آشیانہ

232

صبا احمد
(دوسری اور آخری قسط)
احمد نے ریاض صاحب کا بلڈ پریشر اور شوگر چیک کی، دونوں ہائی۔ اس نے اُن کے منہ میں گولی رکھی اور کریم سے کہا ’’گاڑی نکالیں، انکل کو اسپتال لے جانا ضروری ہے‘‘۔ وہ دونوں ان کو اسپتال لے گئے۔ پھر آدھے گھنٹے بعد بیگم عائشہ اور حنا بھی اسپتال پہنچیں تو احمد نے بتایا کہ انکل کو شدید ہارٹ اٹیک ہوا تھا، ہم بروقت ان کو اسپتال لے آئے۔
بیگم عائشہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے احمد کو بہت دعائیں دیں اور پیار کیا۔ پھر ریاض صاحب صحت یاب ہوکر گھر آگئے، مگر کسی وقت بھی بلڈ پریشر چیک کروانے کے لیے احمد کو بلالیتے اور کہتے کہ اگر مزمل اور تجمل وہاں ہیں تو میرے دو بیٹے یہاں ہیں احمد اور احسن۔ احسن کا بھی کیمیکل انجیئرنگ میں داخلہ ہوگیا۔ فیکٹری کے معاملات کے لیے وہ احسن سے مدد لیتے۔
ایک دن اچانک ریاض صاحب کی فیکٹری میں آگ لگ گئی، وہ جل کر راکھ ہوگئی، اور کتنے ہی ملازم مرگئے۔ ریاض صاحب یہ صدمہ برداشت نہ کرسکے اور چل بسے۔ اب بیگم عائشہ اکیلی رہ گئیں۔ دونوں بیٹے ان کو امریکا بلا رہے تھے، انہوں نے کہا کہ ہم غیروں میں کیوں مریں؟ ہم اپنوں میں مریں گے۔ بیٹیاں بلاتیں تو کہتیں: ’’ہم فرنگیوں کے دیس کیوں جائیں جنہوں نے قیام پاکستان اور ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد مسلمانوں کو شہید کیا۔ ہمارے پاس حنا ہے، بچے ہیں اور ہمارا مقصد ہے‘‘۔ ان کی بڑی بیٹی شمائلہ کی طبیعت بالکل بیگم عائشہ جیسی تھی، اس نے کہا کہ ٹھیک ہے امی جیسے آپ خوش۔ اب عائشہ بیگم بچوں سے فارغ تھیں، انہوں نے اپنی باقی جائداد لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کردی تھی۔ گھر میں لوگوں کی آمدورفت، مہمان داری، گھر کا خرچا سب حنا کے ہاتھ میں تھا، مگر اب بیگم عائشہ کہتی تھیں کہ ماڈل ٹائون کا گھر تو بچوں کے لیے ہے، جب وہ پاکستان آئیں گے تو وہاں رہیں گے، اور سمن آباد کی کوٹھی کو فلاحی مرکز بنانا ہے۔
آمنہ کی بھی شادی ہوگئی تھی، دو پیارے پیارے بچے حماد اور حمزہ گھر میں آجاتے تو احمد اور احسن کا بچپن یاد آجاتا۔ آمنہ کبھی کبھی بچوں کو اسکول سے لے کر بیگم منزل آجاتی تو بیگم عائشہ خوش ہوجاتیں۔ انہوں نے آمنہ کو راضی کیا کہ وہ ان کی مدد کرے فلاحی مرکز بنانے کے لیے۔
آمنہ نے کہا کہ ’’آنٹی ہمیں دو مقاصد کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے، اوّل جو بچے بھیک مانگے ہیں، جو یتیم ہیں اُن کے لیے خوراک، تعلیم اور رہائش کا انتظام… دوسرے بے سہارا بزرگ حضرات جن کا دنیا میں کوئی نہیں، جن کی اولاد انہیں بے یار و مددگار سڑکوں پر چھوڑ جاتی ہے، دوسرے مؤثر بے سہارا افراد… یہ سب ایک دوسرے کے کام آسکتے ہیں۔‘‘
