جدید تر اردو غزل کا فنی مطالعہ

708

ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد
غلام حسین ساجد نے اپنے شعری مجموعوں ’’موسم‘‘ اور’’ عناصر‘‘ میں ایک مربوط شعری نظام تشکیل دیا ہے۔ اوّل الذکر مجموعے میں بہار، سعیر، برشگال، زمہریر، خزاں اور قدیم جب کہ ثانی الذکر میں مٹی، پانی، آگ، ہوا اور خواب کے حوالے سے بیس بیس غزلیں شامل ہیں۔ موسموں میں قدیم اور عناصر میں خواب کا اضافہ ساجد کے مابعد الطبیعاتی رجحان کا عکاس ہے۔ مربوط شعری نظام کے باعث ساجد کی غزلیں تسلسلِ خیال کی آئینہ دار ہیں تاہم ایک ہی عنصر یا موسم کے حوالے سے بیس غزلیں کہنے کا شعوری التزام میکانکی انداز کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ یہ میکانکی انداز کہیں کہیں ابھر کر سامنے آتا ہے جس سے غزل کی لطافت مجروح ہوتی ہے۔مثال کے طور پر ذیل کے اشعار دیکھیے:
کہاں محصور کرتی ہے مناظر کو ہوا میری
جکڑ سکتی ہے لیکن ایک شاعر کو ہوا میری
بھلے سے راکھ ہو رہیں گے یہ زمیں و آسماں
مگر بدل نہ پائے گا شعار میری آگ کا
بے کار چل رہے ہیں راہِ سلوک پر ہم
اس راستے پر اس کو اندازہ خواب کا ہے
میں ہوں مٹی کی حمایت کے لیے تیار بھی
اور اس مٹی پہ میری جنگ بھی مٹی سے ہے
محمد اظہار الحق جدید تر غزل کے منفرد اور صاحبِ اسلوب شاعر ہیں۔ انہوں نے موضوعات کی تابانی سے ہی غزل کے منظر نامے کو مستنیر نہیں کیا بلکہ لفظیات اور تکنیک کے اعتبار سے بھی انہوں نے غزل پر نئی صورتوں کے دروازے کھولے اور اس کے پیکر کو رعنائیوں کا مرقع بنا دیا۔ اظہار کی شاعری میں اسلامی تہذیب و تمدن کے روشن زمانے اپنے تمام تر جاہ و جلال کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ مسلم تہذیب کی ثروتوں کے اظہار کے لیے انہوں نے فقر و درویشی اور سلطنت و شاہی کے عناصر اور علامتیں استعمال کر کے غزل کے دائرہ لفظیات کو کشادگی عطا کی ہے۔ لفظیات کا یہ چناؤ ان کے تاریخی شعور اور تہذیبی میلان کا گواہ ہے۔ ’’ تخت، کلاہ، حرم، شہر پنہ، محل ،لشکر، دستہ، گھوڑے ، شہزادیاں، حویلیاں، فصیل، پہرا، جشن، خدام، کنیزیں، تیر، بارہ دری، جنگاہ، چہار آئینہ، فانوس، معرکہ، انعام ، خلعت، سوار، عدو، شملے، اطلس، چوب دار، اصطبل، سلطنت، لاؤ لشکر، غنیم، لشکری، فتح و ظفر، پسپائی،دربار ، حشم، شہزادے،شمشیر، قلب، سرحد، محاذ، قبیلے، تہہ خانے، خیمے ، بْرج وغیرہ‘‘ جیسی ڈکشن کو محمد اظہار الحق نے جس پیرائے میں استعمال کیا ہے وہ اْردو غزل کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔انہوں نے اسلامی تہذیب کے نمائندہ شہروں اور مقامات جیسے بغداد، بخارا، سمر قند، بصرہ ، مدینہ، بابل ، ہرات، غرناطہ، دجلہ، فرات، الحمرا اور دہلی وغیرہ کو بھی علامتی پس منظر کے ساتھ غزل کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ان علامتوں میں مسلمانوں کے عروج و زوال کی پوری داستان سمٹ آئی ہے۔ چند اشعار دیکھیے:
تیغ کی دھار میں الحمرا، موتی کی آب میں الحمرا
اک محراب میں سورج ہے اور اک محراب میں الحمرا ( دیوارِ آب)
پسِ دیوا ر نقاشوں ، ہْنر مندوں کے سر تھے
پھر اک در تھا لہو کا اور پسِ در قرطبہ تھا
کنویں میں زہر تھا ، گھوڑے سواروں سے الگ تھے
دریدہ شال اوڑھے خاک بر سر قرطبہ تھا
سفر ہے ماوراء ا لنہر کا در پیش اظہار!
