مرد مومن کے لیے تو ہر قدم پر جہاد ہے

362

افروز عنایت

خالہ پڑوسن کی بات سن کر دس سالہ عمران چونک گیا۔ خالہ، اماں سے کہہ رہی تھیں ’’غضب خدا کا، کیا بے حیائی کا زمانہ آگیا ہے! ان بدمعاش چھڑے لڑکوں نے اس 7۔8 سالہ بچے کے ساتھ زیادتی کی اور خود رفو چکر ہوگئے۔‘‘
ہوم ورک ختم ہوا تو اس نے اماں سے پوچھا ’’اماں! خالہ پڑوسن کیا کہہ رہی تھیں؟‘‘
’’بیٹا! ان بے حیا لڑکوں نے محلے کے ایک بچے کے ساتھ بدتمیزی کی تھی۔ (تھوڑی دیر رک کر) دیکھو جان! ہمارے آس پاس اچھے برے ہر قسم کے لوگ موجود ہوتے ہیں، آپ کو اسکول سے گھر اور گھر سے اسکول کے درمیان کوئی بھی اجنبی ملے جو آپ کو اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہے، یا آپ کے ساتھ بدتمیزی کرے تو آپ فوراً گھر آئیں گے اور اپنے بابا یا مجھے آکر بتائیں گے۔ اللہ کے پسندیدہ بندے وہ ہیں جو ان برائیوں سے بچتے ہیں۔ آپ سمجھ گئے میری بات۔‘‘
عمران نے ماں کی بات پر اثبات میں سر ہلایا، حالانکہ اس کو کچھ زیادہ سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ رات میں ابا نے بھی تینوں بہن بھائیوں کو بٹھایا اور انہیں اچھے اور برے لوگوں کے بارے میں بتایا۔ ابا کا بھی یہ معمول تھا کہ وہ اکثر رات کے وقت بچوں کے ساتھ اسلامی تعلیمات کے مطابق گفتگو کرتے۔ اماں اور ابا کی تمام باتوں کا لب لباب یہ تھا کہ بندہ اپنے آپ کو برائی سے بچائے کیونکہ موجودہ زمانے میں بندے کو گمراہ کرنے کے ’’لاکھوں سامان‘‘ موجود ہیں۔ قاری صاحب نے بھی تمام بچوں کو مدرسے میں قرآن کی تعلیم کے دوران سمجھایا کہ ہمارے چاروں طرف گندگی کے ڈھیر ہیں، اس گندگی سے اپنے آپ کو بچانا بندے کا فرض ہے۔ عمران سمجھ دار اور ذہین بچہ تھا۔ شروع میں تو وہ ان باتوں کو زیادہ نہیں سمجھ پایا، لیکن آہستہ آہستہ اُسے آگاہی ہوتی گئی۔ گھر میں دادا، دادی، امی، ابو، اور مدرسے میں مولانا صاحب گاہے بگاہے اچھائی برائی میں تمیز کرنے کے بارے میں سمجھاتے رہتے، اسی لیے عمران نہ صرف محتاط رہتا بلکہ اپنے کام سے کام رکھتا۔ اسکول میں مخلوط تعلیمی نظام تھا، وہ اکثر لڑکوں اور لڑکیوں کو آپس میں ہنستے بولتے دیکھا لیکن کلاس فیلو ہونے کے ناتے سلام دُعا سے زیادہ آگے نہ بڑھتا۔ اُس کے چند دوست اُس کی اِس عادت کا مذاق بھی اڑاتے لیکن وہ نظرانداز کردیتا۔
آج اسکول میں اس کی کلاس کے بچوں کا آخری دن تھا۔ بچوں نے خوب تیاری کی تھی۔ رنگ برنگے کپڑے، فیشن وغیرہ۔ پروگرام کے اختتام پر اس نے اپنے دوستوں کو خدا حافظ کہا۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔۔۔ لڑ
کے، لڑکیاں بڑے بے تکلفانہ انداز میں ہنستے بولتے عہد و پیمان کرتے نظر آئے۔ چند لمحے کے لیے اس کے دل میں بھی ایک خیال ابھرا کہ ان دس بارہ سال میں، میں نے ایک لڑکی کو بھی دوست نہیں بنایا، کیا واقعی میں ’’بے وقوف یا گنوار‘‘ ہوں؟ پھر اس نے سر کو جھٹکا اور آگے بڑھ گیا کہ اب ان باتوں کا سوچنا فضول ہے۔ اسکول کے گیٹ سے نکل ہی رہا تھا کہ پیچھے سے ایک نسوانی آواز سنائی دی ’’عمران رکیے ذرا۔‘‘
پلٹ کر دیکھا تو سامنے نوشین کھڑی تھی جو اُس کی کلاس فیلو اور ایک ذہین لڑکی تھی۔
’’جی فرمایئے۔۔۔ آپ کو مجھ سے کوئی کام ہے؟‘‘
