علامہ اقبال کے ہاں ایک شام

600

پروفیسر احمد خاں
آخری حصہ
میں جن دنوں انار کلی [لاہور] میں رہتا تھا ، میں نے بیدل کے کلام کا انتخاب کیا تھا۔ وہ اب میرے کاغذوں میں کہیں ادھر ادھر مل گیاہے۔ نقشبندی سلسلے اور حضرت مجدد الف ثانی [م: ۴۲۶۱ء]سے بیدل کی عقیدت کی بنیاد یہی ہے۔ نقشبندی مسلک حرکت اور رجائیت پر مبنی ہے (ڈاکٹر صاحب نے dynamic and optimistic فرمایا) مگر چشتی مسلک میں قنوطیت اور سکون کی جھلک نظر آتی ہے (یہاں ڈاکٹر صاحب نے pessimistic and staticکے الفاظ استعمال کیے)۔ اسی وجہ سے چشتیہ سلسلے کا حلقہ ارادت زیادہ تر ہندستان تک محدود ہے مگر ہندستان سے باہر ، افغانستان ، بخارا، ترکی وغیرہ میں نقشبندی مسلک کا زور ہے۔ دراصل زندگی کے جس جس شعبے میں تقلید کا عنصر نمایاں ہے، اس میں حرکت مفقود ہوتی جاتی ہے۔ تصوف تقلید پر مبنی ہے۔ سیاسیات، فلسفہ، شاعری، یہ بھی تقلید پر مبنی ہیں۔ لیکن نقشبندی سلسلے کے شعرا مثلاً ناصر علی سرہندی [م: ۷۹۶۱ء ]کو دیکھیے۔ ناصر علی کی شاعری تقلیدی نہیں ہے، اسی لیے حرکت والی قوموں میں وہ زیادہ ہردل عزیز ہے۔ ہندستان میں ناصر علی سرہندی کی کچھ زیادہ قدر نہیں ہے، لیکن افغانستان اور بخارا کے اطراف میں لوگ اس کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں۔ بیدل کو بھی افغانستان کے لوگ بہت مانتے ہیں‘‘۔
میں: ’’اس کے کلام کے حرکی(۲)عنصر کی وجہ سے ؟‘‘
٭ ڈاکٹر صاحب: (مسکراتے ہوئے) ’’میرا خیال ہے کہ بیدل کے کلام کو سمجھنے میں انھیں مشکل پیش آتی ہے، اس لیے۔ ‘‘
سعید اللہ : ’’ آپ کا اس کے متعلق کیا خیال ہے جو غالب نے شروع میں بیدل کی طرح مشکل گوئی کی۔ کیا یہ صرف اس دعوے کے لیے کہ میں بھی مشکل شعر لکھ سکتا ہوں?؟‘‘
اس موقعے پر مہر صاحب نے سالک صاحب کی طرف دیکھا اور دونوں صاحبوں نے بہ اتفاق ڈاکٹر صاحب سے رخصت چاہی۔ چنانچہ قبل اس کے کہ ڈاکٹر صاحب سعید اللہ(۳) کے سوال کا جواب دیں کہ ’’ہاں، جوانی میں انسان طبعاً مشکل پسند ہوتا ہے‘‘ وہ دونوں صاحب ڈاکٹر صاحب کی خواب گاہ سے نکل کر ڈرائنگ روم تک جا پہنچے تھے۔ ان کی رفت وبرخاست کی وجہ سے گفتگو میں قدرتاً ایک اور وقفہ آیا۔ اس کے بعد سعید اللہ نے کہا: ’’ آج کل ہندستان کے نیشنل اینتھم [قومی ترانے]کے متعلق بڑی بحث ہو رہی ہے۔ آپ کی اس مسئلے کے متعلق کیا راے ہے؟‘‘
٭ ڈاکٹر صاحب: نیشنل اینتھم تو اس صورت میں کہیں کہ کوئی ’نیشن‘ہو۔ جب سرے سے ’نیشن ‘ ہی کا کوئی وجود نہیں ہے، تو نیشنل اینتھم ، کہا ں ہو سکتا ہے؟ میری تو یہ راے ہے کہ ہندستان کو کسی نیشنل اینتھم کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
سعید اللہ : ’’بندے ماترم پر بڑا اعتراض یہ ہے کہ ایک تویہ بنگالی میں ہے، دوسرے اس کے آہنگ میں گرمی نہیں ہے‘‘۔
٭ ڈاکٹر صاحب: (ذرا گرمی سے ) ’’ آپ ہندوئوں کی شاعری میں گرمی ڈھونڈتے ہیں! ہندو شاعری کے تمام دفتر دیکھ ڈالیے ، کہیں گرمی نہیں ملے گی۔ ہندو کو ہر جگہ شانتی کی تلاش ہے۔ ہندوئوں کی ادبی پیداوار میں میرے نزدیک اس کی صرف ایک استثنا ہے رامائن، اور وہ بھیبعض بعض حصوں میں‘‘۔
عبدالواحد : ’’مگر ہندستان کی موسیقی تو خاصی ہیجان انگیز ہے۔ قوالی میں یہی موسیقی کافی گرمی پیدا کر لیتی ہے‘‘۔
