شریک مطالعہ

1155

نعیم الرحمن

سلمیٰ اعوان اردوکی ہمہ جہت مصنفہ ہیں۔ وہ نصف صدی سے ناول، افسانے، سفرنامے اورکالم تحریرکررہی ہیں۔ ادب کی یہ تمام اصناف ان کے قلم کی جولانیوں کے روشن حوالے ہیں، جن میں وہ اپنے منفرد اسلوب کے ذریعے قارئین کو خوش گوار حیرت اور تازہ علم سے مالامال کرتی ہیں۔ سلمیٰ اعوان کی تحریروں میں المیۂ مشرقی پاکستان پر زندۂ جاوید ناول ’’تنہا‘‘، فلسطین کے حقائق سے قاری کو روشناس کرانے والا ناول ’’لہو رنگ فلسطین‘‘، 1965ء کی جنگ کے پس منظر میں ناول ’’ثاقب‘‘، اس کے علاوہ ’’گھروندا اک ریت کا‘‘، ’’زرغونہ‘‘ اور ’’شیبہ‘‘، افسانوی مجموعوں میں ’’بیچ بچولن‘‘، ’’کہانیاں دنیا کی‘‘، ’’خوابوں کے رنگ‘‘، ’’برف میں دھنسی عورت کچھ کہتی ہے‘‘ اور’’ذرا سنو تو فسانہ میرا‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے خوب صورت سفرناموں ’’سندر چترال‘‘، ’’میرا گلگت وہنزہ‘‘ اور ’’یہ میرا بلتستان‘‘ کے ذریعے قارئین کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے حُسن اور دل کشی سے متعارف کرایا۔
سلمیٰ اعوان کے بین الاقوامی سفرناموں میں ’’مصر میرا خواب‘‘، ’’روس کی ایک جھلک‘‘، ’’عراق! اشک بار ہیں ہم‘‘، ’’استنبول کہ عالم میں منتخب‘‘، ’’سیلون کے ساحل، ہند کے میدان‘‘ اور ’’اٹلی ہے دیکھنے کی چیز‘‘ شامل ہیں، اور قارئین کو ان تمام ملکوں کی ثقافت، تاریخ، تہذیب اور خوب صورتیوں سے آشنا کرتے ہیں۔ ان کے کالموں کا مجموعہ ’’باتیں دنیا اور دل کی‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ سلمیٰ اعوان کی کتاب ’’عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں‘‘ جو دنیا کی متنوع علمی اور ادبی شخصیات کو اردو قاری سے متعارف کراتی ہے اور قاری کی امید کی لَو کو روشن کرتی ہے، جس کی ضرورت آج ہر انسان کو ہے۔
کتاب میں سلمیٰ اعوان نے ماضی و حال کی 16 بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیات کے بارے میں تاثراتی مضامین پیش کیے ہیں جن کا آغاز شام اور دنیائے عرب کی طاقت ور، توانا، انقلابی، سیاسی اور رومانوی آواز ’’نزار قبانی‘‘ اور شام ہی کی حساس، منفرد اور نئی سوچ کی حامل شاعرہ، کہانی نویس اور ترجمہ نگار ’’مونا عمیدی‘‘ سے کیا ہے۔ شام کی موجودہ کشیدہ صورت حال، انسانوں کی بے بسی اور حکمرانوں کی بے حسی کے پس منظر میں شام کی ان دو توانا آوازوں کے بارے میں قاری کے علم میں ہی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور بھی ہوجاتا ہے۔ شام کی ثقافت اور تہذیب سے شناسائی اور اس کے مٹنے کا غم بھی بڑھ جاتا ہے۔ نزار قبانی کی تمام کتب کو مصری حکومت نے بین کردیا تھا۔ وہ تمام نظمیں، جو اُمِ کلثوم نے گائی تھیں، جلا دی گئیں، شاعرکے مصر میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ مگر شاعر کو کچھ پروا نہیں تھی۔ وہ نشتر چلانے کے ساتھ مایوس لوگوں کے زخموں پر پھاہے رکھ رہا تھا۔ آج یہ پابندیاں لگانے والا جمال عبدالناصر کہاں ہے اور نزار قبانی کا کیا مقام ہے۔
