دھوکہ ، جھوٹ، فریب ، سماجی میڈیا پر

386

شام پر ہونے والے امریکی کیمیکل حملہ کو سماجی میڈیا کا سہارا لے کر جھوٹا قرار دینے کی کوشش کی گئی اور بودے دلائل دہراتے ہوئے فوٹو شاپ اور جعلی تصاویر قرار دیا گیا۔لیکن ایسا نہیں کہ سب سو رہے ہیں اور جب ہم کہتے ہیں کہ دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے تو ’آپ‘کے کنٹرول میں اتنی بھی نہیں جتنا ’آپ ‘سمجھتے ہیں۔یہ بھی ضرور ہوا کہ اس میں فلمی مناظر کو بھی شام سے جوڑ کر پھیلایا گیامگر فلم تو آخر فلم ہے ۔
عمران پٹنی نے اس حوالے سے ایک جامع نقطہ پیش کیا کہ ’’اکیسویں صدی میں شام میں ہونے والے مظالم کی تصاویر و ویڈیوز جعلی ہیںکیونکہ بمباری کے نتیجے میں مواصلاتی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔
لیکن چھٹی صدی عیسوی میں ہونے والے کربلا کے واقعے کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کی جاتی رہی کیونکہ اس وقت یزید نے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی متعارف کروا دی تھی۔‘‘اسلام آباد سے ایک سینئر تجزیہ نگار و صحافی طارق حبیب اس معاملے پر گہری نظر رکھتے ہیں ، اپنی پوسٹ میں وہ متعلقہ اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’شامی بچوں پر ہونے والے کیمیکل حملے اس صدی کا ایک اور المیہ ہیں ، جس پر مجرمانہ خاموشی کا قرض ضرور ادا کرنا ہوگا۔‘‘کشمیر، افغانستان، شام ، عراق والے معاملے پر بدترین خاموشی آنے والے وقتوں میں کوئی اچھا پیغام نہیں دے رہی۔آصفہ کیس پر سماجی میڈیا کے ذریعہ بھارت میں مجھے زیادہ شور نظر آیاجبکہ یہاں تو اس ہفتہ میشا جی لسٹ میں آ گئیں۔
میشا شفی نے بھی سوشل میڈیا کا سہارا لے کر کچھ ایسے مقاصد کی تکمیل چاہی جو اَب تک کھل کر واضح نہیں ہو سکے۔موصوفہ پاکستان کی ٹیلی وژن خصوصاًڈرامہ انڈسٹری سے وابستہ معروف نام صبا حمید کی بیٹی ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ خود بھی ایک اداکارہ اور گلوکارہ کے طور پر جانی جاتی ہیں جنہیں پاکستانی اشتہارات، ڈراموں، فلموںکے علاوہ اب تک ایک بھارتی اور ایک ہالی ووڈ فلم میں بھی کام کا موقع ملا ہے۔اس کے علاوہ وہ گلوکاری کے میدان میں بھی چھ سات سال سے شہرت پا چکی ہیں۔گذشتہ دنوں لاہور میں ’’میرا جسم میری مرضی ‘‘ والی ریلی میں پیش پیش رہنے والوں میں سے تھیں۔ اُن کی ٹوئٹر وال کا جائزہ لیں تو آپ کو اُن کے آزاد خیال نظریات و افکار کی واضح شکل نظر آجائے گی۔اس ہفتہ اُن کی ٹوئیٹ کے نتائج ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈکی صورت نمودار ہوئے ۔موصوفہ نے اپنے ایک اور ساتھی لیکن عمر اور شہرت میںاُن سے زیادہ بڑے گلوکار علی ظفر پر جنسی ہراساں کرنے کا الزام لگایا ۔یہ الزام انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک تفصیلی پیغام کو منسلک کر کے پیش کیا۔