اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو

752

سعید ہ آغا
زمانہ طالب علمی یوں تو ہر فرد کے لیے بڑی خوبصورت یاد ہوتا ہے، لیکن ہمارا زمانۂ طالب علمی جو کہ جامعۃ المحصنات کراچی میں گزرا، ہماری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہے۔ اس دور کی ہر یاد ’’یادگار‘‘ ہے۔ بالخصوص سالِ آخر کے دن تو ناقابلِ فراموش ہیں۔ انہی دنوں کی ایک خوبصورت یاد ہماری جامعہ مانسہرہ میں منعقدہ تربیت گاہ ہے۔ اُن دنوں پیپرز کے بوجھ تلے ہم خاصے اداس سے تھے۔ سوچا کچھ الگ کیا جائے، مگر کوئی سرا ہاتھ نہ آیا۔ ایک خیال یہ بھی آیا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر لمبی تان کر سوجایا جائے۔ سوچیں انتہائی منتشر بھی تھیں کہ ہمارے عالمیہ ثانی کا ا ختتام ہونے پر جامعہ میں ہمارے چند دن ہی رہ گئے تھے۔ اور جامعہ میں گزرے اوقات، دن، لمحے اور ساعتیں بہت سی حسین اور خوش کن یادیں لیے ہوئے ہیں۔ جامعہ سے چلے جانے کے بعد ہر لمحہ جامعہ کی خوبصورت یادیں ہمارے ذہن پر پیاری اور دھیمی سی دستک دے کر ہمیں اداس کرتی رہیں گی۔ یہ احساس ہی جان لیوا تھا کہ جامعہ کی یہ ساری چیزیں محض ایک یاد بن کر رہ جائیں گی۔ میں اپنی نم آنکھیں بند کیے سوچوں کے سفر میں انتہائی دور جاچکی تھی۔ اچانک ہی مجھے کلاس روم میں خوشگوار سا احساس ہوا اور قہقہے سنائی دئیے۔ میری سہیلیوں نے آواز دے کر مجھے اٹھایا۔ ناچار آنکھیں کھولنا پڑیں۔ آنکھ کھلتے ہی ایک پیپر میرے سامنے تھا اور ایک جانی پہچانی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی کہ ’’بوجھو تو جانیں‘‘۔ میں نے پیپر جھپٹنے کی کوشش کی لیکن… خیر میں نے کلاس روم میں اردگرد نظریں دوڑائیں تو مجھے وہ پیپر سب کے ہاتھوں میں دکھائی دیا سوائے میرے… اور سب کی شرارتی نظریں میرے صبر کو آزما رہی تھیں۔ اسی اثناء میں ہماری کلاس ٹیچر تشریف لائیں، ان کے چہرے سے چھلکتی خوشی نے ان کی جانب متوجہ کیا۔ میری حالتِ زار سے وہ بخوبی آگاہ ہوچکی تھیں۔ ہماری معلمات کا ہم سے تعلق ایسا ہوتا ہے کہ وہ ہمارے چہروں کے تاثرات سے ہی ہمارے احساسات جان لیتی ہیں جیسے ایک ماں کا تعلق اپنے بچے سے ہوتا ہے۔ خیر انہوں نے ایسی خبر سنائی کہ اداسی اُڑن چھو ہوگئی۔ خبر کیا تھی گویا علوم کا ایک نیا دَر ہم پر کھلنے والا تھا ’’مرکز جامعات المحصنات میں تربیتی سیشن کا آغاز کیا جارہا ہے جو کہ مانسہرہ میں ہوگا‘‘۔ یہ خبر سننا تھی کہ میرا دل، چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھے ہر چیز اداس لگ رہی تھی، مگر منظر بدلنے میں فقط ایک لمحہ لگا، اور اب مجھے ہر چیز قہقہے لگاتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ ایسا لگا کہ میری طرح ہر چیز، ہر ذرہ جھوم جھوم کر اور لہک لہک کر اپنی خوشی کا اظہار کررہا ہو۔
ساتھیوں سے بچھڑنے کا غم کہیں دور جا بسا اور میں بے اختیار یہ ترانہ پڑھنے لگی:
ابھی الوداع مت کہو دوستو!
