تزکیہ

308

سیدہ عنبرین عالم
’’تزکیہ‘‘ کیا ہے؟ اس کے لفظی معنی ’’پاک کرنے‘‘ کے ہیں، اور یہ تمام انبیاء علیہم السلام کے منصب کی ایک اہم ذمے داری رہی ہے۔ کتاب، حکمت اور تزکیہ… ان تینوں کو ساتھ لے کر چلنے سے ہی ایک رسول کسی قوم کو اللہ کی ہدایات کے مطابق تشکیل دے سکتا ہے۔ ایک رسول جب کسی قوم کا تزکیہ کرتا ہے تو اس کا مطلب اس کو پرانے، لغو عقائد سے چھٹکارا دلانا ہے۔ پرانے تمام غلط رسوم و رواج، رجحانات و اعمال کو دلیل کے ساتھ رَد کرنا، اور متبادل نظام پیش کرنا، تزکیہ کہلاتا ہے۔
آج تک ہم جتنے بھی واقعات انبیائے کرام کے پڑھتے آئے ہیں، سب میں کافر قوموں نے ایک ہی جواز انبیاء کو جھٹلانے کا سامنے رکھا کہ ’’ہم اپنے آبا و اجداد کے طریقۂ کار اور دین کو نہیں چھوڑنا چاہتے‘‘۔ چاہے وہ خودساختہ رسوم و رواج ہوں یا من گھڑت پابندیاں… وہ ان کو اس لیے سینے سے لگائے ہوئے تھے کیونکہ یہ ان کے باپ دادا کی نشانیاں تھیں، اور انبیاء کے لیے سب سے مشکل مرحلہ انہی نسل در نسل چلی آنے والی غلطیوں کو مٹانا تھا۔ اسی دلوں پر اثر کرنے والے مرحلے کا نام ’’تزکیہ‘‘ ہے۔
’’تزکیہ‘‘ کا کام بڑی حکمت سے کرنے کا ہے۔ لوگوں کے جذبات مجروح نہ ہوں، دلائل اتنے مضبوط ہوں کہ آگے سے کوئی جواب ہی نہ دے سکے، غلط عقائد سے لوگوں کے دل و دماغ کو مکمل طور پر پاک کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات مکمل پختگی سے رائج کیے جاسکیں۔ غلط اور صحیح عقائد کے بیچ کی راہ نکالنے کو ’’منافقت‘‘ کہا جاتا ہے، تزکیہ نہیں۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الکافرون کی صورت میں 1400 سال پہلے فرما دیا تھا کہ کفر اور ایمان میں مصالحت اور مشترکہ حکمت عملی کی گنجائش نہیں۔ اسلام روایات، عبادات، ثقافت، تہذیب اور اعتقادات ہر اعتبار سے کفر سے یکسر مختلف ہے اور اپنی علیحدہ شناخت رکھتا ہے۔
تزکیے کا عمل باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت ہی ہوسکتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ اسلام کا ہر فرقہ خود کو صحیح اور دوسروں کو غلط سمجھ کر ان کا تزکیہ شروع کردے۔ اس عمل سے مزید جھگڑے اور اختلافات پیدا ہوں گے۔ اس کے لیے ہمیں اسوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق چلنا ہوگا۔ جیسا کہ دورِ نبویؐ میں اصلاح کا صرف ایک مرکز یعنی پاک نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی، اسی طرح سب سے پہلے ہمیں ایک مرکز، ایک امام، ایک قائد پر مرتکز ہونا پڑے گا، یہ ماننا پڑے گا کہ یہ ایک امام اللہ کی طرف سے ہمیں صحیح ہدایت زندگی کے تمام شعبوں میں پہنچا رہا ہے اور ہم سب کو اس کے احکامات کے تحت متحد ہونا ہے۔ جب تک ہم ایک امام کو منتخب نہ کریں نہ ہم متحد ہوسکتے ہیں، نہ اختلافات دور کرسکتے ہیں، نہ ہم طاقت پکڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ہمارا تزکیہ ہوگا۔ جیسے دو یا دو سے زائد اماموں کے پیچھے نماز نہیں ہوسکتی، اسی طرح ایک سے زیادہ قائدین کی موجودگی میں نہ صرف تزکیہ نہیں سکتا بلکہ کئی قسم کے فتنہ و فساد امت کو آپس میں لڑوا دیں گے۔