پاکستان بمقابلہ انگلینڈ۔۔۔ ایک تاریخی جائزہ

239

راشد عزیز

سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستانی کرکٹرز انگلینڈ پہنچ کر وہاں سخت اور پریشان کردینے والے موسم اور پاکستانی وکٹوں سے یکسر مختلف وکٹوں اور گراؤنڈز پر نیٹ پریکٹس کرکے آئرلینڈ کے خلاف اکلوتے اور انگلینڈ کے خلاف دو ٹیسٹ کی سیریز کے لیے خود کو تیار کررہے ہیں۔ کم تجربہ کار مگر باصلاحیت یہ کھلاڑی وہاں کیا کرکے آتے ہیں، یہ تو بعد میں معلوم ہوگا، لیکن دونوں ملکوں کے درمیان ماضی میں ہونے والے مقابلوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انگلینڈ کے خلاف انگلینڈ میں کھیلنا مشکل ہی رہا ہے، اور اگرچہ کرکٹ کے بارے میں جسے ’’بائی چانس‘‘ اور غیر یقینی حالات کاکھیل کہا جاتا ہے، پیش گوئی کرنا نادانی کے زمرے میں آتا ہے، تاہم معروضی حالات کو دیکھ کر کچھ اندازے لگائے جاسکتے ہیں اور اِس بار یہ کام اس لیے مزید مشکل ہوگیا ہے کہ پاکستانی ٹیم کو وہاں کے حالات سے خود کو مانوس کرنے کے لیے زیادہ مواقع نہیں ملیں گے۔ آئرلینڈ کے خلاف صرف ایک، اور انگلینڈ کے خلاف محض دو ٹیسٹ کھیلنے کو ملیں گے، اور پھر کھیل ختم ہوجائے گا۔ تاہم اِس بار پاکستانی ٹیم کی ایک کمزوری تو یہ ہے کہ اس میں پہلے کی طرح بڑی تعداد میں ایسے کھلاڑی موجود نہیں جنہیں انگلینڈ میں کاؤنٹی اور لیگ کھیلنے کا طویل تجربہ ہو، اور دوم یہ کہ ہمارے اکثر کھلاڑی محدود اوورز کی کرکٹ کی پیداوار ہیں اور ان میں اُس صبر و استقلال کی کمی ہے جو ٹیسٹ کرکٹ اور فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کے بعد آتا ہے۔ لیکن چونکہ پاکستان میں بدترین حالات کے بعد کرکٹ ایک نیا اسٹارٹ لے رہی ہے لہٰذا اس دورے کو بھی ایک نئے تجربے کے طور پر لینا چاہیے۔
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ماضی میں خاصی کرکٹ کھیلی گئی، پاکستان نے شاید کسی اور ملک کے خلاف اتنی سیریز نہیں کھیلیں جتنی کہ انگلینڈ کے خلاف۔ دونوں ملکوں کے درمیان اب تک 81 ٹیسٹ کھیلے گئے ہیں اور ریکارڈ کے لحاظ سے انگلینڈ کو پاکستان پر 4 ٹیسٹ کی جیت کی برتری حاصل ہے۔ انگلینڈ نے 24، جب کہ پاکستان نے 20 ٹیسٹ جیتے۔ ماضی کی سیریز میں کئی سیریز بڑی یادگار رہیں جن میں 1854ء کا پاکستانی ٹیم کا انگلینڈ کا پہلا دورہ بھی شامل ہے جس میں اوول کی تاریخی فتح نے ابتدا ہی میں پاکستان کو کرکٹ کھیلنے والے صفِ اوّل کے ممالک میں شامل کروا دیا تھا۔
1954ء کے بعد 1961-62ء میں ٹیڈ ڈیکسٹر کی قیادت میں انگلش ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا اور مہمان ٹیم نے 3 ٹیسٹ کی سیریز 1-0 سے جیت کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کیا، لیکن اگلے ہی سال پاکستانی ٹیم انگلینڈ گئی تو وہاں اسے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جاوید برکی کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے وہاں 5 ٹیسٹ کی مکمل سیریز کھیلی جس میں 4 میچوں میں اسے رسوا کن شکست ہوئی جب کہ ایک ٹیسٹ ڈرا ہوا۔ کہتے ہیں اس شکست کے اصل ذمے دار کپتان جاوید برکی تھے جنہیں کئی سینئر اور نامی گرامی کھلاڑیوں کی موجودگی میں محض اس لیے کپتان بنایا گیا تھا کہ وہ آکسفورڈ کے گریجویٹ تھے۔ یہ شکست آج بھی پاکستان کی بدترین شکست شمار کی جاتی ہے۔