امریکی ماں اور شامی باپ کے گھر 1962ء میں دمشق میں پیدا ہونے والی مونا عمیدی کے بارے میں بھی بہت کچھ جاننے کا موقع اس کتاب سے ملتا ہے۔
اگلی چار شخصیات روسی ادب سے متعلق ہیں جن میں نوبیل انعام یافتہ ناول نگار، شاعر، موسیقار اور ترجمہ نگار ’’بورس پاسترک‘‘، روس کا قومی شاعر’’الیگزینڈر سر گیووچ پشکن‘‘، روسی ادب کی بلند قامت ہستی ’’لیوٹالسٹائی اور صوفیہ ٹالسٹائی‘‘، روس کا عظیم ناول نگار ’’دوستووسکی اور اینا دوستو وسکی‘‘ شامل ہیں۔ ڈاکٹر ژواگو جیسے شہرۂ آفاق ناول کے خالق بورس پاسترک کے بارے میں کچھ نئے گوشے سامنے آئے۔ کمیونسٹ حکومت نے اس کی شاعری کو زندہ در گور کردیا۔ کمیونسٹ انقلاب میں ’’منزل اُنہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے‘‘ لیکن پاسترک آج بھی زندہ ہے۔ انیسویں صدی کے عظیم روسی شاعر اور نثر نگار پشکن پر سلمیٰ اعوان کے مضمون کا بھی جواب نہیں ہے۔ ایک ڈوئل میں پشکن شدید زخمی ہوا۔ پورا پیٹرزبرگ اس کے گھر پر ٹوٹ پڑا تھا۔ لوگ مشتعل تھے۔ گلیوں اور سڑکوں پر ماتم کی کیفیت تھی۔ اس کی موت کی خبردو دن تک چھپائی گئی۔ پھر بھی ہجوم اتنا بپھرا ہوا تھا کہ اس کی تدفین آدھی رات کو اس کی ماں کے پہلو میں کی گئی۔
’’جنگ اور امن‘‘ اور ’’اینا کرینیا‘‘ جیسے ناولوں کے خالق لیو ٹالسٹائی اور صوفیہ ٹالسٹائی پر مضمون بھی قابلِ داد ہے۔ سلمیٰ اعوان کا روس کے سفر میں ان ادیبوں کی یادگاروں پر جانا، ان کا بیان قاری کو تحریر سے جوڑ دیتا ہے۔ 82 سالہ ٹالسٹائی کی دور افتادہ ریلوے اسٹیشن پرگم نامی کی موت کا ذکر مصنفہ کے ساتھ پڑھنے والے کی آنکھیں بھی نم کردیتا ہے۔
دوستو وسکی ہر دورکا عظیم ناول نگار ہے۔ ادب کا کون سا قاری ہوگا جس نے دوستو وسکی کو نہ پڑھا ہو! اومسک جیل میں چار سال قیدِ بامشقت نے اسے اتنی تکلیف نہیں دی جتنی قلم کاغذ اس سے چھننے پر ہوئی۔ اس نے کہا کہ ’’اگر مجھے لکھنے نہ دیا گیا تو میں مر جاؤں گا۔ کاغذ اور قلم کے ساتھ پندرہ برس کی جیل بھی بہ خوشی کاٹنے کو تیار ہوں‘‘۔ جیل کی بیرکوں میں یہ چار سال اس نے چوروں، ڈاکوؤں اور قاتلوں کے ساتھ گزارے۔ ان کرداروں میں جوگہرائی، توانائی اور خوب صورتی اس نے دیکھی تو وہ یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ’’یہ تو بدصورت سیپیوں میں بند وہ موتی ہیں جن کی دریافت میں نہ مجھے اپنے برسوں کے ضائع ہونے کا، اور نہ کاغذ قلم چھن جانے کا دکھ ہوا۔ میں نے ان حیرت انگیز لوگوں کو باریک بینی اور سچائی سے پڑھنے اور ان کے کرداروں کی بے شمار جہتوں کو پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ میرے لیے بہت بڑا اثاثہ ہے۔ میں روس کو نہیں روسی لوگوں کو ضرور جان گیا ہوں۔‘‘
