حیا اور بے حیائی

642

حبیب الرحمن
(پانچویں قسط)

پردے کا عام تصور لباس کے اوپر ایک اور اضافی لباس ہے جس کو عرفِ عام میں ’’برقع‘‘کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک عورت کا باہر نکلتے وقت مکمل ’’چھپا ہوا‘‘ ہونا شرط ہے۔ اس میں چہرے اور اوپری دھڑ کا اچھی طرح مستور ہونا لازمی شرط ہے، لیکن جسم کے دیگر خدوخال کا اظہار نہ ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ یہ سب کس طرح کرنا ہے، اسلام نے اس کی کوئی خاص شرط، تراش خراش یا نمونہ نہیں بتایا۔ اسی لیے یہ وقت اور حالات، موسم کی بدلتی کیفیت اور زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ہوسکتا ہے۔ جس طرح ستر کی حدود بیان کرنے کے بعد لباس کی تراش خراش کے متعلق خاموشی ہے، اسی طرح ایک خاتون کو کس طرح اور کس انداز میں اپنے آپ کو مستور کرکے گھر سے باہر نکلنا ہے، اس کا فیصلہ اس پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے۔
اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو آج کل کے دور میں ایک خاتون کو اپنے لباس پر ایک اور لباس کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ وہ جس لباس کو منتخب کربیٹھی ہے وہ بجائے خود ایک ایسا لباس ہے جو اسلام کی مقرر کی ہوئی حدود کو کماحقہٗ پورا کرتا دکھائی نہیں دیتا، اور نہ ہی اس کا بناؤ سنگھار وہ ہے جس کی اسلام میں اجازت ہے، اور خصوصاً اُس وقت جب وہ کسی ضروری کام سے گھر سے باہر نکل رہی ہو، ایک اضافی لباس اس کی ایسی ضرورت بن چکا ہے جو صرف جسم کو دوسروں کی نگاہوں سے محفوظ نہ رکھے بلکہ جو جو کچھ اس نے زیب تن کیا ہوا ہے اور جو بناؤ سنگھار اس نے اختیار کیا ہے اس کو دوسروں کی نظروں سے چھپایا جا سکے۔
لباس تو ہوتا ہی جسم کی حفاظت اور ستر کو حکم الٰہی کے مطابق ڈھانپنے کے لیے ہے۔ اب اگر ہر خاتون لباس کو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے عین مطابق زیب تن کرے تو پھر ایک چہرہ اور سینہ ہی تو ایسا رہ جاتا ہے جس کو گھر سے باہر نکلتے وقت ڈھانپنا رہ جاتا ہے۔ چنانچہ قبائلی علاقوں، گاؤں دیہات اور چھوٹے شہروں کی خواتین کو باہر نکلتے ہوئے کسی ایسے لباس کی قطعاً کوئی ضرورت ہی نہیں پڑتی جس کو برقع کہا جاتا ہے۔ وہ جس قسم کا لباس پہنتی ہیں اس کے بعد ان کی اوڑھنیاں ہی کافی ہوتی ہیں جن کو وہ اپنے چہروں اور سینوں کے گرد لپیٹ کر غیروں کی نگاہوں سے چھپ جاتی ہیں۔ اسی قسم کے لباس کا اسلام ہر عورت سے تقاضا کرتا ہے جس کو اب خواتین ترک کرتی جا رہی ہیں۔
پردے کا اہتمام ایک ایمان والی کے لیے کس حد تک ضروری ہے، یہ بات ہم ایک حدیث سے بہت اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔
’’حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُم خلاد نامی عورت نقاب کیے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور وہ اپنے مقتول (شہید) بیٹے کے بارے میں دریافت کررہی تھی۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب نے کہا: آپ اپنے (شہید ہونے والے) بیٹے کے بارے میں پوچھ رہی ہیں اور (اتنی مصیبت اور غم کے باوجود) آپ نقاب کیے ہوئے ہیں۔ اس (عظیم خاتون) نے کہا: اگر میرا لختِ جگر جدا ہوگیا تو میں اپنے حیا کے دامن کو تو نہیں چھوڑ دوں گی۔ پس رسول صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: تیرے بیٹے کے لیے دو شہیدوں کا اجر ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیونکہ اسے اہلِ کتاب نے قتل (شہید) کیا ہے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف حالات، اضطراری افعال، عمروں، ماحول اور واقعات میں پردے کی شکلیں بدل سکتی ہیں لیکن اس میں جتنی بھی احتیاط اور پردے کی محافظت کرلی جائے، اچھا ہے۔ حدیث میں آتا ہے ’’میری پوری امت معافی کے لائق ہے مگر اعلانیہ گناہ کرنے والے معافی کے لائق نہیں۔‘‘
