جدید تر اردو غزل کا فنّی مطالعہ

4218

ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد
خالد اقبال یاسر جدید تر غزل میں انوکھی لفظیات کے حسن کارانہ استعمال کے باعث نمایاں نظر آتے ہیں، انہوں نے لفظیات کی تشکیل میں دربار اور رزم گاہ کے متعلقات اور داستانی عناصر سے اکتساب کیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی لفظیات میں جلال و شکوہ اور حیرت و استعجاب کے عناصر گھلے ملے دکھائی دیتے ہیں۔ یاسر کے ہاں محل، حرم سرا، قصر، دربان، کنیزیں، شاہ ، غلام، پیادے، لشکر، جھروکے، ستون، شہر پناہ، خیمے، گھوڑے، نقیب، چوب دار، سپہ، عدو، ہتھیار، نمدہ، زین، رعایا، خواب گاہیں، تلواریں وغیرہ نئی علامتی معنویت رکھتی ہیں۔یاسر کی غزل فنی اور تکنیکی اعتبار سے مکمل اور توانا ہے، انہوں نے مصرعے کی بْنت اور الفاظ کے در و بست میں قدرتِ کلام کا مظاہرہ کیا ہے۔چند اشعار بہ طور مثال دیکھیے:

عدو مخالف عقب کی دیوار بھی مخالف
نحیف ہاتھوں میں کند ہتھیار بھی مخالف(دروبست )
رستے میں رات آئی تو نمدہ بچھا لیا
گھوڑے کی زین اتار کے تکیہ بنا لیا
سجی ہوئی تھیں حریر و اطلس سے خواب گاہیں
مگر رعایا کو اور تلقین ہو رہی تھی
ستون اپنے شکوہِ رفتہ میں گْم کھڑا ہے
بس اک ذرا انہماک ٹوٹے گا تب گرے گا
رخصت کے وقت میرِ سپہ نے نقیب کو
سوئی ہوئی سپہ کو جگانے نہیں دیا

خالد اقبال یاسر کے ہاں مسلسل غزل کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ان کے شعری مجموعے’’ درو بست ‘‘ میں زیادہ تر غزلیں مسلسل کیفیت کی حامل ہیں۔ تسلسلِ خیال اور لفظیات کی قربت نے ان کی کئی غزلوں کے اشعار کو کہانی کا سا ربط عطا کیا ہے۔ یاسر نے اپنی غزل کو معاصر غزل سے الگ رکھنے کے لیے شعوری طور پر عشق و محبت کے مضامین کو کم کم برتا ہے۔ اس التزام کے باعث ان کی غزل معاصر غزل میں واضح طور پر الگ شناخت کی حامل ٹھہری ہے تاہم مضامینِ عشق و محبت سے گریز پائی کے نتیجے میں ان کی غزل شعریت کی لطافت اور تغزل کی رعنائی سے بڑی حد تک محروم رہی ہے۔
اسی اور نوے کی دہائیوں میں جدید تر غزل کے قافلے میں ایسے نوجوان شعرا شامل ہوئے جنہوں نے اپنے منفرد لحن سے غزل تب و تاب میں اضافہ کیا اور اسے اظہار کے نئے امکانات کی نوید دی۔ اگرچہ ان شعرا کی غزل گوئی ہنوز اپنے تشکیلی دور سے گزر رہی ہے اور وہ غزل میں اپنی واضح شناخت بنانے میں کام یاب نہیں ہوئے تاہم ان کی فنی بصیرت اور تکنیکی مہارت غزل کی پوشاک پر وہ گْل کاریاں کر رہی ہے جن کی مثال غزل کی تاریخ میں ملنی محال ہے۔ ان تازہ کار شاعروں میں عباس تابش، قمر رضا شہزاد، فاطمہ حسن، ثمینہ راجا، آفتاب حسین، انجم سلیمی، محسن چنگیزی، سعود عثمانی،ضیا الحسن اور محمد مختار علی کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ان شعرا کے ہاں زبان و بیان کا سلیقہ ، تکنیکی اور فنی عناصر کا حسن کارانہ استعمال اور تخلیقی رچاؤ غزل کے

