جدید حسیت اور معاشرہ

1767

رئیس فروغ

ہم عصر اور جدید ، یہ دو لفظ دو مختلف مفاہیم رکھتے ہیں۔ ہم عصر صرف زمانے کی طرف اشارہ کرتا ہے جبکہ جدید میں زمانے کے علاوہ حسیت اور اسٹائل کا تصور بھی شامل ہے۔ ادب میں جدید اور قدیم کا امتیاز کلینڈر سے نہیں بلکہ طرز احساس سے کیا جاتا ہے۔ جہاں تک انسانی جذبوں کا تعلق ہے، وہ آدمی کے ساتھ عالم وجود میں آئے رنج ، خوشی، خوف، غصہ، محبت ، نفرت انسانی جبلت کا حصہ ہیں۔ خارج کے ردعمل میں جب جذبے بیدار ہوتے ہیں تو احساس کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ یعنی جذبوں کی بیداری کا محرک ہمیشہ خارج میں ہوتا ہے اور خارج کی مجموعی صورت حال مجموعی طرز احساس کی تشکیل کرتی ہے۔ اس کا تعلق مجموعی تصورِ حقیقت اور مجموعی معاشی و معاشرتی رشتوں سے ہوتا ہے۔ معاشرہ مخصوص تصور حقیقت اور مخصوص معاشرتی و معاشی رشتوں کی تنظیم کا نام ہے۔ اس تجزئیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حسّیت معاشی وہ معاشرتی رشتوں کی تبدیلی کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔
ای ایم فورسٹر نے ایک جگہ لکھا ہے:
’’ میں پرانے فیشن کی دنیا کے بارے میں ، جس میں اس دنیا کے گھران کی خاندانی زندگی اور اس کا مقابلتاً پر امن ماحول تھا، میں ان کے بارے میں لکھنے کا اس قدر عادی ہوچکا تھا کہ ہرچند میں نئی دنیا کے بارے میں سوچ سکتا تھا۔ مگر میں اسے اپنے ناول میں نہیں لکھ سکتا تھا۔‘‘
جو حسیّت جدید کے نام سے تعبیر کی جاتی ہے وہ سولہویں صدی کے سائنسی انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ سائنسی انقلاب نے ایک طرف تو مجموعی تصورِ حقیقت کو متاثر کیا اور دوسری طرف معاشی و معاشرتی ڈھانچہ کو تبدیل کیا۔ ادب و فن میں جدید حسیّت کا نمایاں احساس ۱۸۰۰ء سے شروع ہوتا ہے ۔ اس احساس کے بنیادی ادیبوں اور مفکروں میں دوستووسکی اور کے کیر کے گار کے نام خاص ہیں۔ اس حسیّت کا جب فلسفیانہ اظہار ہوتا ہے تو اسے وجودیت کہتے ہیں۔پاکستان میں جدید حسیت کا سراغ روحِ افکار کی پیداوار نہیں ہے۔ چند انتہا پسندوں سے قطع نظر ہمارے ہاں جدید حسیت کا اظہار جس طرح ادب میں ہوتا ہے اس سے بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ادیب اور شاعر اپنی تاریخی اور اپنی ثقافتی قدروں کو برقرار رکھتے ہوئے نئے عہد کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ادب میں جدید حسیّت فلسفے کی وجودیت کے متوازی رویے کا نام ہے۔
یہ جدید لوگ ان چیزوں سے نظریں چرالیتے ہیں جو ان کے سامنے موجود ہوتی ہیں۔ آخر کیوں وہ یقیناًاس جگہ زندہ نہیں رہتے جہاں وہ ہوتے ہیں۔ وہ خلا میں رہتے ہیں۔ خیر اور شر کا خلاء ۔ اصولوں کا خلاء ۔ ان جدید لوگوں سے بات کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی الجبرا کے حروف سے انسانی تعلقات ناپنا چاہے۔
جنگ عظیم کے بعد جو سماجی بے جہتی اور انتشار ہوا تھا ، اس نے یورپ کے شہریوں میں ماضی سے اپنا رشتہ توڑلینے کی شدید خواہش پیدا کردی۔ ان میں گہری اور سچی خواہش یہ تھی کہ وہ انسانی تاریخ کا نئے سرے سے آغاز کریں۔ آرٹ میں سرریلزم ، دادازم اور دوسری تحریکیں اس خواہش کا اظہار تھیں۔