مولانا جلال الدین رومیؒ کے بارے میں مضمون ’’ترکی کا ہیرا‘‘ کتاب کا حاصل ہے۔ مثنوی معنوی کے نام سے دنیا بھر میں مشہور ’’مثنوی مولانا روم‘‘ کے عظیم خالق اور شمس تبریزیؒ جیسے مجذوب کے ان کی زندگی میں داخلے نے ان کی زندگی پر کیا اثر ڈالا۔ ترقی کا رقصِِ درویشاں دراصل کیا ہے۔ مولانا رومی نے تلاش کرنے والوں کو دل کی خوب صورتی، سچ کی خوب صورتی اور انسانیت کی خوب صورتی کی نوید دی۔ دل کو چھولینے والی تحریر ہے۔
دیگر مضامین میں ترکی کا محبوب شاعر ’’یونس ایمرے‘‘، برصغیر کا نوبیل انعام یافتہ شاعر، موسیقار اور ڈراما نگار ’’رابندر ناتھ ٹیگور‘‘، سری لنکا کا شاعر، موسیقار اور براڈ کاسٹر ’’کرو نیرتن ابی سکارا‘‘، عراق کا مایہ ناز انقلابی شاعر ’’سعدی یوسف‘‘، عراق کا عظیم کلاسیکی شاعر ’’ابو نواس‘‘، عظیم مصنف، دلیر سیاح اور بانی عراق ’’جرٹروڈبیل‘‘، روم کا عظیم شاعر ’’کیٹس‘‘، اٹلی کا پہلا نوبیل ایوارڈ یافتہ شاعر، نثر نگار اور تنقید نگار گوزیو کاردوسی، اور فلسطین کے انسانیت کا پیغمبر کہلانے والے ’’محمود درویش‘‘ پر مضامین بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
’’عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں‘‘ ایسی کتاب ہے جسے ہر باذوق قاری کے پاس ہونا چاہیے۔
۔۔۔*۔۔۔
احسن سلیم کا لگایا ہوا ادب کا پودا ’’اجرا‘‘ اُن کے بعد بھی پوری آب وتاب سے جلوہ گر ہے۔ یہ بات ادبی جرائد کے شائقین کے لیے خوش خبری سے کم نہیں۔ احسن سلیم باقاعدگی سے سہ ماہی کتابی سلسلہ ’’اجرا‘‘ شائع کرتے رہے۔ ہر تین ماہ بعد نیا شمارہ منظر عام پر آجاتا تھا اور حیران کن طور پر اس کا معیار بھی ہر شمارے میں خوب سے خوب تر کی جانب گامزن رہا۔ اجرا کے سرپرست شاہین نیازی نے احسن سلیم مرحوم کے لگائے اس پودے کو ان کے ساتھ دَم توڑنے نہ دیا، جیسا کہ عموماً ادبی جرائد کے ساتھ ہوتا ہے۔ نوجوان اقبال خورشید کو ’’اجرا‘‘ کی ذمے داری سونپی گئی۔ اقبال خورشید کی زیر ادارت چوبیس واں شمارہ تو تقریباً احسن سلیم ہی کا تیار کردہ تھا لیکن پرچے کا سلور جوبلی نمبر اقبال خورشید کا حقیقی امتحان تھا جو انہوں نے بہ خوبی امتیازی نمبروں سے پاس کیا ہے، البتہ فی الحال پرچے کی باقاعدگی متاثر ہوئی ہے۔ امید ہے کہ وقت کے ساتھ اشاعت میں باقاعدگی بھی آجائے گی۔
