اپنا کاروبار

449

زاہد عباس

کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک جام ہونا نئی بات نہیں۔ اُس روز بھی سڑکوں کی کچھ ایسی ہی صورت حال تھی جب گاڑیوں کے رش کو چیرتے ہوئے میرے قریب آنے والی خاتون نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا: ’’سنیے مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے؟‘‘
’’فرمائیے کیا بات ہے۔‘‘
’’بات دراصل یہ ہے کہ میرے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں، بچے بھوکے ہیں، میری مدد کریں۔‘‘
چہرے پر میک اپ اور صاف ستھرے کپڑے پہنی اس خاتون کو دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ یہ ضرورت مند سے زیادہ ڈرامے باز ہے۔ میری جانب سے معذرت طلب کرتے ہی وہ دوسری جانب چلی گئی۔ شاید وہ دن میرے لیے معافیاں طلب کرنے کے لیے ہی طلوع ہوا تھا۔ لگ بھگ ایک گھنٹہ ٹریفک جام میں پھنسے رہنے کے بعد میں اپنی منزل کی جانب چلا ہی تھا کہ یک دم گداگروں کی تازہ دم ٹولی نے مجھ پر جیسے حملہ کردیا۔ مجھے درجن بھر خواتین اور بچوں نے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ میں سڑک پر کھڑا کسی قطری شہزادے سے کم نہ تھا، کیوں کہ میں نے خود ماضی میں کراچی کی سڑکوں پر عرب سے آئے شہزادوں کو اسی طرح خیرات بانٹتے دیکھ رکھا تھا۔ میرے ساتھ ہونے والا واقعہ نیا نہیں، فرق صرف اتنا تھا کہ وہ بھکاریوں میں پیسے بانٹتے تھے اور میں اپنی جان چھڑانے کی کوشش کررہا تھا۔ گداگروں کا یہ انداز اُن کی تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی شخص کا گھیراؤ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کرتے ہیں، جس طرح شیروں کی کچھار میں آنے والا جانور اپنی جان سے جاتا ہے بالکل اسی طرح گداگروں کے جتھوں سے خیرات کے نام پر بھتہ دیے بغیر نکلنا کسی بھی شریف آدمی کے بس کی بات نہیں۔ خیر میں وہاں سے جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔
ہر شخص اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ رمضان المبارک کی آمد ہو، یا آنے والا کوئی تہوار۔۔۔ ملک بھر کی تمام اہم شاہراہوں، بازاروں اور محلوں میں اسی طرح کی صورتِ حال دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہمارے ملک، خاص طور پر کراچی میں گداگری پیشے سے زیادہ صنعت کا درجہ رکھتی ہے۔ جس طرح صنعتیں مختلف اقسام کی اشیاء تیار کرتی ہیں، اسی طرح گداگروں کے جتھے بھی مانگنے کے مختلف طریقوں پر عمل کرتے ہیں۔ مثلاً ان میں کیا کیا خصوصیات پائی جاتی ہیں، یا کتنے درجات ہوا کرتے ہیں، اس پر ایک نگاہ ڈال لیتے ہیں۔ میرے نزدیک گداگر یا بھکاری اچھے خاصے ماہرِ نفسیات ہوتے ہیں۔ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ کیسے انسانی جذبات پر حاوی ہوکر لوگوں سے پیسے نکلوائے جاتے ہیں۔ یہ صرف ماہر نفسیات ہی نہیں بلکہ ٹھیک ٹھاک اداکار بھی ہوتے ہیں۔ یہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے اور ہمدردیاں سمیٹنے کے وہ سارے گر جانتے ہیں جس سے انہیں خیرات مل سکے۔ ان کے نزدیک گداگری باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی سمیت ملک کے تمام ہی بڑے شہروں میں ان بھکاریوں کی یونین ہوتی ہے۔ بھکاری اپنے تمام کام اپنی یونین کے سربراہ کی مرضی سے سرانجام دیتے ہیں۔ شہر میں سربراہ کے کارندے ہر بھکاری پر نظر رکھے ہوتے ہیں۔ نئے بھکاری کو کسی بھی شاہراہ، چوک یا چوراہے پر بھیک مانگنے سے پہلے یونین کے سرپنچ سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق لاکھوں پیشہ ور بھکاری مختلف شہروں میں باقاعدہ ایک منظم نیٹ ورک کے تحت ’’اپنا کاروبار‘‘ کررہے ہیں۔ بعض بھکاریوں نے تو اپنی اپنی مخصوص جگہوں تک پہنچنے کے لیے گاڑیوں کا انتظام بھی کیا ہوتا ہے، جو انہیں بآسانی متعلقہ مقامات تک چھوڑدیتی ہیں۔
