ُظفر اقبال کے تازہ شعری مجموعے’’توفیق‘‘ کا جائزہ

1280

فیض عالم بابر
جدید غزل کے امام اور اپنے مرشد ظفر اقبال کے حال ہی میں کراچی سے دو شعری مجموعے ’’ تاخیر‘‘ اور’’ توفیق ‘‘ شائع ہوئے ۔تاخیر کے بعد توفیق کا جائزہ لیا تو اس میں بھی وہی کوتاہیاں، خامیاں نظر میں آئیں جو تاخیر میں تھیں۔ نوجوان ہو ںیا عمر رسیدہ ،مرشد ہر شاعر کی شاعری پر کھل کر تنقید کرتے ہیں ۔ایسا کرکے یقینا وہ شاعروں پر احسان کرتے ہیں کہ اس سے شاعروں کو اپنی خامیاں دورکرنے کے مواقع میسر آجاتے ہیں۔مرشد ہی کی سنت پر عمل پیرا ہوکر’’ توفیق ‘‘کا جائزہ پیش ہے۔
’’ تاخیر ‘‘کے ذیل میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ یہاں، وہاں ،جہاں وغیرہ کے ساتھ’ پہ‘ یا ’پر‘ کا استعمال زبان نہیں اور اہل زبان سمیت اساتذہ نے اسے معیوب جانا ہے ۔’’توفیق‘‘ میں شامل درج ذیل اشعار میں یہ عیب نمایاں ہے۔
یہ مجھ سے پوچھتے کیا ہو کہاں سے آیا ہوں۔۔جہاں پہ تھا ہی نہیں میں وہاں سے آیا ہوں
میں واردات کوئی کرکے آرہا ہوں نئی۔۔۔وہیں پہ بھیج نہ دینا جہاں سے آیا ہوں
نہیں یہاں پہ کسی اور کا کوئی دعویٰ۔۔کہ وہ بھی چیز تمھاری ہے جو تمھاری نہیں
نہیں یہاں پہ کوئی لین دین کا جھگڑا۔۔یہ عاشقی ہے مری جاں، دکانداری نہیں
جہاں پہ کچھ نہیں بچا ہے اب ظفر۔۔وہاں سے کوئی شے منگانا چاہیے
جہاں پہ ہو نہیں سکتا کوئی، وہاں کوئی ہے۔کہ داستاں نہیں اور زیبِ داستان کوئی ہے
یہیں پہ لوٹ کے آنا ہے ایک دن آخر۔رہیں رہیں نہ رہیں اس میں گھر تو اپنا ہے
کہیں پہ رہ گئی اس بار بھی کسر کوئی۔۔کہ چاند ٹھیک اگر ہے تو بام ٹھیک نہیں
جہاں پر چھائوں بھی اشجارکی پھیلی ہوئی ہر سو۔۔وہیں میں نے بھی اپنا سا یہئدیوار کرڈالا
یہاں پہ روز نیا ہی جہاں نکلتا ہے۔۔زمیں سمجھتا ہوں اور آسماں نکلتا ہے
زباں بریدہ یہاں پر جہاں جہاں ہیں وہیں۔۔ہر ایک شخص مرا ہم زباں نکلتا ہے۔
’’تاخیر‘‘ کی طرح ’’توفیق‘‘ میں بھی حشو و ز واید کے عیب پر مبنی اشعار موجود ہیں جوکہ درج ذیل ہیں
اب الگ ہوسکوں گا مشکل سے۔۔۔ساتھ اس کے کہیں سلا ہوا ہوں
( کہیں اضافی ہے)
ہمیں بھی کرنا ہی تھا کچھ نہ کچھ محبت میں۔۔۔فریب دے نہ سکے تو فریب کھالیا ہے
( ہی اضافی ہے)
چاند گہنایا ہوا لگتا ہے یہ اک عمر سے۔کچھ اندھیرا سا جو اپنے دل کی تابانی میں ہے
سبزہ گاہ اتنی بڑی ہے یہ ظفر۔۔۔کہیں چگنے کہیں چرنے کے لیے
اُس نے بھی ظفر روک رکھی ہے یہ روانی۔ہم خودبھی کناروں سے چھلکنے کے بہت ہیں
