اپنے رب کی کبریائی بیان کرو

1042

سیدہ امبرین عالم
اکرم صبح ہی سے بہت پریشان تھا، جس کام میں ہاتھ ڈالتا وہ بگڑ جاتا، اور وہ خود کو ہی کوسنے لگتا۔ ’’کیا مشکل ہے! آج ہو کیا رہا ہے! سمجھ میں نہیں آتا‘‘۔ وہ بڑبڑاتا ہوا اپنے کمرے سے نکل آیا۔
’’سر! آپ کو باس نے بلایا ہے‘‘۔ رفیق نے کہا، جو آفس کا چپڑاسی تھا۔
’’لو! اب یہ بڑے میاں دماغ کھائیں گے، خدا خیرکرے‘‘۔ اکرم نے باس کے کمرے کا رخ کیا جہاں ایک نئی افتاد منہ کھولے کھڑی تھی۔
’’جی ہاں! نوکری کرنی ہے تو لانڈھی والی برانچ میں جانا پڑے گا‘‘۔ باس نے حکم سنایا۔ اب تو اکرم بڑا ہی سٹپٹایا، مگر کیا کر سکتا تھا! گھر جانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔
’’آخر یہ چکر کیا ہے، کوئی دن اتنا منحوس کیوں ہوتا ہے کہ سارے کام ہی الٹے ہوں۔ اللہ کو کیا ایک میں ہی ملا ہوں! سارے بھائی بہنوں کی شادی ہوگئی، میری کرنے کا وقت آیا تو سب پیسے ابا کی بیماری پر لگ گئے، یہاں تک کہ گھر تک بک گیا۔ اب جو کماتا ہوں کرائے میں چلا جاتا ہے۔ بڑے بھائی شادی کرکے الگ ہوگئے۔ جیسی تیسی نوکری چل رہی تھی، اب روز تین سے چار گھنٹے سفر میں لگ جائیں گے‘‘۔ وہ پریشانی سے سوچتا ہوا بس میں لٹک رہا تھا کہ ایک زوردار جھٹکے سے دھڑام سے گر گیا۔ اوہ یہ بس ڈرائیور بھی… جہاں سواری دیکھی،آگے پیچھے دیکھے بغیر بریک لگا دیا۔ اکرم کا گھٹنا بری طرح زخمی ہوگیا اور خون سے پتلون سرخ ہوگئی۔ وہ صبح سے ہی غصے میں تھا، خون دیکھ کر آپے سے باہر ہوگیا اور بے ہنگم طریقے سے چلاّنے لگا۔ اب ڈرائیور اور کنڈیکٹر جن کا روز کا ہی کام بگڑے مسافروں کا دماغ ٹھکانے لگانا تھا، دو منٹ میں گالیاں دے کر اکرم کو بس سے اتار کر چلتے بنے، مجال ہے جو کسی ایک مسافر نے بھی اکرم کے لیے آواز اٹھائی ہو۔ بھلا کون پرائے پھڈے میں ٹانگ اَڑا کر اپنی مصیبت بڑھاتا ہے!