شان دارمستقبل کی ضمانت دیتا ہے:
مجھے پلٹنا ہے اک روز اپنے فردا میں
نکالنا ہے گزشتہ کو حال سے باہر
گزارنی ہے کوئی عمر چشم و دل کے بغیر
پڑ ی ہوئی ہے جو خواب و خیال سے باہر
ہماری تشنگی کب تک رہے گی منتظر اس کی
زمیں میں کوئی چشمہ ہے تو باہر کیوں نہیں آ تا
مرے جہان کی رونق تری نظر تک ہے
تری نگاہ جو اٹھے جو جانے کیا ہو جائے
میں کائنات میں حیرت سرائے آئنہ ہوں
مجھے جو غور سے دیکھے وہ آئنہ ہو جائے
ڈھونڈ لیتے ہیں ترے اسم میں اک اور ہی اسم
ہم تری شکل میں اک نقشِ دگر دیکھتے ہیں
زمیں ٹھہری ہوئی ہے ،آسماں ٹھہرا ہوا ہے
کسی نقطے پہ یہ سارا جہاں ٹھہرا ہوا ہے
گزرتے جا رہے ہیں ماہ و سالِ زندگانی
مگراک غم پسِ عمرِ رواں ٹھہرا ہوا ہے
سکوتِ جاں کسی معمار کی تلاش میں ہے
یہ وقت ہے کہ مرے دشت کو نگر کر دے
شجر کی بے ثمری کب سے انتظار میں ہے
لگا وہ زخم کہ شاخوں کو بار ور کر ے
کشادہ رستوں کھلے جہانوں سے آ رہا ہوں
میں خاک کی سمت آسمانوں سے آ رہا ہوں