وہ کوئی اور ہیں جو مستفید ہیں اس سے۔دیا تو اپنا ہے ،یہ روشنی ہماری نہیں
(محولہ بالا تمام اشعار میںـ’ یہ‘ اضافی ہے)
جب سے بیمار ہے گدھا تو ظفر۔۔تب سے بے کار ہے گدھا گاڑی
(تو اضافی ہے گوکہ’ تو‘ نکال دینے سے خود شاعر پر زد پڑے گی)
جگہ تو دل میں بچی ہی نہیں کوئی باقی۔تو اس میں کیوں ترے غم کو سمائی دے رہا ہوں
( باقی اضافی ہے)
یہ لین دین ہے میری سمجھ سے ہے باہر۔کہ زہر پھانکتا ہوں اور مٹھائی دے رہا ہوں
( پہلے مصرع میں پہلا ہے اضافی ہے)
میں کچھ اس طرح سے دھوکا نہیں کھاتا لیکن۔ظلم ہی تھا کوئی احسان سے ملتاجلتا
(کچھ اضافی)
ہمارا جو کردار ہی کچھ نہ تھا۔نکل آئے خود ہی کہانی سے ہم( جو اضافی ہے)
سنجیدہ شعر کہتے ہوئے ہر شاعر کے ہاں مزاح کا رنگ لیے ایک آدھ شعر آجاتا ہے ،جسے عام طور سے شاعرحذف کردیتا ہے یا الگ سے محفوظ کرلیتا ہے مگر اسے سنجیدہ شاعری میں شامل نہیں کرتا کہ ایسا کرنے سے قاری کا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے۔یہ عمل ایسا ہی ہے جیسے سالن میں کھیر یا حلوہ شامل کرکے کھایا جائے۔مرشد کی کتاب’’ توفیق‘‘ میں ایسے کئی اشعار ہیں جو مزاح کا رنگ لیے ہوئے ہیں ۔
جانِ من کچھ چلا پھرا بھی کرو۔۔ہوتی جاتی ہو اچھی خاصی بھینس
اچھی خاصی دل پزیر۔۔۔ابھی تو اُس کی ساس تھی
بلغم اتنی بڑھ گئی ہے۔۔۔کریں گے بھنڈی توری بند
(بلغم مذکر ہے )
گدھا تو مرکھپ گیا۔۔ہاتھ گاڑی چلے گی
آتا جاتا بھی ہوں کہ میرے لیے۔۔شیورلے کار ہے گدھا گاڑی
اشتہار ہیں آپ کا۔۔۔مفتے کی تشہیر ہیں
رنڈوا خود ہے جو ظفر۔۔کیا کُڑمائی کرے گا
بھوکا ہوں میں اور آپ۔۔۔خاصی ٹیڑھی کھیر ہیں
اُس نے منشی تو بنائے رکھا۔۔۔کچھ لکھائی نہ پڑھائی دی ہے
(لکھائی،پڑھائی دینا محلِ نظر ہے)
پیر صاحب جیل میں تھے۔۔آستانہ چل رہا تھا
پہلے تو ایک دم کسا ہوا تھا۔۔پڑا رہنے سے پلپلا ہوں ہوں
لوگ سیڑھی لگا کے ملتے ہیں۔۔آج کل چار منزلہ ہوا ہوں
بھورے ہو یا ککے تم۔۔رنگ دار ہو پکے تم
یہ دیکھنے والے خود بھینگے ہی نہ ہوں جن کو۔۔ٹیڑھا نظر آتا ہوں، ترچھا نظر آتا ہوں
سادہ سادہ سا ہے کچھ اس مرتبہ۔۔وصل کا حلوہ یہ بادامی نہیں
پیسہ نہیں، موبائل ہی سہی۔۔اب کچھ تو عنایت کیجیے
علامہ اقبال نے اپنے اولین شعری مجموعے بانگ ِ درا میںمزاحیہ شاعری کے لیے ایک الگ حصہ ’’ ظریفانہ‘‘ کے نام سے مخصوص کیا تھا اگر مرشد بھی ایسی ہی کوئی تدبیر کرلیتے تو بہتر ہوتا ۔
کتاب میں پروف کی غلطیاں کم مگر ہیں ضرور۔
عکس ہے دریا سے باہر آئینہ پانی میں ہے(آئنہ آئے گا)
اسی پہ تکیہ نہ کرنا کہ پاسباں کوئی رہے(ہے ردیف ہے رہے نہیں)
