ذاتی رنجش اور رقابت

280

قدسیہ ملک

ویمن ایڈ ٹرسٹ (ویٹ) کا قیام انسانی معاشرے کی حقیقی اور بنیادی ضرورت عورت کے حقوق اور مسائل کے ادراک اور ان کے حل کے ذریعے پورے انسانی معاشرے کی بھلائی کی ہمہ گیر جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے۔ اس کے مختلف شعبہ جات ہیں جن میں لیگل ایڈ، سماجی مشاورت، جیل میں خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے کام، سماجی فلاحی کام، تحفظِ ماحولیات کے شعبے اور تحقیقی مرکز شامل ہیں۔ گزشتہ 22 برسوں سے ویمن ایڈ ٹرسٹ سے وابستہ سابق صدر کراچی ’’ویٹ‘‘ اقبال النساء نے کراچی میں ویمن ایڈ ٹرسٹ کی سرگرمیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ 1996ء میں ہماری سرگرمیوں کا آغاز کراچی سے ہوا۔ کراچی جیل میں کام شروع کیا۔ خاندانی جھگڑوں اور تنازعات کے حل کے لیے کراچی سٹی کورٹ کے سامنے ہم نے اپنے آفس کی بنیاد رکھی۔ اُس وقت پینل میں 12 ارکان تھے جن میں سے 6 ارکان ایڈووکٹ تھے۔
پنجاب میں کام کی ابتدا کے حوالے سے ڈائریکٹر شاہینہ وقار بتاتی ہیں کہ WAT (ویٹ) کی رجسٹریشن 1994ء میں ہوئی لیکن عملی سرگرمیوں کا آغاز 13 اپریل 1997ء سے ہوا۔ پہلا پروجیکٹ راولپنڈی کی سینٹرل جیل اڈیالہ میں شروع کیا گیا۔ اس تنظیم کے ارکان کی تعداد 40 کے قریب ہے، جن میں سے زیادہ تر رضا کار ہیں، اور ٹرسٹ کی فنڈنگ بھی پاکستان کے اندر سے ہی کی جاتی ہے۔ شاہینہ وقار نے اپنے ادارے کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارا مقصد خاندان جیسے بنیادی ادارے کی بقا اور بھلائی کے لیے جدوجہد کرنا اور ایسی ہر جدوجہد میں تعاون کرنا ہے۔ قانونی اور سماجی مشاورت کی فراہمی، عورتوں اور بچوں کی فلاح کے منصوبے، دستکاری اور فنی مہارت کے پروجیکٹ، خودکفالتی اسکیموں کا آغاز اور ایسے تربیتی پروگراموں کا اہتمام جن کے ذریعے معاشرے میں خواتین کے حقوق و فرائض سے متعلق شعور میں اضافہ کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ سوشل ریسرچ، اعداد و شمار جمع کرنا، چھوٹی سطح پر تعلیمی اور تربیتی پبلی کیشنز اور مختلف تربیتی پروگرام، ان جملہ مقاصد کے ساتھ ہم صوبہ پنجاب کی تین جیلوں میں مختلف منصوبوں پر عمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اڈیالہ جیل کے زنانہ حصے کی صورت حال اب بہت بدل چکی ہے۔ وہاں اب قیدیوں کے لیے ٹھنڈے پانی کے الیکٹرک کولر لگے ہیں۔ ہر قیدی کو ایک بستر میسر ہے۔ باورچی خانے میں باقاعدہ چولہے نصب ہیں۔ ایک لائبریری بھی بنادی گئی ہے، اور ایک سلائی اسکول کے علاوہ اپنی قیدی ماؤں کے ساتھ رہنے والے بچوں کے لیے ایک کنڈرگارڈن بھی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس جیل میں عورتوں کے لیے ایک ہیلتھ یونٹ بھی قائم ہوچکا ہے، جہاں چوبیس گھنٹے ایک لیڈی ڈاکٹر موجود ہوتی ہے۔ یہ بہتری محکمہ جیل خانہ جات کے تعاون اور کوششوں کے ساتھ ساتھ ویمن ایڈ ٹرسٹ کی مسلسل کاوشوں کے نتیجے میں ممکن ہوئی۔ ویمن ایڈ ٹرسٹ کے ایسے ہی منصوبوں کی تقیلد کرتے ہوئے اب پنجاب حکومت خود بھی متعدد جیلوں میں مختلف پروجیکٹ شروع کررہی ہے، اور کئی منصوبوں میں تو وہ اس ٹرسٹ کی مدد پر بھی انحصار کررہی ہے۔ خواتین کے اسی امدادی ٹرسٹ ’’ویمن ایڈ ٹرسٹ‘‘کی طرف سے سوشل ورکر اور ماہر نفسیات فوزیہ خالد گزشتہ کئی برسوں سے اڈیالہ جیل میں ایک ایموشنل سپورٹ پروگرام بھی چلا رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’’جیل میں ہمارے کنڈر گارڈن میں بچوں کی تعداد 40 کے قریب ہے۔ خواتین کی نفسیاتی صحت اور مجموعی حالت بھی پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ لیکن ایک چیز کی شدید کمی ہے، اور وہ ہے قیدی خواتین کے ساتھ تعلیمی انصاف۔‘‘ فوزیہ خالد نے بتایا کہ بہت کوشش کے بعد جو قیدی عورتیں تعلیم حاصل کرلیتی ہیں، ڈگری کے حصول کے لیے اسلام آباد میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ان کے داخلے ہی قبول نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا ’’قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ مرد قیدی ڈگریاں حاصل کررہے ہیں جیلوں میں رہتے ہوئے، تو عورتوں کے لیے ایسا کیوں نہیں ہونے دیا جارہا؟‘‘ انہوں نے کہا کہ میں نے خود کئی بار اوپن یونیورسٹی جاکر کوشش کی، لیکن یونیورسٹی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آرہا۔ معاشرہ معاف نہیں کرتا۔ اس طرح پنجاب کی جیلوں میں ویمن ایڈ ٹرسٹ کے تحت لاوارث،کمزور اور بے کس خواتین کی مدد کو یقینی بنایا جارہا ہے۔آج کی نسل جو نباتات سے بنے گھی پر زندہ ہے۔ جہاں ملاوٹ اور بازاری مصنوعات کی افراط ہے، نظریات کے نام پرآلودگی میں لپٹا علم دیا جارہا ہے۔ بڑا ہی تکلیف دہ وقت ہے۔ یہاں اس فکر سے نوجوان کو سرے سے خارج نہیں کررہے ہیں، بلکہ نوجوان کی توجہ کے طالب ہیں، کہ ایک لمحہ ٹھیر کر غور کرے۔ سہانے سپنوں کی تعبیر کے لیے وہ اپنے آپ کو فراموش کربیٹھا ہے۔ اس قیامت خیز ماحول میں ایسے مٹھی بھر مخلص لوگ پورے معاشرے کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ انعام و شہرت کی بھوک سے بے پروا یہ لوگ ان طبقات میں محبتیں بانٹ رہے ہیں جن کے اپنے انہیں فراموش کرچکے ہیں۔
کراچی جیل میں ان قیدی خواتین کو بھی ویمن ایڈ ٹرسٹ کی کاوشوں کی وجہ سے بہت سی بنیادی سہولیات سے آراستہ کیا گیا ہے، جن میں جیل میں میڈیکل کا شعبہ، قرآن کی تجوید کے لیے معلمہ، سلائی کڑھائی سینٹر، بچوں کے لیے مونٹیسوری، خواتین کی فٹنس کے لیے جم، بچوں کے لیے پارک و جھولے، حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنے کے لیے الیکٹرانک میڈیا (ٹی وی)کی سہولت وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام سہولیات ویمن ایڈ ٹرسٹ و دیگر این جی اوز کی بدولت قیدی خواتین کو بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ لیڈی سپرنٹنڈنٹ شیبا شاہ کے اچھے اخلاق اور ویمن ایڈ ٹرسٹ کے ساتھ اچھے روابط کی بدولت ویمن ایڈ ٹرسٹ جیلوں میں ان قیدیوں کی کونسلنگ اور انہیں معاشرے کا بامقصد شہری بنانے کے لیے ہر آن مصروفِ عمل ہے۔ مشکلات و مصائب کو راہِ اللہ میں اجر کی خاطر برداشت کرنے والے یہ مخلص لوگ اچھے و برے صلے سے بے پروا ہوکر ان قیدیوں کی مدد کو اپنی اُخروی نجات کا ذریعہ سمجھ کر خدا کی مخلوق میں علم، پیار، محبتیں، انعامات، تحائف و خوشیاں بانٹنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ کراچی جیل کی راہ داریاں، بالا خانے، پارک، کیبن، کمرے، دالان و باتھ روم ہر جا میں موجود شے ویمن ایڈ ٹرسٹ کی موجودگی کی گواہ ہے۔ قیدی انہیں اپنا مسیحا تصور کرتے ہیں ۔ انہیں اپنی ضرورت کی ہر شے سے آگاہ کرتے ہیں، کیونکہ انہی کی بدولت قیدیوں کی آواز کو اونچے ایوانوں تک رسائی ملی ہے۔
یہاں ہم جیل میں موجود حسنہ کی کہانی معمولی ردوبدل کے بعد اپنے قارئین کی نذر کررہے ہیں۔ ناامیدی کے بھنور میں پھنسی حسنہ کی ویمن ایڈ ٹرسٹ کی جانب سے روحانی امداد کی گئی اور اسے مایوسی کے بھنور سے کس طرح نکالا گیا، آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں:حسنہ 8 برس قبل اُس وقت گرفتار کی گئی جب وہ اپنے مرحوم شوہر کی اسٹیٹ ایجنسی چلارہی تھی۔ اس کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ شوہر کی اپنی ایجنسی تھی۔ وہاں اسٹیٹ کے معاملات کے ساتھ سفری معاملات بھی طے ہوا کرتے تھے۔ حسنہ کے شوہر نے رفتہ رفتہ ترقی کرکے اسٹیٹ ایجنسی کو ٹریولر ایجنسی میں بھی تبدیل کرلیا تھا۔ اس کی ایک خامی تھی کہ وہ اپنے تمام کاروباری معاملات میں اپنے بچوں کو آنے نہ دیتا تھا۔ وہ بچوں کو صرف اپنی پڑھائی پر توجہ دینے کو کہتا تھا۔ ایک دن وہ اپنی ایجنسی میں بیٹھا دفتری معاملات نمٹا رہا تھا کہ کسی نے اس آفس میں آکر اسے گولیاں مار دیں۔ بچوں کو کاروبار کی کوئی سمجھ نہ ہونے کے باعث حسنہ کو اپنے شوہر کا بزنس سنبھالنا پڑا۔ اب وہ ایجنسی کے تمام معاملات خود دیکھتی تھی۔ اس کی محنت کو دیکھتے ہوئے اس کے شوہر کے بھانجے اور بھتیجے نے حسنہ کو اپنی خدمات پیش کیں۔ وہ اکیلی تھی، بالآخر راضی ہوگئی۔ وہ دونوں دفتر میں آ تو گئے لیکن دفتر کے کسی معاملے سے اسے آگاہ نہ کرتے تھے۔ حسنہ شوہر کی محبت کا بھرم رکھے اپنے گھر کے اخراجات بمشکل اٹھا رہی تھی۔
پیار انسان کی فطرت میں شامل ایک جزو ہے، بالکل اسی طرح جس طرح سانس لینا، کھانا کھانا، پانی پینا، سونا، جاگنا انسانی فطرت کے جزو ہیں، اِسی لیے ہم ہر انسان سے بحیثیت انسان پیار کرتے ہیں، ہم فطرت سے پیار کرتے ہیں، ہم اپنے دوستوں سے پیار کرتے ہیں، اپنے عزیزوں اور رشتے داروں سے پیار کرتے ہیں، اپنے گھر والوں سے، ماں، باپ، بھائی، بہن، بیوی بچوں سے پیار کرتے ہیں، اپنے گھر، گلی، گاؤں، شہر اور ملک سے پیار کرتے ہں ، اور جانوروں سے پیار کرتے ہیں۔۔۔ یہ سب پیار کی مثالیں ہیں۔ یہ صرف پیار ہی تھا کہ حسنہ نے ان دونوں بھانجے بھتیجے کو اپنے بزنس میں بغیر کسی شرط کے بخوشی پارٹنر بنالیا تھا۔
