بچوں کی نفسیات کو سمجھیں

1049

مدثر قیصرانی
آئے روز ہمیں محلے والوں اور رشتے داروں کی طرف سے یہ باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ ’’آپ کا بچہ بڑابدتمیز اور ضدی ہے۔ آپ انہیں تمیز سکھائیں گالم گلوچ کرتا رہتا ہے ‘‘۔وغیرہ وغیرہ۔درحقیقت دیکھا جائے تو والدین زیادہ تر اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پاتے اپنی مصروفیات میں مگن رہتے ہیں جس سے بچہ باہر کے معاشرہ کو دیکھ کر اپنی زندگی کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کر دیتا ہے جس کے نقصان کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے۔ جب ہمارا بچہ کافی بگڑ چکا ہوتا ہے،چڑچڑا پن،ضدی عادت،گالم گلوچ ،جھگڑالو قسم کا ہونا تو اس طرح کی عادات بچوں میں پائی جانے لگتی ہیں اور بعض والدین بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہوتے ہیں جس سے بچہ بھی جھگڑالو بن جاتا ہے۔
معزز والدین اپنے بچوں کی نفسیات کو سمجھیں انہیں وقت دیں یہی مناسب وقت ہے جب آپ اپنے بچوں کی بہترین رہنمائی کر سکتے ہیں،دیکھیں اگر بچہ آپ کے ساتھ اپنی باتیں شیئر نہیں کررہا ہے اور آپ کے پاس بیٹھنے سے بھی کترا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے اور بچے کے درمیان دوستانہ ماحول نہیں ہے۔آپ بچے سے میل جول نہیں رکھتے آپ بچے کیساتھ بہت زیادہ غصے میں رہتے ہو۔جس سے بچہ کوئی چیز آپ سے شئر نہیں کرنا چاہتا اور نہ آپ کے ساتھ بیٹھنا چاہ رہا ہے اس کا تعلق کسی اور سے ہوجائے گا جو اس کو پیار و محبت دے گااور اگر بچے کی فطرت لڑائی جھگڑے اور غصے والی ہے تو زیادہ تر یہ سب بچے اپنے والدین اور دیگر فیملی ممبرز سے سیکھتے ہیں اسی لئے کہتے ہیں بچوں کے سامنے آپس میں نہ لڑا کریں اسی سے بچے بھی بگڑ جاتے ہیں بچوں کے سامنے لڑنے کے بجائے ایک دوسرے کو اچھی باتیں بتایا کریں جس سے بچہ بھی سیکھے گا اور اس کی ایسی تربیت کریں کہ بچہ میں خود اعتمادی پیدا ہو،اسی طرح دیکھا گیا ہے کہ اکثر بچے حسد کرتے ہیں ۔
اگر بچہ حسد کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ آپ ان کا موازنہ ہمیشہ دوسروں سے کرتے رہتے ہو،کہ فلاں بچہ دیکھو وہ کیسا ہے اس بچے کو دیکھو وہ کیسا ہے۔آپ انہیں حسد پر اکسا رہے ہوحالانکہ یہ کہو کہ آپ بھی کر سکتے ہو ایسا جیسا انہوں نے کیا فلانے نے کیا اس سے حسد کے بجائے بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہوگی اگر بچے میں خود اعتمادی کم ہے یا نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ہر وقت نصیحتیں کرتے رہتے ہو۔