نوشین نے بڑے والہانہ انداز میں اسے دیکھا اور کہا ’’آپ اتنی جلدی جارہے ہیں! جب کہ ابھی تو بہت سے ہمارے ساتھی یہیں ایک دوسرے سے گپ شپ میں مصروف ہیں، شاید آپ بور ہوگئے ہیں۔‘‘
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں (گھڑی میں دیکھتے ہوئے) خاصی دیر ہوگئی ہے اس لیے۔‘‘
’’آپ ہماری کلاس کے بہت اچھے ساتھی رہے ہیں، کیا ہم دوبارہ مل سکتے ہیں۔۔۔؟ میرا مطلب ہے آگے آپ کا کیا ارادہ ہے؟‘‘ پھر اس نے فوراً ایک پرچی جس پر فون نمبر لکھا تھا، عمران کے حوالے کی اور کہا ’’آپ اس نمبر پر مجھ سے بات کرسکتے ہیں‘‘۔ عمران حیران رہ گیا۔ آج سے پہلے اس کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہوا تھا، اس کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے، اس نے اثبات میں سر ہلایا، اس کے لبوں پر مسکراہٹ تھی۔
نوشین کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا کہ پیچھے سے ارشد نے زور سے کندھے پر ہاتھ مارا ’’واہ یار بڑے چھپے رستم نکلے، بڑا اونچا ہاتھ مارا ہے۔ (آنکھ مارتے ہوئے) بڑی چیز ہے یہ۔‘‘
’’نہیں یار ایسی کوئی بات نہیں۔ اچھا میں چلتا ہوں۔۔۔‘‘ پیچھے سے دو، تین اور دوستوں کے قہقہوں کی آوازیں سنائی دیں۔
عمران رات میں سویا تو بار بار اس حسینہ کا دلفریب سراپا اس کی نظروں کے سامنے آرہا تھا۔ اس نے سوچا کہ میں کل ضرور نوشین کو فون کرکے بات کروں گا۔۔۔ بات کرنے میں حرج ہی کیا ہے! کون سا میں اُس سے دوستی رکھوں گا۔۔۔! ساری رات وہ کروٹیں بدلتا رہا، لہٰذا فجر سے پہلے اسے نیند آئی اور فجر کی نماز بھی قضا ہوگئی۔ صبح دیر سے اٹھا۔ امی نے اس کے لیے ناشتا میز پر لگایا۔ ’’بیٹا آپ صبح دیر سے اٹھے، نماز بھی نہیں پڑھی، طبیعت تو ٹھیک ہے! اب تو امتحانات سے بھی فارغ ہوگئے ہو، کیا کالج کی پڑھائی شروع کردی؟‘‘
عمران کو بڑی شرمندگی ہوئی۔ اُس نے امی ابو سے کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا اس لیے وہ چپ ہی رہا۔ ناشتے سے فارغ ہوکر اس نے نوشین کو فون کرنے کا سوچا، لیکن اُس کی دی ہوئی پرچی، جس پر اُس کا نمبر لکھا تھا، اس کے بیگ میں نہیں تھی۔۔۔ بہت تلاش کیا لیکن بے سود۔ رات میں سویا تو آج اس حسینہ کے دلفریب چہرے کے بجائے اس کی سوچ پرچی میں تھی۔ شاید دوستوں کو دیکھ کر اس کے ہاتھ سے گر گئی ہوگی۔ اس کے پاس نوشین کا کوئی ایڈریس وغیرہ نہ تھا، اسے افسوس تو بہت ہوا لیکن اگلے دن عشا کی نماز کے بعد مولانا صاحب کا دس منٹ کا لیکچر سن کر اسے اطمینان ہوا کہ اللہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے اور نیکی کرنے والوں کو مختلف طریقوں سے ’’نوازتا‘‘ ہے۔ اسے یہ سن کر اطمینان ہوا کہ اللہ نے اسے بھی اس فعل سے بچایا۔