کچھ دنوں سے وہ ان دونوں میں کچھ کھنچاؤ محسوس کررہی تھی۔ پوچھنے پر دونوں نے آفس کی مصروفیت کا بہانہ بنادیا۔ اس کے ایک دن بعد ہی دونوں نے حسنہ کو فون کیا اور ایک دوسرے سے معاملات پوشیدہ رکھنے کی ہدایت کی۔ قبل اس کے کہ حسنہ کچھ سمجھتی، ایک گھنٹے بعد دونوں آفس میں آئے اور آپس میں اونچی آواز میں تُو تُو، میں میں شروع کردی۔ نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ وہ لڑائی ختم کرا رہی تھی کہ اچانک دونوں نے اپنی اپنی پستولیں نکال لیں اور ایک دوسرے پر چلادیں۔ قبل اس کے کہ وہ اس افتاد سے سنبھلتی، پولیس آئی اور موقع سے اسے گرفتار کرکے لے گئی۔ پولیس کے مطابق آخری کال دونوں نے حسنہ ہی کو کی تھی، اس لیے حسنہ کو منصوبے کا علم تھا۔ واقعہ بھی ایجنسی ہی میں ہوا۔ جبکہ دونوں کی پستولوں پر ان کی اپنی انگلیوں کے نشانات تھے۔ تمام سسرالیوں نے حسنہ کی گرفتاری ہی میں عافیت جانی اور جھوٹی گواہی دی۔ حسنہ کو ان گواہیوں کی وجہ سے 25 سال قید کی سزا ہوگئی۔ آج بھی جب کوئی باہر کا فرد کراچی جیل جاتا ہے تو وہ اپنی داستانِ غم سناکر بہت روتی ہے۔ اس کے بچوں کے سوا کوئی اس سے ملنے نہیں آتا۔ جیل ہی میں رہتے ہوئے اس کی دو بیٹیوں کی شادی ہوگئی ہے جن میں حسنہ شرکت نہ کرسکی۔ وہ اپنے اچھے ایام یاد کرکرکے بہت روتی اور آنسو بہاتی ہے۔ ایک بھرا پرا گھر ذاتی رنجشوں، رقابتوں اور سازشوں سے کس طرح برباد ہوجاتا ہے، شاید یہ حسنہ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔
ویمن ایڈ ٹرسٹ کی جانب سے حسنہ کی کونسلنگ کی گئی۔ مایوسیوں کی دلدل سے نکال کر امیدِ نو کی کرن دکھائی گئی۔ قرآن کے سایۂ رحمت میں پناہ تلاش کرنے کے لیے حسنہ کی، قرآنی قصوں اور آیات سے مدد لی گئی۔ لیکن وہ آج بھی اپنے خاندانی جھگڑوں اور رشتوں سے بہت نالاں اور ناراض ہے جس کے باعث اس کا ہنستا بستا گھر آگ کی نذر ہوگیا۔ ویمن ایڈ ٹرسٹ کی جانب سے اسے بتایا گیا کہ رب پر بھروسا رکھو جس نے حضرت مریم کی مشکل آسان کی تھی، حضرت یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے بہ عافیت نکالا تھا، حضرت یوسفؑ کی کنویں میں اُس وقت مدد کی تھی جب ان کا کوئی نہ تھا۔ حسنہ کو نماز کے ذریعے مدد لینے کو کہا گیا۔ اس کے علاوہ اس کی ہر ممکن مالی، قانونی اور روحانی امداد کے ذریعے اسے رب سے جوڑنے اور معاشرے کا کارآمد شہری بنانے میں جیل انتظامیہ کی مدد سے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے، تاکہ وہ جیل سے رہا ہوکر معاشرے کی بہترین اکائی کے طور پر سامنے آسکے۔
اللہ ہم سب کے درمیان بھی محبتیں، الفتیں قائم رکھے۔

حصہ