سڑکوں پر بھیک مانگنے والے بچوں کو لے کر آئے تو ان میں سے کوئی اندرون سندھ سکھر، نواب شاہ کا اور کوئی جیکب آباد کا تھا۔ انتہائی غربت کے مارے والدین نے بچوں کو بھیک مانگنے کے لیے گھروں سے دور بھیجا ہوا تھا۔ یہ بچے سارا دن بازاروں، دفتروں، سڑکوں اور چوراہوں پر بھیک مانگتے۔ اور اکثر بھکاری خانہ بدوش، جن کا دین اور علم سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ صرف نام کے مسلمان۔ نہ نماز پڑھتے ہیں نہ قرآن شریف۔ ہم ایسے بچوں کو اپنے ادارے میں تعلیم اور رہائش دیں گے۔
فلاحی مرکز میں انہیں صبح چھ بجے اٹھایا جاتا، نماز باجماعت پڑھائی جاتی۔ صابر صاحب جن کی عمر 60 سال تھی، نابینا تھے مگر حافظ قرآن اور بے اولاد تھے، زوجہ کا انتقال ہوچکا تھا، انہیں سینٹر میں رہائش گئی۔ انہوں نے بچوں کو قرآن پڑھانے کی ذمے داری سنبھالی۔
حامد، اسلم، رمضان، اشرف اور ارشد صاحبان نے50 بچوںکو دسویں جماعت تک پڑھانے کی ذمے داری سنبھالی۔ شروع میں ہر جماعت کا ایک سیکشن تھا، جس میں پچاس بچے اور بچیاں بھرتی ہوئے۔ بچے صبح آٹھ بجے سے ایک بجے تک اسکول میں یعنی بیگم منزل میں پڑھتے۔ ظہر کی نماز کے بعد کھانا اور پھر ایک گھنٹے کا آرام۔ تین بجے بچوں کو کام سکھایا جاتا۔ انہیں ادارے میں کرسیاں بُننا، فرنیچر بنانا، کپڑوں کی سلائی اور جوتوں کے ڈبے بنانا سکھائے جائے، اور بچیوں کو کڑھائی، سلائی۔ جوتوں کے مختلف کارخانے والے ڈبوں کا آرڈر دے جاتے اور بچے شام سات بجے تک کام کرتے۔ عصر، مغرب، عشا کی نماز بھی ادا ہوتی۔ آٹھ بجے رات کا کھانا، اس کے بعد ہوم ورک کرکے رات دس بجے بچے سونے چلے جاتے۔ ہفتہ اتوار چھٹی ہوتی، جو بچے اپنے والدین کے پاس جانا چاہتے، چلے جاتے، ورنہ ادارے میں ہی رہتے۔ والدین کو مہینے کے اختتام پر بچوں کی تنخواہیں دے دی جاتیں۔ اس طرح وہ در در کی ٹھوکروں سے بچ گئے۔ دس سے بارہ سال کے کچھ بچے نشہ کررہے تھے جن کا علاج کروایا گیا۔ کتنے المناک حالات تھے بچوں کے، کہ نہ دین کے نہ دنیا کے۔ بھیک مانگنے کے بعد رات کو جہاں جگہ ملتی سو جاتے۔ والدین غربت سے تنگ آکر بچوں کو بڑے شہروں میں بھیج تو دیتے ہیں مگر یہاں گندے، میلے کچیلے بچوں سے مزدوری کمزوری کی وجہ سے نہ ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ کچھ بچے اخلاق سے گری حرکات میں مبتلا ہوجاتے ہیں جب کہ بچے قوم کا سرمایہ، اور اچھی تعلیم و تربیت کے حق دار ہوتے ہیں۔ والدین مجبور ہوکر لاوارثوں کی طرح چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ بچے اپنے والدین کو لاوارث کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگ بے اولاد ہوتے ہیں۔ اپنی اولاد والدین کو نہیں سنبھالتی تو بے اولادوں کو کون سنبھالے! جو مرد حضرات اسکول میں کام کرسکتے تھے ان کو وہاں لگا دیا گیا۔ جو فیکٹری میں کام کرسکتے تھے وہ فیکٹری میں کام کرتے۔ جن کا کوئی گھر، ٹھکانہ نہ تھا ان کے لیے فیکٹری کے اندر انتظام کیا گیا۔ اسی طرح خواتین کے لیے یونیفارم سلائی کرنے کا ٹھیکہ لیا جاتا۔ وہ سلائی کرتیں، ادارے میں کھانا بناتیں، وہیں رہتیں، اور بچیاں بھی صفائی ستھرائی کا کام کرتیں، پڑھتیں اور سلائی کڑھائی سیکھتی۔ انہیں قرآن خالہ فاطمہ پڑھاتیں جو حنا کے محلے کی تھیں۔
اس طرح یہ ادارہ ’’دکھ سکھ‘‘ کے نام سے مشہور ہوگیا، کیونکہ یہاں کے منتظمین نہ صرف ان کی ہر طرح سے مدد کرتے بلکہ ان کی دکھ بھری داستان بھی سنتے، ان کے دکھوں کا مداوا کرتے۔ بیگم عائشہ اور حنا نے سب سے کہہ دیا تھا کہ اگر کسی کو ذرا سی بھی کوئی پریشانی ہو تو ہمیں آکر بتائیں۔ ایک دوسرے کے دکھ سننا اور بانٹنا بھی نیکی ہے، اور دوسروں کی مشکلات حل کرنا تو نیکی ہے ہی۔ اس لیے کہ دکھ کو سکھ میں بدلنا نیکیوں کا سمندر ہے۔ بیگم عائشہ نے بیگم منزل کا نام’’آشیانہ دکھ سکھ‘‘ رکھا۔ اپنے بعد تمام تر ذمے داری شمائلہ، آمنہ اور حنا کے اوپر ڈال دی۔ جب تک وہ زندہ رہیں انہوں نے سنبھالی، پھر حنا کو سنبھالنا پڑی۔ شمائلہ اور آمنہ اس کی مدد کرتیں۔ شمائلہ ہر سال پاکستان آتی، یتیم بچوں کی شادیاں کراتی، ان کے جہیز کا انتظام کرتی۔ فیکٹری کی تمام آمدنی آشیانہ دکھ سکھ کے لوگوں اور بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف تھی۔ وہ لوگ جو کماتے، اپنے گھر والوں کو دیتے۔ احسن نے فیکٹری سنبھالی ہوئی تھی۔ احمد نے میڈیکل سینٹر کھولا، وہاں آشیانہ کے لوگوں کا علاج ہوتا۔ وہ ہر ایک کے لیے پناہ گاہ تھی۔ آج حنا اس لیے بستر پر آرام کررہی تھی کہ آشیانہ کی ذمے داری سے سبکدوش ہورہی تھی۔ احمد اور احسن کی شادی پچھلے ہفتے خیریت سے ہوئی۔ حنا کو ہارٹ اٹیک ہوا تو بہوئیں گھر آئیں اور آمنہ نے کہا کہ امی اب جب آپ کا دل چاہے آئیں مگر نوکری چھوڑ دیں جو آپ نے بغیر تنخواہ کے انجام دی۔
احسن کے نوکری شروع کرتے ہی احمد بھی آمنہ کے ساتھ تھا۔ ’’دکھ سکھ آشیانہ‘‘ بہت خوش قسمت تھا کہ اس کو سنبھالنے والے مخلص لوگ میسر تھے۔ اس کو بڑھانے اور آگے لے جانے میں ان لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ تھا، کیونکہ اس کے بندوں کی خدمت کے لیے یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا۔ حنا دعا کرتی کہ اللہ تعالیٰ ہماری کوشش کو قبول فرما جو ہم بے سہارا، یتیموں اور غریب لوگوں کی مدد کرکے کررہے ہیں۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہے اور لوگوں کو بھی اس کی توفیق دے، آمین۔

تیاری

ماہ پارہ ہما
’’امی‘‘… ’’ہوں‘‘۔ صالحہ کی آواز پر صفیہ بیگم متوجہ ہوئیں۔
’’اچھا رہنے دیں‘‘۔ صالحہ واپس پلٹ گئی۔
