انمول تحفہ

230

دیا خان بلوچ
رات کی خاموشی میں دو نحیف وجود اس چھوٹے سے کمرے میںبیٹھے بہت افسردہ تھے۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد بس اک نظر اٹھا کر دیکھتے اور دوبارہ نظر جھکا لیتے۔آنکھوں میں سوال تھے اور جواب کوئی نہ تھا۔چند دنوں سے وہ سکون سے سو نہیں پا رہے تھے۔بچی کی بگڑتی حالت ان کے لیے بہت بڑی وجہ تھی۔
امجد جو کہ ایک عام سا مزدور ہے،دن رات محنت مزدوری کر تا ہے اور اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل بھر پاتا ہے۔اس کے گھر میں کل پانچ افراد تھے۔بوڑھے ماں باپ،بیوی اور دو پیارے پیارے پھول سے بچے۔کچھ دن پہلے اس کی بیٹی کو معمولی بخار نے آگھیرا تھا۔وہ سمجھے کہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔چند سستی دوائیں کھلائیں کہ پیسے اتنے ہی تھے۔لیکن بخار نہ اترا،جب بچی کی حالت نہ سنبھلی تو اسے سرکاری ہسپتال لے گئے۔جب لمبی سی قطار میں لگ کر ڈاکٹر کے پاس پہنچے تو پتہ چلا کہ بچی کا بخار بگڑ کر ٹائیفائیڈ میں بدل چکا ہے۔یہ سنتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
بی بی جی! اس کا علاج کیسے ہوگا؟امجد نے ایک نظر اپنی بچی پہ ڈالی جو بخار کی شدت سے بے ہوش پڑی تھی۔یہ کچھ ٹیسٹ کروا لائو،پھر میں دوائیاں لکھ دوں گی۔ابھی اسے یہ دوا دے رہی ہوں۔ڈاکٹر عائشہ نے اسے لمبی سی پرچی تھما دی۔
اس نے کچھ کہنے کے لئے لب کھولے ،پھر چپ ہوگیا۔کہتا بھی تو کیا۔وہ جانے کو پلٹا ۔
سنو!یہ کچھ پیسے لے لو۔اس سے دوا لینا اور لیبارٹری میں یہ پرچی دے دینا وہ ٹیسٹ کے پیسے نہیں لیں گے۔ڈاکٹر عائشہ نے اس کی طرف پیسے بڑھاتے ہوئے کہا۔
امجد کی آنکھوں میں امید کی روشنی جگمگانے لگی تھی۔چہرے پر مسکراہٹ آ گئی تھی اور آنکھیں آنسوئوں سے لبریز تھیں۔
بہت شکریہ ڈاکٹرنی جی!آپ کا بہت بڑا احسان ہے مجھ غریب پر،اللہ آپ کی ساری مرادیں پوری کرے۔خوشی کے مارے اس کی آواز کانپ رہی تھی۔
شکریہ بھائی!جائو اور جلدی سے ٹیسٹ کروا کر رپورٹس لے کر آئو۔وہ بولیں۔جی اچھا۔یہ کہہ کر وہ بچی کو اٹھائے دروازے کی جانب بڑھ گیا۔
اس کے جانے کے بعدڈاکٹر عائشہ گہری سوچ میں گم ہو گئیں تھیں۔ایک ایسی ہی رات میں ان کی ماں کو ہسپتال لے جایا گیاتھااور پیسوں کی کمی کی وجہ سے ان کا علاج نا ہوپایا تھا۔جس کی وجہ سے وہ اس دنیا سے روٹھ گئی تھیں۔کیا ہو جاتا جو ڈاکٹر پیسوں کی جگہ اس جیتے جاگتے انسان کو اہمیت دیتا تو آج ان کی امی ان کے ساتھ ہوتیں۔وقت کے بے رحم تھپیڑوں سے لڑتے لڑتے انہوں نے سوچا تھاکہ مسیحا بن کر قوم کی خدمت کرنی ہے۔ضرورت مندوں کی مدد کرنی ہے۔وہ نہیں چاہتی تھیں کہ کوئی بھی ان کی طرح اپنے ماں باپ کی شفقت سے محروم زندگی گزارے۔آج امجد کی حالت دیکھ کر اسے اپنے باپ کی یاد آئی تھی کہ اس وقت وہ بھی ایسے بے بس ہوں گے۔اسی وجہ سے انہوں نے امجد کی مدد کرنے میں دیر نہیں کی تھی۔
امجد کی بیٹی کا علاج بہت اچھا ہوگیا تھا، وہ چند دنوں میںہی ٹھیک ہوگئی تھی۔ امجد ڈاکٹر عائشہ کابہت احسان مند تھا۔ جب بھی جاتا ڈھیروں دعائیں دیتا۔ ڈاکٹر عائشہ کے لیے یہ دعائیں ہی انمول تحفہ تھیں ۔