نجانے پھر کہاں ملاقات ہو
کسک ساتھ تو ہوگی
خوابوں میں ہی چاہے
ملاقات تو ہوگی
باہر گئے تو سوفٹ بورڈ پر بھی اسی خبر کے متعلق نوٹس جگمگا رہا تھا۔ ہماری خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی کہ نجانے کس نے ہماری خوشیوں پر بہت کاری وار کیا، چند دنوں بعد یہ خبر ملی کہ کورس کو ملتوی کردیا گیا ہے، چند وجوہات کی بناء پر مانسہرہ نہیں جایا جاسکتا لہٰذا سیشن کراچی میں ہی ہوگا۔ ہمارے دل پھر سے اداس ہوگئے اور ہم جو اپنی ساری پلاننگ کرکے بیٹھے تھے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ لیکن اللہ نے ہمارے دلوں کی سن لی اور ہماری خوشی کو برقرار رکھا اس خبر کے ساتھ کہ سیشن جامعہ مانسہرہ میں ہوگا۔ پیر کو جامعہ سے ڈائیوو کے اسٹاپ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں حب اور لاڑکانہ جامعہ کی ٹیچرز بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ ہم سب اسٹاپ پر پہنچے تو سامان گاڑی میں سیٹ کرکے ویٹنگ روم میں جاکر بیٹھ گئے۔ بالآخر روانگی کا وقت ہوا تو سب جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھے۔ ڈائیوو کی ہوسٹس نے ہدایاتِ سفر دیں۔ سفر ساتھیوں کی رفاقت، دعاو اذکار، اور آنے والے دنوں کی منصوبہ بندی میں آگے بڑھتا رہا۔ سفرخاصا طویل تھا، مگر جذبے و حوصلے بلند تھے، اس لیے 30 گھنٹوں کا یہ سفر آرام سے کٹ گیا۔ جیسے ہی مانسہرہ پہنچے اتنے خوبصورت مناظر نظر آنے لگے کہ دل باغ باغ ہوگیا اور ذوق و شوق بڑھ گیاکہ یہاں 20 دن رہنا ہے۔ مانسہرہ جامعہ پہنچے تو خاصے تھکے ہوئے تھے، لیکن جامعہ کے اندر میزبانوں کے مسکراتے چہرے اور مرحبا مرحبا کی پُرجوش آوازیں آئیں، دیکھا تو مانسہرہ جامعہ کی طالبات استقبال کے لیے کھڑی تھیں، بڑھ کر ملیں اور ہمارے ہاتھوں سے سامان لے کر ہمیں ہمارے لیے جو روم سیٹ کیا تھا اس میں لے گئیں، ان کے اس محبت بھرے استقبال پر آدھی تھکن دور ہوگئی اور باقی تھکن نہاکر اور سوکر اتری۔ اٹھ کر پوری جامعہ کا وزٹ کیا۔ اگلے دن تربیتی سیشن کا باقاعدہ آغاز تھا جس میں نگران جامعات نے افتتاحی کلمات کہے، سیشن کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا، اور کہا کہ آپ لوگوں پر دہری ذمے داری ہے، آپ جہاں بھی ہوں آپ کو اپنا تشخص برقرار رکھنا ہے اور علمی شخصیت کو منوانا ہے۔ اس کے بعد ہمیں فائلز دی گئیں جن کو دیکھا اور پڑھا تو بے حد خوشی ہوئی کہ ہمارا اتنا لمبا سفر کرنا کوئی بیکار سودا نہیں ہے بلکہ بہت بڑا خزانہ جو ہمیں ان 20 دنوں میں ملے گا اس کے آگے تو کچھ نہیں ہے۔ فائلز کے ساتھ ایک اور مواد بھی دیا گیا جس میں درسِ نظامی کے اکثر علوم کا نچوڑ تھا جس کا روز اجتماعی مطالعہ کرنا تھا۔ پہلے دن تو پروگرام جلدی ختم ہوگیا، مگر بعد کی روٹین کچھ یوں تھی کہ صبح نماز و ناشتے کے بعد تقریبا9 بجے پروگرام شروع ہوتا۔ اس کے بعد درسِ قرآن یا حدیث ہوتا (تمام جامعات کی طالبات کے دروس کیے گئے)۔ اس کے بعد ورکشاپ اور لیکچرز ہوتے۔ 11 بجے چائے کا وقفہ ہوتا، پھر 2 بجے کھانا کھاتے اور آرام کا وقفہ ہوتا۔ تقریباً 4 بجے اجتماعی مطالعہ ہوتا اور اس کے بعد تدریسی عمل ہوتا۔ ہر طالبہ سامنے جاکر پڑھاتی۔ پھر مولانا کاشف شیخ صاحب تصحیح کرتے اور پڑھانے کے مؤثر طریقوں سے آگاہ کرتے۔