کسی بھی حکم کی محافظت ہر مسلمان مرد و زن پر فرض ہے۔ یہ فرض اس بات کا متقاضی ہے کہ ہر ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھایا جائے اور کوئی بھی ایسی خطا سہواً یا قصداً نہ کی جائے جو کسی بھی بڑے فتنے کا باعث بن سکے۔ مثلاً کسی غیرمحرم سے تنہائی میں ملنا، یا کسی غیر محرم عورت کو بہت غور سے دیکھنا وغیرہ۔ ذیل کی احادیث اسی حوالے سے قلم بند کی جا رہی ہیں۔
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی مرد جب بھی کسی غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا: اے علیؓ غیر محرم عورت پر ایک نظر پڑنے کے بعد دوسری نظر نہ دوڑاؤ، اس لیے کہ پہلی نظر تمہارے لیے معاف ہے اور دوسری نظر معاف نہیں ہے۔‘‘ (ترمذی)
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن عورتوں کے خاوند گھر میں موجود نہیں ہوتے اُن کے ہاں نہ جایا کرو۔ شیطان تم میں سے ہر آدمی کے ساتھ اس طرح گھل مل جاتا ہے جیسے خون جسم میں جاری رہتا ہے۔ ہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے ساتھ بھی شیطان اسی طرح ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: ہاں میرے ساتھ بھی ہے، البتہ اللہ تعالیٰ نے اس کے خلاف میری مدد کی ہے، اس لیے میں اس سے محفوظ رہتا ہوں۔‘‘(ترمذی)
اوپر بیان کی گئی ہدایات پر اگر ایک مومن مرد یا ایک مومن عورت عمل کرنے میں کوتاہی کرے تو اس کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عائد کردہ حدود کی حفاظت کرنا ناممکن ہو جائے گا، اور اس کی ذرا سی غلطی بھی اسے کسی بڑے فتنے میں ڈال دے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر بہت سختی کے ساتھ عمل کیا جائے اور بظاہر کسی چھوٹی سی بات کو بھی نظرانداز نہ کیا جائے، کیونکہ یہ چھوٹی چھوٹی کوتاہیاں بھی اکثر اوقات بڑے بڑے فتنوں میں تبدیل ہوجایا کرتی ہیں۔
ایسے تمام افراد جو بے پردگی کی حمایت میں صفِ اول میں شمار ہوتے ہیں اور اس بات کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں کہ پردہ ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اُن کو چاہیے کہ اللہ کی حدود کو پامال نہ کریں۔ بے پردگی نے اہلِ مغرب کو اس انتہا پرلاکھڑا کیا ہے جس سے آگے تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ خاندانی نظام برباد ہوکر رہ گیا ہے اور آدھی سے زیادہ آبادی اُن افراد کی ہے جن کو اس بات کا ہی علم نہیں کہ ان کے حقیقی والدین کون ہیں۔ اگر کسی کو والدین میں سے کسی کا علم ہے تو وہ ’’ماں‘‘ ہے۔ اب خود ہی فیصلہ کیجیے کہ صرف بے پردگی کی وجہ سے معاشرہ کس مقام پر جاکھڑا ہوا۔
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’عورت چھپا کر رکھنے کی چیز ہے اور بلاشبہ جب وہ اپنے گھر سے باہر نکلتی ہے تو اسے شیطان دیکھنے لگتا ہے، اور یہ بات یقینی ہے کہ عورت اُس وقت سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے قریب ہوتی ہے جب کہ وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے۔‘‘ (الترغیب والترہیب للمنذری 626، از طبرانی)
’’حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو عورت بھی اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اُس کے لیے جائز نہیں ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر اُس کے گھر میں کسی کو آنے دے، اور شوہر کی مرضی کے بغیر گھر سے باہر نکلے، اور اس بارے میں وہ کسی کی اطاعت نہ کرے۔‘‘( مستدرک حاکم، طبرانی)
’’ایک حدیث میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو عورت گھر سے شوہر کی اجازت کے بغیر نکلتی ہے اللہ رب العزت اُس سے ناراض رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ گھر واپس آجائے۔ یا شوہر اس سے راضی ہوجائے۔‘‘ (کنزالعمال)