اکرم جس جگہ اترا، وہ ایک اندھیرا سنسان علاقہ تھا، شاید علاقے کی لائٹ گئی ہوئی تھی۔ جیب میں ہاتھ ڈالا تو بٹوہ غائب، بس میں رش کا فائدہ اٹھاکر کوئی اس کا بٹوہ لے اڑا تھا۔ بے ساختہ اکرم نے آسمان کی طرف دیکھا ’’تو کہاں ہے؟‘‘ ایک سسکی اس کے منہ سے نکلی۔ خاصی دیر تک جیسے وہ آسمان پر ڈھونڈتا رہا، پھر بے بسی اور مایوسی کے ملے جلے احساس سے نظریں جھکا لیں اور پیدل گھر کی جانب چل پڑا۔
’’کبھی شام و عراق کے حالات دیکھ کر، کبھی ظالم حکمرانوں کی عیاشیاں دیکھ کر، اور کبھی دنیا میں بے انصافی دیکھ کر میرا اللہ پر سے ایمان اٹھ گیا ہے‘‘۔ اکرم نے کہا۔
’’ہاں بیٹا! ماں باپ کا بوجھ سر پر آگیا ناں، اب تو تم ایسی ہی باتیں کرو گے‘‘۔ ابا کا وہی جلا کٹا لہجہ رات کے کھانے پر اس کا منتظر تھا۔
’’نہیں میرے چاند! یوں نہیں کہتے۔ وہ ہے، وہ سب دیکھ رہا ہے، سب سن رہا ہے اور وہ ضرور انصاف کرے گا، کوئی مظلوم جب کراہتا ہے تو عرش ہل جاتا ہے‘‘۔ امی نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’پھر تو عرش کو مسلسل خطرناک زلزلے کی کیفیت میں ہونا چاہیے، جس قدر ظلم اور بے انصافی ہورہی ہے، اگر اللہ ہے تو خاموش کیوں ہے؟‘‘ اکرم نے جواب دیا۔
’’بیٹا! انسان اس قسم کے سوالات دو کیفیات میں کرتا ہے، ایک یہ کہ وہ واقعی کسی الجھن کا شکار ہو اور اللہ رب العزت کے معاملے میں علم حاصل کرکے دل کا سکون چاہتا ہو، اور دوسرے یہ کہ وہ اللہ کے خلاف دل میں عناد رکھتا ہو اور نازیبا باتیں کرکے دل کی بھڑاس نکالے‘‘۔ امی نے سنجیدگی سے اکرم کا مدعا جاننا چاہا۔
’’ارے کم بخت چار پیسے کیا کمانے لگ گیا، فلسفے بگھار رہا ہے۔ میں اگر کچھ کمانے کے لائق ہوتا اس دہریے کو جوتے مار کر گھر سے ابھی کے ابھی نکالتا… ناہنجار‘‘۔ ابا چلاّئے۔
امی اور اکرم نے اباکو جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ ابا نے ساری زندگی بیوی بچوں پر خرچا کیا تھا، اب بیٹے کے محتاج ہوگئے تو یہ بات ان کی برداشت سے باہر تھی، بار بار جتاتے کہ اگر تم خرچا کرتے ہو تو بھی میں تم سے نہیں دبتا۔
’’کیسی بغاوت، میں اللہ کا کیا بگاڑ لوں گا، جب کہ وہ میرا بگاڑے جارہا ہے‘‘۔ اکرم نے کہا۔
’’یعنی بگاڑ سکتے تو بگاڑتے؟‘‘ ابا نے بات کا دوسرا ہی مطلب نکال لیا۔
’’بیٹا ایک بات سمجھ لو، روزِ ازل اللہ اور شیطان کی ٹھن گئی تھی انسان کی نیابت کے معاملے میں، یہ جنگ جو شروع ہوئی تھی اب آخری مراحل میں ہے، اور یہ جنگ مکمل ایمان داری کی بنیادوں پر ہے، یعنی شیطان کا خالق اور تمام ظاہر و پوشیدہ کا مالک ہونے کی جو برتری اور طاقت اللہ تبارک وتعالیٰ کو حاصل ہے، اللہ عزوجل نے ان قوتوں کا بالکل استعمال نہیں کیا، بلکہ شیطان کی طاقت کے برابر ہی طاقت استعمال کی، تاکہ شیطان مقابلے کے غیر منصفانہ ہونے کا الزام نہ دے سکے‘‘۔ امی تفصیل سے سمجھانے لگیں۔
