ملیر سے جوہر تک

424

نسرین خلیل
پچھلے دنوں ملیر کورٹ کسی کام سے جانے کا اتفاق ہوا۔ واپسی میں جب میں کورٹ سے نکل رہی تھی تو میرے ساتھ ساتھ ایک عورت بھی گیٹ سے نکلی۔ اس کے ساتھ دو بچے تھے۔ تھوڑی دیر اسٹاپ پر کھڑے گزر گئی اور کسی سواری کے کوئی آثار نظر نہ آئے تو اس عورت نے مجھ سے پوچھا:
’’آپ کہاں جائیں گی؟‘‘
بتانے پر بولی ’’ایک رکشہ کرلیتے ہیں۔ میں راستے میں اتر جاؤں گی۔ آپ آگے چلی جانا۔‘‘
بات مناسب لگی تو ہم دونوں ایک رکشے میں بیٹھ گئے۔ دو عورتیں ایک ساتھ بیٹھی ہوں اور ان میں گفتگو نہ ہو! بات شروع ہوئی تو پتا چلا کہ وہ خلع کے لیے کورٹ میں مقدمہ درج کروانے آئی تھی۔ پوچھنے پر بتانے لگی کہ شوہر گالیاں دیتا ہے۔۔۔ خرچ نہیں دیتا۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
وہ سانولے رنگ کی تیس، پینتیس سال کی ایک عورت تھی۔ بڑا بیٹا آٹھ نو سال کا اور چھوٹا 6 سال کا تھا۔ میں نے پوچھا:
’’خلع لے کر کیا کرو گی؟ بچے کیسے پالو گی؟‘‘
کہنے لگی: ’’فیکٹری میں نوکری کرلوں گی۔‘‘
’’۔۔۔اور بچے کہاں چھوڑو گی؟‘‘
تھوڑی سی پریشان ہوکر بولی: ’’بچے تو میں گھر چھوڑوں گی!‘‘
’’کیا پڑھا ہوا ہے؟‘‘
’’میٹرک پاس ہوں‘‘ بڑے فخر سے اس نے جواب دیا۔ میں حیران ہوکر اس کو دیکھنے لگی تو بولی:
’’بھوکی نہیں مروں گی مگر اس کو بتادوں گی کہ میں روز روز کی مار اور ذلت نہیں سہہ سکتی!‘‘ ذلت کے احساس نے اس کی آنکھوں کو نم کردیا۔
میں نے پوچھا: ’’بچوں کو روز چھوڑ کر جاؤ گی تو یہ تو بگڑ جائیں گے! کھانا کھائیں یا نہ کھائیں؟ گھر سے باہر نکل جائیں تو پھر کون بلائے گا؟ کیا ان کی حفاظت کا مسئلہ نہیں ہوگا؟‘‘ وہ خاموش ہوگئی۔ تفکر اور بے کسی کے جذبات نے اس کو رلا دیا۔۔۔ اور پھر وہ جیسے پھٹ پڑی،کہنے لگی:
’’میں جانتی ہوں خلع کے بعد کیا کیا مسائل ہوں گے! میں نے اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف کورٹ میرج کی تھی۔ مبشر اسکول ٹیچر تھا۔۔۔ محلہ میں رہتا تھا۔۔۔آتے جاتے دوستی ہوگئی۔ گھر والے کسی طرح نہ مانے تو ہم دونوں نے اپنا شہر چھوڑ دیا۔کورٹ میرج کے بعد کچھ عرصہ تو اچھا گزرا۔ پھر پہلا بیٹا ہوگیا تو اخراجات بڑھ گئے۔ دھیرے دھیرے دل میں بدگمانیاں آنے لگیں۔ دو بچے ہوگئے تو مار کٹائی تک نوبت آپہنچی۔ پتا نہیں مجھے کیا ہوگیا تھا!‘‘ افسوس اس کے رگ و پے میں دوڑ رہا تھا۔ ’’میں نے اچھے گھر میں آنکھ کھولی تھی۔ محبت کرنے والے پڑھے لکھے ماں باپ۔۔۔ مگر محبت کے چکر میں سب داؤ پر لگ گیا۔ اب روز بچوں کے سامنے مار کھانا اور ذلیل ہونا برداشت نہیں ہوتا۔۔۔ مگر اصغر نے مجھے کہا ہے کہ وہ دونوں بچوں کو بھی پالے گا اور مجھے بھی اچھی زندگی دے گا۔۔۔‘‘ امید کا دیا اس کی آنکھوں میں لو دینے لگا۔
’’یہ اصغر کون ہے؟‘‘ میرے سوال پر وہ چونک گئی اور کھسیانی ہنسی کے ساتھ بولی:
’’ہمارے محلے میں ہی رہتا ہے اور بینک میں کام کرتا ہے۔ ہمارے گھر کے حالات سے واقف ہے۔ وہ مجھے کہتا ہے اُس کو چھوڑ دو، میں تمہیں رانی بناکر رکھوں گا، اچھا کھلاؤں گا بھی اور پہناؤں گا بھی۔۔۔ اس کا آگے پیچھے کوئی نہیں۔ کہتا ہے میرا گھر بس جائے گا تو دنیا کی خوشیاں تمہارے قدموں میں ڈال دوں گا‘‘۔ اس کی آنکھوں میں امید کا دیا روشن تھا۔
’’نادان عورت!‘‘ میں نے دکھ سے سوچا۔
’’وہ تمہیں تو شاید خوشیاں دے دے مگر تمہارے بچوں کو نہیں پالے گا!‘‘ میں نے غصے اور غم سے کہا تو اس نے مجھے حیرت سے دیکھا۔
’’وہ ان بچوں پر اپنا مال کیسے خرچ کرسکتا ہے؟ پھر وہ اپنے اور تمہارے بچوں میں فرق کرے گا تو کیسے برداشت کروگی، کیونکہ اس آدمی کے بچے بھی تمہارے ہی ہوں گے۔‘‘ وہ حیران سی تھی۔
’’تمہارا کوئی بہن بھائی ہوتا تو تمہیں سمجھاتا کہ مبشر اگر ان بچوں کو مارے گا بھی تو باپ کی حیثیت سے پیار بھی کرے گا! ان کی ضرورتیں بھی پوری کرے گا۔۔۔ لیکن اگلی شادی کے چکر میں تمہیں شوہر اور اس کو بیوی مل جائے گی مگر بچوں کے ماں باپ دونوں گم ہوجائیں گے، رل جائیں گے یہ بچے! اپنے بچوں سے ان کا سائبان نہ چھینو۔ دونوں بچوں کو دیکھو کتنے پیارے ہیں‘‘۔ پھر میں نے ہمت کرکے اس کی ذہنی صفائی کا ارادہ کیا۔
’’تم نے اپنے شوہر کی اتنی باتیں بتائیں مگر تمہارا رویہ بھی میں نے دیکھا‘‘۔ وہ ہکا بکا سی میری صورت دیکھ رہی تھی۔