بچوں کے خیالات کی تربیت کریں

درصدف ایمان
بچے کسی بھی آنگن کا سکون رونق چہچہاہٹ اور ماں باپ کے لیے سب کچھ ہوتے ہیں اور والدین اپنے گھروں کی اس رونق کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ کھانے پینے سونے جاگنے پڑھائی لکھائی پہننے اوڑھنے ہر ہر چیز ماں باپ بہتر سے بہتر دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر سو میں 75 % والدین اپنے بچوں کے خیالات کی حفاظت نہیں کر پاتے۔ حفاظت تو دور کی بات انھیں خیال بھی نہیں آتا کہ کسی بھی بچے کے ذہن میں پنپنے والے خیالات کی صفائی ستھرائی بھی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جس قدر ظاہری جسم و لباس کی۔ اس کے ضروری ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سائنس کی موجودہ تحقیق کے مطابق انسان جو خیالات کم عمری میں اپنے ذہن میں جنم دیتا ہے وہ زندگی کے بہت سے لمحات میں ان کے زیر اثر آجاتا ہے جن میں عموماً خامیاں ہی ہوتی ہیں۔ جیسے احساس کمتری ، اعتماد کی کمی، برداشت کی کمی ، حد سے زیادہ جذباتی ہونا، ہر ہر چیز کو بہت زیادہ محسوس کرنا اور دنوں تک جلتے کڑھتے رہنا۔ یہ سب کمسنی کے نامناسب خیالات کی نمو سے ہوتا ہے۔
ایک برطانوی سروے کے مطابق موجودہ دور میں بچہ اپنے اندر کے خیالات کو زندگی کے آخر تک لے کر نہیں جاتا بلکہ کم عمری میں ہی ان کے اظہار کے طریقے ڈھونڈ لیتا ہے جیسے کسی کو ماردینا کسی کو قتل کردینا چیزیں توڑدینا، والدین کی ہر اچھی بات نظر انداز کر کے صرف اور صرف ان کے وہ مواقع یاد رکھنا جس میں ماں یا باپ میں سے کسی نے انھیں ڈانٹا ہو یا کسی دوسرے بہن بھائی سے پیار یا شفقت کا مظاہرہ کیا ہو وہ ماں باپ کے ساتھ ساتھ اس دوسرے بچے کے لیے بھی دل ہی دل میں عناد پالنے لگتا ہے ۔ اس کے وہ دن جس میں اسے محبت و احساس کے علاوہ کچھ سوچنا ہی نہیں چاہیے۔ وہ بغض حسد عناد جیسے قبیح احساس و خیالات کو جنم دے کر انھیں پروان چڑھانے لگتا ہے ۔ظاہر ہے یہ بات اس کے خود کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
اب بات یہ ہے کہ کہ آخر بچے کے خیالات کا ہم کیسے معلوم کرسکتے ہیں یا کس طرح انھیں برائیوں سے پاک رکھ سکتے ہیں۔ اس کے لیے ماں باپ کو ان کے قریب ہونے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں ڈانٹتے وقت ان کے چہرے کے اتار چڑھاؤ پر غور کریں۔ اول تو کوشش کریں ڈانٹنے کی نوبت ہی نہ آئے پھر بھی آجائے تو اس طرح کی ڈانٹ نرم سے نرم لفظوں میں دی جائے ۔ بچے کو اپنی غلطی کا احساس ہو نہ کہ وہ اپنی غلطی پر ہٹ دھرم ہوجائے ۔اس کے اندر بغاوت جنم لے یا اس وقت خاموش ہوجائیں بعد کے کسی وقت میں اس واقعہ کو مثال بنا کر پیش کریں۔ بچہ اگر آپ کو جذباتی انداز میں کچھ بتارہا ہے تو اس کی بات پوری توجہ سے سنیں ۔ جذباتی ہونے کی وجہ دیکھتے ہوئے بچے کا ذہنی دباؤ کم کریں ۔ یاد رکھیں بچے چاہتے ہیں کہ ان کے والدین ان کے دل کے حال کو سمجھیں لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے ۔جب بچے والدین کو اپنے دل کی باتیں بتاتے ہیں تو والدین اْن کو جھڑک دیتے ہیں یا اس توجہ سے نہیں سنتے اہمیت دیتے جس توجہ کا وہ طلب گار ہوتا ہے اور ایسا کرنے سے ہوتا یہ ہے کہ کہ وہ بچہ ان سے اپنے دل کی باتیں اپنے ذہن میں نت نئے پنپنے والے خیالات بیان کرنے کے بجائے دور ہوتا چلا جاتا ہے کیونکہ اس کمسن ذہن میں یہ بات راسخ ہوجاتی ہے کہ اس کے ماں باپ کے نزدیک اس کی بات کوئی اہمیت نہیں اور یہی وجہ عدم اعتماد کی بھی بنتی ہے۔ بچوں کے خیالات ان کی باتوں سے ہی معلوم ہوسکتے ہیں زیادہ سے زیادہ بچوں کو اپنے قریب رکھا جائے انھیں یہ اعتماد دیا جائے کہ اگر وہ اپنی غلطی نادانی بیان بھی کریں گے تو انھیں درست سمت رہنمائی ملے گی۔ بچے کو اتنا اعتماد دیا جائے کہ وہ اپنی غلطی کا ادراک کرتے ہوئے اس کے اعتراف کرنے کا بھی حوصلہ رکھے۔
ایک اور بات بچوں کے دوستوں پر گہری نظر رکھیں کیونکہ خیالات و عادات کا رخ تبدیل کرنے میں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ بچہ اپنے کسی دوست کے رہن سہن بول چال یا اس کے بیان کردہ واقعات کو سن کر اس جانب ہی رغبت محسوس کرتا ہے دور حاضر میں وقت کی بے حد کمی۔ ہوگئی ہے لیکن اولاد کو وقت دینا آپ کی اہم ذمہ داریوں میں سے ہے اور اس ذمہ داری کا اجر بہترین اولاد کی صورت میں آپ کا مقدر بنتا ہے اس لیے اپنے آنگن کے پودوں کی نمو میں اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کریں تاکہ ایک مضبوط و بہترین نسل آگے بڑھ سکے۔

حقیقت

رامین طیبہ

زندگی کی بانہوں میں
لمحوں کے چراغوں میں
وصل کی مسافت کو
بھول تم اگر جائو
روشنی کا گل ہونا
لو کا کچھ مدہم پڑنا
تم کو یہ بتائے گا
وصل اک حقیقت ہے
ہجر اک حقیقت ہے

حصہ