’’یعنی ایک مسلسل جنگ جاری ہے، جو ہے تو اللہ اور شیطان کے درمیان، لیکن بیڑہ غرق صرف نسلِ انسانی کا ہورہا ہے، ہم بہت تکلیف میں ہیں‘‘۔ اکرم نے جواب دیا۔
’’بالکل بیٹا! اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عموماً اس جنگ میں شیطان ہی جیت جاتا ہے اور اپنا دعویٰ سچ ثابت کردیتا ہے کہ انسان ہرگز نائب بننے کے لائق نہیں اور اللہ کا نافرمان اور انتہائی غیر ذمے دار ہے۔ تقریباً تمام رسولوں کی قوموں نے تکذیب ہی کی، رسولوں کو اذیتیں پہنچائیں، اور چند ہی لوگ ایمان لاکر رسول کے ہمنوا ہوئے۔ یہی انسانی تاریخ ہے، حتیٰ کہ بنی اسرائیل جو انتہائی متبرک پیغمبر یعنی ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے، وہ بھی عملی طور پر شیطان کے پیروکار نکلے۔ پوری انسانی تاریخ میں حزب اللہ کی فتح صرف دو مواقع پر ہوئی، حضرت یونس علیہ السلام کی قوم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم، سمجھے بیٹا!‘‘ امی نے بات کرتے کرتے پوچھا۔
’’کس جاہل پر اپنا دماغ ضائع کررہی ہو بیگم، یہ تو کافر ہے کافر‘‘۔ ابا نے درمیان میں لقمہ دیا۔
’’سمجھے اکرم؟ جب جنگ کے دوران اللہ کا پلڑہ بھاری ہو تو خدائی قانون رائج ہوتا ہے۔ پھر نہ بھوک ہوگی نہ بیماری، حتیٰ کہ زلزلہ آئے تو حضرت عمرؓ زمین سے پوچھتے ہیں ’’تُو کیوں لرزتی ہے؟ کیا عمرؓ تیری پیٹھ پر انصاف نہیں کرتا؟‘‘ اور زلزلہ رک جاتا ہے۔ خشک سالی آئے تو نیل میں ڈالا گیا حضرت عمرؓ کا ایک خط دریائے نیل کو ہزاروں سال کے لیے دوبارہ رواں کر دیتا ہے۔ تنہا عورت سونا اچھالتی ہوئی ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے جاسکتی ہے۔ یہ ہے اللہ کی حکمرانی، حتیٰ کہ سانپ تک معصوموں کو ڈسنا چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔ امی نے بتایا۔
’’اچھا! اور جب شیطان کا پلڑہ بھاری ہو تو وہی حالات ہوتے ہیں جو آج کل ہیں۔ ظلم، بے ناانصافی، بھوک، بیماری، بے راہ روی، ہوس اور جھوٹ۔ میں سمجھ گیا۔ اللہ کی فتح کے دور میں اللہ کے دوست حکمران ہوتے ہیں اور شیطان کے ساتھی تکلیف اور بے عزتی سہتے ہیں، جب کہ شیطان کی فتح کے دور میں بدترین لوگ حکمران ہوتے ہیں اور اللہ کے عزیز بندے یا حزب اللہ تکلیف اور بے عزتی برداشت کرتے ہیں۔ ہم آج کل شیطان کی حکمرانی کے دور سے گزر رہے ہیں، اور مقابلے میں ایمان داری کا تقاضا ہے کہ اللہ اپنے عزیز بندوں کی اپنی خدائی طاقتوں سے مدد نہ کرے ورنہ تو ایک لمحے کی کہانی ہے، سب شیطانی قوتوں کا خاتمہ کرکے مومنوںکو اللہ کا دین رائج کرنے کی طاقت دی جاسکتی ہے، لیکن چونکہ امتحان انسان کا ہے اس لیے دین رائج کرنے کا کام مومنون کو اپنی تدبیر اور اتحاد سے کرنا ہوگا۔ سب اللہ کرلے تو انسان کا امتحان تو ناجائز طریقے سے کامیابی کا الزام لے لے گا‘‘۔ اکرم نے سمجھ لیا۔