بہت زیادہ نصیحتوں سے بھی بچہ سہم جاتا ہے کچھ بھی کرنے سے ڈرتا ہے کہ کچھ غلط ہی نہ ہو جائے،اگر کچھ غلط کر لیا تو پھر وہی لیکچر وہی نصیحتیں ،،تو بجائے لمبے لمبے لیکچر دینے کے حوصلہ افزائی کریں کہ بیٹا کوئی بات نھیں ،چلیں خیرہے اگر ابھی غلط ہو ا تو آپ اگلی دفعہ اس سے بہتر کرسکتے ہو،اس سے خود اعتمادی پیدا ہوگی اور ڈر ختم ہوگا اوراگر پھر بھی بچہ بہت ڈرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اس کی ہر کام میں بہت جلدی ہی مدد کردیتے ہو۔اسے خود سے کچھ نہیں کرنے دیتے۔اس کے راستے کی رکاوٹیں اسے خود سے ہٹانے دیں جوکام کریں پہلے اس کام کی تفصیل بتلائیں کہ بیٹا یوں نہیں یوں کرنا ہے تو وہ خود ہمت کرکے وہ کام سر انجام دے گا اگر آپ خود ہی تمام کام کر کے دو گے تو بچہ تمام عمر دوسروں کا محتاج رہے گا کہ میرا کام کوئی اور کرکے دیں۔بعض بچوں میں جان بوجھ کر تنگ کرنے کی عادت پائی جاتی ہے چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر تنگ کرنا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ انہیں وقت نہیں دے پا رہے اور ان کو درگزر کر جاتے ہو اس کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہوتے وقت نہیں دیتے۔
ان کی پسند کے مطابق چیزیں نہیں خریدتے بلکہ اپنی پسند بچوں پر ٹھونس دیتے ہیں جس سے بچہ تنگ کرتا ہے اور لائی گئی چیزوں کو ناپسند کرتا ہے تو اس سے بہتر ہے ان ہی چیزوں کا انتخاب کریں جو بچے کی پسند ہے اور یہ اس وقت پتہ چلے گا جب آپ اور بچے کے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہو۔اسی طرح اگر آپ کے بچے کو غصہ جلدی آجاتا ہے تو اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ اس کے اچھے کاموں کو سراہتے نہیں اور اس کی اچھی طرح سے تعریف نہیں کرتے وہ آپ کی توجہ کے ساتھ ساتھ آپ سے تعریف بھی سننا چاہتا ہے۔تو بچے کی تعریف کریں کہ بیٹا آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے حالانکہ انہوں نے بے شک اچھا نہ کیا ہو مگر حوصلہ افزائی کر کے ان کے کام کو سراہے ،اور اسی طرح بعض بچوں میں جھوٹ بولنے کی عادت پائی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اسے اس کی غلطیوں پر سمجھانے کی بجائے اسے بہت زیادہ ڈانٹتے ہو۔اور سمجھانے میں بھی ڈانٹ کا پہلو اختیار کرتے ہو۔لہٰذا بچوں کو ڈانٹنے ،غصہ کرنے کے بجائے ان کی نفسیات کو سمجھیں کہ بچہ کیا چاہتا ہے اسی مطابق اس کی تربیت کریں۔ بہترین تربیت سے ایک بہترین معاشرہ جنم لیتا ہے۔تو ہماری اولین ترجیح ہماری اولاد کی بہترین تربیت ہونی چاہئے ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک صالح اولاد اور ان کی بہترین تربیت کرنے کی توفیق عطافرمائے ،آمین۔