1970 ء کے بعد ایک طرف تو جدید تر طرزِ احساس اور پیراہء اظہار نے غزل کو فکری اور فنی حوالے سے توانائی عطا کی اور اس میں عہدِ رواں کا رنگ رس شامل کر کے اسے نئے امکانات کی بشارت دی، دوسری طرف اس عہد میں غزل کی ہیئت کو جامد قرار دے کر نئے ہیئتی تجربات کا ڈول ڈالا گیا۔ ان تجربات کے نتیجے میں آزاد غزل، معریٰ غزل اور نثری غزل جیسے ہیئتی ڈھانچے وجود میں آئے۔ ان نئے سانچوں کی مضحکہ خیزی نے غزل کے تشخص کو مجروح کیا اور اس کی توانا روایت سے بغاوت اور انحراف کے رجحانات کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔ غزل کی شناخت اس کی ہیئت میں ہے یہی وجہ ہے کہ غزل نے ہر دور میں اپنی ہیئت کا دفاع کیا ہے۔ موضوعات، اسالیب، لفظیات اور تکنیک کے تجربات کے لیے اس صنف نے ہمیشہ اپنا دروازہ کھلا رکھا ہے اور اپنے مزاج سے ہم آہنگ عناصر کو ہر دور میں قبول کرتی رہی ہے مگر ہیئت کے لحاظ سے ریختہ کی ابتدائی ہیئتی صورتوں کو چھوڑ کر صرف دو اہم تبدیلیوں کا سراغ ملتا ہے۔ اوّل مستزادغزل دو م غیر مردف غزل۔ یہ دونوں تبدیلیاں غزل کی ہیئت اصلی سے کسی طور متصادم نہیں۔ مستزاد غزلیں بہت کم کہی گئیں اور ان کی حیثیت ایک تجربے سے زیادہ کْچھ نہیں البتہ غیر مردف غزل کا سانچا ہر دور میں مروج رہا ہے اور اس میں اکثر و بیش تر غزل گو شعرا نے کلام کہا ہے۔ قافیہ اور وزن کی طرح ردیف ہیئت کا لازمی ترکیبی عنصر نہیں ہے اس لیے ردیف کے ہونے یا نہ ہونے سے غزل کی ہیئت متاثر نہیں ہوتی۔ 1970ء کے بعد ہونے والے ہیئتی تجربات میں غزل کے مزاج کو نظر انداز کرتے ہوئے محض جدت یا تبدیلی کے شوق میں نئے نئے سانچوں کو متعارف کرایا گیا۔ ہیئت برائے ہیئت کی غرض سے ہونے والے ان تجربات میں کئی شعرا نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو ضائع کیا اور غزل کے روشن منظر نامے کو دھندلانے کی کوشش کی۔ ذیل میں ان ہیئتی تجربات کا اجمالی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
ہندوستان کے شاعر مظہر امام نے سب سے پہلے آزاد نظم کے تتبع میں ’’آزاد غزل‘‘ کا تجربہ کیا۔ اس تجربے کے آغاز اور اس کے جواز کے متعلق وہ رقم طراز ہیں:
’’ غزل کی ہیئت میں واقعی انقلابی تجربہ آزاد غزل کی صورت میں ہوا،جو اب تک متنازع فیہ بنا ہوا ہے۔ اگر اپنے ذکر کو بد مذاقی پر محمول نہ کیا جائے تو یہ عرض کروں گا کہ اس تجربے کا پہلا گنہ گار میں ہی ہوں۔۔۔۔۔ میں نے محسوس کیا کہ اگر آزاد نظم ہی کی طرح آزاد غزل کہی جائے اور مصرعوں میں ارکان کی کمی بیشی روا رکھی جائے تو غیر ضروری الفاظ اور فقروں سے نجات پائی جا سکتی ہے اور خیال کو وسعت بھی بخشی جا سکتی ہے۔ میں نے غزل کے دوسرے لوازمات اور صنفی خصوصیات پر حرف نہیں آنے دیا، چوں کہ ارکان کی کمی بیشی سے ہی آزاد نظم کی تشکیل ہوتی تھی،اس لیے مجھے اس کے مقابل ’’آزاد غزل‘‘ ہی مناسب نام معلوم ہوا۔‘‘(۳۱)
اس تجربے کی ضرورت اور افادیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ تجربہ ۵۴۹۱ء￿ میں کیا گیا مگر اس کو منظرِ عام پر آنے کے لیے ۲۶۹۱ء￿ تک انتظار کھینچنا پڑا۔ یوں پہلی بار آزاد غزل سہ ماہی ’’رفتارِ نو‘‘ دربھنگا کے جنوری ۲۶۹۱ء￿ کے شمارے(سال گرہ نمبر) میں شائع ہوئی۔ آزاد غزل کا یہ پہلا با اعتبار نمونہ ملاحظہ ہو:

ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا آپ ہیں
عشق طوفاں ہے، سفینا آپ ہیں
آرزوؤں کی اندھیری رات میں
میرے خوابوں کے اْفق پر جگمگایا جو ستارا، آپ ہیں
کیوں نگاہوں نے کیا ہے آپ ہی کا انتخاب
کیا زمانے بھر میں یکتا آپ ہیں؟
میری منزل بے نشاں ہے ،لیکن اس کا کیا علاج
میری ہی منزل کی جانب جادہ پیما آپ ہیں
ہائے وہ ایفائے وعدہ کی تحیر خیزیاں
ان کی آہٹ پر ہی گھر کا کونا کونا چیخ اٹھا تھا کہ ’’اچھا آپ ہیں