کچھ ہی دیر میں یہ ٹوئیٹ الیکٹرانک میڈیا پر بریکنگ نیوز کی صورت نمودار ہوا اور پھر رات تک اسی میڈیا سے اس معاملے کا ایک پس منظر بھی سامنے آیا ۔ٹی وی رپورٹس کے مطابق کسی ٹی وی شو کے میوزک پروگرام میں علی ظفر کو بطور جج ملنے والے معاوضہ کے برابر معاوضہ نہ ملنے پر میشا صاحبہ نے یوں غصہ نکالاتھا۔علی ظفر نے بھی ٹوئیٹ کے ذریعہ الزامات کی نفی کی اور معاملے کو عدالت تک لے جانے کا عندیہ بھی ظاہر کیااور اس پر مزید بات کرنے سے انکار کیا۔میشا نے اپنی ٹوئیٹ میں جو ہیش ٹیگ استعمال کیا وہ #Metooکے عنوان سے تھا ۔ یہ وہی ہیش ٹیگ ہے جس کا آغاز پچھلے سال خواتین نے ہی سماجی میڈیا پر کیااور مہم عالمی سطح پر کامیاب رہی ۔جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف خواتین کی مہم ’می ٹو‘ کا آغازہالی ووڈ پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن کے خلاف تقریباً اٹھارہ ساتھی اداکاراؤں نے جنسی طور پر ہراساں اور زیادتی کے الزام سے شروع کیا۔اسکے بعد تو یہ ٹرینڈ بنتا ہی چلا گیا کہ اگر آپ کے ساتھ ایسی کوئی زیادتی کا واقعہ پیش آیا ہے تو آپ سماجی میڈیا پر اس کا کھل کر اظہار کریں ۔نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک خاص گروہ اور اُس کی اندھی تقلید کرنے والے سب آپ کے پیچھے دوڑ پڑیں گے اور آپ ملکی و عالمی سطح کا موضوع بن جائیں گے۔اہم بات یہ سامنے آئی کہ ایسا کرنے والوںمیں کوئی نہ کوئی قدر مشترک ضرور نکل آتی ہے جس کو ثابت کرنے کے لیے زیادہ تحقیق کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ویسے تواس ٹوئیٹ کے بعد دونوں کے چاہنے والے اپنے اپنے محبوب کے دفاع کے حق میں ٹوئٹر و دیگر سماجی میڈیا پلیٹ فارم پرکود پڑے ۔دو باتیں جو اکثر لوگوں نے اس معاملے میں محسوس کی اُن میں ایک تو یہ تھی کہ خاتون کو اتنے عرصے بعد اچانک کیسے یاد آگیا کہ وہ دو بچوں کی ماں بھی ہیں اور علی ظفر اُنہیں عرصے سے جنسی طور پر ہراساں کر رہے ہیں ؟دوسری یہ بات جو اس مثال کے عین مطابق رہی کہ ’’بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘ ، یعنی میشا نے اس ٹوئیٹ کے بعد جس تیزی سے ٹوئٹر پر اپنے فالورز بڑھائے وہ تعداد بھی ٹوئیٹ کی ایک وجہ قرار دی گئی مختلف تجزیوں میں ۔جہاں تک الزمات اور اس کی تردید کی بات ہے تو بتاتا چلوں کہ میشا شفی کے حوالے سے دو سال قبل بھی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر اس حد تک گھومتی رہی کہ کئی ویب سائٹس نے بھی اس بات کو رپورٹ کیا ۔اُس ویڈیو کے مطابق میشا شفی کے مختلف افکار، ظاہری اعمال وبیانات کو بنیاد بنا کر اُنہیں ’الیومیناٹی‘یعنی شیطان کو ماننے والے گروہ کا ایک رکن بتایا گیا۔اس ویڈیو کی کوئی تردید سامنے نہیں آئی اور وہ ویڈیوز آج بھی یو ٹیوب پر موجود ہیں ۔ بہر حال ہوا یہ کہ میشاکے مذکورہ الزام کے بعد جہاں سماجی میڈیا پر اس موضوع کو بھرپور طریقے سے نان ایشو بھی قرار دیا گیا۔ ایک صاحب نے لکھاکہ ’’میشا شفیع اور علی ظفر کی خبر کو جس طرح کل سے مصالحہ آمیزی کے ساتھ ہائی لائٹ کیا جارہا ہے، اس سے ایسا گمان ہوتا ہے جیسے اسوقت دنیا میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہو۔ شام، عراق، کشمیر، افغانستان کے مسائل پر مجرمانہ خاموشی کا مرتکب میڈیا کچھ شرم کرے۔‘‘ اسی طرح آصفہ، زینب،تیزاب گردی کا شکار ہونے والے ماضٰ قریب کے کئی سچے واقعات کوبھی اٹھا یا گیا ۔اگلے دن یہ مزید پیش رفت ہوئی کہ دو تین اور خواتین نے علی ظفر پر جنسی ہراساں کرنے کا الزام لگا دیا۔اس ساری صورتحال میں لوگوں نے انٹرٹینمنٹ کی دنیا کے بے باک اور مستقل دعوت گناہ دینے والے ماحول کو بھی موضوع بنایا اور جس طرح سے ان اداکاروں اور اداکاراؤں کی تصاویر منظر عام پر آتی ہیں وہ ویسے ہی عوام کو بہت کچھ سمجھا رہی ہوتی ہیں ۔فرحان رضا سینئر صحافی اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’علی ظفر اور میشا کی ایک ساتھ کھنچوائی گئی تصاویر فیس بک پر لگا کر ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ میشا شفی غلط بیانی کررہی ہے۔ یہ تصاویر اس بات کا ثبوت نہیں کہ زیادتی نہیں ہوئی۔میشا شفی نے الزام لگا کر اپنے لیئے محاذکھول لیا ہے۔ برسوں کے تعلقات پر یکایک ایسا ری ایکشن بتاتا ہے کہ معاملہ سادہ نہیں۔ اس وقت میشا یا علی ظفر کی طرفداری کرنا اس معاملے کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ میڈیا چاہے فلم ہو ٹی وی ہو یا میوزک اور تھیٹر کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے اے آر وائی نیوز علی ظفر کی ہمدردی میں پیش پیش ہے۔ جہاں تک میری سمجھ میں آتا ہے یہ علی ظفر کی محبت میں نہیں ادارے کے کمرشل انٹرسٹ میں ہو رہا ہے۔ ‘‘
ساتھ ہی اس شدید گرمی کے موسم میں ڈھائی کروڑ لوگوں کو متاثر کرنے والا،کراچی کا اہم ترین مسئلہ یعنی بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور اس کے نتیجے میں پانی کی بدترین کمی کی صورت اہل کراچی کو بھگتنا پڑا۔ایک دوست لکھتے ہیں کہ ’’کے الیکٹرک نے گذشتہ ایک ماہ میں شہر میں بدترین لوڈ شیڈنگ کا جو سلسلہ شروع کیا تو ایسے ایسے علاقوں کے لوگ بھی بلبلا اٹھے جن کے یو پی ایس، جنریٹر ، ایمر جنسی لائٹ تو تو دور کی بات گھر موم بتی بھی نہیں رکھی جاتی تھی ۔‘‘یہ کوئی ایک سال کے بعد دوبارہ معاملہ شروع ہوا تھا لیکن اس بار اس لوڈ شیڈنگ کا دائرہ کار بہت بڑا تھا اس لیے سب نے خوب غصہ نکالا۔جہانزیب شیخ لکھتے ہیں کہ ’’کے الیکٹرک نے گیس کی کمی کا بہانہ بنا کر کراچی کے عوام کو سخت گرمی کے موسم میں اذیت ناک لوڈشیڈنگ کے عذاب سے دو چار کر دیا ہے۔ کے الیکٹرک نے اپنی نا اہلی اور ناقص کارکردگی کے باعث شہر میں بجلی کا مصنوعی بحران پیدا کیا ہے۔