اب جب ہم نے یہ محسوس کرلیا کہ فی الوقت کوئی صحیح اور مخلص رہبر اللہ کی طرف سے دنیا میں موجود نہیں ہے، اور ایک منبع جس سے تمام امتِ مسلمہ بلکہ تمام انسانیت کا تزکیہ کیا جائے، حاصل نہیں ہے، اس صورت میں کیا حکمت عملی ہونی چاہیے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت رسولِ خدا تزکیے کا عمل اکملیت کے ساتھ انجام دیا اور ایک پاکیزہ اور راست رو قوم کھڑی کرکے دکھا دی، سوال یہ ہے کہ کیا یہ عمل پاک نبیؐ کے ساتھ رک گیا، یا اسے جاری رہنا چاہیے؟ کیا اب غلط عقائد نہیں ہوتے جن کی بیخ کنی کی مسلسل اور مخلصانہ کوشش کی ضرورت ہے؟ یہ تزکیے کا عمل جاری رکھنا کس کی ذمے داری ہے؟
قارئین! نہ ہمارے پاس متفق علیہ علما ہیں، نہ ہمارے حکمران ہی بھروسے کے لائق ہیں، اس صورتِ حال میں جب کوئی ایسی مرکزی تحریک ممکن نہیں جو غلطیوں کی نشاندہی کرے، ہم کو انفرادی طور پر اپنی اپنی غلطیوں کو ڈھونڈنا ہوگا اور ان سے جان چھڑانا ہوگی۔ اس مقصد کے لیے قرآن کا باقاعدہ اور سمجھ کر مطالعہ کرنا ہوگا، پھر جو رسوم یا طریقے آپ کی زندگی میں ایسے شامل ہیں جو قرآن یا حدیث سے ثابت نہیں ہیں، اُن سے نجات حاصل کریں۔ ذاتی حیثیت میں اپنا تزکیہ کیجیے، چاہے کوئی آپ کا ساتھ دے یا نہ دے، کسی اور کے ساتھ زبردستی نہ کیجیے جس سے خدانخواستہ اسلام یا قرآن کا غلط تاثر پڑے۔ اگر آپ تزکیے کے ذریعے عین رضائے الٰہی کے مطابق پاک ہوگئے تو لوگ خودبخود آپ کی تقلید کریں گے۔
ضروری نہیں ہے کہ آپ غلط عقائد کی فہرست بنائیں۔ بعض بالکل صحیح عقائد ہیں، مگر انہیں غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ ’’خیرات و صدقہ‘‘ وہ اعمال ہیں جنہیں انتہائی پسندیدہ قرار دیا گیا ہے، اور ہمارے ہاں محافل میں کثرت سے ایسے واقعات سنائے جاتے ہیں جہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عیال اور اصحابؓ نے اپنی ضرورت پر دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دی، قبول… کوئی اختلاف نہیں… مگر ایک بات بتایئے، اگر صدقہ اتنا ہی اچھا فعل ہے تو صحابہ کرامؓ صدقات و خیرات کیوں طلب نہیں کرتے تھے؟ بلکہ یہ لوگ پیٹ پر پتھر باندھ لینا زیادہ مناسب خیال کرتے تھے۔ نہ سحری میں صحابہؓ کو کچھ کھانے کو ملتا، نہ افطار میں، مگر آپ کو ایک واقعہ ایسا نہیں ملے گا کہ کسی سچے مومن نے اپنے منہ سے کسی سے صدقات و خیرات طلب کی ہو۔ حضرت عمرؓ اپنی ریاست کا دورہ کرتے ہیں تو ایک بیوہ خاتون اپنے بچوں کو پتیلی میں پتھر ابال کر کھانے کا دلاسہ دے رہی ہوتی ہیں مگر دستِ سوال کسی کے آگے نہ پھیلایا۔ آج سب سے بڑا بہانہ یہی ہوتا ہے کہ میں بیوہ ہوں، میری مدد کرو… کیوں وہ خیرات طلب نہیں کرتی؟ اور یہ عمل کیسے اچھا ہوگیا جو انبیائؑ اور صحابہؓ سے ثابت ہی نہیں ہے؟ ہمارے ہاں اس عمل کی اس قدر فضیلت بیان کی گئی کہ ’’بھکاری بننا‘‘ ہمارے ہاں باقاعدہ ایک پیشہ بن گیا، جب کہ قرآن میں بھی درج ہے کہ جو لپٹ کر نہیں مانگتے انہیں دو۔ اور یہ احکامات بھی ابتدائی دور کے لیے تھے جب اسلامی حکومت نافذ نہیں تھی، لیکن جب اسلامی حکومت نافذ ہوگئی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یتیم، بیوائیں، بوڑھے اور بیمار بھیک مانگتے رہیں اور اسلامی حکومت چین کی بانسری بجائے! کیوں کسی کو بھیک مانگنی پڑی؟ جیسے حضرت عمرؓ وظیفے مقرر فرماتے تھے، کیوں نہیں مقرر کیے گئے؟ یا معذوروں، بیماروں وغیرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ادارے بنائے جاتے۔ اگر ریاست میں لوگ لاوارث ہیں اور بھوک سے بچنے کے لیے بھیک مانگتے ہیں، تو یہ وہ نظام تو نہیں ہے جس کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نظام پیش کیا۔ یہ تو اسلامی فلاحی مملکت نہیں ہے۔
میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی کوئی بھیک مانگنے آئے تو سرزنش فرماتے۔ ایک غریب آپؐ کے پاس آیا تو اس کا کمبل فروخت کرکے کلہاڑی خرید کر دیتے ہیں کہ محنت کرکے کھائو۔ وہ تو نبی تھے، ان سے زیادہ نیک کون؟ انہوں نے بھیک دینے کو برا کیوں سمجھا؟ یہ میں نے آپ کو ایک مثال دی کہ ایک کام جس کو نیک سمجھا جاتا ہے، وہ کس طرح معاشرے میںکاہلی اور مفت خوری کو نمو دے رہا ہے، حتیٰ کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اب میں آپ سے بات کروں گی سود کی، جو کہ ایک حرام عمل ہے۔ جانے کس انوکھی گھڑی میں کس حکمران کو بوڑھوں اور بیوائوں کا خیال آگیا اور قومی بچت کے نام سے ایسا ادارہ وجود میں آیا جو بوڑھوں اور بیوائوں کی جمع پونجی یا ریٹائرمنٹ وغیرہ کی رقم پر ماہانہ ایسا مناسب منافع دینے لگا کہ بوڑھوں کی رقم جو اِدھر اُدھر لگا کر ڈوب جاتی تھی، وہ بھی محفوظ ہوگئی اور باعزت گھر بیٹھے آمدنی کا ذریعہ بھی بن گیا۔ جو منافع گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر یعقوب کے زمانے میں 23 فیصد شرح سے دیا جارہا تھا، اس کو ڈاکٹر عشرت حسین نے 400 فیصد کم کرکے 5 فیصد کردیا۔ اب ایک بوڑھا یا ڈائیلاسز کا مریض جو آبا و اجداد کی رقم بینک میں رکھ کر علاج اور گزارہ کررہا تھا، وہ ایک تو گالی سنے کہ سود کھا رہے ہو، اوپر سے اس کی قوتِ خرید 5 فیصد بھی نہیں رہ گئی، اب یا تو وہ بھیک مانگے یا خودکشی کرے، کیونکہ وہ کام تو کر نہیں پائے گا۔ اس مجبور شخص کو جو 70 سال کا ہونے کی وجہ سے چل نہیں پاتا، یا کسی جان لیوا بیماری کا شکار ہے، اولاد کے آگے ہاتھ پھیلا نہیں سکتا، سودخور یہودیوں کی طرح سفاک بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ نہ وہ رقم پر شرح سود اپنی مرضی سے طے کرسکتا ہے، نہ رقم اپنی مرضی سے نکال سکتا ہے، کیونکہ اپنی رقم نکالنے پر بھی، رقم کی بڑی شرح کاٹ لی جاتی ہے، اس طرح رقم بھی پوری نہیں ملتی، بس ایک اطمینان ہے کہ چونکہ حکومتی ادارہ ہے تو اللہ شاید اس سود کو حکومتی وظیفہ جو بوڑھوں کو دیا جاتا ہے، سمجھ کر معاف کردے۔ اب آپ بتایئے آخر کوئی پرسانِ حال ہے اس اسلامی مملکت میں، کہ کون کس طرح دو روٹی کا بندبست کرتا ہے! جب آپ نے لاوارث چھوڑ دیا کہ جائو جس ترکیب سے کما کر کھا سکتے ہو، کھائو… تو پھر سود بھی ہوگا، کرپشن بھی، جرائم بھی، اور بھکاری بھی ہوں گے۔
ارے یہ کیا! ہم تو سوچ رہے تھے کہ انفرادی طور پر ذاتی حیثیت میں تزکیے کی مہم چلائیں گے، لیکن اوپر دی جانے والی دو مثالوں سے ثابت ہوا کہ باقی سب تو بعد کی باتیں ہیں، پیٹ میں جانے والا رزق بھی حلال نہیں ہوسکتا جب تک سرکاری سرپرستی میں ریاست کو مکمل اسلامی ڈھانچے میں نہ ڈھال لیا جائے، ہر ایک کو جائز روزگار حاصل ہو، مجبوروں و محتاجوں کو سرکاری سرپرستی میں لیا جائے، باقاعدہ ایک نظام ہو، حکومت کو ہر شہری کا پتا ہو کہ کون کیا کرتا ہے، کہاں رہتا ہے، اور کن مسائل کا شکار ہے؟ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت تو اس قدر اپنے شہری کا خیال رکھتی تھی کہ کسی کا اگر رشتہ نہ ہورہا ہو تو وہ جاکر میرے نبیؐ سے درخواست کرتا اور آپؐ بہترین رشتے بھی کروا دیتے تھے، یعنی جو محاورہ ہے کہ ’’ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے‘‘ کی عملی تفسیر۔ یتیموں کو بھی کسی نہ کسی کی سرپرستی میں دے رہے ہیں، معذوروں کا خیال ہے، بوڑھوں کی بھی رکھوالی، یہ ہے وہ فلاحی مملکت جس کے قائم کردینے سے تزکیہ اپنے آپ ہوجاتا ہے، کسی کو کسی کے در پر جانے کی ضرورت نہیں رہتی، تزکیہ حکومت کرتی ہے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے ہیں کہ شراب منع ہوگئی، اور مدینے کی گلیوں میں شراب بہہ نکلتی ہے۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے ہیں کہ پردہ کرو، اور عورتوں نے دروازوں کے پردے اتارکر اوڑھنیاں بنا لیں۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے ہیں کہ اب سے دو بہنوں کو جمع کرنا منع ہے، اور سب ایسے نکاحوں سے باز آجاتے ہیں۔ منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح کو جائز قرار دینا ہے، تو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نکاح کرکے دکھاتے ہیں۔ لہٰذا اسوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہوا کہ تبلیغ جاری رہے گی، برے کو برا کہا جائے گا اور اچھے کا حکم دیا جائے گا، مگر تزکیہ کی تعریف یہ ہے کہ حکومتی سطح پر کسی بری حرکت، روایت یا قانون کو بیک جنبش قلم متروک قرار دیا جائے اور اس حکم پر عمل یقینی بنایا جائے۔
یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ایک صحیح اسلامی حکومت نافذ ہو، جو ان تمام فلاحی اعمال کے متعلق ادارے قائم کرے جن اعمال کا ظہور میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بحیثیت سربراہِ مملکت ہوا۔ اسلامی تاریخ میں جو چند ادارے حضرت عمرؓ نے قائم کردیے، اس کے بعد کسی سربراہِ اسلامی حکومت نے جدید فلاحی اداروں کی بنیاد نہیں ڈالی۔ جب حکومت تمام عوام کو حقوق فراہم کرے گی، انصاف اور روزگار ہوگا، اسی وقت وہ تزکیے کی اہل ہوگی اور عوام کی ہر سطح پر اس تزکیے کو قبول کیا جائے گا اور حکم مانا جائے گا۔ ایک نااہل، خائن، لاپروا حکومت تزکیے کی کوشش میں جو بھی حکم دے گی وہ قبول نہیں کیا جائے گا، چاہے کتنی ہی اچھی نیت سے دیا جائے۔ لہٰذا ہم ذاتی طور پر اپنے گھر اور بچوں کی جتنی بھی غلط عقیدوں سے جان چھڑانے کی کوشش کریں وہ صحیح ہے، لیکن حقیقتاً اگر ہم تزکیہ چاہتے ہیں تو ایک اسلامی حکومت اور اسلامی نظام اپنے ملک میں لانے کی کوشش کرنی پڑے گی۔
آپ ایک ہزار سال تبلیغ کریں کہ خواتین کو لازمی سر ڈھانکنا ہے، قرآن دکھائیں، احادیث دکھائیں، عملی نمونہ پیش کریں، کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن حکومتی سطح پر جس دن حکم آگیا کہ خواتین پردہ کریں، تو ایک دن میں یہ کام ہوجائے گا۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ جسٹس شوکت صدیقی کے ایک ہی حکم سے ویلنٹائن ڈے کیسے سرے سے غائب ہوگیا۔ ’’تزکیے‘‘ کی نیت سے ایمان والوں کا حکومت حاصل کرنے کی کوشش کرنا جائز ہے۔

حصہ