جنس ، حیا اور بے حیائی

1788

(چوتھی قسط)
ہم دورِ رواں میں بے شمار بڑے بڑے گناہ کے کاموں کو دیکھنے اور کرنے کے اس بری طرح شکار ہوچکے ہیں کہ نہ تو وہ کام گناہ کے کام لگتے ہیں اور نہ ہی کوئی ایسا فعل جو قابلِ گرفت ہو۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت ہو یا مرد، اس کی ستر کی حدود بہت کھول کر بیان کی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ عورت کے عورت کے سامنے، مرد کے مرد کے سامنے، یا دونوں کے ایک دوسرے کے سامنے ستر کھولنے کو بڑے بڑے گناہوں میں شامل کیا ہے، لیکن ہم گناہِ عظیم کو اب کسی بھی جرم میں شمار کرنے کا خیال تک دل میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ کوئی گھر ایسا نہیں بچا جہاں ٹیلی ویژن موجود نہ ہو۔ دنیا بھر کے کھیل کود ٹی وی چینلوں پر چلتے ہیں، جن میں نہایت مختصر لباس والے اپنے اپنے پروگرام نشر کررہے ہوتے ہیں، اور ان میں اکثر شریک خواتین بھی کسی لحاظ کے بغیر اپنی اپنی ستروں کی نمائش کررہی ہوتی ہیں، ان میں دکھائے جانے والے اشتہارات تو دیکھے جانے کے قابل ہی نہیں ہوتے۔ اسی طرح بے شمار کھیل کود تو ہوتے ہی ایسے ہیں جن میں خواتین ہوں یا حضرات، ان کے لباس ستر کی حدود سے باہر ہوتے ہیں جن میں ریسلنگ، ہاکی اور فٹ بال جیسے کھیل شامل ہیں، لیکن ہم سب گھر والوں کے ساتھ کسی بھی حیا و شرم کے بغیر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کچھ بے دین لوگ یہ کہیں کہ ہم ان کا عکس دیکھ رہے ہیں، اصل کب دیکھ رہے ہیں! تو ان سے دو سوال ضرور پوچھے جاسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ کیا اس قسم کی کوئی بھی ویڈیو، ریکارڈڈ یا لائیو دیکھ کر ان کے نفس پر اسی طرح کا ردعمل نہیں ہوتا جو حقیقی مناظر دیکھ کر ہوتا ہے؟ دوئم یہ کہ کیا وہ مناظر گراؤنڈ میں موجود لوگ نہیں دیکھ رہے ہوتے؟ جب ستر کو کھولنا گناہ اور اللہ کی حدود کو توڑنا قرار دے ہی دیا ہے تو خواہ دکھانے والے ہوں یا دیکھنے والے… سبھی سزا کے مستحق ہوئے۔ ستر کے متعلق کیا حکم ہے، ملاحظہ کیجیے۔
’’حضرت ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ایک مرد دوسرے مرد کی ستر کو نہ دیکھے، اور نہ ہی عورت دوسری عورت کی ستر کو دیکھے، اور کوئی مرد دوسرے مرد کے ساتھ اور عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ لپٹے۔‘‘ (مسلم، کتاب الحیض)
احتیاط کی حد دیکھیں جس کا اکثر اوقات بالکل بھی خیال نہیں کیا جاتا۔ کہا گیا: ایک عورت دوسری عورت کے ساتھ اور ایک مرد دوسرے مرد کے ساتھ نہ لپٹے۔ اس میں خدانخواستہ اس جانب اشارہ نہیں ہے کہ ایک ہی چادر، لحاف یا کمبل میں برہنگی کے عالم میں نہ لپٹے، بلکہ وہ اگر مکمل لباس میں بھی ہو تو ایسے فعل سے دور رہے۔ ایک ساتھ ایک ہی کپڑے میں لپٹ کر بیٹھنے یا سونے میں شیطان کے غالب آجانے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ جس کام میں منفی یا شیطانی سرمستیوں کے ابھرنے کا احتمال ہو اُس سے گریز کرنا چاہیے۔ یہی وہ بات ہے جس سے دور رہنے کا حکم دیا جارہا ہے۔