ہم بھی کرنے والے ہیں تم سے استادی ایسی ہے(ہی ردیف ہے)
خود بھی آیا نہیں،کچھ ساتھ بھی لایا نہیں۔۔۔۔۔ (ردیف ’تھا ‘ہے جو کہ غائب ہے)
تمھارے آئینہ خانے میں توڑپھوڑ سہی۔۔۔۔۔۔(آئنہ آئے گا)
وہ سارا دن ہی مرے ساتھ جو دفتر میں رہتا ہے۔۔۔۔(مرے کی جگہ میرے آئے گا)
جان نکلتی ہے جسم سے ایسے… (جان کی جگہ جاں آئے گا)
مرشد ظفر اقبال کہنہ مشق اور استاد شاعر ہیں جو یقینا بے وزن شعر نہیں کہہ سکتے مگر کتاب میں شامل درج ذیل شعر یا مصرعے نظر ثانی کے متقاضی ہیں۔
کم تھا جو اتنا وقت تھی سفر کے لیے ،ظفر۔۔۔تھوڑا سا انتظار کیا اور چل پڑے
(پہلا مصرع بے وزن ،تھی اضافی ہے)
فرق ہونا تو چاہیے تھا ظفر۔۔کچھ محبت اور حماقت میں
(دوسرا مصرع بے وزن ہے)
کتاب میں ایک شعر ہے
بھری دوپہر میں دن تھا اچانک رات ہونے کو۔۔اُسی لمحے مرا سورج ستارہ ہونے والا تھا
پہلے مصرع میں پہر کو بروزن رات ،صبح باندھا گیا ہے جو کہ غلط ہے اور اسی وجہ سے مصرع بے وزن ہوگیا ۔ پہر بروزن خبر ،نظر ہے ۔ بطورِ سند اساتذہ کے دو شعر حاضر ہیں۔
تجھے ہم دوپہر کی دھوپ میں دیکھیں گے اے غنچے ۔۔۔ابھی شبنم کے رونے پر ہنسی معلوم ہوتی ہے
(شفیق جونپوری کی اس شعر کی بحر بھی وہی ہے جو ظفر اقبال کی غزل کی ہے)
دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے ۔۔۔وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے (حسرت موہانی)
کتاب میں ایک شعر کچھ یوں ہے
کسی قدر تو ہمارا بھی حصہ ہے اس میں۔۔کہ اُس کے حسن میں حسنِ نظر تو اپنا ہے
اس مضمون کو جدید غزل کے اہم شاعر رئیس فروغ نے کہیں زیادہ خوبصورتی سے بیان کیا ہے اور زبانِ زد عام بھی ہے۔
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے۔۔۔آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کرسکتے
( رئیس فروغ)
کتاب میں ایک شعر کچھ یوں ہے
جو شعر بن نہیں پائے ہزار کوشش سے۔۔۔۔پڑے ہوئے ہیں کہ یہ بھی بچارے اپنے ہیں
بچارہ کوئی لفظ نہیں ،درست لفظ بیچارہ ہے۔قافیہ کی مجبوری اپنی جگہ مگر ایک معتبر شاعر کو زبان کی صحت کا خیال رکھنا چاہیے،بے شک عوام بیچارے کو بچارہ بولیں۔ اس حوالے سے خدائے سخن میرتقی میر کے کچھ شعر دیکھیں۔
دل نہیں منزل سینہ میں اب۔۔۔۔یاں سے وہ بیچارہ سفر کرگیا۔
تو ہے بیچارہ گدامیر ترا کیا مذکور ۔۔مل گئے خاک میں یاں صاحب افسر کتنے
اے چرخ نہ تو روز سیہ میر پہ لانا ۔۔بیچارہ وہ اک نعرہ زن نیم شبی ہے ۔
کتاب میں ایک مصرع کچھ یوں ہے
کہہ رہی ہیں یہ ترے خواب سے خالی آنکھیں۔