گداگروں کی زبان میں ٹریفک سگنلز کو سونے کی چڑیا کہا جاتا ہے جہاں انہیں زیادہ مشقت نہیں اٹھانا پڑتی۔ ظاہر ہے جب بڑی بڑی گاڑیوں والے امیر لوگ خود ہی ٹریفک سگنل پر آجاتے ہوں، ایسی صورت میں ان سے پیسے نکلوانا قدرے آسان ہوتا ہے۔ سگنلز پر کئی قسم کے بھکاری جن میں معذور، خواجہ سرا، ہاتھوں میں دوائیوں کے پرچے لیے بزرگ، اور چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھائے مرد و خواتین شامل ہیں، موجود ہوتے ہیں۔ معصوم بچوں کو گود میں اٹھانا انسان کی نفسیات سے کھیلنے کا ایک ایسا طریقہ ہے جس سے عوام کی جیبوں سے زیادہ پیسے نکلوائے جاسکتے ہیں۔ بھکاریوں کی ایک قسم وہ مرد و خواتین ہوتے ہیں جن کی گود میں کوئی بچہ نہیں ہوتا لیکن یہ اس قدر ڈرامائی انداز سے بھیک مانگتے ہیں کہ پتھر دل بھی موم ہوجاتا ہے اور لوگ انہیں بھیک دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ بات بھی آپ کے مشاہدے میں ہوگی کہ بسوں میں بعض ایسے حضرات بھی چڑھتے ہیں جن کے ہاتھ میں کسی مدرسے یا مسجد کی رسید بُک، سر پر ٹوپی یا رومال ہوتا ہے، وہ بس میں چڑھتے ہی بتانا شروع کرتے ہیں کہ فلاں مدرسہ زیر تعمیر ہے، مسجد کو اتنے پیسوں کی ضرورت ہے، اتنے لاکھ کا سریا، اتنے لاکھ کا سیمنٹ اور اتنے کی فلاں اور اتنے کی فلاں چیز چاہیے، آپ حضرات حسبِ توفیق دے کر صدقۂ جاریہ میں شریک ہوجائیں۔ ان میں سے اکثر حضرات پیسے لے کر بہت ہی کم پیسے مسجد و مدرسے کو دیتے ہیں، باقی اپنے پاس رکھتے ہیں۔ انہوں نے مدرسہ اور مسجد انتظامیہ کے ساتھ کمیشن طے کیا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک مشہور و معروف قسم اُن بھکاری خواتین و حضرات کی ہوتی ہے جو عرصۂ دراز سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے کرایہ مانگ رہے ہوتے ہیں۔ ان کو اگر یہ کہا جائے کہ میں خود کنڈیکٹر کو کرایہ دے دیتا ہوں تو اس پر راضی نہیں ہوتے، بلکہ اپنے ہاتھ میں پیسے لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بعض خواتین دودھ کی دکانوں کے باہر کھڑی بچوں کے لیے ایک کلو دودھ کا تقاضا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اگر کوئی ان پر ترس کھا کر ایک کلو دودھ دلادے تو اگلے ہی لمحے وہ دکان دارکو دودھ واپس کرکے پیسے لے لیا کرتی ہیں۔
بس اسٹاپوں پر بھکاریوں کی اقسام میں ایک قسم ایسی ہے جو بتاتے ہیں کہ میری جیب کٹ گئی ہے، لہٰذا گھر کال کرنے کے لیے اپنا موبائل فون کچھ دیر کے لیے عنایت کردیں، یا اتنے پسے دے دیں۔
بھکاریوں کی ایک قسم ایسی بھی ہوتی ہے جو بظاہر بڑے صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں پڑھے لکھے اور معتبر نظر آنے والے یہ بھکاری کسی دکان، مسجد یا بازار میں جاکر کہتے ہیں کہ ہم فلاں شہر سے کسی کام کی غرض سے کراچی آئے تھے، کسی نے ہمارے سارے پیسے چرا لیے ہیں۔ ایسے لوگ خواتین کو بھی اپنے ساتھ لیے ہوتے ہیں تاکہ عوام کے سامنے ایک متاثرہ خاندان ہونے کا یقین دلایا جاسکے۔
پیشہ ور گداگروں کو اُن کے ’’سرپنچ‘‘ خاص قسم کی ٹریننگ دیتے ہیں۔ بھکاریوں کو چند ایسے مخصوص التجائی فقرے اور جملے یاد کروائے جاتے ہیں، جن سے معصومیت و مسکینی ٹپکتی ہے اور سننے والوں کے دل میں ان سے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، اور وہ بادل نخواستہ تندرست وتوانا بھکاریوں کی مالی مدد کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ نوجوان گداگر لڑکیاں بالعموم غیر مناسب لباس پہنے چھوٹے چھوٹے ننگے بدن بچوں کو بغل میں دبائے مردوں کے دائیں بائیں چکر لگاتی رہتی ہیں۔ کبھی ان کا دامن، آستین اور ہاتھ پکڑ لیتی ہیں، نازیبا اشارے کرتی ہیں اور جب تک خیرات نہ مل جائے، پیچھا نہیں چھوڑتیں، یا یوں کہیے لوگ اپنی عزت کی خاطر خیرات دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
