جھوٹ نہ بولنا کبھی

386

عظمیٰ گل
قمر صاحب کا آج آفس جانے کا بالکل موڈنہیں تھا اور اگر ان کی بیوی بچوں کو ان کی چھٹی کاعلم ہوجاتا تو بیوی شاپنگ پرجانے کا اصرار کرتیں اور بچے سکول نہ جاتے کہ ہم بھی آپ کے ساتھ چلیں گے۔
ابھی اس سوچ میں ہی تھے کہ ریحانہ بیگم اندر داخل ہوئی اورکہنے لگی کہ آپ ابھی تک نہیں اٹھے سواسات ہوگئے ہیں جلدی سے آئیں ناشتہ ٹھنڈا ہورہاہے۔
رہنے دو بیگم میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے قمرصاحب نڈھال سی آواز میں بولے ہائے ہائے کیا ہوا آپ کی طبعیت کو خرم مانیہ ادھر توآئیں ریحانہ بیگم گھبرا کراپنے دونوں بچوں کو پکارنے لگی تو وہ دونوں یونیفارم سکول کا پہنے ہوئے تھے۔
بھاگے بھاگے آئے کیاہوا ہے ممااور پاپا آ پ کیوں نہیں اٹھ رہے۔ خرم نے پوچھا بیٹا آپ کے پاپا کی طبعیت ٹھیک نہیں تو پھر ہم اسکول نہیں جائیں گے مانیہ بولی قمر صاحب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے نہیں نہیں بیٹا آپ اسکول جاؤ میں نے ابھی دوائی لی ہے اور پہلے سے بہترہوں مگر آپ نے تو ابھی ناشتہ بھی نہیں کیا۔
ریحانہ بیگم نے کہا کہیں آپ نے ناشتہ کیے بغیر تو دوائی نہیں لے لی۔ خرم نے پوچھا۔
نہیں بیٹا صبح جب واک کیلئے گیا تھا تو میں نے وہیں ریڑھی سے نان چنے کھالئے تھے۔ اومیرے خدایا آپ لوگوں کوباہر کی چیزیں کھانے منع کرتے ہیں اور آج آپ نے خود باہرسے کھایا ہے اس لئے آپ کی طبعیت خراب ہوئی ہے۔
ہمارے ساتھ والے ہمسائے نذیر صاحب نے بھی پرسوں ریڑھی سے ناشتہ کیا تھا جس کی وجہ سے ان کو ہیضہ ہوگیا ہے اور وہ ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئے۔ ہائے ہائے میں کیا کروں ریحانہ بیگم دونوں ہاتھ ملتے ہوئے کہنے لگیں۔
خرم اوخرم جلدی سے اپنی خالہ رافعہ کو فون کرکے بلاؤ۔
میں اکیلی جان کیسے ان کو ڈاکٹروں کے پاس لے کر جاؤں گی۔ قمر صاحب جو نڈھال سے بیڈپر لیٹے ہوئے تھے یہ سنتے ہی ہشاش بشاش ہوکر اٹھ بیٹھے کیونکہ ریحانہ بیگم کی یہ بڑی بہن جب بھی اپنے چھ سات بچوں کے ساتھ تشریف لاتی تو ان کا جینا حرام ہوجاتا۔
بچے تو آفت تھے ناہی فریج میں کوئی پھل چھوڑتے اور لگاتار گھر میں کئی دن گوشت پکتا اور ان کے پورے مہینے کا بجٹ خراب ہوجاتا۔ ریحانہ بیگم نے قمر صاحب کو ایک دم بیڈ سے اٹھ کریوں ٹھیک ٹھاک دیکھا تو بولیں۔ ارے آپ کھڑے کیوں ہوگئے ہیں؟ آپ آرام سے لیٹ جائیں۔
میںآ پ کے لیے سوپ بناکرلاتی ہوں سوپ نہیں میرے لئے ناشتہ لاؤ اور بچو اپنے بیگزمیں کاپیاں اور کتاب چیک کرلیں میںآ پ کی میڈم سے معذرت کرلوں گا آج ہم تھوڑا لیٹ ہوگئے ہیں اور بیگم آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں کہ کوکسی کوبلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں۔
پہلے قمر صاحب کاجی چاہا کہ بیگم اور بچوں کو سچ بتادوں لیکن اس سچ کا بچوں پر اثر نہ پڑجائے کہیں بچے ایسا کرنا شروع نہ کردے یہی سوچ کروہ چپ ہوگئے اور سارا راستہ ندامت کے مارے سوچتے رہے کہ واقعی بزرگوں نے سچ کہا ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کی خاطر انسان کو سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں اور سچ بولنا چاہا تو وہ میرے گلے میں ہی اٹک گیا۔
یااللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمااور سچ بولنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین۔
ادھر ریحانہ بیگم ناشتے کے برتن سمیٹتے ہوئے مسلسل بڑ بڑا رہی تھیں یااللہ ! کیسازمانہ آگیا ہے۔ لوگ مہمانوں کی آمد کاسنتے ہی گھروں سے باہر نکل جاتے ہیں۔
بیچاری میری آپا کانام سنتے ہی ایسے بیماری رفوچکر ہوئی۔ خود بھی فٹ سے تیار ہوکربچوں کو بائیک پربٹھا کر ایسے ہواؤں میں اڑا کر لے گئے گویا میری آپانہ ہوئیں کوئی اور ہی دنیا کی مخلوق ہوئیں جو سب کے سب آنا فانا غائب ہوگئے۔
نتیجہ بچو! یہ بات سچ ہے کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے۔ آپ کاکتنا بڑا نقصان ہی کیوں نہ ہوجائے لیکن ہمیشہ سچ بولو۔