1962ء کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان متواتر سیریز کھیلی گئیں جن کے نتائج مجموعی طور پر انگلینڈ کے حق میں رہے، لیکن پھر ایک طویل عرصے بعد عمران خان 1987ء کے دورے میں انگلینڈ کے خلاف انگلینڈ میں پہلی سیریز جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
پاکستان عمران خان کی کپتانی میں اس سے قبل 1982ء میں بھی انگلینڈ کو انگلینڈ میں ایک ٹیسٹ ہرانے میں کامیاب ہوا تھا، لیکن پاکستان یہ سیریز ایک کے مقابلے میں دو ٹیسٹ سے ہار گیا تھا، لیکن 1987ء میں عمران کی زیر قیادت پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کا دورہ کیا تو 5 ٹیسٹ کی مکمل سیریز میں انگلینڈ کو صفر کے مقابلے میں ایک ٹیسٹ سے شکست دے کر عمران نے پہلی بار اپنی ٹیم کو سیریز جتوانے کا اعزاز حاصل کیا۔
پاکستان نے سیریز کا آغاز اگرچہ اچھے انداز میں نہیں کیا تھا۔ مانچسٹر میں کھیلے گئے اس ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں انگلینڈ نے 447 رنز کا پہاڑ کھڑا کرکے پہلی اننگز میں پاکستان کے 5 کھلاڑیوں کو 140 رنز پر آؤٹ کردیا تھا، لیکن خوش قسمتی سے بارش آڑے آئی، تیسرے اور چوتھے روز کچھ ہی دیر کھیل ہوسکا، جبکہ پانچواں اور آخری دن مکمل طور پر بارش کی نذر ہوگیا، اور یوں پاکستانی ٹیم کی لاج رہ گئی۔ دوسرا ٹیسٹ لارڈز پر ہوا لیکن اس کا حال اور برا ہوا۔ ایک بار پھر انگلینڈ کی پہلی اننگز کے بعد باقی روز کھیل نہ ہوا اور یہ ٹیسٹ بھی ڈرا ہوگیا۔ تیسرا ٹیسٹ ہیڈنگلے لیڈز میں ہوا جسے فاسٹ بولرز کی جنت کہا جاتا ہے، اور پاکستان کے دونوں اوپننگ فاسٹ بولرز نے پچ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے میزبان ٹیم کو پہلی اننگز میں صرف 136 رنز پر آؤٹ کردیا۔ اس کے جواب میں پاکستانی ٹیم 353 رنز بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ دوسری اننگز میں میزبان کھلاڑیوں کو عمران کی نہایت جارحانہ اور بے رحمانہ بولنگ کا سامنا کرنا پڑتا اور پوری ٹیم 199 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی، اور پاکستان یہ ٹیسٹ اننگز اور 18 رنز سے جیت کر طویل عرصے بعد انگلینڈ میں سرخرو ہوا۔ عمران نے پہلی اننگز میں 3 اور دوسری اننگز میں 7 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، اس طرح انہوں نے میچ میں 10 وکٹیں حاصل کیں اور مین آف دی میچ قرار پائے۔ بعد میں برمنگھم اور اوول میں کھیلے گئے ٹیسٹ بھی ڈرا ہوگئے، اور اس طرح پاکستان نے انگلینڈ میں پہلی بار کوئی سیریز جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کرکٹ کی تاریخ کی یادگار ترین سیریز پاکستان کے لیے 1954ء کی سیریز تھی جب عبدالحفیظ کاردار کی زیر قیادت پاکستان نے انگلینڈ کا دورہ کیا۔ یہ دور انگلینڈ کرکٹ کا سنہری دور تھا۔ عظیم ترین کرکٹر لین ہٹن کی زیر قیادت اس ٹیم میں ڈینس کامپٹن، پیٹرمے، فرینک ٹائی سن اور جانی وارڈل جیسے نامی گرامی کھلاڑی شامل تھے، جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستانی ٹیم جو پہلی بار انگلینڈ کا دورہ کررہی تھی، ایک بہت ہی کمزور ٹیم سمجھی جارہی تھی۔ اس ٹیم نے اس سے قبل صرف بھارت کا دورہ کیا تھا۔ لیکن اس سیریز کے آخری ٹیسٹ میں، جو اوول میں کھیلا گیا، پاکستانی ٹیم نے وہ کارنامہ انجام دیا جسے آج بھی ’’اوول کی تاریخی فتح‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔
اس یادگار فتح کے ہیرو فاسٹ بولر فضل محمود تھے، جنہیں آج بھی ’’اوول کا ہیرو‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ بارش سے متاثرہ اس میچ میں، جو تین گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا، پاکستانی کپتان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا، لیکن ٹیم جلد ہی تباہی سے دوچار ہوگئی اور محض 51 کے اسکور پر 7 وکٹیں گر گئیں، لیکن کپتان کاردار کی کوششوں سے ٹیم 124 رنز بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ اگلا پورا دن بارش کی نذر ہوگیا، تیسرے روز پاکستان کے دونوں اوپننگ بولرز فضل محمود اور محمود حسین نے بارش زدہ وکٹ کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے حریف کھلاڑیوں کو 121 رنز پر آؤٹ کرکے پاکستان کو 3 رنز کی برتری دلا دی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ انگلینڈ کے تمام دس کھلاڑی کیچ آؤٹ ہوئے۔ تیسرے روز کے اختتام پر پاکستان کی 4 وکٹیں 63 رنز پر گر گئی تھیں۔ اگلے روز ایک مرحلے پر پاکستان کے 8 کھلاڑی صرف 82 رنز پر آؤٹ ہوگئے تھے لیکن وزیر محمد نے شاندار بیٹنگ کی اور مہمان ٹیم 164 رنز بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ انگلینڈ نے دوسری اننگز کا آغاز پُراعتماد انداز میں کیا اور ایک موقع پر اسکور دو وکٹوں پر 109 رنز تھا اور جیت کے لیے 8 وکٹوں پر صرف 59 رنز درکار تھے اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ اس موقع پر فضل محمود نے وہ جادوئی کارنامہ انجام دیا جسے کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ 6 وکٹوں پر 125 رنز بنانے کے بعد آخری دن انگلینڈ نے اننگز دوبارہ شروع کی اور صرف 55 منٹ میں فضل محمود نے 18 رنز دے کر 4 وکٹیں گرا دیں اور اس طرح پاکستانی ٹیم کو ٹیسٹ کیریئر کی ابتدا میں ہی ایک باعزت اور محترم مقام دلوا دیا۔ فضل محمود نے اس ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 53 رنز دے کر 6 اور دوسری اننگز میں بھی 46 رنز دے کر 6 وکٹیں لیں۔ اگرچہ 4 ٹیسٹ پر مشتمل یہ سیریز پاکستان 1-1 سے برابر کرا سکا تھا، لیکن اوول کی شکست پر انگلینڈ میں صفِ ماتم بچھ گئی تھی۔ وہ گورا جس نے صرف 7 سال قبل پاکستان کو آزادی دی تھی، اُس کے لیے اس ہار کو ہضم کرنا مشکل ہوگیا تھا، اور برسوں اس کا ماتم کیا جاتا رہا، خاص طور پر انگلش پریس میں اس واقعہ پر بہت رونا دھونا ہوا۔ اس سلسلے کا ایک یادگار واقعہ بعض اخبارات میں شائع ہونے والا وہ کارٹون تھا جس میں ایک شیر کو اس ہوٹل میں قید دکھایاگیا جہاں دونوں ٹیمیں رہائش پذیر تھیں اور وہاں ایک نوٹس لگا ہوا دکھایا گیا جس پر درج تھا کہ ’’یہ شیر اتنا خطرناک نہیں جتنا کہ نظر آتا ہے۔‘‘
1987ء کی جیت سے پاکستان کی انگلینڈ پر ایک دھاک بیٹھ گئی تھی اور 1992ء میں جاوید میانداد کی زیر قیادت پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف انگلینڈ میں 5 ٹیسٹ کی سیریز 1-2 سے جیتی، لیکن 2006ء میں انضمام کی قیادت میں انگلینڈ جانے والی ٹیم 4 ٹیسٹ کی سیریز 3-0 سے ہاری۔ یہ سیریز تنازعات کا شکار ہوگئی اور پاکستانی کھلاڑیوں کا مجموعی رویہ بھی قابلِ اعتراض رہا، اور 2010ء میں سلمان بٹ کی کپتانی میں انگلینڈ جانے والی ٹیم نہ صرف 3-1 سے ہاری بلکہ سلمان بٹ، عامر اور آصف پر لگنے والے میچ فکسنگ کے الزامات اور ان کو ہونے والی سزا پاکستانی کرکٹ کا بدترین اور سیاہ باب بن گئے۔ پاکستان نے 2016ء میں مصباح الحق کی قیادت میں 4 ٹیسٹ کی سیریز 2-2 سے برابر کرکے کچھ آنسو پونچھے تھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سرفراز احمد کی قیادت میں نوجوان کرکٹرز پر مشتمل ٹیم کیا کرتی ہے۔

حصہ