’’حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کھلی جگہ (میدان میں) ننگے نہاتے ہوئے دیکھا تو آپؐ منبر پر تشریف لائے، اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نہایت باحیا اور ستر پوش (عیب پوش) ہے، وہ حیا اور پردے کو پسند کرتا ہے، تو جب تم میں سے کوئی شخص نہائے تو پردہ کرے۔‘‘ (سنن دائود،جلد سوئم کتاب الحمام :4012۔ مسلم، کتاب الفضائل :751)
’’حضرت جرہد رضی اللہ عنہ اصحابِ صفہ میں سے تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف فرما تھے اور میری ران ننگی تھی، پس آپؐ نے فرمایا: ’’کیا تمہیں نہیں معلوم ران ستر (میں شامل) ہے۔‘‘ (سنن ابی دائود، جلد سوئم کتاب الحمام: 4014)
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی ران سے کپڑا مت اٹھاؤ۔ کسی زندہ کی ران دیکھو نہ مُردہ کی۔‘‘ (سنن ابی دائود، جلد سوئم کتاب الحمام :4015)
’’حضرت بہز بن حکیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی شرم گاہ کو بیوی اور لونڈی کے سوا کسی کے سامنے ظاہر نہ کرو‘‘۔ میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی آدمی تنہا ہو؟ آپؐ نے جواب دیا ’’تو اللہ زیادہ لائق ہے کہ اس سے شرم وحیا کی جائے۔‘‘ (ترمذی)
کیا ان ہدایات کی روشنی میں اس بات کی کوئی گنجائش نکلتی ہے کہ ہم اپنی اپنی مقررہ حدود کو توڑیں، اپنی ستر کی حفاظت سے غافل رہیں، دوسرے کے سامنے ستر کھولیں اور کسی کی کھلی ستر کی جانب نگاہ کریں یا نظر بھر کر دیکھیں؟ اب چاہے وہ گھر ہو، بازار ہو، سنیما ہال ہو یا کھیل کا میدان… کوئی بھی ایسا مقام نہیں ہوسکتا جہاں ایسا کوئی بھی عمل جائز ہو۔ جب کسی نے سوال کیا کہ اگر کوئی بالکل تنہا بھی ہو تو کیا وہ اپنی ستر کھول سکتا ہے، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فرمان تھا کہ اللہ تو سب سے زیادہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔ یعنی کوئی نہ بھی دیکھ رہا ہو تو اللہ تو دیکھ ہی رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر حیا و ایمان والوں کا یہ حال ہوگیا تھا کہ وہ ’’حوائج ِضروریہ‘‘ کی ادائیگی سے بھی شرمانے لگے تھے، جس پر آپؐ نے کہا کہ اللہ ہر حال میں تمہیں دیکھ لیتا ہے، اس لیے ایسا کرنے سے مت جھجکو۔ تب کہیں جاکر حیا والوں نے حوائج ضروریہ ادا کرنے شروع کیے۔
ستر کی بیان کردہ حدود اور اس کی حفاظت کرنے سے معاشرے میں کتنی پاکیزگی آسکتی ہے اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔
ہم جو بھی اعمال کرتے ہیں یا جس ماحول میں اپنی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اُس کے اثرات ہمارے چہرے مہرے سے لے کر پورے بدن پر مرتب ہوتے ہیں۔ آپ کسی مصور سے کہیں کہ وہ ایک دیہاتی اور ایک شہری کا پورٹریٹ بناکر دے، جب وہ آپ کی فرمائش کے مطابق پورٹریٹ تیار کرکے دیتا ہے تو آپ دونوں کے پورٹریٹ کو فوراً شناخت کرلیتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ دونوں کے چہرے مہرے سے ان کے ماحول کا اظہار ہورہا ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک ظالم انسان اور ایک رحم دل انسان کی شکل ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔ ایک شرابی کبابی اور ایک متقی اور پرہیزگار فرد کا چہرہ ممکن ہی نہیں کہ ایک جیسا ہو۔ جب ہم اپنی اپنی شرم گاہوں، اپنی اپنی ستروں اور اسی طرح دوسروں کی شرم گاہوں اور ستروں کے محافظ بن جائیں گے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہماری سوچیں اور ہمارے خیالات پراگندہ ہوسکیں! خیالات اور سوچوں کی یہ پاکیزگی معاشرے کو کتنی آلائشوں سے بچا سکتی ہے، اس کا اندازہ ہر فرد بشر بآسانی کرسکتا ہے۔
