آپ کی نادانی، آپ کے مسائل

422

افروز عنایت
درس کے آخر میں جب دُعا کا وقت آیا تو محفل میں شریک ایک خاتون نے خاتونِ خانہ سے اپنی بیٹی کے لیے خصوصی دعا مانگنے کے لیے کہا۔ لہٰذا اس بچی کے لیے (جو خود بھی وہاں موجود تھی) دُعا مانگی گئی کہ وہ اپنے سسرال اور شوہر کے عتاب سے بچے۔ دعا کے اختتام پر موجود تمام خواتین نے دونوں ماں بیٹیوں کو تسلی دی کہ اللہ بہتر کرے گا۔ ماں لوگوں کی ہمدردیاں پاکر زاروقطار رونے لگی۔ اسے رنجیدہ اور بلکتے دیکھ کر بیٹی بھی اشک بار ہوگئی۔ دونوں بڑی مظلوم اور دُکھی لگ رہی تھیں، لیکن خواتین سے باتیں کرتے ہوئے اور اُن کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ مسئلہ اتنا گمبھیر نہیں جیسا کہ ردعمل نظر آرہا تھا۔ دونوں ماں بیٹی کی اس حالتِ زار پر خواتین بھی اس کے سسرال کو برا بھلا کہہ رہی تھیں کہ بچی پر بے جا ظلم کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے وہ دونوں خواتین دل برداشتہ ہوگئیں۔ آخر مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے خاتون سے براہِ راست دو تین سوالات کیے جن کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ بچی کی شادی کو چھ، سات ماہ ہوئے ہیں، شوہر اپنی مصروفیت کی بنا پر بیوی کو میکے چھوڑنے اور لینے نہیں آتا۔ لڑکی کے بھائیوں کی یہ ذمے داری ہے کہ لڑکی کو لینے بھی جاتے ہیں اور واپس سسرال چھوڑنے بھی۔ سسرال والوں کا رویہ بھی خوش گوار نہیں تھا۔ میرے پوچھنے پر لڑکی کی والدہ نے بتایا کہ اس وقت لڑکی ایک ڈیڑھ مہینے سے ہمارے گھر پر ہی ہے، اس کا شوہر کہتا ہے کہ خود ہی گئی ہو خود ہی آجائو (جب کہ لڑکی لڑ جھگڑ کر بھی نہیں آئی تھی)۔ میں نے خاتون کی تمام باتوں کے بعد اخذ کیا کہ مسئلہ اتنا گمبھیر نہیں ہے جتنا ’’پوز‘‘ کیا جارہا تھا۔ لہٰذا میں نے خاتون کو کہا کہ اتنے چھوٹے مسئلے کی وجہ سے آپ نے بیٹی کو روکے رکھا ہے! اس طرح تو یہ چھوٹا مسئلہ گمبھیر ہوجائے گا۔ افہام و تفہیم سے کام لیں۔ بچیوں کے گھر بڑی مشکل سے آباد ہوتے ہیں، کیا آپ اس کی طلاق چاہتی ہیں جس کی کوئی وجہ نظر نہیں آرہی! آپ داماد سے میٹنگ رکھیں، اور اگر کوئی مسئلہ ہے تو بیٹھ کر اسے سمجھ داری سے حل کریں۔
پہلے تو وہ خاتون ذرا ناراض سی لگیں، لیکن آخرکار بات اُن کی سمجھ میں آگئی۔ میرے آس پاس موجود خواتین نے بھی انہیں سمجھایا کہ اپنی ضد سے باز آجائیں۔
…٭…
اس قسم کے واقعات اکثر ہمیں نظر آتے ہیں جہاں چھوٹے چھوٹے مسائل پر لوگ دل برداشتہ ہوجاتے ہیں اور اپنے اوپر یاسیت طاری کرلیتے ہیں۔ اس طرح وہ چھوٹا مسئلہ ایک بڑا مسئلہ بن جاتا ہے جو کئی ہستیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ صرف بیٹیوں کے سسرال کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اکثر جگہ اس قسم کے چھوٹے موٹے واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ مثلاً ملازمت کے دوران، پاس پڑوس کے لوگوںکے ساتھ، دوست احباب کے ساتھ معمولی نوعیت کی تلخی وغیرہ… ایسے مواقع پر کچھ تو لوگ خود اپنے اوپر مسئلے کو حاوی کرلیتے ہیں، کچھ دوسرے لوگوں کی ہمدردی اور بے جا طرف داری کی وجہ سے بھی معاملات مزید بگڑ جاتے ہیں، اور وہ شخص یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میرے ساتھ بڑی ناانصافی برتی جارہی ہے، میرے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔ مثلاً ایک صاحب آفس میں بڑی محنت، لگن اور ایمان داری سے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے لیکن اُن کی محنت کے مقابلے میں انہیں معاوضہ مناسب ادا نہیں کیا جارہا تھا جس کا انہیں بڑا قلق تھا کہ میرے مقابلے میں دیگر لوگوںکو زیادہ معاوضہ اور سہولیات مہیا کی جارہی ہیں۔ وہ بہت دل برداشتہ تھے۔ سونے پر سہاگا آفس کے چند ساتھیوں نے بھی انہیں اس بات کا احساس دلایا۔ اس معاملے کو انہیں بہت سوچ سمجھ کر حل کرنا چاہیے تھا، لیکن لوگوں کے بہکاوے میں آکر نہ صرف انہوں نے خود کو مظلوم تصور کیا بلکہ ’’باس‘‘ اور اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ تعلقات میں بھی دراڑ آگئی، نتیجتاً انہیں ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا۔
اسی طرح کا واقعہ ایک خاتون کے ساتھ بھی دورانِ ملازمت پیش آیا۔ ’’ہمدردوں‘‘ نے تو انہیں بہت اکسایا جس سے کچھ دیر کے لیے وہ خاتون خاصی دل برداشتہ ہوگئیں اور وہاں سے ملازمت چھورنے کا سوچنے لگیں۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے اپنے غصے پر قابو پایا اور سوچنے لگیں کہ غصے میں آکر انسان انتہائی قدم اٹھا لیتا ہے جس پر بعد میں صرف پچھتاوا رہ جاتا ہے، لہٰذا مجھے صبر اور سکون کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔ ا گلے دن وہ ’’لیڈی باس‘‘ کے سامنے تھیں اور بڑے ٹھنڈے مزاج اور تحمل کے ساتھ اپنا مسئلہ پیش کیا کہ روزی تو رب کے ذمے ہے لیکن اگر میرا حق بنتا ہے تو مجھے اس سے محروم نہ کریں۔ آخرکار اُن کا مسئلہ حل ہوگیا بغیر معاملات کو بگاڑے ہوئے۔
اسی طرح ایک بچی نے بتایا کہ میری ساس کا رویہ میرے ساتھ بڑا تلخ ہے، ہر وقت اُن کا منہ پھولا رہتا ہے، جب کہ دوسری دونوں بہوئوں کے ساتھ تعلقات مناسب ہیں۔ میں نے اپنا بڑا محاسبہ کیا ہے کہ مجھ میں کیا خامی ہے؟ شروع میں تو میں اُن کے رویّے سے بڑی دل برداشتہ ہوئی۔ میرے ہر کام میں کیڑے نکالنا وہ اپنا فرض سمجھتی ہیں۔ شاید کوئی اور لڑکی ہوتی تو بڑی ’’تلخ‘‘ ہوجاتی، لیکن الحمدللہ ایک میری والدہ اور پھر چند ایسے مخلص لوگ مل گئے جنہوں نے مجھے صبر شکر کی تلقین کی۔ اس موقع پر والدہ کی نصیحت تھی کہ ساس کے ہر وار کو صبر سے برداشت کرنا، کبھی پلٹ کر تم جواب نہ دینا کیونکہ وہ بھی ایک ماں ہے، اس کا ایک درجہ اور مرتبہ ہے۔ اسی طرح کچھ دوستوں نے کہا کہ ان کی دونوں بہوئوں کے مقابلے میں نہ صرف یہ کہ تم اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو بلکہ اعلیٰ عہدے پر فائز ہو، تمہیں اللہ نے بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے، شاید وہ اس وجہ سے تم سے خائف رہتی ہیں کہ تم سر پر نہ چڑھ جائو، ان کے بیٹے کو لے کر نہ چلی جائو، یا تکبر میں نہ آجائو، لہٰذا ساس کے اس تلخ رویّے کے باوجود تم انکسار اور تحمل سے کام لو۔