جیسے جیسے ورکشاپس اور لیکچرز اٹینڈ کررہے تھے، معلومات میں اضافہ اور دل میں نئی امنگیں اور جذبے بیدار ہورہے تھے کہ اب ہم کو یہ کرنا ہے تو یہ بھی سیکھنا ہے۔ اور اس کورس نے اس بات کا بھی احساس دلایا کہ ابھی تو ہم صرف چند علوم سے گزرے ہیں، علم کے بے پناہ سمندر تو ابھی اور بھی ہیں۔
تدریس القرآن الکریم کا طریقہ پہلے بھی معلوم تھا لیکن اب اس کے نئے در وا ہوئے، اور دل میں یہ جذبہ دوچند ہوگیا کہ سیکھنے اور سکھانے کے عمل کو مزید تیز کرنا ہے۔ پھر جب فقہ کے بارے میں مولانا حبیب الرحمن صاحب نے بتایا تو یہ ارادہ بناکہ فقہ پر عبور حاصل کرنا ہے۔ حدیث کا سنا تو اس کا شوق پیدا ہوا۔ یعنی اس کورس نے آگے بڑھنے کی جستجو اور لگن، اور ہمیں ایک بہترین انسان اور داعیٔ دین بنانے کی کوشش کی، ہماری فکری و ذہنی صلاحیتوںکی نشوونما کی، اور آج جب ہم معلمہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں تو یہ ہماری جامعہ کی تربیت ہی ہے جس نے ہمیں اس بات سے آگاہ کیا کہ استاد کا کام صرف پڑھانا نہیں، بلکہ استاد ہی تو قوموں کے عروج و زوال کا سبب ہیں۔ فرحانہ نادر، رابعہ خبیب، محترم خالد سیف اللہ اور ارشد بیگ صاحب کے لیکچرز سے تعلیم و تدریس کے تصورات بہت واضح ہوئے، اور تدریس کے جدید طریقے پتا چلے۔ الغرض الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے کہ ان بیس دنوں کے کورس نے ہمیں کیا کیا سکھایا، اور خصوصاً اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ اجتماعیت میں جہاں مختلف علاقوں کے لوگ موجود تھے وہاں اپنا آپ کس طرح منظم رکھنا ہے۔ اور انتظامیہ کے خلوص نے ہمارے حوصلوں کو جِلا بخشی۔ وہ بھی دن رات ہی ہمارے ساتھ لگے رہے۔ اور جامعہ مانسہرہ کی طالبات کے رویوں نے بے حد متاثر کیا جنہوں نے ہمارے آرام اور سکون کے لیے اپنا آرام وسکون پس پشت ڈال دیا۔
کورس کے آخر میں ہماری پکنک بھی ہوئی اور ہم بالاکوٹ گئے۔ اس سفر میں بھی انتظامیہ نے ہمارا بے حد خیال رکھا۔ ہمارے ساتھ مانسہرہ کے ایک استاد بھی تھے جو راستے میں ہمیں گائیڈ کررہے تھے۔ راستے میں وہ مقامات دیکھے جو زلزلے سے متاثر تھے۔ پھر ہم تقریباً ساڑھے گیارہ بجے شوگران پہنچے۔ وہاں ایک بہت اونچا سا پہاڑ تھا جس پر ایک کاٹیج بنا ہوا تھا۔ ہم قطار کی صورت میں اونچائی کی طرف گامزن تھے اور نظم و ضبط برقرار رکھے ہوئے تھے۔ اوپر پہنچے تو تھکن سے برا حال ہورہا تھا لیکن جب آس پاس کے خوبصورت مناظر دیکھے تو دل باغ باغ ہوگیا۔ وہاں کچھ دیر رک کر ہم لوگ سیڑھیوں کے ذریعے نیچے گئے جو کہ سبزے سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ پہاڑوں کے اوپر بھی درخت اس ترتیب سے لگے ہوئے تھے کہ لب بے اختیار سبحان اللہ پکار اٹھے۔ نیچے مختلف پھولوں سے مزین ایک خوبصورت پارک دکھائی دیا۔ ہم لوگ خاصی دیر وہاں گھومتے رہے اور مختلف چیزوں سے لطف اندوز ہوتے رہے، پھر باہر آکر کینٹین سے مختلف چیزیں لیں اور دوبارہ پارک جانے کے ارادے سے دروازے سے جانے لگے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں ایک باوردی گارڈ کھڑا ہے، اس نے ہمیں روک کر کہا کہ بغیر بکنگ کے اندر جانے کی اجازت نہیں۔ ہم یہ سن کر واپس ہولیے، مگر سارا راستہ ہنستے ہوئے گزارا کہ بیچارے کو کیا معلوم کہ اس پارک کا ہم نے چپہ چپہ چھان مارا ہے۔ جیسے ہی ہم سیڑھیوں کے ذریعے دوبارہ آئے تو کھانا تیار ہوچکا تھا۔ کھانا کھایا، چائے پی اور واپسی کے لیے تیار ہوگئے۔ واپسی پر شاہ اسماعیل شہید کے مزار پر بھی گئے، دعا پڑھی اور راستے میں دریائے کنہار کے منظر سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ یوں یہ خوبصورت دن اختتام کو پہنچا۔ اگلے دن رزلٹ انائونس ہوا اور تقسیمِ اسناد ہوئی۔ اسی دن تمام جامعات نے اپنا رختِ سفر باندھ لیا، جب کہ ہماری سیٹ کی بکنگ ایک دن بعد کی تھی تو ہم اپنی ایک سینئر جو کہ ایبٹ آباد کی تھیں، کے گھر چلے گئے۔ دوسرے دن علی الصبح اٹھے اور مانسہرہ جامعہ کے آس پاس کے پہاڑوں پر گئے۔ وہاں جاکر یوں محسوس ہوا کہ پورا مانسہرہ جنت کا ایک ٹکڑا ہے۔ وہاں کے مناظر کو آنکھوں کے ذریعے دل میں بسائے واپس آگئے، کیونکہ اگلے دن کراچی کے لیے روانہ ہونا تھا۔ واپسی بھی ڈائیوو کے ذریعے ہوئی۔
انہ ساری حسین یادوں کے ساتھ ہم اپنے گھروں کو پہنچے اور دل سے اُن سب کے لیے ڈھیروں دعائیں نکلیں جنہوں نے نہایت محنت مشقت کرکے ہمیں علم کے موتیوں کی چمک سے روشناس کروایا۔ ان کا بہتر اجر تو اللہ ہی دے گا۔
مقروض کردیا ہے آپ کے خلوص نے۔

ولباس الاتقویٰ ذلک الخیر

فاکیہ ارم
انسان کی فطرت میں حیا کا جذبہ قدرت کے عین مطابق ہے۔ اپنے جسم کو چھپانے اور ڈھانکنے کی خواہش خدا نے اس کی جبلّت میں رکھی ہے۔ اسلام لباس کے حوالے سے بہت واضح تعلیمات رکھتا ہے اور اس کی حدود کا تعین بھی کرتا ہے۔ لباس کیسا ہونا چاہیے؟ لباس ایسا ہو جو شرم و حیا کے تمام تقاضوں کو پورا کر ے اور ستر پوشی اور حفاظت کا کام بھی کرے۔
قرآن پاک میں اللہ نے اس نعمت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’اے اولادِ آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے تاکہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکنے اور تمہارے لیے زینت اور حفاظت کا ذریعہ بھی ہو۔‘‘
یعنی آیتِ مبارکہ سے لباس کی غرض و غایت کا علم ہوگیا کہ زینت و آرائش اور موسمی اثرات سے حفاظت بھی ہے لیکن اوّلین مقصد قابلِ شرم حصوں کی ستر پوشی ہے۔ اللہ نے شرم و حیا انسان کی فطرت میں پیدا فرمائی ہے، اس لیے لباس کے اس مقصد کو سب سے مقدم رکھا ہے۔ ایسا لباس ہونا چاہیے جس سے ستر پوشی کا مقصد بخوبی پورا ہوسکے۔ اس کے ساتھ ہی مرد و خواتین کے لباس میں بھی تخصیص کی گئی اور مردوں کو ریشمی لباس پہننے سے منع فرمایا گیا۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ریشمی لباس نہ پہنو،کہ جو اس کو دنیا میں پہنے گا وہ آخرت میں اس کو نہ پہن سکے گا۔‘‘(بخاری و مسلم)