اس مصرع میں ترے کی جگہ تری ہونا چاہیے۔
کتاب میں شامل 25 اشعار مجھے پھسپھسے لگے ۔ جگہ کی کمی کے باعث کچھ شعر درج کررہا ہوں
بال کرا کر ڈھیلے۔۔۔ رہ گئے ہکے بکے
بہت کھلے میں جی لیے۔۔لاش ہے اپنی بوری بند
یا اگا ڑی چلے گی۔۔یا پچھاڑی چلے گی
گدھا تو مرکھپ گیا۔۔ہاتھ گاڑی چلے گی
اونٹ ،گھوڑے کی اب نہیں پروا۔۔۔مجھ سے دوچار ہے گدھا گاڑی
اک توقع سی لگائی ہوئی ہے۔۔ کچھ گدھے ہیں جنھیں میں گھوڑتا ہوں
مرشد نے خود کئی بار لکھا ہے کہ ’’نئے شاعر کو شاعری وہاں سے شروع کرنی چاہیے جہاں تک موجودہ شاعری پہنچ چکی ہے‘‘۔ مرشد سے پوچھنا یہ ہے کہ اگر ایک نیا شاعر ظفر اقبال کو اپنا رول ماڈل بناتا ہے اور وہ جب ہاتھ گاڑی اور گدھا گاڑی والے شعر پڑھتا ہے تو وہ بیل گاڑی،کار گاڑی، ریل گاڑی پر شعر کہے گا تو کیا یہ جدید غزل یا جدید شاعری ہوگی؟۔
کتاب میں شامل 52 اشعارمختلف محاسن کے باعث مجھے پسند آئے ۔جگہ کی کمی کے باعث کچھ اشعار درج کررہا ہوں
وہ ملک جس کا نہیں ہے کہیں بھی نام و نشاں۔۔ہم اپنے آپ ہی اُس کے سفیر ہوگئے ہیں۔
اُس کی تصویر میں اس طرح سے کھو جاتا ہوں۔۔رک سے جاتے ہیں خیالات بھی آنے اُس کے
ایک شاعر میں ہوا ظاہر زمانے بھر کاعجز۔۔۔تمکنت سارے جہاں کی ایک استانی میں ہے
دنیا کی ہے ترک اگر۔۔یہ بھی دنیا داری ہے۔
گھیرے ہوئے تھا ایک ملاقات کا جنوں۔۔سر پر اُسے سوار کیا اور چل پڑے
شاخ سے ٹوٹتا ہے دیر سویر۔۔پھول تو اپنی ہی نزاکت میں
ایک سیڑھی مجھے درکار ہے بس۔۔ آسمانوں سے اُترنے کے لیے
ہارنے کے بعد بھی میں ۔۔۔فاتحانہ چل رہا تھا
خدا کو اور کہیں ڈھونڈنا پڑے گا ہمیں۔۔یہاں تو کفر بھی اسلام بھی تمھارا ہے
آنکھ بھر کر نہ دیکھنا اُس کو۔۔۔تھوڑا تھوڑا ،ذرا ذرا دیکھو۔
کتاب میں 6 غزلیں’’ انتظار‘‘ اور 4 غزلیں’’ چکا ہوں‘‘ کی ردیف میں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں،گو کہ یہ اسلوب ابھی عام نہیں ہوا مگر یہ غزلیں مابعد جدیدیت کی نمائندہ کہی جاسکتی ہیں۔
’’تاخیر‘‘ کی طرح ’’توفیق‘‘ میں بھی سب سے زیادہ 28 غزلیں بحر مجتث کیمزاحف شکل (مفاعلن ،فعلاتن ،مفاعلن، فعلن۔فعلان) میں 11 غزلیں بحرِ مضارع کی مزاحف شکل(مفعول، فاعلات ،مفاعیل، فاعلن۔فاعلان) میں کہی گئی ہیں ۔تاخیر کے مقابلے میں اس کتاب میں مفرد، مرکب سمیت مختلف اقسام کی بحریں استعمال کی گئی ہیں جبکہ کچھ اشعار میں تسکین اوسط قانون سمیت کچھ عروضی تجربات بھی نظر آتے ہیں جو خوش آئنداور نوجوان شعرا کے سیکھنے کے لیے مفید ہیں۔

حصہ