دھوبی کی نادانی

اقصیٰ لیاقت
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں بہت ہی غریب دھوبی رہتا تھا۔کپڑوں کی دھلائی کے ساتھ ساتھ اس کو آسمان کو قریب سے دیکھنے کا بہت شوق تھا وہ اور اس کی بیوی روز دھوپی گھاٹ پر کپڑے دھونے جاتے تھے۔
ایک روزجب اس کی بیوی کپڑوں کو سوکھا رہی تھی اْس کی نظر آسمان پرپڑی اور کیا دیکھتی ہے کہ آسمان سے ایک ہاتھی اڑتا ہوا زمین پراْتررہاہے اور جیسے ہی وہ زمین پر اْتراتو وہ غائب ہوگیا۔دوتین روز تک وہ یونہی ہاتھی کو زمین پر اترتادیکھتی رہی۔
ایک رات اس نے یہ سارا ماجرہ دھوبی کوبتایا۔دھوبی پہلے تو بہت حیران ہوا مگر پھر فیصلہ کیاکہ کل وہ اس ہاتھی پرنظر رکھیں گے کہ آیا یہ ہاتھی زمین پر کیوں اْترتا ہے اور پھر غائب ہوجاتا ہے آخر ایسا کیاہے۔
اگلے دن دونوں شدت سے اْس کا انتظار کرنے لگے۔
آسمان پر بار بار نظر دوڑانے لگے۔آخر انتظار کا وقت ختم ہوا اور ان کو آسمان سے ہاتھی زمین پر اْترتا نظر آہی گیا۔دونوں اس کے پیچھے چل پڑے ہاتھی گنے کے کھیتوں میں گھس گیا اور خوب پیٹ بھر کر گنے کھانے لگا۔ہاتھی کا پیٹ بھر ااور اْڑنے کی تیاری کرنے لگا جیسے ہی اس نے اْڑان بھری دونوں میاں بیوی نے بھی ہاتھی کی دم پکڑلی اور ہاتھی کے ساتھ اْڑنے لگے۔
ہاتھی آسمان کی بلندیوں کو پہنچا تو دھوبی کیا دیکھتا ہے کہ ایک پہاڑ ہیرے سونے کے جواہرات سے چمک رہا ہے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی اپنا خزانہ یہاں چھوڑ کر بھولے بیٹھا ہے۔دونوں میاں بیوی کی آنکھیں دنگ رہ گئی۔آخر ہاتھی پہاڑ پر اتر گیا۔
دونوں میاں بیوی بھاگ کر سونے پر ٹوٹ پڑے اور زیادہ سے زیادہ سونا اکٹھا کرنے کی کوشش کرنے لگے۔رات کے بڑھتے اندھیرے سے پریشان ہونے لگے اچانک ان کو خیال آیا کہ صبح ہوتے ہی وہ ہاتھی کی دم پکڑکرزمین پراْتر جائیں گے۔ آخرصبح ہوئی اور ویسا ہی کیا جو انہوں نے سار رات سوچتے گزاردی۔
خیرزمین پراْترے اور اپنے گھر کی طرف رواں دواں ہوگئے۔