اس طرح اچھے دوستوں کے اچھے مشوروں کی بدولت وہ پُرسکون رہنے لگی اور اللہ کا شکر بھی ادا کرنے لگی کہ اللہ نے اسے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔
ان چند واقعات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسے مواقع پر افہام و تفہیم، تحمل، برداشت وغیرہ جیسی خوبیوں کی اشد ضرورت تو لازمی ہے، لیکن ایک اور بات آپ نے نوٹ کی کہ سمجھ دار، نیک نیت دوست و احباب ایسے مواقع پر بڑے معاون ثابت ہوتے ہیں جو نہ صرف آپ کو ٹھنڈا کرتے ہیٍں بلکہ افہام و تفہیم سے مسئلے کو حل کرنے کی تلقین بھی کرتے ہیں اور آپس میں صلح صفائی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ ایسے دوست احباب آج کے دور میں ایک نعمت ہیں۔
اسلام نے باہمی تعلقات کو خوش اسلوبی سے نبھانے کی تاکید کی ہے۔ رب العزت کا فرمان ہے کہ ’’(سنو) مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس دو بھائیوں کے درمیان اصلاح کیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ (الحجرات آیت 10)
اللہ دو بندوں کے درمیان جھگڑا ختم کرنے اور امن قائم کرنے کی کوشش کرنے والے کو پسند کرتا ہے، کیونکہ ایسا بندہ اس سلسلے میں اُس بندے کے غصے کو بھڑکاتا نہیں بلکہ اُس کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا ہے، اُسے اس سلسلے میں مثبت مشورے دے کر افہام و تفہیم کا راستہ دکھاتا ہے، جس کا اللہ کے یہاں بڑا اجر و ثواب ہے۔ لوگوں کو تکلیف یا دکھ میں دیکھ کر ان کے ساتھ ہمدردی اور مدد کی مذہب اسلام میں تاکید فرمائی گئی ہے، لیکن اس طرح کی ہمدردی جتانا کہ وہ بندہ مدمقابل کا مخالف ہوجائے اور اُس کو اپنا دشمن سمجھ کر انتہائی فیصلے پر پہنچ جائے، انتہائی غلط روش ہے۔ اس طرح بندہ اپنے مدمقابل سے بدظن اور بدگمان ہوجاتا ہے، اور دینِ اسلام بدظنی اور بدگمانی پیدا کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ بندے کو اگر تکلیف پہنچے تو اسے اپنے اوپر سوار کرکے واویلا مچانا درست نہیں ہے۔ اس وقت اپنے چاروں طرف اللہ کی دی ہوئی دوسری نعمتوں کو دیکھ کر شکر ادا کرنا چاہیے کہ میرے رب نے مجھے ان دوسری نعمتوں سے تو نوازا ہے، اور اللہ کی طرف سے یہ چھوٹی مصیبت انسان کے لیے آزمائش ہوتی ہے، اس کو آزمائش سمجھ کر صبر شکر کرنے سے انسان مضبوط ہوتا ہے، اس میں قوتِ مدافعت اور قوتِ برداشت پروان چڑھتی ہیں۔ اگر کوئی مسئلہ اور تکلیف ہو تو اپنا محسابہ کریں کہ کہیں ہم سے کوئی کوتاہی تو نہیں ہورہی جس کی بنا پر یہ تکلیف اٹھانا پڑرہی ہے۔ دینِ اسلام حُسنِِ معاشرت کو پروان چڑھانے کی تعلیمات دیتا ہے۔ صبر و شکر، اچھا گمان، ایمان داری، خلوص، درگزر، ہمدردی، محبت… یہ تمام وہ خوبیاں ہیں جن کو اپنے اندر جمع کریں تو بہت سے مسائل ختم ہوجائیں گے، اور اگر نہ بھی ہوں تو بھاری پہاڑ نظر نہیں آئیں گے۔ آج میں اپنے اطراف لوگوں کو مختلف نوعیت کی ہلکی پھلکی تکلیفوں پر بلبلاتے دیکھتی ہوں جس کی وجہ سے اُن کے آس پاس کے لوگ جو اُن سے وابستہ ہوتے ہیں وہ بھی زد میں آجاتے ہیں اور مایوسی اور غم میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ بے شک ہم میں صبرِ ایوبؑ جیسی خوبی نہیں، لیکن افہام و تفہیم کے ذریعے درد کو کم کرنے کے ذرائع اور وسیلے تو ہیں۔
ایک صاحب اپنی بیماری کا رونا روتے کہ جوکھاتا ہوں ہضم نہیں ہوتا، پیٹ میں درد رہتا ہے، ہر وقت پریشان رہتا ہوں، دل بڑا کڑھتا ہے اپنی طبیعت پر۔ ایک باہمت شخص نے بغور ان کے کھانے پینے کے معاملات کو دیکھا تو نوٹ کیا کہ وہ بے وقت اور الم غلم باہر کے کھانے اور مرغن غذائیں کھانے کا شوق رکھتے ہیں۔ ہمت کرکے انہیں اُن کے مرض کی وجوہات اور حقیقت آشکارا کی کہ بھائی 60 سال کی عمر میں یہ سب کھانا پینا، پھر اتنا ہنگامہ، اللہ سے بھی بدظن ہونا کیا معنی رکھتا ہے! اپنی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے پرہیز لازمی شرط ہے، اپنے کھانے پینے کے معاملے میں ہاتھ کو ذرا روکے رکھیں، اور صحت افزا غذائیں اللہ رب العزت کی طرف سے دی گئی نعمتیں ہیں، ان سے فیض حاصل کریں اور کھانے پینے کے جو آداب اسلام نے بتائے ہیں ان کو اپنانے کی کوشش کریں۔ شروع میں تو وہ صاحب مشورہ دینے والے سے خائف رہے، لیکن جب بغور خود بھی اپنا تجزیہ اور محاسبہ کیا تو حقیقت واضح ہوگئی اور انہوں نے اپنی غذائی عادتوں کو بدلنے کی کوشش کی۔ اس طرح کافی حد تک اپنی بیماری پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے۔
آخر میں یہ بات ضرور دہرائوں گی کہ مصیبت اور مسائل میں مبتلا شخص کو اُس کی تکالیف کا احساس کم کرنے کے لیے مثبت کردار ادا کریں، نہ کہ اُس کی تکالیف اور مسائل کا احساس اُس پر اتنا حاوی کردیں کہ وہ چھوٹے مسائل اسے پہاڑ محسوس ہوں جس کی وجہ سے وہ کرب، اذیت اور ڈپریشن کا مریض بن کر جینے پر مجبور ہوجائے۔ اسے یہ احساس دلائیں کہ آپ کے ساتھ تو گمبھیر مسئلے نہیں، یا آپ کو تو اتنی شدید تکلیف نہیں کہ اس کو حل نہ کیا جاسکے، لوگوں کو تو اس سے بھی زیادہ مسائل درپیش ہیں، یہ تو رب کی آزمائش ہے، اس آزمائش میں رب کی طرف اپنا جھکائو بڑھا دیں۔ رب کریم آپ کو ان تکالیف سے ضرور نجات دے گا۔ آپ کے مسائل افہام و تفہیم سے حل ہوسکتے ہیں، کیونکہ رب العزت نے آپ کو اشرف المخلوقات میں شامل کیا ہے۔ ذہن و عقل کی دولت اور فراست سے اپنے مسائل پر قابو پانے کی صلاحیت آپ میں موجود ہے، اسے استعمال کریں، یقینا بہت حد تک کامیابی ہوگی۔ مسائل اور مصائب میں یہ وہ طریقے ہیں جس کی وجہ سے بندہ اپنے آپ کو پُرسکون رکھ سکتا ہے۔

حصہ