جدید معاشرے میں فنکار اور مصنف کی حسیّت کے لئے سب سے ناگوار بات یہ ہے کہ ذاتی تعلقات اور ان کی حرمت بالکل مفقود ہوگئی ہے۔ انسان کو صرف سماجی معیاروں سے جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔ عارضی اور اتفاقی مفادات کے نقطہء نظر سے تعلقات کا بننا اور بگڑنا فن کی حسیّت کے لئے کسی طرح قابل قبول نہیں۔ راشد کہتے ہیں؛
مرے صحن میں ایک کم سن بنفشے کا پودا ہے
طیارہ کوئی کبھی اس کے سر پر سے گزرے
تو وہ مسکراتا ہے اور لہلہاتا ہے
گویا طیارہ اس کی محبت میں
عہد وفا کے کسی جبر طاقت رہائی سے گزرا
وہ خوش اعتمادی سے کہتا ہے
لو دیکھو کیسے اسی ایک رسی کے دونوں کناروں
سے ہم تم بندھے ہیں
یہ رسی نہ ہو تو کہاں ہم میں تم میں
ہو پیدا یہ راہِ وصال
نئی حسیّت کے لئے ایک نیا مسئلہ یہ بھی ہے کہ پرانے رسم و رواج کی جگہ قانون نے لے لی ہے اور قانون ہی معاشرے میں رہنمائی کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ اس قانون کے زیرِ سایہ جو انسانی تعلقات پیدا ہوتے ہیں، وہ فطری نشوونما کے طور پر ظاہر نہیں ہوتے بلکہ ان تعلقات کو ارادتاً استوار کیا جاتا ہے۔ جدید حسیّت بورژوا خوش اخلاقی اور منافقتوں کا پردہ چاک کرنا چاہتی ہے۔ ہمارے تمام معاشرتی سوالات کے جواب ماضی میں دئیے گئے جدید حسیّت ان جوابات کے بارے میں سوالات اٹھانا چاہتی ہے اور جب ہم یہ سوالات اٹھاتے ہیں تو دراصل اپنے آپ کو معتبر بناتے ہیں۔ اور اپنی نمائندگی کرتے ہیں۔ کامیوؔ کے خیال میں دوستووسکی کے تمام ہیرو اپنے آپ سے زندگی کے معنوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ اس لئے یہ جدید ہیں۔
جدید حسیّت سنیما، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھی اپنا اظہار کررہی ہے جہاں حقائق سے بھاگ کر خواب دیکھنے کی خواہش کو پورا کیا جاتا ہے۔ یہ پروگرام ہمارے جذبات کو تسکین پہنچاتے ہیں اور ان گنت شہریوں کے نقطہء نظر کو ایک ہی رخ میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم کسی نوجوان کو خوبصورت اور کسی لڑکی کو حسین سمجھتے ہیں۔ اس کا تعین بھی رسالوں کے کور اور فلم اسٹاروں سے ہوتا ہے۔ ہالی ووڈ کا اثر، لباس میک اپ طرزِ آرائش یہاں تک کہ محبت کرنے کے طور طریقوں پر بھی یورپ اور امریکہ سے لے کر یہاں تک پڑرہا ہے۔ بات یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں جس جدید حسیّت کا مظاہرہ ہورہا ہے ، فلم اور دوسرے ذریعوں سے اس میں ہم اپنے خیال میں ہی اسکرین کے ان کرداروں کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جدید عہد جو ایک بے مثال اور امید افزا انسانی جدوجہد سے شروع ہوا ، اس کا اظہار آج اس طرح بنجر اور بے روح معاشرے کی صورت میں ہو۔
پاکستان میں جدید حسیّت کا اظہار سراسر روحِ انکار کی پیداوار نہیں ہے۔ چند انتہا پسندوں سے قطع نظر ہمارے ہاں جدید حسیّت کا ادب میں جس طرح اظہار ہوتا ہے ، اس سے یہ اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ادیب اور شاعر اپنی تاریخ اور ثقافت کی قدروں کو برقرار رکھتے ہوئے نئے عہد کا ساتھ دیتے ہیں۔

کتنے آدمی تھے؟

ظہیر خان

ہال سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کرسیاں کم پڑگئیں، کچھ احباب کھڑے تھے باقی بیٹھے تھے۔ پروگرام جاری و ساری تھا۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد تالیوں کے بے پناہ شور سے ہال گونج جاتا تھا۔ یہی کیفیت تھی آرٹس کونسل کے اس ہال کی جس کا احوال میں لکھنے جارہا ہوں کیونکہ۔۔۔ہم بھی وہاں موجود تھے ہم نے بھی سب دیکھا کیے۔