٭ ڈاکٹر صاحب:’’میں اسے مصنوعی گرمی کہتا ہوں، جس طرح منشیات سے کوئی شخص طبیعت میں ہیجان پیدا کر لے‘‘۔
عبدالواحد : ’’کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ وجد وحال کی کیفیت مصنوعی ہے؟ مثلاً ہمارے ہاں سیالکوٹ میں نوشاہیوں کا میلہ ہوتا ہے۔ وہاں قوالی سے بعض لوگوں کو یک دم حال آ جاتا ہے۔ کیا وہ آپ کے نزدیک محض دکھاوا ہے؟‘‘
٭ ڈاکٹر صاحب: ’’ان لوگوں نے وجد وحال کو ایک cult (رواج ) بنا لیا ہے۔ یہ کیفیت ان پر واقعی طاری ہوتی ہے، لیکن جب وہ اپنے جوش جذبات کو اس طرح فرو کر لیتے ہیں تو پھر ان میں باقی کچھ نہیں رہتا اور وہ جذبہ دوبارہ طاری نہیں ہوتا۔ دراصل مسلمان جب عرب سے نکلے اور انھیں باہر کی قوموں سے سابقہ پڑا تو صوفیہ نے ان قوموں کی effeminacy (نسائیت/زنانہ پن ) کا لحاظ کرتے ہوئے قوالی اور موسیقی کو اپنے نظام میں شامل کر لیا۔ effeminacy سے مراد ہے surplus emotion (اضافی جذبات )۔ ایران اور ہندستان میں فالتو جذبات کی کثرت ہے، اور حال انھی جذبات کے اخراج کا ایک ذریعہ ہے۔ صوفیہ کے سلسلوں میں قوالی کو جو دخل ہے وہ صرف اسی وجہ سے ہے۔
’’یہاں لاہور میں ہمارے (دوست ) حاجی رحیم بخش(۴) کے مکان پر ایک زمانے میں قوالی ہوا کرتی تھی۔ ایک پیر صاحب تھے جن کا نام مہر صوبہ تھا، حاجی صاحب ان کے مریدتھے۔ بہرحال ایک مرتبہ حاجی صاحب کے مکان پر سماع کی محفل ہوئی۔ مہرصوبہ اور ان کے مرید جمع تھے۔ حاجی صاحب نے مجھے بھی دعوت دی۔ میں گیا۔ وہاں اسی طرح ایک شخص کو حال آ گیا۔ مہرصاحب کا ایک مرید میرے پاس آ بیٹھا اور کہنے لگا: سنا ہے آپ حال کو نہیں مانتے ؟ میں نے کہا: مجھے حال کی کیفیت سے تو انکار نہیں ہے۔ یہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ میں حال کو نہیں مانتا؟ ‘ وہ بولا: آپ کے متعلق لوگ عام طور پر کہتے ہیں کہ آپ کو جذب وحال کی کیفیتوں پر اعتقاد نہیں ہے، مگر اب یہ ہمارا پیر بھائی آپ کے سامنے ہے، آپ اس کی نسبت کیا کہتے ہیں؟ میں نے جواب دیا: بے شک اس پر حال کی کیفیت طاری ہے، مگر اس ’حال‘ میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ? کے ’حال‘ میں بڑا فرق ہے۔ اس نے پوچھا: ’وہ کیا؟‘ میں نے کہا: ’یہ بات اپنے پیرصاحب سے جاکر پوچھ لو، وہ بتائیں گے۔ اس پر وہ اصرار کرنے لگا کہ نہیں، آپ ہی کہہ دیجیے۔ میں نے اس سے کہا کہ صحابہ? کے حال میں اور تمھارے حال میں یہ فرق ہے کہ ا نھیں تو میدان جنگ میں حال آتا تھا اور تمھیں رحیم بخش کی کوٹھڑی میں !‘‘ (اس لطیفے پر ہم لوگ دل کھول کر ہنسے)۔
ڈاکٹر صاحب نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’حقیقت یہ ہے کہ اسلامی موسیقی کا کوئی وجود ہے ہی نہیں۔ اس وقت تمام اسلامی ممالک میں اپنا اپنا مقامی فن موسیقی رائج ہے۔ مسلمان جہاں جہاں پہنچے ، وہیں کی موسیقی انھوںنے قبول کرلی اور کوئی اسلامی موسیقی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ فن تعمیر کے سوا فنون لطیفہ میں سے کسی میں بھی اسلامی روح نہیں آئی۔ اسلامی تعمیرات میں جو کیفیت نظر آتی ہے، وہ مجھے اور تو کہیں نظر نہیں آئی ، البتہ پچھلی مرتبہ یورپ سے واپسی پر مصر جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں قدیم فرعونوں کے مقابر دیکھنے کا موقع ملا۔ ان قبروں کے ساتھ مدفون باد شاہوں کے بت بھی تھے جن میں power (قوت وہیبت ) کی ایک ایسی شان تھی، جس سے میں بہت متاثر ہوا۔ قوت کا یہی احساس حضرت عمرؓ کی مسجد اور دلی کی مسجد قوۃ الاسلام بھی پیدا کرتی ہے۔ بہت عرصہ ہوا جب میں نے مسجد قوۃ الاسلام کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا مگر جو اثر میری طبیعت پر اس وقت ہوا، وہ مجھے اب تک یاد ہے۔ شام کی سیاہی پھیل رہی تھی اور مغرب کا وقت قریب تھا۔ میرا جی چاہا کہ مسجد میں داخل ہو کر نماز ادا کروں۔ لیکن مسجد کی قوت وجلال نے مجھے اس درجہ مرعوب کر دیا کہ مجھے اپنا یہ فعل ایک جسارت سے کم معلوم نہ ہوتا تھا۔ مسجد کا وقار مجھ پر اس طرح چھا گیا کہ میرے دل میں صرف یہ احساس تھا کہ میں اس مسجد میں نماز پڑھنے کے قابل نہیں ہوں۔
’’اندلس کی بعض عمارتوں میں بھی اسلامی فن تعمیر کی اسی خاص کیفیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن جوں جوں قومی زندگی کے قوا شل ہوتے گئے ، تعمیرات کے اسلامی انداز میں ضعف آتا گیا۔ وہاں کی تین عمارتوں میں مجھے ایک خاص فرق نظر آیا۔ ’قصر زہرا‘ دیووں کا کارنامہ معلوم ہوتا ہے ، مسجد قرطبہ مہذب دیوئوں کا، مگر ’الحمرا‘ محض مہذب انسانوں کا !‘‘
٭ پھر ایک تبسم کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے سلسلہ کلام کوجاری رکھتے ہوئے کہا: ’’ میں الحمرا کے ایوانوں میں جا بجا گھومتا پھرا، مگر جدھر نظر اٹھتی تھی، دیوار پر ھوالغالب لکھا ہوا نظر آتا تھا۔ میں نے دل میں کہا : ’’ یہاں تو ہر طرف خدا ہی خدا غالب ہے، کہیں انسان غالب نظر آئے تو بات بھی ہو! ‘‘
٭اس کے بعد پھر تھوڑی دیر تک ہندستان کی اسلامی عمارت کا ذکر ہوتا رہا۔ تاج محل کے متعلق ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: ’’مسجد قوۃ الاسلام کی کیفیت اس میں نظر نہیں آتی۔ بعد کی عمارتوں کی طرح اس میںبھی قوت کے عنصر کو ضعف آ گیا ہے، اور دراصل یہی قوت کا عنصر ہے، جو حسن کے لیے توازن قائم کرتا ہے‘‘۔
سعید اللہ : ’’دلی کی جامع مسجد کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
٭ ڈاکٹر صاحب: ’’وہ تو ایک بیگم ہے!‘‘
ہم اس فقرے پر ہنسے اور ڈاکٹر صاحب بھی ہمارے ساتھ شریک ہو گئے۔ اس منزل پر اسلامی تعمیرات کے متعلق یہ دل کشا بحث ختم ہوئی۔
اب شام کے ساڑھے سات بج چکے تھے اور تین گھنٹے کی اس مسلسل نشست کو طول دینا مناسب بھی نہیں تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کو ان مشورہ طلب نگاہوں سے دیکھا، جنھیں ہم نے معمولاً ڈاکٹر صاحب سے اجازت لینے کا پیش خیمہ قرار دے رکھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے حسب معمول ہم سے کہا : ’’اچھا، چلتے ہیں آپ ؟‘‘ اور اس کے بعد ہم رخصت ہوئے۔ (اسلامیہ کالج لاہور کے ’حلقہ نقدونظر‘ کے اجلاس میں دسمبر ۷۳۹۱ء کو پڑھا گیا اور محمود نظامی کے مرتبہ مجموعے: ملفوظات، ناشر: لالہ نرائن دت سہگل، لاہور، س ن میں شامل ہوا۔طبع دوم بہ عنوان: ملفوظاتِ اقبال، [۹۴۹۱ء ] میں کتاب کا نام بدل دیا۔ ازاں بعد اقبال کی شخصیت اور شاعری، از حمیداحمد خاں، بزمِ اقبال، لاہور، طبع دوم، ۳۸۹۱ء

حصہ