حیا جب اپنے تمام تر مفاہیم کے ساتھ انسان سے باہر نکل جاتی ہے تو وہ جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔ تمام جانور اپنی زندگی اپنی اپنی فطرت کے مطابق گزار رہے ہوتے ہیں اور اپنی اپنی عمر اور اپنے اوپر مہربان ہوجانے والے موسموں کے مطابق اپنی زندگی سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں۔ لیکن انسان یا تو اپنی فطرت اور اللہ کے قانون کے مطابق اپنی زندگی گزار رہا ہوتا ہے یا پھر اللہ کے قوانین سے بغاوت پر اس نے زندگی گزارنے کی ٹھانی ہوئی ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے اپنی سوچوں، خیالوں اور اعمال کو اللہ کے تابع کیا ہوتا ہے اُن کے انگ انگ سے پاکیزگی و شرافت ٹپک رہی ہوتی ہے۔ لوگ ان کو دیکھ کر پکار اٹھتے ہیں کہ واہ کیا نورانی شخصیت ہے۔ لیکن جن کی زندگی اللہ، اس کے رسولؐ اور اس کے قوانین کی خلاف ورزی اور بغاوت پر استوار ہوتی ہے اس کا اثر اُن کی پوری شخصیت پر پڑتا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دنیوی لحاظ سے ایک شخص نہایت خوشحالی کی زندگی گزار رہا ہو اور ایک شخص بصد مشکل اپنی زندگی کی سانسیں بحال رکھے ہوئے ہو اور پھر بھی دونوں کے چہرے ایک جیسے ہی ہوں؟ اسی لیے اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’لوگوں نے سابقہ انبیاء علیہم السلام کے کلام میں سے جو حاصل کیا ہے وہ یہ ہے: جب تم حیا نہ کرو تو پھر جو چاہو کرو۔‘‘ (عن حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ۔ سنن ابی دائود، جلد سوئم، کتاب الادب: 4797)
اس کا یہ مطلب نہیں کہ (نعوذباللہ) سب کچھ کرنے کی اجازت دی جارہی ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان بالکل ہی بے حیا ہوجاتا ہے تو پھر وہ ساری حدیں پار کرجاتا ہے۔ لہٰذا جب حیا و شرم ہی باقی نہیں رہی تو پھر کیا روکنا ٹوکنا! ہم اپنی آنکھوں سے ایسے ہزاروں افراد کو دیکھتے ہیں جو دین کی جانب سے بالکل ہی ذکی الحس ہوچکے ہیں۔ ان میں سرفہرست وہ ہیں جن کو اداکار کہا جاتا ہے۔ یہ ہر قسم کا سوانگ رچا لیتے ہیں اور ہر وہ کام کرنے کے لیے تیار و آمادہ ہوجاتے ہیں جو بے حیای کی تمام حدیں پھلانگ چکا ہو۔ یہ حدیث ایسے سارے افراد پر فٹ آتی ہے جو اپنی ہر قسم کی حس کھو چکے ہوں۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایمان کے ستّر سے کچھ زیادہ شعبے ہیں، سب سے افضل (شعبہ) لا الٰہ الا اللہ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) کا اقرار کرنا اور سب سے کمزور (شعبہ) راستے سے ہڈی (کوئی تکلیف دہ چیز) کا ہٹانا ہے، اور حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔‘‘ (سنن ابی دائود، جلد سوئم، کتاب السنۃ: 4676)