’’تم خودغرضی سے سوچ رہی ہو۔ اپنی فیملی سے محبت کرنے والا لینے کا نہیں، دینے کا سوچتا ہے۔ ماں بن کر عورت کی زندگی بچوں میں ہوتی ہے۔ اس شخص کو تمہارے بچوں سے کیا انسیت ہوگی؟‘‘ میں نے اسے سوچتے پایا تو لوہا گرم دیکھ کر چوٹ کی۔
’’جب تم نے ان سے ان کا باپ چھین لیا، تو وہ کیوں کر ان کو باپ بن کر پالے گا! پھر تم اس دکھ سے زیادہ بے عزت ہوگی۔ وہ ایک بار بھی ان بچوں کو کچھ کہے گا تو تم اپنے آپ کو مجرم سمجھو گی اور سوچو گی کہ کاش میں ان کے سر سے باپ کا سایہ نہ چھینتی! پچھتاوے تمہیں جینے نہ دیں گے۔ زندگی اور مشکل ہوجائے گی۔۔۔ ایسا نہ کرو۔ صرف ماں بن کر دیکھ لو کہ تمہاری برداشت تمہیں کتنی عزت دلا سکتی ہے۔ زندگی کے آٹھ دس سال کا تو پتا بھی نہیں چلے گا۔ یہ بیٹے بڑے ہوجائیں گے اور تم ان کی ماں کی حیثیت سے معاشرے میں عزت پاؤ گی۔کورٹ میرج تمہاری پہلی غلطی تھی۔ تم نے اس سے سبق نہیں لیا! اب تم اس سے بڑی غلطی کرکے بچوں کو تباہ کرنے چلی ہو۔ خدارا ایسے نہ سوچو‘‘۔ رکشے کی رفتار سے ہم آہنگ میری آواز بھی تیز ہوتی گئی۔
’’گھر بنانا مشکل ہے مگر اسے قائم رکھنا اپنے ہاتھ میں ہے۔ اللہ سے مدد مانگو۔ اللہ کہتا ہے جو شخص سچے دل سے مشکل سے نکلنا چاہتا ہے اس کی ضرور مدد ہوتی ہے۔ مالی تنگی یقیناًبہت بڑی آزمائش ہے، مگر تم کیوں ہاتھ توڑ کر بیٹھی ہو؟ کوئی کام شروع کرو، اپنے آپ کو مصروف کرو، اور سنو اگر تم اسی طرح بے صبری رہیں تو بہت ممکن ہے کہ کچھ عرصے بعد دوسرے آدمی سے بھی بیزار ہوجاؤ‘‘۔ میں نے اس کو آئینہ دکھایا تو وہ کچھ نئی سی سوچ میں پڑ گئی۔
’’خدارا اس شخص سے ملنا بند کرو۔ اپنے گھر اور اپنے مرد کو سنبھالو۔ یقین مانو وہ شیطان ہے جو گھر تڑوا کر خوشی محسوس کرتا ہے۔ یہ شیطان کا پسندیدہ کام ہے۔ اور وہ تمہارا گھر تڑوا کر تمہیں کبھی عزت نہیں دلوائے گا۔ بچوں کے سامنے تمہارا کردار داغ دار ہوجائے گا۔‘‘
’’باجی! آپ نے تو میری آنکھیں کھول دیں۔ اگلی دفعہ جاؤں گی تو خلع کا مقدمہ واپس لے لوں گی۔ بھائی روکو! روکو۔۔۔‘‘ اُس نے رکشے والے کو روکتے ہوئے کہا۔ اُس کا گھر آگیا تھا۔ یقیناًاللہ اس گھر کو آباد رکھے گا جس نے توبہ کرلی ہو۔