مرے ذہنِ رسا کا رخ بخارا کی طرف ہے
کھلیں گے دیکھنا اس دشت میں کیا کیا چمن زار
مدینے کی ہوا کا رخ بخارا کی طرف ہے ( پری زاد )
تمہیں غرناطہ و دلی بہت یاد آر ہے ہیں
جو فرصت ہو تو بارے بصرہ و بغداد دیکھو (پری زاد )
محمد اظہار الحق کی غزل میں ایک مخصوص داستانوی فضا ملتی ہے۔ جادوئی عناصر اور طلسماتی رنگوں نے اس فضا کی جاذبیت اور دل کشی میں اضافہ کیا ہے۔ تجسس آفریں اور حیرت آگیں مناظر غزل کی ایمائیت اور اشاریت کے رنگوں کو مزید ابھارنے کا سبب ٹھہرے ہیں۔اس داستانوی اندازِ بیان سے اظہار نے فرضی اور تصوراتی قصوں کو غزل میں نہیں ڈھالا بلکہ حیاتِ انسانی کے مختلف زاویے اور گوشے اور انسان کی عظمتوں اور رفعتوں کی کہانیاں اس کی مدد سے پیش کی ہیں۔ غلام حسین ساجد اس داستانوی اندازِ بیاں کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’ محمد اظہار الحق کی غزل کا سارا منظر نامہ الف لیلوی ہے اور ایک داستانوی طلسم اس کی ساری غزل پر چھایا ہوا ہے۔ وہ فضاؤں میں معلق باغوں، اْڑن کھٹولوں میں سفر کرتی ہوئی پریوں، پیلی دھات کی کھنک، اطلس و کم خواب کے گدوں اور اس نوع کی دوسری اشیا کے حوالے سے ایک تہذیب کی شکل ابھارنے میں پوری طرح کام یاب ہیں۔‘‘
داستانوی فضا میں گندھے ہوئے اظہار کے چند اشعار دیکھیے:
کیسے کیسے اسم طلسم ہیں اس کے پاس
اْڑن کھٹولوں کی پریاں مہمان اس کی
جھول رہے ہیں معلق باغ فضاؤں میں
اْتر رہی ہے چاروں اور تکان اس کی(دیوارِ آب)
پری زاد جس کو اڑا رہے تھے فلک فلک
اسے کیسے تو نے اتارا تھا مرے باغ میں
مری آنکھ تو نے بنائی تھی مرے خواب میں
مرا حسن تو نے سنوارا تھا مرے باغ میں(پری زاد )
محمد اظہار الحق کی غزل موضوعات کی طرح فن اور تکنیک کے حوالے سے بھی انفرادیت کی حامل ہے۔ انہوں نے طرزِ بیان کی تاثیر سے لفظیات کی نامانوسیت کو غزل کے مزاج سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔ مصرعوں کی بْنت میں نثر کی سی سادگی اور ہم واری ان کی ریاضتِ فن کا ثبوت ہے۔ تراکیب، تشبیہات اور تلمیحات کو انہوں نے محض آرائشی عناصر کے طور پر استعمال نہیں کیا بلکہ ان سے مفاہیم اور مطالب کے دائروں کو وسعت بخشی ہے۔ اظہار کی غزل کا آہنگ جلال و جمال کے حسین امتزاج کا آئینہ دار ہے۔ اس آہنگ کی تشکیل میں لفظیات کا شکوہ اور مخصوص اوزان و بحور کا تجمل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