کالج، یونیورسٹی ہر جگہ اُس کے سامنے لڑکیوں کے جھرمٹ تھے۔ لڑکے، لڑکیاں مختلف مواقع اور تہواروں پر ایک دوسرے کو تحفے تحائف سے نوازتے، تفریح کرتے، لیکن اس نے اپنے جیسے چند لڑکوں کا گروپ بنا لیا تھا جو کہ ضرورت کے سوا لڑکیوں سے بات چیت سے گریز کرتے، جس کی وجہ سے اکثر اس گروپ کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا۔ عمران کو انتہائی افسوس ہوتا کہ ایسے مقدس مقامات پر لڑکے، لڑکیاں ایک دوسرے سے فلرٹ بھی کررہے ہیں، گرچہ ان کی تعداد کم تھی لیکن ’’ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کرتی ہے‘‘ کے مصداق ماحول بدنام ہورہا تھا۔ ماں باپ کی دی ہوئی تربیت اور تھوڑی بہت قرآنی تعلیمات تھیں جو بچپن میں مولانا صاحب سے حاصل کی تھی، جس کی وجہ سے اس کے قدم ڈگمگانے سے بچ جاتے تھے۔ یونیورسٹی میں کچھ نئی باتوں کا انکشاف ہوا تو وہ لرز گیا۔ ننگی فلمیں، نشہ آور اشیا کا استعمال، لڑکے لڑکیوں کے نت نئے فیشن اور آپس میں فلرٹ، اور امتحانات میں نقل کا رجحان۔۔۔ ان سب سے اس نے بڑی مشکل سے اپنا دامن بچائے رکھا۔ ایسے مواقع پر اسے اماں، ابا کی بات تو یاد آتی کہ آپ کے چاروں طرف گندگی کے ڈھیر ہیں، ان سے اپنے آپ کو بچانا آپ کی ذمے داری ہے، ساتھ میں حضرت عمرؓ کی روایت بھی دماغ کے دریچوں میں بازگشت کرتی، حضرت عمرؓ سے پوچھا گیا کہ تقویٰ کیا ہے؟ آپؓ نے فرمایا ’’ایسی پگڈنڈی جس کے دونوں جانب خاردار جھاڑیاں ہوں اور آپ اُن سے اس طرح بچتے ہوئے گزریں کہ آپ کے جسم اور کپڑوں کو نقصان نہ ہو‘‘۔ اس نے سوچا، واقعی ایک انسان کے چاروں طرف گناہ اور برائیاں خاردار جھاڑیوں کی مانند ہے، ان سے اپنا آپ بچانا بہت مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔
تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد عمران کی تعلیمی کارکردگی کے باوجود ملازمت حاصل کرنے کے لیے اُس سے رشوت اور سفارش طلب کی گئی، لیکن اسے اپنے رب پر بھروسا تھا، اگرچہ وقت لگا لیکن اسے اچھی ملازمت مل گئی۔ یہاں بھی آزمائشیں تھیں۔ رشوت، سفارش، خیانت کے تمام رنگ آس پاس موجود تھے، لیکن اس نے ثابت قدمی سے اپنے آپ کو بچانے کی سعی کی۔
عمران کی شادی ہوئی تو خاتون (بیوی) کی نت نئی فرمائشیں وغیرہ اس کے سامنے تھیں۔ اس کی رزقِ حلال کی کمائی اور بے جا فرمائشیں۔۔۔ اس کے قدم بعض اوقات ڈگمگا جاتے، لیکن ہر بار اللہ کے کرم سے اپنے دامن کو خرافات سے بچا لیتا۔ اس نے رشوت اور حرام پیسے سے بچنے کے لیے معتبر طریقہ استعمال کیا اور ہفتے میں دو دن اوور ٹائم لگانے لگا۔ اس طرح بیوی بھی خوش اور اسے بھی سکون نصیب ہوا۔ اگلے ماہ اسے بیرونِ ملک میٹنگ اٹینڈ کرنے کے لیے جانا تھا، اسے بے حد خوشی ہوئی کہ اتنے کارکنوں کے درمیان اس کی ایمان داری اور محنت کی وجہ سے اسے منتخب کیا گیا ہے۔
لندن پہنچا تو یہاں کے رنگ ہی نرالے تھے، جس کے بارے میں اس نے سن رکھا تھا۔ اسے بڑا تعجب ہوا کہ اتنی گندگی، بے حیائی کے باوجود بہت سے مسلمان کس طرح راہِ ہدایت پر گامزن ہیں۔ اس کا تذکرہ جب اس نے وہاں ایک سینئر افسر سے کیا تو وہ ہنس پڑا، اسے یہ نوجوان پسند آیا کہ اس کے دل میں خوفِ خدا بھی ہے اور اس نے اپنا آپ ہر گندگی سے بچائے رکھا ہے۔