اپریل کی ۱۲ تاریخ تھی، پاکستان کے بہت ہی نامی گرامی طنزو مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی ۲۵ ویں کتاب ’’کتنے آدمی تھے؟‘‘ کی رسمِ اجرا کی تقریب منائی جارہی تھی ہال میں کتنے آدمی تھے؟ ۔۔۔ میرے خیال میں کوئی تین سو کے قریب ۔۔۔ اسٹیج پر کتنے آدمی تھے؟ ۔۔۔ یہی کوئی آٹھ عدد۔۔۔ دو مقرّر ایک صاحبِ کتاب، ایک صدر، ایک ناظمہ اور باقی مہمانِ خصوصی۔پروگرام کے آغاز کی ذمہ داری ڈاکٹر معین قریشی صاحب کے گھر کے افراد نے اپنے ذمہ لے رکھی تھی۔ نواسے نے قرآن پاک کی تلاوت کر کے سامعین کے ایمان کو تازگی بخشی جب کہ نواسی نے نعتِ رسول مقبولؐ ’’میرے نبی سے میرا رشتہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے‘‘ پڑھ کر ہال میں موجود افراد کے قلوب کو گرمادیا۔
نظامت کے لیے ڈاکٹر صاحب کا انتخاب کوئی ڈاکٹر ہی ہوتا ہے کچھ سال پہلے تک ڈاکٹر ہُما میر نظامت کے فرائض انجام دیا کرتی تھیں اب ادھر کچھ عرصہ سے ڈاکٹر نذہت عبّاسی یہ فرائض بڑی خوش اسلوبی اور ذمہ داری سے نباہ رہی ہیں۔
ڈاکٹر نذہت عبّاسی ایک بہت اچھی شاعرہ ہیں، ادیبہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب وہ مائک پر تشریف لاتی ہیں اور بولنا شروع کرتی ہیں تو ہر کوئی ان کی سمت متوجہ ہوجاتا ہے کیونکہ ان کا ادا کیا ہوا ہر جملہ اپنے اندر ادبی رنگ اور شاعرانہ انداز رکھتا ہے ڈاکٹر نذہت نے اپنے ابتدائیہ کلام میں کہا کہ ڈاکٹر معین قریشی صاحب اس دور کے وہ عظیم مزاح نگار ہیں جنہوں نے زندگی کی سنگین حقیقتوں کو مزاح کے پیرائے میں پیش کیا، در حقیقت وہ اسے پیش کرنے کے ہُنر سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی تحاریر موسمِ خزاں میں موسمِ بہار کا لطف دیتی ہیں ایسی تحریر کہ قاری پڑھ کر کم از کم زیرِ لب مسکراہٹ سے محروم نہیں رہ سکتا۔ اﷲ تعالیٰ ان کی عمر دراز کرے تا کہ ہم لوگ ان کی اگلی کتابوں کی بھی رسمِ اجرا اسی طرح ہنستے مسکراتے کرتے رہیں۔ ڈاکٹر نذہت نے تقریب کے پہلے مقرّر محمد اسلام، جن کا تعلق روزنامہ ’’جنگ‘‘ سے ہے، دعوت دی۔۔۔
محمد اسلام نے کہا کہ پہلے فلموں کی سلور جvبلی ہوا کرتی تھی اور اب کتاب کی سلور جبلی شروع ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ۲۵ ویں کتاب اس بات کی تائید کرتی ہے۔ انہوں نے کہا ڈاکٹر صاحب کی تحریریں شائستہ اور ظرافت سے بھر پور ہوتی ہیں۔ وہ ہنسی ہنسی میں ایسی بات کہہ جاتے ہیں جسے پڑھ کر قاری کچھ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر صاحب کی تحریریں پریشان حال، ٹینشن زدہ لوگوں کے لیے مسکراہٹ بکھیر کر انہیں ان کی نارمل حالت میں لے آتی ہیں ان کی ۲۵ ویں کتاب اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مزاح نگاروں کی ہیوی ویٹ چیمپیئن ہیں۔
محمد اسلام کے بعد محترمہ نسیم انجم صاحب کو دعوت دی گئی۔ نسیم انجم کالم نگار بھی ہیں۔ ناول نگار بھی ان کے کئی ناول اب تک شائع ہوچکے ہیں۔ ’’نرک‘‘ ان کا مشہور ناول ہے جس نے کافی پذیرائی حاصل کی۔ نسیم انجم نے اپنی بات کا آغاز اس طرح کیا کہ ہمارا ملک جن آفات اور مشکلات کا شکار ہے ان میں سب سے بڑی لعنت سیاسی کُشتیاں ہیں۔ سیاست دانوں نے ملک کو سیاسی اکھاڑہ بنا رکھا ہے اور عوام پس رہے ہیں۔ دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔ ایسے سنگین حالات میں مزاح لکھنا اور اپنے مضامین میں تمام سیاسی بد عنوانیوں کی نشان دہی کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے جو ڈاکٹر صاحب کررہے ہیں ان کی تحریروں میں طنز بھی ہے اور مزاح بھی انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر صاحب وسیع القلب اور وسیع النّظرہیں۔
