مہذب معاشرے کی پہچان ادب سے ہے

2411

پروفیسر سحر انصاری

دانش کدہ راشد نارتھ ناظم آباد کراچی ادبی حوالوں سے بھی اپنی شناخت رکھتا ہے کہ یہاں شعر و سخن کی محفلیں سجائی جاتی ہیں‘ مذاکرے ہوتے ہیں اور ادبی لیکچرز بھی۔ گزشتہ ہفتے یہاں تنظیم اساتذہ اردو سندھ (تاس) کے زیر اہتمام ’’سائنسی عہد میں ادب کی اہمیت‘‘ کے موضوع پر سحر انصاری نے اپنا مقالہ پیش کیا جس میں انہوں نے کہا کہ آج کا زمانہ سائنس و ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔ انسان بہت تیزی سے سائنسی ایجادات کر رہا ہے‘ نئے نئے تجربات ہو رہے ہیں‘ دنیا ایک گلوبل ویلج بن گئی ہے۔ سائنس کے تین پہلو ہیں نمبر 1 سائنس کا فلسفیانہ انداز‘ نمبر 2 سائنس کا قیاسی رُخ اور نمبر 3 سائنس کا عملی اظہار۔ روزِاوّل ہی سے انسان نے اپنے اردگرد کے ماحول سے نتائج اخذ کرنے شروع کردیے تھے اس نے اپنی عقل و شعور سے کام لیا اور اسباب و علل پرغور کیا۔ سائنس کی ایجادات میں ’’پہیہ‘‘ اوّل ایجاد ہے لیکن اس ایجاد تک پہنچنے میں انسان کو ہزاروں سال لگے۔ اس کی تلاش اور جستجو نے انسان پر نئے نئے انکشاف کے دروازے کھولے اور جدید ترین ایجادات اور دریافت تک پہنچا دیا۔ آج کا انسان خلا میں پہنچ گیا ہے‘ سائنسی ایجادات میں مسلمانوں کا حصہ بھی ہے ابن الہشیم‘ ابن رشد‘ جابر بن حیان اور دیگر مسلمان سائنس دانوں نے اس دنیا کو نئی سائنسی ترقیوں سے آشنا کیا یہ ساری تفصیلات کتابوں میں درج ہیں اس کے ساتھ ساتھ ہر زمانے میں شعرا اور ادیبوں کے تذکرے بھی ملتے ہیں کہ انہوں نے سائنسی عنوانات پر بھی قلم اٹھایا۔ ہر مہذب معاشرے کی پہچان ادب سے مشروط ہے۔ ہر قلم کار اپنے معاشرے کا سفیر ہوتا ہے۔ فنونِ لطیفہ میں شاعری کو خصوصی اہمیت حاصل ہے انسان اور حیوان کے درمیان ادب حدِ فاصل ہے۔ شعر و ادب کے مثبت تاثرات کو تسلیم کرتے ہوئے ہم ادب اور سائنس کی افادیت سے انکار نہیں کرسکتے۔ صرف مشینوں کے ساتھ زندگی گزارنا انسانی اقدار کی پامالی ہے۔ اردو شاعری میں غالب اور اقبال کے ہاں سائنسی شعور پایا جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کو جدید علوم سیکھنے کی ترغیب دی ہے۔ تنظیم کے صدر پروفیسر ہارون رشید نے کہا کہ ہماری تنظیم نے فیصلہ کیا ہے کہ اردو کے اساتذہ کے ساتھ دور جدید میں ادب کے مسائل پر بات کی جائے لیکن ادب اور سائنس کو بھی موضوع بحث بنایا جائے۔ آج کی نوجوان نسل سائنسی فکر میں ہم سے آگے ہے‘ ہمیں اپنے مستقبل کے معماروں میں ادب کی اہمیت بھی اجاگر کرنی ہے۔ پروفیسر قدیر غوری نے کہا کہ ادب کے موضوعات یقیناًسائنس دانوں کے لیے فکر انگیز رہے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ داستان گوئی کی صنف میں اڑنن قالین اور اوڑن کھٹولے کا تذکرہ صرف خیالی نہیں تھا آج ہم اس کی عملی صورت میں ہوائی جہاز دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے کہا کہ ہم سائنس و ٹیکنالوج کے دور میں سانس لے رہے ہیں جس نے ہماری زندگی کے روّیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ سائنس ابتدا ہی سے انسان کے مشاہدات‘ تجربات اور مطالبات کی مرہون منت رہی اور یہی عناصر ادب کے لیے بھی مواد‘ موضوع اور اظہار کا جواز ٹھہرے۔ شعر و ادب نے علم و آگہی کے طلب گاروں کو بہت کچھ عطا کیا۔ موجودہ سائنسی عہد میں آسائشِ زندگی میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن دوسری طرف ایٹمی و کیمیاوی ہتھیاروں نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ہمیں شعر و ادب سے ایسی دنیا تعمیر کرنی ہے جہاں نیو کلیربم‘ بارودی سرنگیں‘ بارود کی بارش اور فضائی آلودگی نہ ہو‘ ہمیں ادب کے ذریعے ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں امن و امان ہو۔ پروفیسر سمیرا نفیس نے کہا کہ ادب اور سائنس کی سرحدیں ملتی ہیں جب ہم اقبال اور غالب کو پڑھتے ہیں تو ہمیں سائنسی فکر نظر آتی ہے ادب نے سائنس کو مختلف موضوعات دیے ہیں ہمیں ادب میں بھی سائنس کے جدید افکار کو شامل کرنا چاہیے۔ افشاں یاسمین نے کہا کہ آج کا طالب علم ہم سے سوال کرتا ہے کہ ہم سائنسی دور میں ادب کیوں پڑھیں؟ تو میں ان سے کہتی ہوں کہ ہم آپ کو مشینی آدمی نہیں بنانا چاہتے‘ احساس انسانیت کو زندہ رکھنے کے لیے ادب کا مطالعہ ضروری ہے ورنہ ہم بے حس ہو جائیں گے۔ ادب دلی اور روحانی مسرت و خوشی پیدا کرتا ہے‘ ہماری تہذیبی اقدار کا احاطہ کرتا ہے۔ جو معاشرہ قلم کاروں کو نظر انداز کرتا ہے وہ مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔

صدر علی انشا کے شعری مجموعے کی تعارفی تقریب

ڈاکٹر نثار احمد نثار

طنزو مزاح گو شاعر‘ صحافی اور ماہر تعلیم پروفیسر صفدر علی انشا کے پہلے مزاحیہ شعری مجموعہ ’’آبیل‘‘ کی تقریب اجرا پاکستان امریکن کلچرل سینٹر کراچی میں منعقد ہوئی جس کی صدارت پروفیسر منظر ایوبی نے کی۔ مہمان خصوصی مسلم شمیم ایڈووکیٹ اور تقریب کے میزبان پروفیسر ہارون رشید تھے جنہوں نے کہا کہ پی اے سی سی میں ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ شام منانے کا سلسلہ بہت عرصے سے جاری ہے ہم نے مشتاق احمد یوسفی‘ ڈاکٹر جمیل جالبی‘ سحر انصاری‘ پروین شاکر‘ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ انور شعور کے ساتھ محفلیں سجائی ہیں اسی تناظر میں آج ہم معروف مزاح نگار صفدر علی انشا کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں تاکہ ان کے فن اور شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صفدر علی انشا فطری مزاح نگار ہیں۔ ان کی شاعری میں ابتذال پھکڑ پن نہیں ہے۔ ان کے ہاں تہذیب و اخلاق ہے یہ بڑے سے بڑے مسئلہ کو جدید لفظیات میں ڈھال کر شاعری بناتے ہیں۔ انہوں نے سیاسی اور معاشرتی صورت حال پر بھی قلم اٹھایا ہے‘ معاشرے کے روّیوں پر لکھا ہے انہوں نے قطعات‘ غزل‘ نظم اور دیگر اصنافِ سخن میں بھی مزاح کے جوہر دکھائے ہیں یہ ایک حساس انسان ہیں وقت و حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں‘ سماجی و سیاسی واقعات کو نظر انداز نہیں کرتے بلکہ اپنے قلم سے نشتر کا کام لیتے ہیں اصلاح معاشرہ ان کی شاعری کا محور ہے بحیثیت ماہر تعلیم صفدر علی انشا طویل عرصے سے جہالت کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ ارشد ندیم نے کہا کہ مزاح نگاری میں ایک اہم نام صفدر علی انشا کا ہے جو کہ اس دورِ پُر آشوب میں لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر رہے ہیں۔ ان کا اندازِ بیاں بہت دل فریب ہے‘ سہل ممتنع میں اشعار کہتے ہیں‘ ان کی شاعری ہمارے ذہن و دل پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے زندگی کے مسائل پر کھل کر شاعری کر رہے ہیں۔ جمال احمد جمال نے صفدر علی انشا کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے کہا کہ ’’آبیل‘‘ کا سرورق جاذبِ نظر بھی ہے اور معنی خیز بھی‘ ان کا ادبی رسالہ انشا اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔ ان کی شاعری میں شگفتگی و شائستگی ہے یہ زبان و بیان کی باریکیوں سے واقف ہیں ان کی یہ کتاب زندگی کے بہت سے پہلوؤں کا منظر نامہ ہے ان کے ہاں روانی و سلاست پائی جاتی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ سچائیاں رقم کی ہیں۔ یہ معاشرے کے ٹھیکیداروں کو آئینہ دکھا رہے ہیں ان کی شاعری کے موضوعات زندگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ظہیر خان نے کہا کہ سنجیدہ بات کو مزاح کا رنگ دینا آسان کام نہیں ہے اور وہ بھی اس طرح کے لوگوں کو ناگوار نہ گزرے‘ صفدر علی انشا اس فن میں ماہر ہیں وہ سخت سے سخت بات بھی دل نشین پیرائے میں بیان کر دیتے ہیں‘ زمینی حقائق سے پردہ پوشی نہیں کرتے پاکستان کی سیاسی و معاشرتی حالات کو طنز و مزاح میں بیان کرتے ہیں اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے اصلاح کریں۔ صاحبِ اعزاز صفدر علی انشا نے کہا کہ وہ آج کی تقریب کے میزبانوں کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ان کے لیے یہ محفل سجائی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس وقت طنز و مزاح کے لکھاری ناپید ہوتے جارہے ہیں کیونکہ عام شاعری کے مقابلے میں مزاح نگاری مشکل کام ہے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے اشعار سنا کر خوب داد وصول کی۔ مہمان خصوصی مسلم شمیم نے کہا کہ صفدر علی انشا کی شاعری عصری صورت حال کا آئینہ دار ہے‘ یہ ہمیں ہمارے مسائل بھی بتا رہے ہیں ان کا حل بھی بیان کر رہے ہیں‘ یہ سماجی کرداروں پر چوٹ کرتے نظر آتے ہیں اربابِ وقت کو بھی نہیں بخشتے ان کے شعری محاسن ہمیں متوجہ کرتے ہیں۔ ان کے اشعار معاشرے کی تفہیم اور اس کے لیے مواد فراہم کر رہے ہیں ان کے ہاں مزاح کے ساتھ ساتھ دانش مندانہ فکر پائی جاتی ہے‘ ان کے قطعات‘ ان کی نظموں اور غزلوں میں گہرائی اور گیرائی پائی جاتی ہے۔ پروفیسر منظر ایوبی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مزاحیہ شاعری کا سلسلہ اکبر الٰہ آبادی سے شروع ہوتا ہے یہ سرسید کی تحریک کا ردِعمل تھا‘ وہ سرسید احمدخان کے مخالف نہیں تھے بلکہ انہیں اس بات کا غم تھا کہ مسلمانوں کی تہذیبی اقدار کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے اپنے اشعار کے ذریعے اپنے لوگوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا میں سمجھتا ہوں کہ صفدر علی انشا بھی ان کے نقشِقدم پر گامزن ہیں‘ وہ بھی معاشرتی برائیوں کے خلاف قلمی جہاد کر رہے ہیں‘ ان کے ہاں طنز لطیف ہے یہ خود نہیں ہنستے بلکہ دوسروں کو ہنساتے ہیں‘ ان کے اشعار میں نئے نئے استعارے اور محاورات برمحل استعمال ہوئے ہیں‘ ان کا شعری مجموعہ ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس آلودہ فضا میں ان کے اشعار ہمیں آکسیجن فراہم کر رہے ہیں۔ اس موقع پر نجم الدین شیخ نے پی اے سی سی کی جانب سے فدر علی انشا کو یادگاری شیلڈ اور مہمانوں کو گلدستے پیش کیے۔