اس حدیث میں حیا کے دائرے کی وسعت اور بھی کھل کر سامنے آرہی ہے۔ توحید کا اقرار بھی حیا ہے اور چھوٹی سے چھوٹی نیکی کرنا بھی حیا ہے، کیوں کہ حیا ایمان کا جزو ہے۔ غور کریں کہ جو لوگ توحید یعنی اللہ کی وحدانیت کے اقرار کے قائل ہی نہیں ہیں وہ حیا دار کہلانے کے حق دار کیسے ہوسکتے ہیں! توحید کے انکار سے زیادہ ڈھٹائی اور بے حیای اور ہو بھی کیا سکتی ہے! اور توحید کے اقرار سے زیادہ حیا والی بات کیا ہوسکتی ہے! اگر کوئی کسی کا ملازم ہو، اچھی مراعات حاصل کررہا ہو، عزت بھی اسی کی عطا کی ہوئی ہو اور گھر کی خوشیاں بھی اسی کے دم قدم سے ہوں لیکن وہ پھر بھی سرکشی دکھاتا ہو تو اس کے ساتھی اسے بے شرم و بے حیا نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے! اللہ تو پھر خالق و مالک و رازق ہے۔ کوئی اس کو یکہ و تنہا، خالق و رازق ہی ماننے کے لیے تیار نہ ہو تو خود ہی فیصلہ کیجیے کہ اس سے زیادہ بے حیا اور بے شرم کون ہوسکتا ہے! اسی طرح اگر کوئی اپنی آنکھوں سے اپنی راہ میں پڑی کوئی ایسی چیز دیکھے جو کسی کے لیے بھی اذیت کا سبب بن سکتی ہو اور وہ اسے راستے سے ہٹائے بغیر خود بچ کر نکل جائے اور اسے کسی کی تکلیف کے لیے یونہی پڑا رہنے دے تو یہ بات بے حیای میں شمار نہ کی جائے تو پھر کس کھاتے میں ڈالی جائے! جس کی سوچ صرف اور صرف اپنیذات تک محدود ہو، اُس سے زیادہ ظالم کون ہوسکتا ہے! اور ظلم ہی تو بے حیای ہے جس سے ہر صورت میں بچنے کے لیے کہا گیا ہے۔
حیا دراصل یہی ہے کہ حکم الٰہی پر سر تسلیم خم کردیا جائے۔ ایسے ہی احکامات میں عورتوں کے لیے اللہ کا حکم اپنے آپ کو چھپاکر رکھنا بھی ہے جس کو ’’پردہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ عورت یا مستورات کا مفہوم ہی پوشیدہ یا چھپی ہوئی کا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے نبیؐ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر چادروں کے پلّو لٹکا لیا کریں، یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔ اللہ تعالیٰ غفورالرحیم ہے۔‘‘ (سورۃ الاحزاب آیت 59)
’’اور اے نبیؐ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے، شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، اپنے لونڈی غلام، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہوجائے۔‘‘ (النور، آیت 31)
عام طور پر معاشرے میں اس بات کو پھیلایا جاتا ہے کہ یہ حکم صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کے لیے ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ سورہ احزاب کی آیت 59 میں صاف صاف کہہ دیا گیا ہے کہ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے سے کہہ دو… اس کے بعد بھی اگر کوئی اس بات پر بضد رہے کہ یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کے لیے ہے تو اس پر تعجب اور تاسف کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے۔ ایسا کہنے اور سوچنے والے اپنے متعلق خود ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ وہ کن شیطانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
(جاری ہے)

حصہ