نسیم انجم صاحبہ کی تقریر کافی طویل تھی (کوئی چھ صفحات پر مشتمل) جب وہ اپنا چوتھا صفحہ پڑھ رہی تھیں سامعین پہلو بدل رہے تھے چوتھا صفحہ مکمل ہونے کے بعد پانچواں صفحہ کہیں اِدھر اُدھر ہوگیا اسے تلاش کرنے میں انہیں چند سیکنڈ لگ گئے حاضرین کو موقع مل گیا انہوں نے تالیاں بجانی شروع کردیں۔ نسیم انجم ان کا اشارہ سمجھ گئیں کہنے لگیں کیا میں اب آگے نہ پڑھوں؟ لوگوں نے اور زور سے تالیاں بجا کر ان کے سوال کا جواب دے دیا۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے اشارہ کیا کہ آپ مضمون مکمل کرلیں بہرحال انہوں نے اپنے چھ صفحات مکمل کرہی ڈالے۔
ڈاکٹر نذہت مائک پر آئیں اور مسکراتے ہوئے نسیم انجم کومخاطب کرکے پوچھا’’کتنے صفحات تھے؟‘‘ اورنسیم انجم صرف مسکرا کر رہ گئیں جب کہ ان کے اس خوبصورت فقرے پر حاضرینِ محفل نے زور دار تالیاں بجائیں۔
اس مرتبہ ڈاکٹر صاحب نے صرف دو عدد مقرّر پر اکتفا کیا ورنہ اس سے قبل اپنی کتابوں کے اجرا کے موقع پر کم از کم چار عدد مقرّر ضرور ہوا کرتے تھے۔ ان کی ۲۳ ویں کتاب ’’بالقرضِ محال‘‘ کی تقریبِ اجرا کے موقع پر راقم الحروف کو بھی کچھ کہنے کا موقع ملا تھا۔
ڈاکٹر نذہت نے بڑے ادب و احترام سے صاحبِ کتاب ڈاکٹر معین قریشی کو دعوت دی ڈاکٹر صاحب نے آف وہائٹ کلر کا سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا اس پر خوبصورت سی ٹائی نے کیا قیامت ڈھائی کہ ڈاکٹر صاحب اپنی عمر سے بہت کم نظر آرہے تھے۔ حاضرینِ محفل نے پُرزور تالیوں سے ڈاکٹر صاحب کا استقبال کیا۔ جب تک تالیاں بجتی رہیں ڈاکٹر صاحب ڈائس پر کھڑے مسکراتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب کی مسکراہٹ بہت دیدہ زیب اور کبھی کبھی معنی خیز بھی ہوا کرتی ہے۔ اکثر لب کشائی سے گریز کرتے ہیں اور اپنی مسکراہٹ سے بات کا جواب دیتے ہیں یہ بھی ایک فن ہے جو اﷲ کسی کسی کو عطا کرتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اس تقریب کے لیے جس مضمون کا انتخاب کیا بقول ڈاکٹر صاحب اس کا عنوان انہوں نے چودھری شجاعت سے ادھار لیا ہے کیونکہ چودھری شجاعت کا تکیہ کلام یہی ہے۔۔۔عنوان تھا ’’مٹّی پاؤ‘‘۔۔۔ بہت دلچسپ اور طنز سے بھر پور مضمون تھا حاضرینِ محفل ہر جملہ پر تالیاں بجا کر داد دے رہے تھے کیونکہ جو کچھ ڈاکٹر صاحب پڑھ رہے تھے وہ سامعین کے دل کی آواز تھی بقول مرزا غالب:
دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
ڈاکٹر صاحب کے پاس ایک فن اور بھی ہے وہ جس سے ملتے ہیں اسے بہت جلد اپنا دوست بنالیتے ہیں۔ اس قدر خلوص اور محبت سے پیش آتے ہیں کہ مخاطب اُن کا گرویدہ ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا حلقۂ احباب بہت وسیع بلکہ وسیع تر ہے اور ہر کسی کو گمان ہوتا ہے کہ بس ڈاکٹر صاحب اُسی سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔علامہ اقبال کا ایک شعر اس وقت میرے ذہن میں آیا ہے۔
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانہ میں
فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق
میں نے اوپر جو کچھ لکھا ہے تقریب میں خواتین و حضرات کی تعداد میری بات کی تائید کرتی ہے۔
’’ذکر اس شہرِ بدحال کا اور پھر بیاں ڈاکٹر صاحب کا ’’کراچی شہر کا ذکر ہورہا تھا اس کی بدنصیبی کہ کوئی پُرسانِ حال نہیں، ہر طرف کوڑے کا ڈھیر جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی سڑکیں، سڑکوں پہ بہتا ہوا گٹر کا گندا اور غلیظ پانی، بس اﷲ میاں ہی رحم فرمائیں اس شہر پر۔
سامعین کی زور دار تالیوں میں ڈاکٹر معین قریشی اپنا مضمون پڑھ کر رخصت ہوئے اور ڈاکٹر نذہت نے معینِ ثانی یعنی سابق گورنر معین الدین حیدر کو مائک پر آنے کی دعوت دی معین الدین حیدر کافی اہلِ ذوق اور خوش مزاج انسان ہیں اکثر ادبی محافل میں نظر آتے ہیں اور اپنی تقریر سے احباب کو محظوظ کرتے ہیں۔ دورانِ تقریر لطیفہ ضرور سناتے ہیں۔ ان کی تقریر مختصر اور پُر مزاح تھی۔
مہتاب اکبر راشدی آج سے بہت سال قبل PTV میں نظامت کیا کرتی تھیں اپنی منفرد مسکراہٹ کے سبب بہت مشہور تھیں۔ یہ محترمہ بھی مہمانِ خصوصی کی فہرست میں شامل تھیں۔ بڑے اچھے انداز میں ڈاکٹر صاحب کے لیے تعریفی کلمات ادا کررہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ فلم ’’شولے‘‘ میں گبّر سنگھ نے اپنے آدمیوں سے پوچھا تھا کہ ’’کتنے آدمی تھے‘‘ اس وقت اس کے ہاتھوں میں کوڑا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی یہی سوال دہرایا کہ ’’کتنے آدمی تھے‘‘ مگر ان کے ہاتھوں میں کوڑا نہیں بلکہ قلم ہے جو کوڑے سے زیادہ طاقت ور اور مضبوط ہے مہتاب راشدی نے مزید کہا کہ ڈاکٹر صاحب بہت دور اندیش ہیں مشکل سے مشکل موضوع کو آسان الفاظ میں بیان کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ان کے پاس الفاظ اور اشعار کا ذخیرہ ہے۔
میاں زاہد حسین ڈاکٹر صاحب کے قریبی دوستوں میں سے ہیں انہوں نے اپنی تقریر میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت پر روشنی ڈالی کہ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ سچ لکھتے ہیں کوئی ان کو کروڑوں روپیہ بھی دے دے تب بھی وہ سچ لکھنے سے گریز نہ کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر صاحب کے مضامین کے عنوان اتنے دلچسپ ہوتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر ہی قاری کے دل میں اسے پڑھنے کی امنگ جاگ اٹھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کے مضامین میں جو اشعار استعمال ہوتے ہیں وہ بر جستہ اور بہت موزوں ہوتے ہیں۔
سابق سینیٹر حسیب احمد خان کو جب دعوتِ تقریر دی گئی تو فرمانے لگے کہ سینیٹر کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ ان کی تقریر کا موضوع نہ تو ڈاکٹر معین قریشی تھے اور نہ ہی انہوں نے ان کی اس کتاب کا ذکر کیا جس کی تقریب اجرا میں وہ تشریف لائے تھے۔ ان کا موضوع حالاتِ حاضرہ کی بدحالی تھی جس کے سبب (بقول اُن موصوف کے) معاشرے میں نہ توکوئی ادیب باقی رہا اور نہ ہی کوئی شاعر۔ سب عنقا ہوگئے۔ آخر میں انہوں نے بیکل اتساہی کا مشہور گیت ’’نشّۂ کیفِ غزل حسن غزل، جانِ غزل‘‘ اس کی صرف ایک لائن ترنّم سے پڑھ کر ایک سما باندھ دیا۔ ان کے ترنّم کی داد دی جاسکتی ہے۔یٰسین ملک نے صدارتی کلمات کہے، ڈاکٹر معین قریشی سے اپنی دیرینہ دوستی کا ذکر کیا اور بات ختم کی، اس طرح یہ خوبصورت تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔

حصہ