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کا مذاکرہ اور مشاعرہ

18 اپریل کو اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے دفتر میں ’’ہمارا سماج اورعورت کا کردار‘‘ کے موضوع پر مذاکرہ ہوا۔ زیب النسا زیبی نے صدارت کی۔ پروفیسر رضیہ حکمت‘ طلعت آفتاب‘ ثریا وقار اور روزینہ جلال مہمانان خصوصی تھیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے نظامت کے فرائض انجام دیے اس موقع پر وقار ثریا نے کہا کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق کا تعین کر دیا ہے اس سے قبل صنف نازک کو عزت و احترام حاصل نہیں تھا‘ وہ معاشرتی ظلم و ستم کا شکار ہوتی تھیں۔ اسلام نے ماں کے قدموں تلے جنت قرار دے کر عورتوں کو محترم بنایا ہے‘ اگر ہم ان کے حقوق انہیں دے دیں تو ہم بہت سے مسائل سے بچ جائیں گے لیکن بدقسمتی سے ایسے معاشرے کا حصہ ہیں کہ جہاں مردوں کی اجارہ داری ہے حالانکہ اس دور کی عورت مردوں کی شانہ بشانہ کاروبارِ زندگی میں مصروف ہے۔ جب تک ہم عورتوں کو حقوق ادا نہیں کریں گے ہم ترقی یافتہ ممالک میں شامل نہیں ہوسکتے۔ روزینہ جلال نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عورتوں کو دورِ حاضر میں بہت سی سہولیات ندگی میسر ہیں لیکن مجموعی طور پر عورتوں کا استحصال ہو رہا ہے بحیثیت مسلمان قوم ہمیں عورتوں کو جائز مقام دینا ہوگا۔ طلعت آفتاب نے کہا کہ اسلام نے ہر شخص کے حقوق اور فرائض بتا دیے ہیں۔ اگر ہم اس سلسلے میں کوتاہی کریں گے تو معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔ قادر بخش سومرو نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سماج میں عورت کی زندگی ایک جوا ہے وہ کامیاب ہوگیا تو ٹھیک ورنہ زندگی بھر روتے رہو۔ اب خواتین زندگی کے بہت سے شعبوں میں کام کر رہی ہیں یعنی یہ زمانہ Wroking Women کا ہے۔ خواتین نے سیاسی اور سماجی شعبے میں نام کمایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فی زمانہ عورتوں پر ہونے والے کے خلاف عورتیں ہی آواز بلند کر رہی ہیں اور متعدد ادارے عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ خواتین قلم کاروں نے بھی ظلم و جبر کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے اگر ہم سماجی زندگی کا جائزہ لیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عورتوں کے بغیر ہمارا سماج ادھورا ہے۔ زیب النسا زیبی نے کہا کہ موجودہ معاشرہ بھی مردوں کا معاشرہ ہے۔ عورتوں کو اپنے حقوق کے لیے ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا‘ جیسے جیسے علم کی روشنی پھیلے گی انسان میں شعور اور آگہی آئے گی۔ امید ہے کہ مستقبل قریب میں معاشرہ بہتر ہو سکے گا۔ اس پروگرام کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں زیب النسا زیبی‘ پروفیسر رضیہ حکمت‘ روزینہ جلال‘ طلعت آفتاب‘ حمیرا گل‘ ثریا وقار‘ سید منیف اشعر‘ عرفان علی عابدی‘ نصیر سومرو‘ نجیب عمر آفتاب احمد خان‘ ساجدہ سلطانہ‘ عشرت حبیب ناہید عزمی‘ صغیر احمد جعفری‘ امت الحی وقار‘ تنویر حسین سخنور‘ شکیل وحید‘ عارف شیخ‘ شہناز احمد‘ سید مہتاب شاہ‘ محمد رفیق مغل‘ ڈاکٹر رحیم حمزہ‘ ظہیرالدین‘ سید اوسط علی جعفری‘ فرح دیبا‘ طاہر سلیم‘ فرح کلثوم‘ ذوالفقار ڈنسیائی‘ اقبال سیہوانی‘ وسیم احمد خان‘ دلشاد احمد دھلوی‘ اقبال افسر غوری‘ محمد انور آرائیں شامل تھے۔ آخر میں قادر بخش سومرو نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

حصہ