حسنِ خلق ایک بڑی نیکی

بنت عطا
کسی بھی چیز کو بناتے وقت انسان کے ذہن میں ایک مقصد ہوتا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی بغیر کسی مقصد کے نہیں بنائی جاتی۔ عمارتیں بنائی جاتی ہیں تاکہ اس میں رہا جا سکے، لباس جوتے وغیرہ بنائے جاتے ہیں تاکہ پہننے اوڑھنے کے کام آسکیں، برتن بنائے جاتے ہیں تاکہ کھانے پینے کے لئے استعمال ہوں، کھانا بنایا جاتا ہے کاشت کاری کی جاتی ہے غلہ اگایا جاتا ہے تاکہ کھانے پینے کی ضرورتیں پوری ہوں غرض کوئی بھی چیز بے مقصد وجود میں نہیں لائی جاتی۔
اسی طرح اربوں کھربوں مخلوقات بھی بے مقصد پیدا نہیں کی گئی۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اسے پیدا کرنے دنیا میں بھیجنے کا بھی ایک مقصد ہے۔ اور وہ ہے اللہ کی عبادت۔ فرمان باری ہے کہ ’’میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا (القرآن) ہمارا مقصد حیات یہی ہے کہ ہم اپنے رب کو پہچانیں اس کی اطاعت کریں اس کی رضا کو اپنی اولین ترجیح بنائیں اسی کی عبادت کریں‘‘۔
عبادت صرف نماز روزہ کا نام نہیں بلکہ عبادت دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک میں حقوق اللہ داخل ہیں اور دوسری قسم حقوق العباد کو شامل ہے۔ اصل کامیابی ان دونوں کی ادائیگی میں ہے۔ کسی ایک پر چلنا اور دوسری سے غفلت برتنا یہ فلاح کا راستہ نہیں۔ ایک شخص اگر نماز روزے کا پابند ہے کوئی نماز کوئی روزہ اس سے قضا نہیں ہوتا ہر وقت ذکر الٰہی میں لگا رہتا ہے مگر اس کے پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہیں۔ بد زبان بد اخلاق ہو تو محض ان نماز روزوں سے اس کی نجات ممکن نہیں۔ اسی طرح کوء شخص صدقہ خیرات کا عادی ہو مگر احسان بھی جتلاتا ہو تو اس کی یہ نیکی رائیگاں جائے گی۔ والدین و اساتذہ کی نافرمانی ان سے زبان درازی کرنا، صلہ رحمی سے غفلت، مسلمان بھائی سے قطع تعلقی رکھنا، کسی کو تکلیف پہنچانا یہ ساری باتیں قیامت کے روز آپ کی نماز روزہ قبول ہونے نہیں دیںگی۔قیامت کے روز ہر چھوٹی بڑی بات کا حساب ہوگا فرمان باری ہے کہ’’جو کوئی ذرہ سی بھی برائی کرے گا اس کا بدلہ پائے گا‘‘۔ (القرآن)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے پوچھا مفلس کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا جس کے پاس مال و دولت نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز ایک شخص اس حالت میں آئے گا کہ اس کے اچھے اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا یہاں تک کہ وہ لوگ جن کے ساتھ اس نے دنیا میں کوئی زیادتی کی ہوگی وہ آتے جائیں گے اور اپنے حق کے بقدر اس کی نیکیوں میں سے لیتے جائیں گے یہاں تک کہ اس کے تمام اعمال ختم ہوجائیں گے مگر حقدار باقی ہوں گے۔ پھر ان تمام حقداروں پر ہوئے ظلم کے بقدر ان کے گناہ ان سے لے کر اس شخص کے پلڑے میں ڈال دیے جائیں گے یہاں تک کہ اس کی بد اعمالیوں کا پلڑا بھاری ہوجائے گا اور اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اصل مفلس وہ شخص ہے۔
لہٰذا اپنی نیکیاں ایسی تھیلی میں جمع نہ کریں جس میں سوراخ ہو۔ کسی بھی گناہ کو چھوٹا مت سمجھیں۔ اپنی زبان اپنے تمام اعضاء کی حفاظت کریں کسی کو آپ سے کسی بھی قسم کی کوء تکلیف نہ پہنچے، کسی کی حق تلفی نہ ہو، ناپ تول میں کمی نہ کریں، جھوٹ، دھوکہ، لوٹ مار، والدین کی نافرمانی، غیبت، بہتان، بغض، حسد، کینہ، لعن طعن، منافقت ان سب عیوب سے خود کو بچاتے ہوئے نماز روزے و دیگر عبادات کا اہتمام کریں۔ تاکہ آپ کی نیکیاں بروز قیامت بھی آپ کے پاس محفوظ رہیں۔ ان پر صرف آپ کا حق ہو کوئی اور حقدار نہ نکل آئے جو آپ کا پلڑا خالی کرکے آپ کی نیکیاں لے جائے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ زندگی کی ڈور ابھی ٹوٹی نہیں۔ خود کو مفلس ہونے سے بچا لیجئے۔