ایک غریب دھوبی جودن بہ دن امیر ہوتا جارہا تھا اس کو دیکھ کر سارا گاؤں حیران وپریشان ہوگیا کہ اچانک ایسا کیا ہوا کہ دھوبی اتنا امیر ہوگیا ہے۔گاؤں کے لوگ دھوبی کے پاس آئے اور اس کے یوں اچانک امیر ہونے کا راز پوچھنے لگے۔
دھوبی اْن کو کچھ نہ بتاتا۔ایک دن دھوبی کسی کام سے شہر سے باہر نکل گیا۔اس بات کافائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی ہمسائی دھوبن کے پاس آئی اور باتوں باتوں میں خزانے کاراز اگلوالیا۔رات کو جب دھوبی واپس آیا دھوبن نے سارا ماجرابتایا۔
دھوبی کو اس حرکت پر بہت غصہ آیا مگر اب بات ہاتھ سے نکل چکی تھی۔
صبح سارا گاؤں دھوبی سے مدد مانگنے آگیا کہ وہ ان کے ساتھ کھیتوں میں چلے اور ہاتھی کے ساتھ خزانے تک پہنچانے میں ان کی مدد کرے۔یہ سب سننے کے بعد دھوبی کے دل میں لالچ پیدا ہوگئی کہ وہ ان کے ساتھ جا کے اور خزانہ اکٹھا کرکے لائے گا۔
یہ سوچ کر وہ ان کے ساتھ جانے کیلئے راضی ہوگیا۔ اگلی صبح سارے گاؤں والے کھیتوں کو نکل گئے اور آنکھیں آسمان پرجمائے بیٹھے تھے۔ہاتھی زمین پراترا اور گنے کھانے لگا۔سب گاؤں والے اس طاق میں بیٹھے تھے کہ جیسے ہاتھی گنے کھاکے فارغ ہوگا وہ سب اس کی دم پکڑکر اس خزانے تک پہنچ جائیں گے۔
جیسے ہی ہاتھی اْڑنے لگا سب نے اس کی دم پکڑلی۔ دھوبی سب سے آگے اس کی دم پکڑے تھا اور یوں اس کے پیچھے ایک لمبی قطار میں پورا گاؤں ایک دوسرے کو پکڑے ہاتھی کے ساتھ اْڑے چلے جارہے تھے۔
سب گاؤں والے آپس میں باتیں کرنے لگے کہ وہاں اتنا خزانہ ہوگا کہ ہم سب لے کر آسکیں گے کسی نے کہا خود سے سوچنے سے اچھا ہے کہ ہم کیوں نہ دھوبی سے پوچھ لیں۔
ایک گاؤں والے نے پوچھا دھوبی وہاں کتنا سونا ہے؟ دھوبی خزانے کی لالچ میں گاؤں والوں کے ساتھ چل دیا تھا۔دم کو چھوڑتے ہوئے ہاتھوں کے زاویے سے کہنے لگا‘‘ اتنا زیادہ ‘‘ یہ کہنے کی دیر تھی کہ سب زمین پر سرکے بل گرپڑے اورہاتھی مزے سے آسمان میں اپنی اْڑان بھرنے لگا اور گاؤں والوں کو ان کی لالچ کی سزا مل گئی۔