اسی طرح ایسے لباس بھی ممنوع قرار دئیے گئے جن میں عورت اور مرد ایک دوسرے سے مشابہت اختیار کریں۔ اور اسے گناہ قرار دیا گیا۔
عبداللہ بن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ مشابہت کرنے والے مردوں، اور مردوں کے ساتھ مشابہت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔ (سنن ابی دائود، ابن ماجہ)
ان احکامات کے علاوہ لباس کے کچھ آداب بھی ہیں:
1۔ لباس پہنتے وقت یہ سوچنا چاہیے کہ یہ وہ نعمت ہے جس سے خدا نے صرف اور صرف انسان کو نوازا ہے، دوسری مخلوقات اس چیز سے محروم ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ خدا کی ناشکری اور نافرمانی کا عمل نہ کرے۔
2۔ بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ تقویٰ کے لباس سے باطنی پاکیزگی بھی مراد ہے اور ظاہری پاکیزگی بھی۔ لباس ایسا ہونا چاہیے جو غرور و تکبر کا اظہار نہ کرتا ہو، بلکہ ایسا لباس ہونا چاہیے کہ ایک نظر دیکھنے سے اندازہ ہو کہ یہ خدا ترس یا پرہیزگار انسان ہے۔ یاد رکھیں انسان کی پہچان اچھا لباس نہیں، بلکہ اچھا اخلاق اور ایمان ہے۔ قرآن میں بھی اللہ تعالی نے فرمایا: تقویٰ کا لباس اختیار کرو، یہی سب سے بہتر لباس ہے۔
جب کوئی نیا کپڑا پہنے تو اس کو چاہیے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور نیا کپڑا پہننے کی دعا پڑھے۔
ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نیا کپڑا عمامہ، کرتا یا چادر پہنتے تو اس کا نام لے کر فرماتے:
’’خدایا تیرا شکر ہے تُو نے مجھے یہ لباس پہنایا، میں تجھ سے اس کے خیرکا خواہاں ہوں، اس کے مقصد کے اچھے پہلو کا جس کے لیے یہ بنایا گیا۔ میں اپنے آپ کو تیری پناہ میں دیتا ہوں اس لباس کی برائی سے، اور اس کے مقصد کے اس برے پہلو سے جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے۔‘‘
اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تُو مجھے توفیق دے کہ میں تیرا بخشا ہوا لباس اپنی وقعت کے لیے استعمال کروں جو تیرے نزدیک پاکیزہ مقاصد ہیں۔ اسی طرح نیا لباس خریدنے کے بعد پرانا لباس کسی مستحق کو دے دینا بھی پسندیدہ فعل ہے۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص نئے کپڑے پہنے اگر وہ گنجائش رکھتا ہو تو اپنے پرانے کپڑے کسی غریب کو خیرات میں دے دے۔‘‘
اس طریقے سے ایک تو مستحق کی مدد ہوتی ہے، دوسرے خوامخواہ کا انبار بھی گھر میں جمع نہیں ہوتا جس کی صرف صفائی میں ہمارا بہت سا قیمتی وقت لگ جاتا ہے۔
لباس کے حوالے سے یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ باریک یا ایسا لباس استعمال نہ کریں جس سے جسم جھلکتا ہو، نیز ہمیشہ سادہ، باوقار لباس پہنیں اور اس مد میں ہمیشہ اعتدال کے ساتھ خرچ کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’عیش پسندی سے دور رہو، اس لیے کہ خدا کے پیارے عیش پرست نہیں ہوتے۔‘‘ (مشکوۃ)
ابھی کچھ دنوں میں عید کا سیزن شروع ہوجائے گا جس میں لباس کی خریداری کرتے ہوئے اللہ کے ان احکامات کو ضرور یاد رکھیں، کیوں کہ انسان وہی کامیاب ہے جو اللہ کی نظر میں خوبصورت ہو۔

حصہ