مکار مکڑا

709

نسرین شاہین
ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال کوبچوں سے بہت محبت تھی وہ چاہتے تھے کہ بچے پر اعتماد ہوں ، مستقبل کے معماربنیں۔ انھوں نے بچوں میں دین اسلام اور ملک وقوم کی محبت پیدا کرنے کے لیے بڑی اچھی اور سبق آ موز نظمیں لکھیں۔
بانگ درا میں بچوں کے لیے علامہ اقبال کی نظم’’ ایک مکڑا اورمکھی‘‘ انتہائی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ علامہ اقبال نے اس نظم میں ایک کہانی بیان کر دی ہے کہ مکڑے نے کس مکاری سے مکھی کو اپنی باتوں سے ورغلایا اور مکڑے کی خوشامد سے کس طرح مکھی موت کے منہ میں چلی گئی۔
نظم ایک مکڑا اورمکھی‘‘ میں ایک بھوکامکڑ ا پنے جالے کے سامنے شکار کی تاک میں بیٹھا تھا کہ کوئی کیڑا مکوڑا آئے ، اسے پھانس کر کھا جائے اور اپنی بھوک مٹائے۔اسی وقت اس کے جالے کے سامنے سے ایک مکھی اْڑتی ہوئی گزری تو مکڑے نے اسے پھنسانے کے لیے خوشامدی انداز میں مکھی سے کہا:’’بی مکھی ! تم روزانہ یہاں سے گزرتی ہو، کبھی میرے گھر بھی آؤ اور میری عزت بڑھاؤ۔
یہ سامنے ہی سیڑھی ہے۔‘‘ مکھی سمجھ دار تھی ، مکڑے کی باتوں سے اس کا مقصد سمجھ گئی اور کہنے گی: میں اتنی نادان نہیں کہ جو تمھاری سیڑھی پر قدم بھی رکھوں ، کیوں کہ اگر میں تمھارے گھر آئی تو کبھی . واپس نہ جا سکوں گی۔‘‘ جب اس بات سے مکڑے کا کام نہ بنا تو اس نے مکھی سے اپنے گھر کی تعریف کر کے گھیر نا چاہا کہ میرا گھر اگر چہ باہر سے کْٹیا کی طرح دکھائی دیتا ہے، مگر اس کے اندر باریک باریک پردے ہیں اور اس میں مہمانوں کے لیے آرام دہ بچھو نے بھی ہیں۔
میرے گھر کی دیواریں آئینے کی طرح شفاف ہیں۔ یہ سب چیز میں ہر کسی کے پاس نہیں ہوتیں۔مکھی عقل مندتھی ، مکڑے کی باتوں میں نہ آئی اور کہنے لگی: ا للہ تمھارے نرم بچھونوں سے بچائے۔ ان پر اگر کوئی لیٹا تو وہ تمھارا شکار بن جائے گا اور واپس باہر نہ آ سکے گا۔
مکھی کی سمجھ داری دیکھ کر مکڑے نے سوچا کہ اس عقل مندمکھی کو اپنے جال میں پھانسے کے لیے خوشامد سے کام لینا پڑے گا۔مکڑے نے اب بڑی ہوشیاری سے مکھی کی خوشامد شروع کر دی اور بولا: تمھاری صورت بہت حسین ہے۔ تمھاری آنکھوں کی مثال تو چمکتے ہوئے ہیروں کی طرح ہے اور اڑتے وقت تمھاری آواز ( بھنبھناہٹ ) کی خوب صورت گیت کی طرح اچھی لگتی ہے۔
بس پھر کیا تھا، سمجھ دارمکھی خوشامد سن کر خوش ہوگئی اور اس کا دل نرم پڑ گیا اور اس نے اپنی عقل سے کام لینا ہی چھوڑ دیا اورمکڑے سے کہا: ” بھئی کسی کا دل توڑنا اور انکار کرنا بہت بری بات ہے۔بس یہ کہ کرمکھی اْڑی اور مکڑے کے جالے میں داخل ہونے لگی۔
پھر جیسے مکھی پاس آئی تو مکڑے نے اْچھل کر اسے پکڑ لیا اور کھا گیا۔ اس طرح مکڑے نے خوشامد کر کے اپنی بھوک مٹائی اور مکھی خوشامد کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی گئی۔اس نظم سے بچوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ کسی کی جھوٹی تعریف سن کر خوش ہونے کے بجائے اپنی عقل سے سوچنا چاہیے کہ سامنے والا جو تعریف کر رہا ہے، وہ جھوٹی ہے یا سچی ہے، کیوں کہ خوشامد کا مطلب ہے کہ کسی کی جھوٹی تعریف کر کے اس سے اپنا مقصد پورا کرنا۔
ہمیں عقل اورسمجھداری سے کام لینا چا ہے اور خوشامد سے بچ کر رہنا چاہیے، ورنہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ علامہ اقبال نے بچوں کے لیے لکھی ہوئی نظموں میں اسی طرح کی سبق آ موز باتیں بچوں کو بڑ ے موثر انداز میں بتائی ہیں ، تا کہ بچے ان اچھی باتوں کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکیں اور پھر ان پر عمل بھی کر یں۔
اس طرح وہ نیک، سچے اور با اخلاق انسان بن سکیں گے اور ان کی زندگی اعتماد سے گز ر ے گی۔علامہ اقبال نے بچوں کے لیے سبق آ موزنظمیں کم و بیش سو برس پہلے لکھی تھیں، لیکن آج بھی پڑھنے اور سننے میں اچھی لگتی ہیں۔ ان نظموں کی آج بھی بچوں کو ضرورت ہے۔
یہ سبق آ موز نظمیں ہر دور کے بچوں کے لیے موزوں ہیں، کیوں کہ نیکی اور بدی یعنی اچھائی اور برائی ہر دور میں ہوتی ہے۔نونہالوں کو چاہیے کہ وہ اپنے قومی شاعر علامہ محمد اقبال کی لکھی ہوئی بچوں کی نظمیں ضرور پڑھیں ، انھیں سمجھیں اور ان کی سبق آموز نصیحتوں پر عمل بھی کریں۔
علامہ اقبال کی نظمیں ان کے مجموعہ کلام’’ با نگ درا‘‘ میں موجود ہیں۔ بانگ درا علامہ اقبال کی بہت مشہور کتاب ہے۔علامہ محمد اقبال کو اْمیدتھی کہ آج کے بچے آنے والے کل میں اچھے اور کامیاب انسان بنیں گے۔ اقبال بچوں کو پر اعتماد دیکھنا چاہتے تھے۔
ان کی خواہش تھی کہ بچے ان تمام خوبیوں سے آراستہ ہوں، جو انھیں ایک اچھا مسلمان اور انسان بنائیں۔ علامہ اقبال خود بھی ایک اچھے طالب علم تھے اور اپنی قوم کے بچوں کو بھی اچھے طالبعلم دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ علم حاصل کرنے پر زور دیا کرتے تھے۔ان کی وفات21 اپریل1938ء کو لاہور میں ہوئی۔ ان کا مزار بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کے قریب ہے۔

حصہ