ہیئت کی مضحکہ خیزی کو اگر نظر انداز بھی کر دیا جائے تو بھی یہ آزاد غزل فنی اعتبار سے تیسرے یا چوتھے درجے کی غزل کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ارکان کی کمی بیشی نے صرف ہیئت کو ہی مجروح نہیں کیا بلکہ آہنگ کو بھی مت?ثر کیا ہے۔ اس آزاد غزل کے ذریعے ’’ خیال کو جو وسعت ‘‘بخشی گئی ہے وہ بھی اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں۔ مظہر امام کے اس ہیئتی تجربے کی ’’کامیابی‘‘ کے بعد ہندوستان میں کرشن موہن، علیم صبا نویدی اور کئی دوسرے شاعروں نے بھی آزاد غزلیں تخلیق کیں۔ علیم صبا نویدی کا ۲۶ آزاد غزلوں پر مشتمل مجموعہ ’’ ردِ کفر‘‘ کے نام سے ۹۷۹۱ء میں شائع ہوا۔اس مجموعے کی اشاعت سے آزاد غزل کی تخلیق میں تیزی کا رجحان ابھرا اور ہندوستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی یہ ہیئتی پیکر تخلیق کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔
پاکستان میں آزاد غزل کی اولیں جھلک ظفر اقبال کے شعری مجموعے ’’رطب و یابس‘‘ میں دکھائی دیتی ہے۔ اس میں شامل واحد آزاد غزل کی توصیف میں انیس ناگی لکھتے ہیں:
’’ ظفر اقبال کا روایتی غزل کے خلاف ردِ عمل اتنا شدید ہے کہ وہ وسیع تر اظہار کی تمنا میں۔۔۔۔۔ غزل کا رسمی قالب توڑ کر آزاد غزل لکھنے لگتا ہے جو پیروڈی بھی ہے اور غزل کے نئے تصور کی نشان دہی بھی کرتی ہے۔‘‘ (۴۱)
غزل کے ’’نئے تصور‘‘ کی حامل اور’’ وسیع تر اظہار‘‘ کی خواہش سے سرشار اس آزاد غزل کے تین شعر دیکھیے:

اِس مکاں کو اْس مکیں سے ہے شرف
یعنی اک افواہ سی اڑنے لگی ہے ہر طرف
معترض کے منہ سے ہے کتا بندھا
اس لیے سْننا پڑے گی عف عف
نظرِ ثانی بھی کریں گے اس غزل پر ، اے ظفر
فی الحال تو لکھی ہے رف

ظفر اقبال نے بعد میں اس ہیئتی پیکر کو استعمال نہ کیا ورنہ جس طرح انہوں نے لسانی توڑ پھوڑ سے غزل کو ضعف پہنچایا ہے اسی طرح ہیئتی حوالے سے بھی غزل مفلوج ہو کر رہ جاتی۔غزل کو ہیئتی حوالے سے مفلوج کرنے کی سعادت ظفر اقبال کی بہ جائے معروف ترقی پسند غزل گو فارغ بخاری کو عطا ہوئی۔ انہوں نے ۹۷۹۱ء￿ میں ہیئتی تجربات پر مشتمل مجموعہ ’’ غزلیہ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔غزل کی مروجہ ہیئت سے ان کی بیزاری کا اندازہ ذیل کے اقتباسات سے لگایا جا سکتا ہے:
۱۔ ’’ صدیوں کے اس عمل میں فارسی غزل اور اْردو غزل اتنی کثیر تعداد میں کہی گئی ہے کہ اس کے منتخب ارفع و اعلیٰ سرمایہ کا وزن بھی منوں ٹنوں کے آخری ہندسوں سے تجاوز کر چکا ہے اور دس صدیوں تک جتنی غزل ہو چکی ہے اگر آئندہ دس صدیوں تک نہ کہی جائے تو کوئی کمی محسوس نہ ہو گی کہ اس کے تمام امکانی مراحل طے ہو چکے ہیں اور سوائے اس کے کوئی گْنجائش نظر نہیں آتی کہ چبائے ہوئے لقموں کی جگالی کی جائے ،لفظوں کی شعبدہ بازی دکھائی جائے اور زبان و محاورے کی بازی گری سے داد و تحسین کے ڈونگرے وصول کیے جائیں یا اسلوب ،لہجے اور اظہار کے کاری گرانہ پیرایوں سے پٹے ہوئے موضوعات کو دْہرا دْہرا کر فرضی جدت اور نْدرت کے ڈھول بجائے جائیں۔
(جاری ہے)

حصہ