’’صالحہ‘‘… صفیہ نے آواز لگائی… ’’جی امی‘‘۔
’’کیا بات ہے، کوئی پریشانی ہے؟‘‘
’’نہیں تو‘‘۔ صالحہ نے نفی میں گردن ہلائی۔
’’پھر مجھے کیوں ایسا محسوس ہورہا ہے؟ تمہارا صحن میں یہ کوئی تیسرا چکر ہے۔ کچھ کہنا چاہتی ہو لیکن کہہ نہیں پارہیں‘‘۔ صفیہ بیگم نے سوالیہ نظروں سے صالحہ کی جانب دیکھا۔
’’امی آج شعبان کی پہلی تاریخ ہے‘‘۔ ’’ہاں تو!‘‘ صفیہ بیگم نے پاندان اپنی جانب سرکایا۔ ’’آپ ہر سال رمضان میں پچھلی گلی والے گھر میں قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھنے جاتی ہیں‘‘… ’’ہاں‘‘ صفیہ بیگم نے گردن ہلائی اور ساتھ ساتھ سروتے سے چھالیہ کترنے لگیں۔ ’’اِس مرتبہ میں بھی جائوں گی‘‘۔ صالحہ پُرجوش ہوگئی۔ ’’اچھا…‘‘ صفیہ بیگم نے ’اچھا‘ کو لمبا کھینچا اور مسکرائیں ’’یہ تو تم ہر سال ہی کہتی ہو‘‘۔
’’یہی تو مسئلہ ہے، میرا تو دل ہر سال ہمکتا ہے لیکن آپ کو پتا تو ہے کہ رمضان میں کام ڈبل ہوجاتے ہیں۔ سحری، افطاری، پھر کھانا اور ساتھ ساتھ عید کی تیاری۔ کتنا بھی چاہوں، تب بھی جا نہیں پاتی۔‘‘
’’تو بیٹا جی اب کیسے جائو گی؟‘‘ صفیہ بیگم نے حیرت سے دیکھا۔ ’’آپ کی مدد چاہیے، سب ممکن ہوجائے گا‘‘۔ صالحہ نے کہا۔
’’ہائیں!‘‘ صفیہ بیگم اچھل ہی تو پڑیں۔ ’’نا بابا نا، مجھ بوڑھی ہڈیوں میں جان نہیں چولہا چوکی کرنے کی… ہاں کاٹنے چُننے کا کام پہلے بھی کردیا کرتی تھی، اب بھی کردوں گی۔‘‘
’’امی میں یہ نہیں کہہ رہی آپ سے‘‘۔ صالحہ نے جلدی سے کہا۔ ’’پھر…؟‘‘ اب کے صفیہ بیگم حیران ہوئیں۔
صالحہ، صفیہ بیگم کی بہو ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی بھتیجی بھی تھی جس کی شادی کو چار سال ہونے کو آئے تھے، اور اس عرصے میں وہ ننھے عادل کی ماں بھی بن چکی تھی جو ابھی تین سال کا تھا۔ صالحہ سلیقہ شعار، خوش شکل، ہنس مکھ لڑکی تھی۔ صفیہ بیگم کو اُس سے کوئی شکایت نہ تھی۔
اس دور میں ہم مزاج، فرماں بردار بہو کا ملنا خاصا مشکل کام تھا۔ وہ اللہ کا شکر ادا کرتے نہ تھکتی تھیں۔ان سب خوبیوں کے باوجود رمضان کے مہینے میں سارے گھر کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ عجیب افراتفری پھیل جاتی۔ وہ دیکھتیں صالحہ سحری، افطاری کے ساتھ گھر کی صفائی اور عید کی تیاریوں میں ہلکان ہوئی جاتی۔
اوپر کے سارے کاموں کے لیے ماسی ہونے کے باوجود آخری عشرہ گھر کی صفائیوں اور بازار کے چکروں کی نذر ہوجاتا، عبادت تو بس برائے نام ہی ہو پاتی۔ صفیہ بیگم نے کئی مرتبہ کہا بھی کہ رمضان سے پہلے کچھ سامان وغیرہ تیار کرکے رکھ دیا کرو… وہ ’’اچھا‘‘ کہہ کر رہ جاتی لیکن…
’’وہ آپ ایک دن پڑوس کی ساجدہ کو کچھ بتا رہی تھیں کہ رمضان سے پہلے بناکر رکھ لو‘‘… صالحہ جھجکی۔