‘‘ اہل کراچی گواہ ہیں کہ جماعت اسلامی نے بلا امتیاز اس ایشوپر پوری تیاری کے ساتھ گذشتہ دو سال سے تاریخی جدو جہد کی ہے ۔عوام کی آواز بن کرسماجی میڈیا سے لے کر عملی میدان میں مستقل موجود رہے ہیں ۔علی حسین لکھتے ہیں کہ ’’نیپرا کی کچہری ہو یا عدلیہ ، سڑکیں ہوں یا گورنر ہاؤس پراحتجاج ، کے الیکٹرک کے مطالم کے خلاف جماعت اسلامی کی بے لوث عوامی خدمت کے سب معترف ہیں ۔‘‘اس مرتبہ شہر میں لوڈشیڈنگ اور گرمی کی شدت ایسی رہی کہ اس موضوع پر کبھی کچھ نہ بولنے والے بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا بول پڑے۔اسی طرح کے الیکٹرک کی جانب سے اپنے دفاع میں اور گیس کی کمی کا بہانہ پیش کر نے کی جوابی مہم بھی سوشل میڈیا پر خوب جاری رہی۔جواب میں اُن کے امسال کے ایک اور اشتہار کی پیروڈی اٹھو آگے بڑھو کراچی کے ایک پیج سے اپ لوڈ کی گئی جو کے الیکٹرک کی اوور بلنگ کے خلاف عوام نے اپنا غصہ نکالتے ہوئے خوب وائرل کی۔واضح رہے کہ پچھلے سال بھی اُن کے ایک اشتہار کا چربہ تیار کیا گیا تھا جو آج بھی مقبول ہے۔اسی طرح ایک اور ویڈیو کلپ بھی وائرل رہا جس میں پاکستانی فلم کے ایک عدالتی منظرمیں کے الیکٹرک کی ظالمانہ کارروائیوں اور جماعت اسلامی کی جدو جہد کو دلچسپ انداز سے پیش کیا گیا۔
عمران خان کی جانب سے اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے کچھ ہی دن قبل سینٹ الیکشن میں پی پی پی کے امیدواران کو ووٹ دینے والے ارکان اسمبلیوں کے خلاف تنظیمی کارروائی کی جانب پیش قدمی بھی اماجی میڈیا پر سخت تنقید کا نشانہ بنی ۔معروف صحافی حامد میر کے اکاؤنٹ سے ایک ٹوئیٹ پیش ہے ۔’’عمران نے ان MPAs کے خلاف ایکشن لیا جنہوں نے PPP کو ووٹ بیچا لیکن عمران نے خود بھی سینٹ میں PPP کے ساتھ مک مکا کیا۔ اور سینٹ الیکشن کو صاف شفاف قرار دیا۔اس اقدام پر ان کی تعریفوں کی بجائے، ایسی منافقت پر سخت سوالات ہونے چاہیئے۔‘‘اسی طرح عمران خان کے چاہنے والوں نے اس قدام کو مثالی قرار دیتے ہوئے خوب حمایت بھی کی ہے۔آپ سوچ رہے ہونگے کہ موضوع تو جھوٹ،فریب کا تھااس پر تو بات ہی نہیں ہوئی ۔لیکن آپ غور کریں تو یہ تمام موضوعات ایسا ہی کچھ دائرہ رکھتے تھے۔دھوکہ ، جھوٹ ، فریب ان سب کا حسین امتزاج سماجی میڈیا پر با آسانی دستیاب ہوتا ہے ۔آپ اپنے علم، صلاحیت ،تجربہ اور حس کی بنیاد پر اُس کو سچ یا جھوٹ جان کر آگے بڑھاتے ہیں یا اُس کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ اس ہفتے جہاں شام پر کیمیکل حملہ والا معاملہ جھوٹ، دھوکہ دہی اور فریب کی اعلیٰ مثال بنا رہا وہاں میشا شفی کا معاملہ بھی صداقت کے پیمانوں میں ایسا ہی تھا، کے الیکٹرک کا گیس کا بہانہ ہو یا عمران خان کا اپنے مخصوس ارکان اسمبلی پر الزام کا شور ،ان سب موضوعات کو شیئر کمنٹ کرتے وقت اُن کے پیچھے چھپے سچ کو آپ کو خود ہی ڈھونڈنا ہے ۔

حصہ