اعلیٰ افسر: نوجوان مجھے تمہاری بات پسند آئی، بے شک یہ دنیا ایک خوب صورت رنگا رنگ قید خانہ ہے جہاں دنیاوی لذتوں کی بھرمار ہے، ایسی لذتیں جو ہمارے لیے حرام ہیں، ان لذتوں میں کھو کر انسان آخرت کی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور رب کی رضا سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس لیے مومن کے لیے بے حد ضروری ہے کہ وہ نفس پر قابو رکھے۔ نفس پر قابو رکھنا بہت بڑا جہاد ہے۔ مردِ مومن ہی اس جہاد پر ڈٹ کر ان لذت بھری حرام شیطانی چالوں سے اپنا دامن بچا پاتا ہے۔ رب العزت نے اس گندگی سے بچانے کے لیے دنیا میں نبیوں اور پیغمبروں کو مبعوث فرمایا، اور بندوں کی ہدایت کے لیے قرآن پاک جیسی عظیم المرتبت کتاب نازل فرمائی، ہم اس کتابِِ عظیم کی تعلیمات پر عمل کرکے ہی اپنا آپ بچاکر کندن بن سکتے ہیں۔ آج ہمارے چاروں طرف ’’یہی سب‘‘ ہے اور آنے والے وقت میں اس سے بھی زیادہ کا امکان ہے۔ آج اگر ہم اپنے آپ کو بچا پائیں گے تو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ہدایت کی راہیں ہموار کر پائیں گے۔ میدانِ جنگ میں جب دشمن زیادہ طاقتور ہوتا ہے تو مجاہد کو اُس کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ صرف ہتھیاروں سے لیس ہونا پڑتا ہے بلکہ جسمانی اور روحانی طاقتوں کا بھرپور استعمال لازمی امر بن جاتا ہے۔ انہی خوبیوں کی بدولت وہ دشمن کو زیر کر پاتا ہے۔ آج ہمارے گرد یہ طاغوتی طاقتیں ہمارے من کی دنیا کی دشمن ہیں، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے گھروں میں چھپنا نہیں بلکہ میدانِ عمل میں نہ صرف نکلنا ہے بلکہ دوسروں کو بھی ان سے بچنے کی ترغیب دینی ہے۔ اسلامی تعلیم کی خوبیاں اور اچھائیاں اتنی بابرکت اور سنوارنے والی ہیں کہ ان کو اپنانے والا اپنی زندگی میں عظیم اسلامی انقلاب محسوس کرتا ہے۔ نہ صرف وہ خود فیض یاب ہوتا ہے بلکہ اس کے آس پاس کے لوگ بھی اس سے معطر ہوتے ہیں۔ قرآن پاک میں ابدی زندگی، جنت و جہنم، انبیائے کرام اور ان کی امتوں کے ذکر کا مقصد ہمیں راہِ راست دکھانا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ ہم سب جانتے ہیں جنہوں نے اپنا دامن تار تار ہونے سے بچانے کے لیے رب پر بھروسا کیا اور بند دروازے کی طرف بھاگے۔ کیا وہ مرد نہیں تھے؟ ان کے جذبات، احساسات اور اوپر سے تنہائی تھی، لیکن انہوں نے اپنے اوپر شیطان کو غالب اور مسلط نہ ہونے دیا اور اپنے رب سے مدد مانگی۔ بے شک میرے دوست! آج ان شیطانی اور طاغوتی فریبوں سے ایک مرد کا اپنے آپ کو بچانا کسی بڑے جہاد سے کم نہیں۔ مومن بننا ہے تو اس جہاد پر ڈٹے رہنا ہی خدا کی رضا حاصل کرنا ہے۔
اسی لیے کہا گیا ہے کہ مردِ مومن کے لیے تو ہر قدم پر جہاد ہے، یعنی ہر قدم پر ثواب و اجر ہے۔ کتنی خوش نصیبی ہے مردِ مومن کے لیے کہ وہ گندگی کے بیچ رہتے ہوئے اپنا آپ بچا لیتا ہے اور بارگاہ الٰہی میں سرخرو ہوجاتا ہے۔
آج ہمارے اردگرد لاکھوں نوجوان ایسے ہیں جو تندہی سے اس میدانِ جہاد میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ رب العزت تمام مردوں کو ’’مردِ مومن‘‘ بننے کی صلاحیت عطا کرے۔ آمین
عمران نے افسر کی بات پر اثبات میں سر ہلایا: بے شک آج کا نوجوان ان گندگیوں سے برسرپیکار ہے۔ آپ کی باتوں سے مجھے بڑی تقویت محسوس ہوئی، جزاک اللہ، میرے آگے بڑھنے کے لیے مزید راہیں ہموار ہوگئیں۔
۔۔۔*۔۔۔
ارشاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے ’’اللہ اس جوان آدمی کو پسند فرماتا ہے جو اپنی جوانی کو اللہ کی فرماں برداری میں صرف کرتا ہے۔‘‘

حصہ