صفیہ بیگم اب کھل کر مسکرائیں۔ پاندان پرے سرکایا، تخت سے اتر کر لیموں کے پودے کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئیں اور صالحہ کو دوسری کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ’’اب پوچھو کیا پوچھنا ہے۔‘‘
’’امی بتا رہی تھیں کہ رمضان سے پہلے آپ بہت سے کام کرلیتی تھیں‘‘۔ صالحہ نے اپنی امی کا ذکر کیا۔
’’ہاں بیٹا، تمہاری شادی کے بعد آنے والے پہلے رمضان میں اس لیے میں نے باورچی خانہ سنبھالا کہ تمہیں اندازہ ہوجائے رمضان میں کس طرح کم وقت میں کام نمٹایا جاسکتا ہے۔ خیر تم کو بتادیتے ہوں۔‘‘
’’ایک منٹ‘‘… صالحہ نے بات کاٹی ’’میں ذرا کاغذ قلم لے آئوں۔‘‘
’’کیوں؟ لکھنے کی کیا ضرورت ہے! کچھ سمجھ نہ آئے تو دوبارہ پوچھ لینا‘‘۔ صفیہ بیگم بولیں۔
’’نہیں میں اپنے لیے نہیں، عالیہ بھابھی کے لیے لکھ رہی ہوں‘‘۔ صالحہ نے اپنی بڑی بھابھی کا ذکر کیا۔ ’’وہ کہہ رہی تھیں کہ انہیں بھی ساری چیزیں دے دوں‘‘۔ ’’اچھا اچھا ٹھیک ہے۔‘‘
صالحہ جلدی سے کاغذ قلم لے کر آگئی۔
’’ہاں بیٹا، سب سے پہلے تو رمضان سے پہلے فریج اور فریزر کی صفائی کرلو۔
شربت بنانے کے لیے شیرہ بنا لو، یا پھر چینی پیس کر رکھ لو تاکہ آسانی سے گھل جائے۔ کالے اور سفید، دونوں طرح کے چنے اپنی ضرورت کے مطابق ابال کر پیکٹ بناکر فریز کرلو۔ ماش یا مونگ کی دال کے بڑے یا پھلکیاں بناکر پانی میں بھگوئے بغیر فریزر میں رکھ لو، بوقتِ ضرورت نکال کر گرم پانی میں ڈال کر ایک ابال آنے پر چھلنی میں ڈال کر پانی نکال لو۔
ٹماٹروں کا پیسٹ بناکر فریزر میں رکھ لو، لیکن ٹماٹر کو ابال کر پیسٹ بنانا۔ اسی طرح پورے مہینے کے لیے لہسن، ادرک پیس کر رکھ لو، خراب نہیں ہوگا۔ پیاز کو بھی پیاز کاٹنے والے کٹر سے (جو بآسانی بازار میں دستیاب ہے) کاٹ کر جیسے حلیم کے اوپر ڈالنے کے لیے فرائی کرتے ہیں، اسی طرح فرائی کرکے فریج میں رکھ دو۔‘‘
’’امی پیاز تو فرائی ہوکر تھوڑی سی ہوجاتی ہے، کتنی فرائی کی جائے کہ پورا مہینہ چل جائے؟‘‘ صالحہ نے سوال کیا۔ ’’دیکھو بیٹا، پانچ کلو کچی پیاز میں ایک کلو تلی ہوئی پیاز تیار ہوتی ہے۔ اس کو تلنے میں ایک کلو تیل استعمال ہوگا۔ اپنے مہینے کے خرچ کے حساب سے بنا لو۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا، فرائی کرتے ہوئے تھوڑی تھوڑی تیل میں فرائی کرنا۔‘‘
’’اچھا امی‘‘۔ صالحہ نے اثبات میں گردن ہلائی۔
’’رول، سموسوں کی پٹیاں بازار میں بآسانی دستیاب ہیں، رول، سموسے بناکر فریز کرلو۔ بریانی کے لیے قورمہ بناکر بھی فریز کرسکتی ہو‘‘۔ ’’بریانی بنانے سے ایک گھنٹہ قبل قورمہ نکالا… اور بریانی تیار‘‘۔ صالحہ نے ٹکڑا لگایا۔ صفیہ بیگم مسکرا دیں۔ ’’چٹنیاں وغیرہ بھی پہلے سے بنا کر رکھ لو۔ املی کی میٹھی چٹنی تو پورا مہینہ فریج میں رکھو، خراب نہ ہوگی۔‘‘

حصہ