سلیکشن کمیٹی شدید تنقید کی زد میں

204

راشد عزیز
انگلینڈ اور آئرلینڈ کے دورے کے لیے منتخب کی جانے والی ٹیم کھلاڑیوں کے ناموں کے اعلان کے ساتھ ہی شدید تنقید کا شکار ہوگئی ہے۔ کھلاڑیوں کا انتخاب کس حد تک درست ہے اور میرٹ پر ہوا ہے، اس کا فیصلہ تو شاید سیریز کے اختتام پر بھی نہ ہوسکے، کیونکہ ماہرین کی آرا ہمیشہ متضاد ہوتی ہیں، لیکن جو ٹیم پہلے ہی روز سے شدید تنقید کا شکار ہوجائے وہ انگلینڈ کی مشکل ترین کنڈیشنز میں کتنے عزم، ہمت اور حوصلے سے حریف ٹیم کا مقابلہ کرپائے گی؟ فی الحال سب سے اہم سوال یہی ہے۔
دو سال کے وقفے کے بعد پاکستان کی 16 رکنی ٹیم 23 اپریل کو آئرلینڈ اور انگلینڈ کے دورے پر روانہ ہوگی جہاں وہ 11 مئی کو ڈبلن میں آئرلینڈ کے خلاف ایک ٹیسٹ کھیلے گی۔ یہ ٹیسٹ آئرلینڈ کا سب سے پہلا ٹیسٹ ہوگا، جب کہ انگلینڈ کے خلاف 24 مئی اور یکم جون کو دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلی جائے گی۔ پاکستانی ٹیم نے آخری بار 2016ء میں انگلینڈ کے خلاف سیریز کھیلی تھی اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ سیریز دو، دو سے ڈرا کرانے میں کامیاب ہوگئی تھی، اور پاکستان کی جانب سے مصباح الحق، یونس خان، اظہر علی اور اسد شفیق نے بہترین بیٹنگ، جب کہ یاسر شاہ اور سہیل خان نے متاثر کن بولنگ کا مظاہرہ کیا تھا۔ کیا پاکستان کی موجودہ ٹیم انگلینڈ اور آئرلینڈ کے مشکل ترین حالات کا مقابلہ کر پائے گی؟ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ نوجوان اور ناتجربہ کار کھلاڑیوں پر مشتمل یہ ٹیم ملک وقوم کو مایوسی سے دوچار کرے اور اس کے ساتھ ساتھ خود ان کھلاڑیوں کے کیریئر بھی دائو پر لگ جائیں؟
ٹیم کے اعلان کے ساتھ ہی میڈیا، خاص طور پر سوشل میڈیا پر تنقید کا ایک طوفان آگیا ہے، اور اس تنقید میں دو معاملات بہت نمایاں اور اہم ہیں، (1) تجربہ کار مڈل آرڈر بیٹسمین فواد عالم کا ڈراپ ہونا، اور (2) ناتجربہ کار بیٹسمین امام الحق کا انتخاب۔ سری لنکا کے خلاف اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں 168 رنز بنانے والا فواد عالم پہلے بھی نظرانداز ہوتا رہا ہے، حالانکہ اس بدقسمت کھلاڑی نے فرسٹ کلاس میں بھی ہمیشہ نمایاں اور متاثرکن کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مجموعی رائے یہی ہے کہ اس موقع پر جب کہ قومی ٹیم میں اظہر علی، اسد شفیق اور کپتان سرفراز احمد کے سوا کوئی تجربہ کار بیٹسمین شامل نہیں ہے، اگر فواد عالم کو منتخب کرلیا جاتا تو برے وقت میں کام آسکتا تھا۔ سلیکشن پر تنقید کرنے والوں کا الزام ہے کہ غیر ضروری طور پر چار اوپنرز کا انتخاب کرکے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فواد عالم کو باہررکھا گیا ہے۔ فواد عالم کے لیے ٹیم کے دروازے کیوں بند کیے گئے اور خاص طور پر ایسے وقت میں جب کہ تجربہ کار اور سینئر بیٹسمین کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے؟ اس سوال کے مختلف جوابات ہوسکتے ہیں، لیکن ٹیم کے کوچ مکی آرتھر نے بیان دیا ہے کہ فواد عالم کا مقابلہ کراچی کے ابھرتے ہوئے نوجوان کھلاڑی سعد علی سے تھا اور چیف سلیکٹر انضمام الحق اور کپتان سرفراز کا ووٹ فواد عالم کے بجائے سعد علی کے حق میں گیا۔ انضمام الحق نے فواد عالم کے اخراج پر ہونے والی تنقید کو بے وجہ اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے بیان دیا ہے کہ آئندہ ورلڈ کپ انگلینڈ میں ہونا ہے، لہٰذا اسی کی تیاریوں کے پیش نظر نوجوان کھلاڑیوں کو زیادہ موقع دیا جارہا ہے۔ انضمام نے ڈراپ ہونے والوں کو تسلی و تشفی دیتے ہوئے مزید کہا کہ وہ مایوس نہ ہوں، ابھی بڑی دنیا پڑی ہے، ان کا کیریئر ختم نہیں ہوا، انہیں آئندہ موقع مل سکتا ہے، ہم نے فی الوقت ٹیم کی بیٹنگ مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ فواد عالم، وہاب ریاض اور شان مسعود وغیرہ کی ٹیم میں عدم شمولیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کا کیریئر ختم ہوگیا ہے۔
انضمام الحق کا یہ بیان بڑا دل چسپ ہے۔ شاید اُن کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فواد عالم اور وہاب ریاض جیسے سینئر کھلاڑیوں کے لیے تو ابھی بہت وقت پڑا ہے، عمر تو امام الحق، فہیم اشرف، فخر زمان اور عثمان صلاح الدین وغیرہ کی ڈھل رہی ہے۔ انضمام اور دیگر سلیکٹرز اپنی سلیکشن کو درست ثابت کرنے کے لیے چاہے جو بھی دلیل دیں، لیکن ایک اعتراض اُن پر بہرطور ہوگا، اور وہ اعتراض ہے امام الحق کی سلیکشن کا۔ ممکن ہے انضمام اور دیگر سلیکٹرز کی رائے میں امام الحق میرٹ پر ٹیم میں آیا ہو، لیکن یہ الزام بہت دنوں تک ان کا پیچھا کرتا رہے گا کہ امام الحق کی سلیکشن صرف اس وجہ سے ہوئی کہ وہ انضمام کا بھتیجا ہے، اور اگر سیریز میں اسے کھیلنے کا موقع ملتا ہے اور وہ کسی بھی وجہ سے ناکام ہوجاتا ہے تو انضمام شاید زندگی بھر اپنی اس غلطی پر پچھتائیں کہ اگر جلد بازی نہ کی ہوتی تو بہتر ہوتا۔
ٹیم میں فخر زمان، امام الحق، عثمان صلاح الدین، سعد علی اور فہیم اشرف ایسے کھلاڑی ہیں جنہوں نے اس سے قبل کوئی ٹیسٹ نہیں کھیلا۔ سلیکٹرز نے اتنا بڑا خطرہ کس لیے مول لیا ہے؟ اس کی وضاحت شاید وہ کبھی نہ کرپائیں، لیکن ہر کھیل، خاص طور پر کرکٹ کے کھیل میں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ نئے کھلاڑیوں کو زیادہ تر اپنے ملک میں اور کمزور ٹیموں کے خلاف آزمایا جائے۔ پاکستانی ٹیم ایسے بے شمار کرکٹرز سے بھری پڑی ہے جنہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیے لیکن انہیں کسی بڑی ٹیم اور خاص طور پر کسی دوسرے ملک میں پہلی بار کھیلنے کا موقع ملا اور پھر ان کا کیریئر ختم ہوگیا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایک تو نئے کھلاڑی کو پہلی بار مشکل کنڈیشنز میں نہیں آزمانا چاہیے، اور دوسری بات یہ کہ کسی بھی سیریز میں ایک ساتھ بہت سے نئے کھلاڑیوں کا امتحان نہیں لینا چاہیے۔
قومی کرکٹ ٹیم کی سلیکشن پر دیگر حلقوں کے علاوہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے بھی اعتراض کیا ہے۔ لیکن جو ہونا تھا ہو گیا، اب تو یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ سرفراز کی زیر قیادت نوجوانوں پر مشتمل یہ ٹیم اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوجائے، اور پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کے مزید راستے کھلیں۔

حصہ