افضال احمد سید کے لہجے کی انفرادیت جدید تر غزل کے قافلے میں انہیں گْم نہیں ہونے دیتی۔ انہوں نے غزل کو نئے تکنیکی عمل سے گزار کر توانائی بخشی ہے۔ افضال نے تلمیحات کے رنگوں کو تراکیب کے حسن میں گوندھ کر اظہار کی نئی جہتوں کو بے نقاب کیا ہے۔ کثرتِ تراکیب نے ان کی غزل میں کہیں کہیں اجنبیت اور نامانوسیت کی فضا خلق کی ہے مگر مجموعی طور پر ان کی تراکیب سازی میں جمالیاتی اور فنی شعور کی آمیزش اپنے جوبن پر ہے۔ افضال احمد سید کی وضع کردہ چند تراکیب دیکھیے:
’’ ترتیبِ خشک و تر، فصیلِ مردہ، گیاہِ خام، شاخِ تہیہ، عہد نامہ منسوخ، سرِ لوحِ رفتگاں، کمندِ غیر،شبِ شکستہ، دیوارِ خستگی، گرفتِ خواب، سحابِ سبز، طاؤسِ نیلمیں، کفِ بلند، کتابِ خاک، شگفتِ گْل، جْنبشِ مہمیز، صفِ سراب، سرِ گریز و گْماں، کمان خان? افلاک، سیلِ ہجرتِ گْل، تیغ حیرانی، شکستِ آئینہ انتباہ۔‘‘
افضال احمد سید کی غزل میں الفاظ کا درو بست، مصرع سازی اور ردیف و قوافی کا ارتباط ان کی فنی کاملیت کا گواہ ہے۔ انہوں نے بالعموم متوسط اوزان کی حامل رواں دواں اور مترنم بحروں میں غزلیں کہی ہیں جو موسیقیت اور نغمگیت کی چاشنی سے لبریز ہیں، چند اشعار دیکھیے:
کْھلی ہوئی ہیں تہِ خشت انگلیاں اْس کی
چْنا ہوا ہے پسِ ریگ بادباں اْس کا
کْچھ اور رنگ میں ترتیبِ خشک و تر کرتا
زمیں بچھا کے ہوا اوڑھ کے گزر کرتا
چراغِ شب نے مجھے اپنے خواب میں دیکھا
ستارہء سحری خوش نگاہ مجھ سے ہوا
سلیم کوثر کی غزل اپنے اسلوب کی سحر کاری کے باعث الگ سے پہچانی جاتی ہے۔ زبان و بیان کی نزاکتوں اور صنائع بدائع کے حسن کارانہ استعمال نے ان کی غزل کو دل آویزی عطا کی ہے۔ لفظیات کے چناؤ اور برتاؤ میں سلیم کوثر کا فنی احساس ابھر کر سامنے آیا ہے۔ تراکیب، علامات، استعارات اور دیگر تکنیکی عناصر کے استعمال میں انہوں نے غزلیہ معیارات کو پیشِ نگاہ رکھا ہے۔ سیلم کوثر کے ہاں یہ تکنیکی عناصر صرف غزل کے ظاہری پیکر کو نہیں چمکاتے بلکہ اس کے باطن کو بھی تجلی زار بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تضاد، لف و نشر مرتب و غیر مرتب اور حسنِ تعلیل جیسی صنائع کے مسلسل استعمال سے سلیم کوثر نے غزل کی معنوی گہرائی میں اضافہ کیا ہے اور اس کے جمالیاتی رنگ کو نکھارنے کی کام یاب کوشش کی ہے۔ سلیم کے ہاں ایسے اشعار کی بھی کمی نہیں جو آرائشی عناصر کی چمک دمک سے بے نیاز ہیں اور زبان و بیان کی سادگی کے علم بردار ہیں، لیکن زبان و بیا ن کی یہ سادگی ان کی تاثیر اور لطافت میں رکاوٹ نہیں بنتی بلکہ اس کو مزید توانائی عطا کرتی ہے ، اس نوع کے چند شعر دیکھیے:
جس کو ہر سانس میں محسو س کیا ہے ہم نے
ہم اسے ڈھونڈنے نکلیں تو زمانے لگ جائیں
سوچتے یہ ہیں ترا نام لکھیں آنکھو ں پر