ان احادیث میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے، اور اس پر فرض ہے کہ وہ ہر صورت میں شوہر کی اطاعت کرے۔ نظم خواہ چھوٹا سا ہو یا بہت وسیع۔۔۔ طاعت و تابعداری اوّلین شرط ہے جس کے بغیر کوئی بھی نظام چل نہیں سکتا۔ ایک گھر ہو یا پوری ریاست، اس میں نظم وضبط ہی کارفرما ہوتا ہے تب کہیں جاکر امن و سکون نصیب ہوتا ہے۔ جن گھروں یا ریاستوں کا نظم و ضبط درہم برہم ہوجاتا ہے وہ جہنم کا نمونہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ آج یہ گھر گھر جو آگ لگی ہوئی ہے اور ریاستوں پر ریاستیں سلگ رہی ہیں اس کا سبب بدنظمی کے سوا کچھ نہیں۔ جہاں کوئی کسی کو بڑا ماننے کے لیے تیار نہ ہو وہاں سب بڑے بن جاتے ہیں۔ اور جہاں ایک سے زیادہ بڑے ہوں وہاں قیامتیں ہی ٹوٹا کرتی ہیں۔ یہی کچھ ہم اپنے چاروں جانب دیکھ رہے ہیں۔ ہر طرف قیامت کا عالم ہے اور اس پر بھی کوئی اس کا سبب جاننے کے لیے تیار و آمادہ نظر نہیں آتا۔
ہم جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں وہاں حیا اور غیرت کا مفہوم ہی بدل چکا ہے۔ جہاں حیا آنی اور کرنی چاہیے وہاں دور دور تک حیا و غیرت کا نام و نشان ہی نہیں ہوتا، اور جہاں غیرت کے بجائے صبر، برداشت، تحمل درکار ہوتا ہو وہاں ہم شعلۂ جوالہ بن جاتے ہیں اور خون کی ندیاں تک بہا دیتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے دوری اور اس کے احکامات سے ناآشنائی ہے۔ معاشرے میں ’’غیرت‘‘ کے نام پر قتل تو ایک ایسی بات ہوکر رہ گئی ہے جیسے کسی مچھر، مکھی کو مار دیا جائے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ہم اللہ کے بنائے ہوئے قانون پر عمل کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ اس نام نہاد بلکہ خودساختہ غیرت و حیا کا ایک عجیب تر پہلو یہ ہے کہ وہی فعل جس پر ہم کسی کی جان تک لینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں بالکل اسی جرم میں ہم ازخود بھی گرفتار ہوتے ہیں۔ جب ہم خود بے حیائی کا کام انجام دے رہے ہوتے ہیں تو نہ تو ہماری غیرت جاگ رہی ہوتی ہے اور نہ ہی ہم فعلِ بد انجام دیتے ہوئے کسی حیا کو محسوس کررہے ہوتے ہیں۔
یہ خبریں آئے دن ہمارے کانوں کے پردے پھاڑ رہی ہوتی ہیں کہ فلاں شوہر نے نہ صرف اپنی بیوی کا گلا کاٹ دیا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنے بچوں کو بھی ابدی نیند سلادیا۔ ایسا کرتے ہوئے اسے ذرا بھی خیال نہیں آیا کہ ان مقتولوں میں شیر خوار بچہ یا بچی بھی شامل تھی! اس قسم کے واقعات کا جب بھی گہرائی سے مطالعہ کیا جاتا ہے تو اس میں سوائے شک کے اور کسی چیز کی کارفرمائی نظر نہیں آتی۔ کیا قرآن محض شک کی بنیاد پر کسی کو قتل کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ شکوک و شبہات کے معاملات میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو ان میں سے ایک شخص کی شہادت (یہ ہے کہ وہ) چار مرتبہ اللہ کی قسم کھاکر گواہی دے اور پانچویں بار یہ کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ (اپنے الزام میں) جھوٹا ہے۔ اور عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص (اپنے الزام میں) جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ (اپنے الزام میں) سچا ہو۔ تم لوگوں پر اللہ کا فضل اور رحم نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا التفات فرمانے والا ہے اور حکیم ہے تو (بیویوں پر الزام کا معاملہ تمہیں بڑی پیچیدگی میں ڈال دیتا)‘‘۔
موضوع گفتگو ’’حیا‘‘ ہونے کے ناتے ہر فرد و بشر کو اس بات سے آگاہی ہونی چاہیے کہ حیا یہ نہیں کہ کسی کو محض شک کی بنیاد پر قتل کردیا جائے۔ بلکہ حیا، غیرت اور حمیت اتنے وسیع معنی رکھتی ہیں کہ یہ ہمارے جسم و جان کے روئیں روئیں میں شامل ہیں۔ کسی کو قتل کرنا تو اتنا بڑا جرم ہے جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے۔ اور پھر ایسا قتل جس کا کوئی گواہ ہی نہ ہو، محض شک اور قیاس کی بنیاد پر کردیا جائے تو اس سے بڑا جرم اور کیا ہوسکتا ہے!
(جاری ہے)

حصہ