اب ابا بھی غور سے سننے لگے، ’’پھر کیا کریں، اللہ کی حکمرانی کیسے قائم ہوگی؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔ امی اور اکرم نے ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھا جیسے ابا کی، گفتگو میں شمولیت پر سکون کا سانس لیا ہو۔ ’’سورہ مدثر اور سورہ مزمل پڑھی ہے آپ نے؟‘‘ امی نے پوچھا۔
’’ہاں…‘‘ ابا بولے۔
’’لحاف میں سونے والوں کو اٹھ کھڑے ہونے کو کہا، ہم جب نکل پڑیں گے تو حکم ہے ’’وربک فکبر‘‘ یعنی اللہ کو بڑا کرو۔ اب بھلا بتائو اس کا کیا مطلب ہے؟ اللہ بھلا کوئی چھوٹا ہے جو ہم کو حکم دیا جارہا ہے کہ اللہ کو بڑا کرو! اللہ تو سب سے بڑا ہے‘‘۔ امی نے پوچھا۔
ابا تھوڑی دیر سوچتے رہے،’’اللہ کو بڑا کرنے کا مطلب ہے کہ اللہ کا قانون رائج کیا جائے۔ جس کا قانون چلتا ہے اسی کی بادشاہت ہوتی ہے، جیسا کہ برصغیر ہند و پاک میں انگریز ہم کو نماز، روزے سے تھوڑی منع کرتے تھے، لیکن ہم نے الگ ملک اس لیے حاصل کیا تاکہ یہاں پر قانون اللہ کا چلے، نہ کہ انگریز کا۔ اگر قرآن میں ایک حکم ہے، ہم جانتے ہیں مگر مانتے نہیں، تو اسی کو تو جھٹلانا کہتے ہیں اور آخر کفر کیا ہوتا ہے؟ انکار، تکذیب، نافرمانی‘‘۔ انہوں نے جواب دیا۔
’’بہت عمدہ۔ اس بات کی سب سے اچھی مثال آج ہمارے کشمیری بھائی ہیں… چاہیں تو سکون سے اپنے گھروں میں پنکھے چلا کر بیٹھے رہیں، لیکن وہ پاکستان کے نعرے لگاتے ہیں، کیوں؟‘‘ امی نے پوچھا۔
’’بے وقوف ہیں‘‘۔ ابا نے دانت چباکر کہا ’’جس دن پاکستان میں شامل ہوگئے، اور پنشن اور تنخواہ حاصل کرنے کے لیے رشوت دینی پڑے گی تو خود ہی دماغ صحیح ہوجائے گا۔‘‘
اکرم ہنسنے لگا ’’نہیں ابا! جس دن کشمیری ہمارے ساتھ مل گئے تو سب ٹھیک ہوجائیں گے، ان کے دل اتنے پاک ہیں اور روحیں اتنی چندھیا دینے والی ہیں کہ ان کے ساتھ ہم سب سدھر جائیں گے، وہ اللہ کے مجاہد ہیں، اللہ کے ہاتھ اپنا سب کچھ بیچ چکے ہیں، وہ جان دینا جانتے ہیں تو ہم سب کو سیدھا کرنا بھی ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اللہ ان پر کرم کرے‘‘۔ اس نے کہا۔
’’صحیح کہتا ہے اکرم! وہ صرف اس لیے جدوجہد کررہے ہیں کہ ان کا نام اللہ کے لیے جان نثار کرنے والوں میں آجائے، ورنہ ان کی چار نسلیں دفن ہوچکیں، اور آج کی نسلوں کو بھی معلوم ہے کہ وہ آزادی کی صبح دیکھے بغیر ہی جامِ شہادت نوش کرلیں گے‘‘۔ امی نے کہا۔
’’جیسے ایک چڑیا کا واقعہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب الائو میں پھینکا گیا تو وہ اپنی چونچ میں پانی بھر بھر کر ڈالتی رہی۔ ایسے ہی ہم کو اپنی بساط بھر کوشش کرنی ہے، باقی اللہ کی بڑائی تو قائم ہوکر ہی رہنی ہے، ہم آپ کون ہوتے ہیں اس کی بڑائی قائم کرنے والے!‘‘ ابا نے بات کہی۔
’’جی ہاں! آخرکار قیامت سے پہلے تمام دنیا پر اللہ کی حکومت رائج ہونی ہی ہے۔ یہ حدیثوں میں بیان کیا گیا اللہ رب العزت کا وعدہ ہے۔ آخر جیت تو اللہ کی ہی ہے۔ اللہ نے اگر انسان کو نائب چنا ہے تو اس فیصلے کو ہم صحیح ثابت کریں گے، اللہ کا فیصلہ غلط نہیں ہوسکتا‘‘۔ امی نے کہا۔