مسکرایے

مراسلہ: سعد اکبر
ایک دفعہ کسی بچے کی والدہ محترمہ کے ہاتھ سے مٹھائی کا ڈبہ گر گیا۔ بچہ پاس ہی کھڑا تھا۔ماں مٹھائی اٹھانے کی خاطر ذرا جھکی تو اس کا پاؤں مٹھائی پر آگیا۔ بچہ اٹھانے کے لیے بڑھا تو ماں نے اسے سختی سے ڈانٹا کہ مٹھائی پر اس کا پاؤں آگیا تھا۔
بچہ بڑے اطمینان سے بولا۔
’’کوئی بات نہیں ماں کے قدموں تلے تو جنت ہوتی ہے۔‘‘
*
ایک بچہ رو رہاتھا۔۔ باپ نے رونے کا سبب پوچھا تو بولا : ’’ایک روپیہ دیں تو بتاؤں گا‘‘
باپ نے جلدی سے روپیہ دیا اور کہا ’’بتاؤ کیوں رو رہے تھے؟ ‘‘
’’اس روپے کے لیے ہی رو رہا تھا‘‘ بیٹے نے چپ ہوتے ہوئے جواب دیا۔
*
ایک چینی بچہ پاکستانی بچے سے:یار میرے ابو کا چلتے چلتے انتقال ہو گیا۔
پاکستانی بچہ: ہاں یار چائنا کی چیزوں میں یہی پرابلم ہے۔
*
میڈم نے اپنی کلاس میں بچوں سے پوچھا’’یقین اور وہم میں کیا فرق ہے؟‘‘
شاگرد: ’’میڈم آپ پڑہا رہی ہیں یہ یقین ہے اور ہم پڑھ رہے ہیں یہ آپ کا وہم ہے۔‘‘
*
ایک فرم کے باس کو اچانک چھٹی والے دن اپنے اکاؤنٹنٹ کی ضرورت پڑ گئی۔ اس نے اکاؤنٹنٹ کو بلانے کے لیے اسکے گھر فون کیا تو اکاؤنٹنٹ کے 4 سالہ بچے کی معصوم دھیمی سی آواز آئی ‘‘ہیلو‘‘۔
باس : ‘‘بیٹے آپ کے ابو گھر پہ ہیں ؟
بچہ: ‘‘جی‘‘
باس :‘‘کیا میں ان سے بات کر سکتا ہوں ؟‘‘
بچہ: ‘‘نہیں‘‘
باس ایک لمحے کو چونکا۔ پھر سوچا ممکن ہے باپ واش روم میں ہو۔ کسی بڑے سے بات کرنے کے خیال سے باس نے پھر پوچھا
: ‘‘اچھا۔ بیٹا یہ بتاؤ کیا آپ کی امی گھر پہ ہیں ‘‘؟
بچہ: ‘‘جی‘‘
باس :‘‘کیا ان سے بات ہو سکتی ہے؟‘‘
بچہ : ‘‘جی نہیں‘‘
باس حیران ہوگیا۔ ایک کوشش پھر کی
‘‘اچھا بیٹے کوئی اور بڑا آپ کے قریب میں ہے ؟‘‘
بچہ : ‘‘جی ایک پولیس والا ہے ‘‘
باس پریشان ہوگیا۔ پوچھا ‘‘پولیس والا آپ کے گھر میں کیا کر رہا ہے ‘‘؟
بچہ :‘‘وہ میرے امی ابو سے باتیں کر رہا ہے ‘‘
اب تو باس کی پریشانی بڑھ گئی۔ اس کے دل سے دعا نکلی خدا خیر کرے۔ اچانک اسے فون پر پولیس گاڑی کے سائرن کی آواز سنائی دی۔ اس نے گھبرا کے بچے سے پوچھا
‘‘بیٹا یہ پولیس گاڑی کا سائرن کیوں گونج رہا ہے ؟‘‘
بچہ: ‘‘اب کافی سارے پولیس والے آگئے ہیں‘‘ بچے کی آواز اب بھی سرگوشی جیسی تھی۔
باس کی پریشانی انتہا کو پہنچ گئی۔ پوچھا ‘‘لیکن بیٹا۔اتنے پولیس والے آپ کے گھر میں کیا کر رہے ہیں؟‘‘
بچہ : (ہنستے ہوئے) ‘‘ہی ہی ہی۔۔۔ یہ سارے مجھے ڈھونڈ رہے ہیں‘‘

حصہ