برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

340

قسط نمبر135
۔6 ستمبر 1965ء کو سہ پہر چار بجے اسکواڈرن لیڈر سجاد حیدر اپنے خاص مشن پر کشمیر کے محاذ سے واپس آرہے تھے۔ اس مشن میں اُن کے اور اُن کے دیگر پائلٹوں کے پاس جہازوں میں ہدف پر گرانے کے لیے بم فٹ تھے۔ مگر اس مشن پر کسی وجہ سے بمباری کا پروگرام ملتوی ہوگیا اور تمام جہاز پشاور ایئربیس پر اتر چکے تھے۔ اسی اثناء میں ایئر فورس کی ہائی کمان کی جانب سے سجاد حیدر کو خاص پیغام ملا۔
پیغام یہ تھا کہ ’’دشمن کی کمر توڑنے کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ پٹھان کوٹ کو نشانہ بنایا جائے۔‘‘
سجاد حیدر نے اپنے ساتھی پائلٹوں کو ہنگامی بنیادوں پر حملے سے پہلے بریفنگ کے لیے فیلڈ آپریشن کمان روم میں طلب کیا۔ اس دوران تمام طیاروں میں پیٹرول فل کیا جانے لگا اور دیگر چیزوں کو فائنل چیک کیا جاتا رہا کہ ایک عجیب و غریب معاملہ ہوا۔ دورانِ بریفنگ اسکواڈرن لیڈر سجاد حیدر نے پانی کی بالٹی منگوا کر اس میں اپنا خاص پرفیوم انڈیلتے ہوئے خشک تولیے بالٹی میں ڈالے اور وہ پانی میں خوشبو سے معطر تولیے سب ساتھیوں میں تقسیم کیے اور منہ اور جسم پر مَلنے کا کہا۔ سجاد حیدر کا کہنا تھا کہ’’ہوسکتا ہے یہ ہم سب کا یک طرفہ مشن ہو اور ہم لوٹ کر واپس ہی نہ آئیں۔ میں چاہتا ہوںکہ ہم جب اپنے خالق حقیقی سے ملیں تو ہمارے بدن سے بہترین خوشبو آنی چاہیے۔‘‘
اس ابتدائی بریفنگ کے بعد ساڑھے چار بجے 8 سیبر جیٹ طیاروں نے رن وے پر دوڑنا شروع کیا۔ تمام پائلٹ اپنے سیبر جیٹ طیاروں کو 11000 فٹ کی اونچائی پر لے گئے، اور پرواز کرتے ہوئے دشمن کے علاقے میں داخل ہوئے، اور پھر طیاروں کو نیچے لاتے ہوئے چند گز کی اونچائی پر لے آئے۔
ریاست پٹھان کوٹ میں واقع ایئربیس پر، امرتسر ایئربیس کے ریڈار پر ان طیاروں کو اڑتے ہوئے تو دیکھ لیا گیا تھا، مگر اچانک طیارے ریڈار سے غائب بھی ہوچکے تھے، جو اس بات کا اشارہ تھا کہ کسی بھی وقت پٹھان کوٹ کا ائیربیس پاکستانی حملے کی زد میں آسکتا ہے۔
ریڈار اسٹیشن نے اپنی ہائی کمان کو رپورٹ دی: ’’کچھ سیبر جیٹ طیاروں کو ٹیک آف کرنے کے بعد ریڈار کے پردے سے غائب ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے، اور اسٹیشن کمانڈرگروپ کیپٹن روشن سوری سے کیپ یعنی کامبیٹ ایئر پٹرول کی اجازت مانگی۔ اسٹیشن کمانڈرگروپ کیپٹن روشن سوری نے اپنی زندگی کی سب سے بھیانک غلطی کرتے ہوئے ’کیپ‘ کی اجازت نہیں دی۔
یہ غیبی مدد تھی جو پاکستانی شاہینوں کی نصرت کے لیے اتری تھی۔ ٹھیک پانچ بج کر پانچ منٹ پر آٹھ پاکستانی سیبر جنگی طیارے پٹھان کوٹ کے عین سر پر جا پہنچے۔ سجاد حیدر نے دیکھا کہ ایئربیس پر بہت بڑی تعداد میں بھارتی جنگی طیارے کھڑے ہیں۔
انہوں نے محض 500 میٹر کی اونچائی سے بہت احتیاط کے ساتھ اپنے طیارے کا بیلنس برقرار رکھتے ہوئے نیچے غوطہ لگایا اور بیس پر موجود طیاروں پر فائر کھول دیا۔ اس کے ساتھ ہی سجاد حیدر کو دو مگ 21 اس حالت میں نظر آئے کہ ان میں ایندھن بھرا جا رہا تھا۔ سجاد نے پلک جھپکتے میں ان دونوں پر بھی حملہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ دونوں طیارے بھی شعلوں میں لپٹ گئے۔
اپنے لیڈر کے پیچھے دیگر شاہین پائلٹوں نے بھی غوطے لگا کر حملے کیے۔