چاہتے یہ ہیں تجھے سب سے چھپانے لگ جائیں
کھل ہی جائے گا کبھی حسنِ سماعت مجھ پر
اپنی آواز کو گلیوں میں لیے پھرتا ہوں
سلیم کوثر کی غزل غنائیت کے ذائقے سے معمور ہے۔ انہوں نے الفاظ کے درو بست ، ردیف و قوافی کے چناؤ اور اوزان و بحور کے انتخاب میں موسیقیت کے تقاضوں کا خیال رکھا ہے۔
جمال احسانی اور شاہدہ حسن کا شمار بھی جدید تر غزل کے اہم شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی غزل میں ایسے فنی اور تکنیکی زاویے ابھرتے ہیں جو جدید تر غزل کی شناخت میں اہمیت کے حامل ہیں۔ جمال احسانی نے گزرے ہوئے زمانے کی کہانیوں میں نئے زمانے کا رنگ شامل کر کے زبان و بیان کی نئی گہرائیوں کی خبر دی ہے۔ تراکیب، تشبیہات ، استعارات اور بیان کے دیگر ذرائع ان کے تخلیقی عمل میں رچے بسے ہوئے ہیں۔ جمال احسانی کی غزل میں داستانوی فضا کے عمل دخل نے اس کی رمزیت کے رنگ کو گہرائی عطا کی ہے۔مترنم اور خوش آہنگ بحروں کے چناؤ اور الفاظ کے بر محل استعمال نے جمال احسانی کی غزل کو صوتی اعتبار سے بھی جاذب نظر اور دل کش بنا دیا ہے۔ منفرد صوتی آہنگ میں لپٹے ہوئے چند اشعار دیکھیے:
یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کْچھ
بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے
تمام آئنہ خانوں کی لاج رہ جاتی
کوئی بھی عکس اگر بے مثال رہ جاتا
جو لکھتا پھرتا ہے دیوار و در پہ نام مرا
بکھیر دے نہ کہیں حرف حرف کر کے مجھے ( ستارہسفر)
یوں گزرتا ہے بس اب دل سے ترے وصل کا دھیان
جیسے پردیس میں تہوار گزر جاتا ہے
شاہدہ حسن نے غزل کے آئینے میں سطحی جذبے اور عمومی عاشقانہ تعلقات کی تصویروں کی بہ جائے محبت کی گہری اور رمزیاتی کیفیات کو اعلا فنی شعور کے ساتھ پیش کیا ہے۔شاہدہ کی غزل میں نسائی مزاج اپنی تمام تر نزاکتوں اور جلوہ سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ ان کی شعری زبان سادگی کا مرقع ہے مگر یہ سادگی سپاٹ نہیں بلکہ تہ داری کی حامل ہے۔ شاہدہ نے غزل کی روایتی اور عمومی لفظیات کو گہرائی اور نیا معنوی پس منظر عطا کیا ہے۔ شاہدہ کے غزل کے تکنیکی سراپے کا اندازہ ذیل کے اشعار سے لگایا جا سکتا ہے:
آنکھ تا دیر رہی موجہء غم ناک میں تر
حسن کا کھیل تھا آئینے کو چمکا جانا
تو سرِ بام ہوا بن کے گزرتا کیوں ہے
میرے ملبوس کی عادت نہیں لہرا جانا
دور تک پھیلے ہوئے پانی پہ ناؤ تھی کہاں
یہ کہانی آئینوں پر عکس لہرانے کی تھی
ترے خیال کے سفر میں تیرے ساتھ میں بھی ہوں
کہیں کہیں کسی غبارِ رہ گزار کی طرح
(جاری ہے)

حصہ