آنکھوں کی بھی ورزش ہوتی ہے

ہم میک اَپ کرتے ہیں تو آنکھوں پر بے پناہ توجہ دیتے ہیں۔ آئی لائنز، مسکارا، سادہ سرمہ اور آئی شیڈز کے نت نئے بناؤ سنگھار کرتے ہیں، مگر ہم میں سے کتنی خواتین آنکھوں کی صحت کا خیال رکھتی ہیں؟ ذرا سوچیے، یہی تو وہ قدرتی عطیہ ہے جس کی بدولت ہم قدرت کے باکمال جلووں کو دیکھ پاتے ہیں، اگر ان میں کسی قسم کا انفیکشن یا خرابی ہوجائے تو پوری شخصیت بلکہ جسم متاثر ہوتا ہے۔ آنکھوں کے معاملے میں کسی قسم کا رسک بصارت میں کمی یا اس سے محرومی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔آنکھوں کی حفاظت، بصارت قائم رکھنے اور آنکھوں کے گرد سیاہ حلقوں کے علاج کے لیے ذیل میں چند گھریلو نسخے درج کیے جارہے ہیں:
*کھیرے کے اوپری حصے کڑوے ٹکڑے الگ کردیں اور باقی کھیرے کا چھلکا اتار کر اس کے گودے کو کچل کر باریک کرلیں۔ اب اس گودے کو دو چھوٹے صاف کپڑوں میں علیحدہ علیحدہ پوٹلی بنا لیں۔ دونوں پوٹلیوں کو آنکھوں پر رکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ پندرہ منٹ تک اسی حالت میں سکون سے بیٹھی رہیں۔ اس کے بعد پوٹلیاں ہٹاکر آنکھیں کھول دیں اور قدرے جھپکائیں۔ اس عمل سے آنکھوں کو سکون ملے گا۔
* ایک سادہ اور آسان ورزش یہ ہے کہ کمرے میں دھوپ سے بچاؤ کی کوشش کریں، یعنی پردے ڈال دیں۔ اب آنکھوں کو بند کرلیں اور ان پر ہتھیلیاں رکھ لیں۔ دس سے پندرہ منٹ تک خاموش بیٹھی رہیں یا لیٹ جائیں۔ اب دونوں آنکھوں کے لیے ہاتھوں کی ہتھیلیاں بار بار تبدیل کرتی رہیں، بعدازاں آنکھیں کھول لیں۔
* دونوں آنکھوں کو بھینچ کر بند کرلیں، لیکن یہ خیال رہے کہ بھنویں آپس میں نہ ملنے پائیں۔ اب انہیں آہستہ آہستہ زیادہ سے زیادہ کھولنے کی کوشش کریں۔ یہ ورزش کم از کم دس مرتبہ دہرائیں۔
* اگر آپ کے گھر میں قد آدم آئینہ ہے تو اس کے سامنے کھڑی ہوکر اپنے عکس کو پلکیں جھپکائے بغیر پانچ منٹ تک مسلسل دیکھنے کی کوشش کریں، اس سے نظر کو بے حد تقویت ملتی ہے۔
* اپنی آنکھوں کی پُتلیوں کو پہلے دائیں اور پھر بائیں تیزی سے گھمائیں۔ پُتلیوں کی سمت تبدیل کرتے وقت گردن کا اوپری حصہ بالکل ساکت رکھیں۔
* جب تھکن بہت بڑھ جائے تب تھوڑی دیر کے لیے بستر پر لیٹ کر دونوں آنکھیں بند کریں اور ان کے اوپر برف کے پانی میں بھگوئے گئے روئی کے پھاہوں کو دس منٹ کے لیے رکھ لیں۔ اس سے آنکھوں کی تھکن دور ہوگی اور وہ تروتازہ معلوم ہوں گی۔
* پلکوں کو جلدی جلدی جھپکتے ہوئے دس سے پندرہ مرتبہ اوپر نیچے، دائیں بائیں اور اطراف میں پتلیوں کو حرکت دیں۔

حسرت

حمیرا خاتون
’’باجی! گجرے لے لیں‘‘۔ آفس سے واپسی پر تھکی ہاری اسٹاپ پر کھڑی تھی کہ یہ آواز کان میں پڑی۔
’’کہاں سے لائے ہو؟‘‘ موتیے کے مہکتے پھولوں کی خوشبو میرے اردگرد بکھر گئی۔
’’ہم خود گھر پر بناتے ہیں‘‘۔ سبز آنکھوں، سرخ گالوں اور سنہری بکھرے بالوں والا بچہ بھی کسی کا شہزادہ ہوگا۔
’’گھر پر کون ہے؟‘‘ مجھے وہ اچھا لگا تھا۔
’’میری ماں اور دو بہنیں‘‘۔ سادگی سے جواب آیا۔
’’اور بابا؟‘‘
’’گاؤں پر بمباری میں بابا اور دو بھائی شہید ہوگئے‘‘۔ اس نے اداسی سے کہا۔
’’لاؤ دو گجرے دے دو‘‘۔ میں نے اس کی اداسی دور کرنے کے لیے کہا۔
گجرے لے کر رقم کے لیے پرس کھولا تو لنچ پر نظر پڑی۔ آج گھر سے لائے کباب پراٹھے کھانے کو دل نہ چاہا تو بریانی منگوا لی تھی۔
’’یہ بھی رکھو، تم کھا لینا‘‘۔ میں نے رقم کے ساتھ لنچ بھی اسے دیا جو اس نے کچھ پس و پیش کے بعد لے لیا۔
’’شکریہ۔۔۔ میں ماں کو دوں گا، اس کو کباب بہت پسند ہیں۔ بابا کے بعد سے ہمارے گھر گوشت نہیں آیا‘‘۔ اس کی آواز میں خوشی اور اداسی کا عجیب امتزاج تھا۔

حصہ