’’یعنی اللہ ہے، سب دیکھ رہا ہے، مگر منتظر ہے کہ انسان اپنے لحاف سے نکلے اور اللہ کا نام بڑا کرے۔ وہ زیادہ سے زیادہ مہلت دے رہا ہے، اور جب ڈنڈا حرکت میں آئے گا پھر تو کوئی بھی نہیں بچے گا، نام رہے گا صرف اللہ کا، بس آخری وقت آنے سے پہلے ہمیں سدھرنا ہے‘‘۔ اکرم نے کہا۔
’’ہاں بیٹا! جو چھوٹی چھوٹی تکلیفیں ہماری زندگی کا حصہ ہیں، وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ شیطان ہمیں تکلیف پہنچاتا ہے تاکہ ہم اللہ سے بددل ہوجائیں۔ اب دیکھو حضرت یوسف علیہ السلام کو شیطان نے کیسی کیسی تکلیفیں دیں مگر اللہ نے کیسے انہی تکلیفوں میں سے حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے بادشاہت کے راستے ہموار کیے۔ شیطان سمجھتا ہے کہ وہ جیت رہا ہے، مگر اللہ سے بڑا چال چلنے والا کوئی نہیں۔ شیطان کچھ بھی کرلے، بہرحال وہ مخلوق ہے، وہ خالق سے بڑھ کر چالیں نہیں چل سکتا۔ فتح آخرکار اللہ کی ہے اور اللہ پر بھروسا کرنے والوں کی ہے۔ کبھی مت بھولنا کہ اللہ ہی سب سے بہترین دوست ہے‘‘۔ امی نے سمجھایا۔
’’اللہ شیطان صفت لوگوں پر آج کل عذاب کیوں نازل نہیں کرتا؟‘‘ اکرم کے ابا بولے۔
’’اس میں بھی ہمارا ہی قصور ہے، ہم نے حجت ہی پوری نہیں کی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا سے پردہ فرما گئے، اس کے بعد ہمارا فرض تھا کہ دنیا کے ہر شخص تک اللہ کا پیغام پہنچاتے، وہ بالفرض اگر انکار کرتے، پھر ان پر عذاب قانونی طور پر نافذ ہوسکتا تھا، جب پیغام ہی نہ پہنچا تو کس قصور پر ان پر عذاب آئے! ہاں البتہ مسلمان ہر چیز سے واقف ہیں، گھروں میں قرآن رکھ کر بیٹھے ہیں مگر بے راہ روی کا شکار ہیں تو ان پر حجت قائم ہوگئی، اور اسی لیے اکثر مسلمان عذاب در عذاب کا شکار ہیں۔ عذاب سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جو سکون سے رہ سکتے ہیں، مگر اللہ کا نظام قائم کرنے کی جدوجہد میں اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ یہ لوگ معتوب نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے مجاہد اور پاک روحیں ہیں… کیوں، کس لیے سختی میں ہیں، یہ اللہ ہی جانتا ہے، ہمارا کام ہے صبر اور کوشش‘‘۔ امی نے تفصیل سے سمجھایا۔
’’اللہ ہمیں اس امتحان میں کامیاب کرے، چھوٹے چھوٹے مسائل سے ہمت نہیں چھوڑنی چاہیے اور نازیبا کلمات نہیں نکالنے چاہئیں، شیطان یہی تو چاہتا ہے کہ ہم کفر بکیں اور اللہ کے عذاب کا شکار ہوجائیں۔ ہمیں شیطان کا وار ناکام کرنا ہے، چاہے آزمائش جس قدر بھی صبر آزما اور طویل کیوں نہ ہو، اللہ کو ناراض کرنے سے نقصان بڑھے گا کم نہیں ہوگا، کوشش کرو ہر صورت زبان سے شکر و حمد ہی نکلے‘‘۔ ابا نے اکرم سے کہا۔
’’جی ابا! آئندہ غلطی نہیں ہوگی، ان شاء اللہ‘‘۔ اکرم نے مسکرا کر جواب دیا۔

اِس پار نہیں، اُس پار نہیں، جو بجھ جائے وہ آگ نہیں
اُس خدا کو ہم نے پانا ہے، وہ نبیوں کی میراث نہیں

حصہ