ائیربیس پر حملے کا حکم صرف دو مرتبہ کا تھا، مگر اتنی بڑی تعداد میں طیارے دیکھ کر سب کی نیت بدل گئی اور ہائی کمان کا حکم نظرانداز کرتے ہوئے پاکستانی شاہینوں نے دشمن کے ائیربیس پر کئی حملے کیے۔ اور ان متواتر حملوں کا اتنا خوف طاری ہوا کہ مزاحمت کرنے کے لیے ایک بھی ہندوستانی طیارے نے فضا میں آنے کی ہمت نہیں کی۔
ونگ کمانڈر تواب اپنے ساتھیوں کو کور دینے کے لیے طیارے میں نہایت بلندی پر موجود تھے۔ انھوں نے ائیربیس پر کم از کم 14 آگ کے گولے دیکھے۔
پاکستانی شاہینوں کا حملہ اس قدر زوردار تھا کہ ہندوستانی ائیر ڈیفنس کو سنبھلنے کا موقع تک نہیں ملا۔ چار چار سیبرز کی ٹولیوں میں پاکستانی جہاز مشین گنوں سے گولیاں چلاتے ہوئے گزرتے جاتے تھے جن کے سر پر دو ایف 104 اسٹار فائٹر ان کو کور دے رہے تھے۔
جس وقت پٹھان کوٹ پاکستانی شاہینوں کے حملے کی زد میں آیا، تب ہندوستانی فضائیہ کا صرف ایک مسٹریس طیارہ ہوا میں تھا، جسے فلائنگ افسر مائیک میکموہن اڑا رہے تھے۔ یہ نئے نئے بھرتی ہوئے تھے اور ایک تربیتی پرواز پر تھے۔ ہندوستانی اسٹیشن کے ٹریفک کنٹرول سے انہیں بتایا گیا کہ ’’پاکستان کا حملہ ہوچکا ہے، تم اپنے آپ کو اس علاقے سے دور دور ہی رکھو اور پاکستانی حملہ مکمل ہونے کے بعد ہی نیچے اترنا۔‘‘
یہ وہی میکموہن تھے جو پاکستانی حملے میں بال بال بچے اور بعد میں ہندوستانی فضائیہ کے ایئر مارشل بنے۔
پٹھان کوٹ میں تعینات ایئر مارشل راگھویندرن سبرامنیم اپنی سوانح عمری ’’پینتھر ریڈ ون‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ہم تقریباً چھ سات پائلٹ ایک گڑھے میں ایک کے اوپر ایک لیٹے ہوئے تھے۔ سب سے نیچے والا پائلٹ چلّایا: میرا بوجھ سے دم گھٹا جا رہا ہے۔ سب سے اوپر والے پائلٹ نے، جس کی پیٹھ گڑھے کے اوپر دکھائی دے رہی تھی، جواب دیا: مجھ سے اپنی جگہ بدلوگے؟‘‘
سبرامنیم آگے لکھتے ہیں کہ ’’اگر ہم نے اپنے چار نیٹ فضا میں بھیج دیے ہوتے تو پاکستانی اتنا نقصان نہ کرپاتے۔ اسی دن پاکستانی طیاروں نے ہلواڑہ اور آدم پور پر بھی حملہ کیا۔ لیکن وہاں بھارتی طیارے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے سے تیار تھے۔ پاکستانی طیارے ان دونوں ایئربیس کے اوپر تک سے بھی نہیں گزر پائے۔‘‘
سبرامنیم کے اس بیان میں خاصی مبالغہ آرائی ہے۔ ہلوا ڑہ اور آدم پور کے حملے بھی پاکستان کے لحاظ سے نہایت کامیاب رہے تھے جس کی کچھ تفصیل ہم پچھلی اقساط میں آپ تک پہنچا چکے ہیں۔
پٹھان کوٹ پر سارے پاکستانی شاہین کامیاب حملہ کرکے اللہ کی غیبی مدد کے طفیل کامیابی کے ساتھ پشاور ائیربیس پر لینڈ کرچکے تھے۔ ہندوستان کو اس حملے میں دس مگ طیاروں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس اہم ترین معرکے میں شامل ہر پاکستانی پائلٹ کو ’ستارہ جرات‘ کے اعزاز سے نوازا گیا۔
ایک برطانوی نامہ نگار نے، جو کوریا اور ویت نام کی جنگیں دیکھ چکا تھا، محاذوں سے بھیجے گئے اپنے ایک مراسلے میں لکھا:
’’پاکستان کے پرانے سیبر طیاروں کا مقابلہ ہندوستانی ہنٹر، مگ، نیٹ، مسٹریس اور ویمپائر سے رہا۔ مگر سیبر طیارے فضائی جنگ میں چھائے رہے اور جدید طرز کے F-401 لڑاکا طیارے تھوڑے ہی جہاز گرا سکے۔ نیٹ طیارے بہت تیز رفتار اور جھپٹنے پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور ہنٹر طیارے رفتار میں سیبر طیاروں سے کہیں زیادہ تیز رفتار ہیں۔ مگر میں حیران ہوں کہ پاکستان کو اس جنگ میں جیت اور فضائی برتری کس طرح حاصل ہوئی؟‘‘
( جاری ہے)

حصہ