گداگروں کی سب سے مشہور قسم ’’شاہ دولہ کے چوہے‘‘ کہلاتی ہے، جن کے سر چھوٹے ہوتے ہیں، یہ عموماً سبز رنگ کا چوغہ پہنے ہوتے ہیں، جبکہ اِن کے ساتھ ایک اور فرد جو کہ بالکل نارمل ہوتا ہے اپنی زیر نگرانی ان سے بھیک منگوا رہا ہوتا ہے۔ کچھ والدین کم علمی یا کمزور عقیدے کے سبب اپنے بچوں کو بطورِ عقیدت مزار پر موجود بھکاری مافیا کے حوالے کردیتے ہیں، وہ ایسے بچوں کے سروں پر ایک مخصوص ٹوپی نما شکنجہ (لوہے کی ٹوپیاں) چڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ان کے سروں کی نشوونما رک جاتی ہے بلکہ ان کی دماغی اور جسمانی صلاحیت بھی کم ہوجاتی ہے، اور پھر یہ بچے رفتہ رفتہ ذہنی طور پر معذور ہوجاتے ہیں۔ اب ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد بھیک مانگنا، کھانا اور پھر بھیک مانگنا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہتے اور نہ ہی زندگی کی بھاگ دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں۔ پاکستان میں بھکاری مافیا شاہ دولہ کے چوہوں کا استحصال کرتے ہوئے نہ صرف ان سے شہر شہر، گاؤں گاؤں بھیک منگواتی ہے بلکہ پیشہ ور بھکاری اِن چوہوں کو ماہانہ ٹھیکوں پر بھی لے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا باقاعدہ کنٹریکٹ ہوتا ہے اور پھر جب کنٹریکٹ کی مدت ختم ہوجاتی ہے تو انہیں واپس دربار پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
قارئین! بھکاریوں کی مختلف اقسام پر نگاہ ڈالنے کے بعد بے حد ضروری ہے کہ ہم ایسے لوگوں کے بارے میں احادیث میں آنے والے احکامات کا بھی بغور مطالعہ کرلیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سوالی جو ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اُس کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو منبر پر صدقہ اور سوال سے بچنے کے لیے خطبہ دے رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ اوپر والے ہاتھ سے مراد خرچ کرنے والا، اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر سوال کیا۔ آپؐ نے اس سے پوچھا ’’تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے؟‘‘ وہ کہنے لگا ’’ہاں ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا ’’یہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آو‘�ؤ۔ وہ لے آیا تو آپؐ نے ان کو ہاتھ میں لے کر فرمایا ’’کون ان دونوں چیزوں کو خریدتا ہے؟‘‘ ایک آدمی نے کہا ’’میں ایک درہم میں لیتا ہوں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا ’’ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟‘‘ اور آپؐ نے یہ بات دو تین بار دہرائی تو ایک آدمی کہنے لگا ’’میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں‘‘۔ آپؐ نے دو درہم لے کر وہ چیزیں اس آدمی کو دے دیں۔
اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری کو ایک درہم دے کر فرمایا ’’اس سے گھر والوں کے لیے کھانا خریدو اور دوسرے درہم سے کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ‘‘۔ جب وہ کلہاڑی لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے اس میں لکڑی کا دستہ ٹھونکا، پھر اسے فرمایا ’’جاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر یہاں لاکر بیچا کرو اور پندرہ دن بعد میرے پاس آنا۔‘‘
پندرہ دن میں اس شخص نے دس درہم کمائے۔ چند درہموں کا کپڑا خریدا اور چند کا کھانا، اور آسودہ حال ہوگیا۔ پندرہ دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ تیرے لیے اس چیز سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال کرنے کی وجہ سے تیرے چہرے پر برا نشان ہو۔‘‘
اب دیکھیے کہ جس شخص کے گھر کا اثاثہ ایک ٹاٹ اور پیالہ ہو، کیا اُس کے محتاج ہونے میں کچھ شک رہ جاتا ہے؟ لیکن چونکہ وہ معذور نہیں بلکہ قوی اور کمانے کے قابل تھا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کچھ دینے کے بجائے دوسری راہ تجویز فرمائی، پھر اسے عزتِ نفس کا سبق دے کر کسبِ حلال اور محنت کی عظمت و اہمیت بتلائی، جس سے وہ چند دنوں میں آسودہ حال ہوگیا۔ یہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اندازِ تربیت و تزکیہ نفس۔
اس کے علاوہ بھی متعدد احادیث بھکاریوں کے لیے آئی ہیں۔ احادیث کی روشنی میں جس طرح بھیک مانگنا درست نہیں اسی طرح ان پیشہ ور بھکاریوں کو بھیک دینا بھی درست نہیں۔ بھیک مانگنا انتہائی گھٹیا حرکت ہے، اور اُن لوگوں کے لیے تو بالکل ہی ڈوب مرنے کا مقام ہے جنہوں نے اس کو باقاعدہ ایک منافع بخش کاروبار بنا رکھا ہے۔ (جاری ہے)

حصہ