نیند کیوں نہیں آتی، چند مشورے

شبانہ رمضان جتوئی
انسان اگر دنیا پر نظر دوڑائے تو اللہ تعالیٰ کی کاری گری میں کوئی ایسی چیز نظر نہ آئے گی کہ جس میں انسان کے لیے کوئی نعمت نہ ہو۔ ہر طرف انسان کی خوشحالی کا سامان ہی نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ’’لا ریب کتاب‘‘ میں پیش بہا خزانے چھپا رکھے ہیں۔ جو ایسے جواہر اور موتی ہیں جس کی قیمت اور اہمیت کا مسلمان انکار نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ آج کے مسلمان سے تو غیر مسلم بھی ترقی کی منازل طے کرتے جارہے ہیں اور ان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اسی کتاب اللہ کا مطالعہ کیا جسے آج کا مسلم چھوڑ چکا ہے۔اگر مسلمان بھی اس کتاب کا مطالعہ کرتے تو پستی اور پریشانی کا شکار نہ ہوتے۔
یورپین ممالک کی جانب سے نیند پر بے شمار ریسرچ سامنے آتیں رہیں تاہم اگر ہم قرآن سے رہنمائی لیں تو اللہ تعالیٰ نے نیند کے فوائد ہمیں پہلے بتادیے ہیں۔ نیند انسان کی بنیادی نعمتوں میں سے ایک انمول نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: ’’اور ہم نے تمہاری نیند کو آرام کا ذریعہ بنایا ہے‘‘۔ یقینا آرام ہی انسان کے دن بھر کے نظام کو چلاتا ہے۔ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ’’ میں تمہارے لیے رات کو بچھونا بنایا، تاکہ تم اس میں سکون اور آرام کرسکو اور دن کو روشنی کی تاکہ اس میں روزی کی تلاش کرسکو‘‘۔
بد قسمتی سے بے شمار لوگ اس نعمت سے محروم ہیں۔ ان محرومین میں سے کچھ تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے خود ہی اپنے آپ کو اس انمول نعمت سے محروم کیا ہوا ہے۔ جیسے کہ وہ لوگ جو رات رات بھر فیس بک، موبائل یا دیگر غیر ضروری محافل میں اپنا وقت برباد کر کے رات بھر جاگتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق آئی فون یا اسکرین کی شعاعیں انسان کے دماغ میںموجود نیند دینے والے نظام کو متاثر کرتی ہیں۔ یہ وہیں شعاعیں جن کے بعد انسان کی نیند آٹومیٹک اڑ جاتی ہے۔ جس کے بعد بیشتر افراد رات بھر کروٹیں بدلتے رہتے ہیں تاہم انہیں نیند نہیں آتی۔ اگر آپ کی روٹین ہے اور اس روٹین کے مطابق آپ نیند کرتے ہیں تو وہ وقت آتے ہی آپ کو خود با خود نیند آنے لگتی ہے۔ مگر جب آپ اس وقت خود کو موبائل، آئی فون یا لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کی اسکرین پر ضائع کرتے ہیں تو نیند کا نظام درہم برہم ہوجاتاہے۔
اسلام نے عشاء کی نماز کے فورا بعد سونے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے پر سکون نیند کے لیے لازم ہے کہ جلد از جلد سویا جائے۔ وقت پر نیند کرنے سے نہ صرف انسان ترو تازہ رہتا ہے بلکہ دماغ بھی فریش ہوتا اور بہت کچھ بہتر سوچنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ ویسے بھی طالبعلموں کو جلد سونا چاہیے کیوں اس سے ان کی تعلیمی صلاحیتوں پر اثرات نہیں پڑتے۔ ورنہ جو بچے دیر تک جاگتے ہیں وہ تعلیم حاصل کرنے میں بہت کمزور ہوتے ہیں۔

حصہ