سلور جوبلی نمبرکے اہم مضامین کی جھلک سرورق پر ہی دی گئی ہے۔ یہ اچھا انداز ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کا انتظار حسین کے بارے میں مضمون ’’اب مرا انتظار کر‘‘، اور بازی گر کے خالق اور مدیر ’’سب رنگ ڈائجسٹ‘‘ شکیل عادل زادہ کا طویل انٹرویو اس شمارے کی جان ہیں۔ تارڑ صاحب کی تحریر پرکچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے جیسا ہے۔ شکیل صاحب نے انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے سب رنگ کا ڈیکلریشن ’’خلیل احمد نون‘‘ کے نام کردیا جو 2017ء کے اختتام تک اس کا احیاء کررہے ہیں۔ لیکن ’’سب رنگ‘‘ اب تک نہیں آسکا۔ ’’بازی گر‘‘ کی سیریل کی بھی نوید دی جس کاانتظار رہے گا۔
موضوعِ سخن کے نام سے ’’فلسفۂ زیست، ساختیات اور علم‘‘ کے موضوع پر قیصر عالم اور ’’مکاں اور زماں‘‘ کے عنوان سے ذکی احمد کے مضامین بہت عمدہ ہیں۔ تراجم میں باقر نقوی کا کلیئر ریڈ اوے کا ’’نیا مذہب‘‘ اور آئزک عمر کا ایڈگر ایلن پو کا ترجمہ ’’زندہ تصویر‘‘ اپنی مثال آپ ہیں۔ دیگر تراجم کے لیے انور سن رائے اور سلیم صدیقی کے نام ہی کافی ہیں۔ انور سن رائے نے محمود درویش اور سلیم صدیقی نے گیبرئیل گارشیا مارکیز کے تراجم کیے ہیں۔
’’فلک آثار‘‘ کے زیر عنوان نظموں اور ہائیکو کا اچھا انتخاب پرچے میں شامل ہے۔ شہاب الدین شہاب کے ہائیکوز متاثر کن ہیں۔
جھیل ہے یخ بستہ
کھوج رہا ہے اک بگلہ
مچھلی تک رستہ
*
اک آوارہ شام
ساحل، ٹھنڈی ریت ، ہوا
یاد آتا اک نام
’’نافۂ نایاب‘‘ میں عرفان جاوید کا طویل خاکہ ’’اندر کا آدمی‘‘ کا جواب نہیں۔ محمد غالب نشتر ’’تشدد کا ادب اور رشید امجد کا فنی طریق کار‘‘، قیصر نجفی ’’عصری حسیت کا شاعر عارف شفیق‘‘، اور عمر فرحت ’’جوگندر پال کی افسانوی دنیا‘‘ لے کر آئے ہیں۔
’’خرد افروزیاں‘‘ میں ڈاکٹر ذکیہ رانی کا مضمون ’’اردو تنقید: ماضی، حال اور مستقبل‘‘ عمدہ تحریر ہے۔ حصہ غزل میں روحی کنجاہی، سلیم کوثر، انور شعور، صابر ظفر اور عباس رضوی جیسے اساتذہ کے دوش بہ دوش کئی نئے شعرا بھی اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں کامیاب ہیں۔
افسانوں کے حصے کو ’’داستان سرا‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ 100صفحات کے افسانوی گوشے میں 20 افسانے شامل ہیں جن میں رشید امجد، سلیم اختر، سمیع آہوجا، محمود احمد قاضی، مشرف ذوقی اور عذرا اصغر کے ساتھ مریم تسلیم کیانی، احمد راشد جاوید، محمد ہاشم خان، بشریٰ شیریں، اسرار شاکر، حمزہ احسن شیخ کوبھی شامل کیا گیا ہے۔ ہر افسانے پر الگ الگ تجزیہ کرنا دشوار ہے۔
غرض ’’اجرا‘‘ کا سلور جوبلی نمبرگوناگوں ادبی تحریروں کا گلدستہ ہے۔ اقبال خورشید نے پرچے کے معیارکو قائم رکھ کر بڑا چیلنج قبول کیا ہے۔ اسے آئندہ برقرار بھی رکھنا ہوگا اور’’اجرا‘‘ کی اشاعت میں باقاعدگی بھی لانا ہوگی۔

حصہ