدے میں ذبح ہوتے بکروں پر پڑی۔ فیکٹری میں درجن بھر بکروں کی موجودگی میرے لیے نئی بات تھی۔ میں ابھی برآمدے کے قریب بھی نہ پہنچا تھا کہ ایک سیکورٹی اہلکار نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:
’’اگر آپ کو برا نہ لگے تو تھوڑی دیر ہم سے بھی گپ شپ کرلیں۔‘‘
میں بھلا کون سا فیکٹری کا مالک تھا، اور ویسے بھی ہمارے معاشرے میں طبقاتی تفریق تو مالک اور مزدور کے درمیان ہوا کرتی ہے، لہٰذا میں اس کے ساتھ گارڈ روم میں جا بیٹھا۔
عبداللہ انتہائی شریف النفس، مذہبی اور محبت کرنے والا شخص ہے، لیکن اُس دن وہ خاصا بے چین دکھائی دے رہا تھا۔ طبیعت کے بارے میں پوچھنے پر کہنے لگا ’’ساری باتیں چھوڑیں، بتائیں کہ یہ بکرے کس لیے کاٹے جا رہے ہیں؟‘‘
’’مجھے کیا خبر، میں تو ابھی آیا ہوں، اور ویسے بھی میرا آنا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے، تم یہاں نوکری کرتے ہو، تمہیں مجھ سے زیادہ معلوم ہوگا‘‘۔ میں نے اپنی بات سمیٹتے ہوئے کہا۔
’’یہ سب آپ کے دوست کروا رہے ہیں، ہر ماہ اسی طرح بارہ بکروں کا صدقہ دیا جاتا ہے، یہ عمل فیکٹری کی ترقی اور اسے بلاؤں سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ابھی تھوڑی ہی دیر میں صدقے کے نام پر چلائی جانے والی فلاحی تنظیم کے کارندے آئیں گے اور بکرے اُن کے حوالے کردیے جائیں گے، اس طرح فیکٹری مالکان کی جانب سے دیا گیا صدقہ قبول ہوجائے گا۔ فیکٹری کے مزدوروں کا کام تو صرف فرش کی دھلائی اور صفائی کرنا ہے، آپ یقین کریں میں ایک عرصے سے یہی کچھ ہوتے دیکھ رہا ہوں، اس ساری مشق کا مقصد فیکٹری کے اندر جانوروں کا خون بہانا ہے، دوسرے مزدوروں کی بات چھوڑیئے میں اپنے گھر کی ہی مثال دیتا ہوں، میرے بچوں نے ایک سال قبل پچھلی بقرعید پر گائے کا گوشت کھایا تھا، گھر کی صورت حال یہ ہے کہ کبھی چٹنی تو کبھی پیاز کھا کر گزارا کرنا پڑتا ہے، میری تنخواہ 14000روپے ہے، بارہ گھنٹے ڈیوٹی ادا کرنے کے بعد اتنی ہمت نہیں رہتی کہ کوئی دوسرا کام کرسکوں، اب اس تنخواہ میں بچوں کے کھانے پینے کا بندوست کروں یا دوا دارو کروں! بچے محلے کے مدرسے میں جاتے ہیں، اسکول بھیجنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جب جیب ہی خالی ہو تو اسکول کی فیس اور کاپیوں کتابوں کے اخراجات کہاں سے ادا کروں گا! اس سے بڑا اور کیا ظلم ہوسکتا ہے کہ فیکڑی میں ذبح کیے جانے والے بکروں کو ہم اپنے ہاتھوں سے اٹھاکر فلاحی تنظیم کی گاڑیوں میں لوڈ کرواتے ہیں لیکن ایک پاؤ گوشت کے بھی حق دار نہیں، بڑے لوگ بھی انہی اداروں کو صدقہ وخیرات دیتے ہیں جو پہلے ہی کروڑوں روپے کے بینک بیلنس رکھتے ہیں، جن کا کام سڑکوں کے کنارے دسترخوان لگاکر کھانا کھلانے کے نام پر غریبوں کی عزتِ نفس مجروح کرنا اور لوگوں کو بھکاری بنانا ہے، مجھے یقین ہے کہ حشر کے روز رب کے حضور ایسے صدقات دینے والے ضرور جواب دہ ہوں۔‘‘
عبداللہ کی باتوں نے تو میرے ذہن کو ہلا کر رکھ دیا۔ میرے پاس اس کی جانب سے اٹھائے جانے والے کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ کبھی سوچتا کہ اگر واقعی صدقہ غریبوں کو بکرے کا گوشت کھلانے کا نام ہے تو اس نعمت سے عبداللہ سمیت دوسرے مزدور کیوں محروم ہیں؟ کبھی خیال آتا کہ چلو اس طرح کسی غریب کو تو پیٹ بھر کھانا مل جاتا ہے، لیکن
لاکھ کوشش کے باوجود میرے ذہین میں ابھرتے سوالات نہ تھمتے۔ فوراً لب پہ دعا آئی کہ اے اللہ مجھے سیدھا راستہ دکھا۔ سو، قرآن کا سہارا لیتے ہی ایک ایک بات کھل کر سامنے آنے لگی۔ بے شک قرآن ہی وہ کتاب ہے جس میں ہدایت ہے۔ قرآن میں جہاں جہاں صدقے کا ذکر آیا ہے، وہاں آخرت کا تذکرہ بھی ہے۔ میرے نزدیک صدقہ غریبوں کی حاجت پوری کرنا ہے۔ آیئے دیکھیے کہ قرآن صدقے سے متعلق ایمان والوں کو کیا حکم دیتا ہے:
’’جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس کی مثال اُس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے، اور وہ کشادگی والا اور علم والا ہے۔ ‘‘
’’جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں، اُن کا اجر اُن کے رب کے پاس ہے، اُن پر نہ تو کچھ خوف ہے، نہ وہ اداس ہوں گے۔‘‘
’’اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں (دوسروں کا) جانشین بنایا ہے، پس تم میں سے جو ایمان لائیں اور خیرات کریں انہیں بہت بڑا ثواب ملے گا۔‘‘
’’بے شک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو اللہ کو خلوص کے ساتھ قرض دے رہے ہیں، ان کے لیے یہ بڑھایا جائے گا اور ان کے لیے پسندیدہ اجر ثواب ہے۔‘‘
قرآن حکم دے رہا ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرو۔ ظاہر ہے یہ حکم کسی غریب کو کھانا کھلانا نہیں بلکہ اس کی مالی مدد کے لیے ہے۔ بے شک غریبوں کے کھانے پینے کا بندوست کرنا نیک عمل ہے، لیکن آیتِ قرآنی میں ’’اللہ کو خلوص کے ساتھ قرض دینا‘‘ کے الفاظ انسانیت کی معاشی مدد کی جانب واضح اشارہ ہے۔ نفلی صدقات اپنی جگہ، لیکن اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق غریبوں کی مالی مدد (صدقہ) کرکے ہی غربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔

حصہ