سرِ وادئ سینا

588

سید مہرالدین افضل
سورۃ الاعراف کے مضامین کا خلاصہ اَز تفہیم القرآن۔۔۔ 45واں حصہ:۔
(تفصیلات کے لیے دیکھیے سورۃ الاعراف آیات 148 تا 156 اور متعلقہ حواشی، سورۃ طہٰٰ حاشیہ نمبر :73)
ایک طرف حضرت موسیؑ غلامی سے آزاد ہونے وا لی قو م کے لیے طور پر قانون ِ شریعت لینے گئے تھے… دوسری طرف ان کے پیچھے قوم نے سخت احمقانہ اور ظالمانہ کام کر ڈالا۔ انہوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پتلا بنایا اور اسے پوجنے لگے۔ اس میں عام لوگوں کی حماقت یہ تھی کہ انہوں نے یہ نہ سوچا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے… نہ کسی معاملے میں ان کی رہنمائی کرتا ہے… پھر وہ ان کا معبود کیسے ہو سکتا ہے؟ سب سے زیادہ حیرت کا مقام یہ ہے کہ ابھی مصر سے نکلے ہوئے ان کو صرف تین مہینے ہی گزرے تھے۔ سمندر کا پھٹنا، فرعون کا غرق ہونا… غلامی کی ان زنجیروں کا ٹوٹ جانا جن کے ٹوٹنے کی کوئی امید نہ تھی اور اس سلسلے کے دوسرے واقعات ابھی بالکل تازہ تھے، یہ سب اچھی طرح جانتے تھے کہ جو کچھ ہوا صرف اور صرف اللہ کی قدرت سے ہوا ہے، کسی دوسرے کی طاقت اور مدد کا اس میں کچھ دخل نہ تھا۔ مگر اس پر بھی انہوں نے پہلے تو پیغمبر سے ایک مصنوعی خدا طلب کیا اور پھر پیغمبر کے پیٹھ موڑتے ہی خود ایک مصنوعی خدا بنا ڈالا جبکہ ان میں کچھ لوگ ظالم تھے جنہوں نے عام لوگوں کی سادگی کا فائدہ اٹھایا… اِس جرم کا بڑا حصہ سامری کے سر جاتا ہے۔ سامری ایک فتنہ پیدا کر نے والا شخص تھا جس نے خوب سوچ سمجھ کر ایک زبردست مکر و فریب کی اسکیم تیار کی تھی۔ اس نے سونے کا بچھڑا بنا کر اس میں کسی تدبیر سے بچھڑے کی سی آواز پیدا کر دی اور ساری قوم کے جاہل و نادان لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیا… اور حضرت موسیؑ کے سامنے ایک جھوٹی کہانی بنا کر پیش کر دی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ مجھے وہ کچھ نظر آیا جو دوسروں کو نظر نہ آتا تھا… اور ساتھ ساتھ یہ افسانہ بھی بنا دیا کہ ’’رسول کے نقش قدم کی صرف ایک مْٹھی بھر مِیک ” سے یہ کرامت ظاہر ہوئی ہے۔اِس طرح وہ حضرت موسیٰؑ کو ذہنی رشوت دینا چاہتا تھا،تاکہ وہ اسے اپنے نقش قدم کی مٹی کا کرشمہ سن کر خوش ہو جائیں!!! اور اپنی کچھ اور کرامتوں کا اشتہار دینے کے لیے سامری کی خدمات مستقل طور پر حاصل کر لیں۔ لیکن حضرت موسیٰؑ نے اُس کی بناوٹی باتوں کو سنتے ہی اس کے منہ پر مار دیا۔ سور طہٰ آیت 95 تا 98 میں اس کا ذکر آتا ہے۔ جب موسیٰؑ نے سامری سے پوچھا کہ سامری تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس نے جواب دیا : میں نے وہ چیز دیکھی جو اِن لوگوں کو نظر نہ آئی پس میں نے رسول کے نقش قد م سے ایک مٹھی اٹھا لی اور اس کو ڈال دیا میرے نفس نے مجھے کچھ ایسا ہی سجھایا یعنی اس نے اسے اپنے نفس کا عمل قرار دیا اور غلطی تسلیم کرنے کے بجائے موسیٰؑ کو خوش کرنے کے لیئے کہا کہ میں نے آپ کے نقش قدم سے مٹی اٹھا کر اس میں ڈالی تھی لیکن موسیٰؑ اس کی اس چاپلوسی میں نہ آ ئے اور بہت سخت رد عمل دیا انہو ں نے کہا : اچھا تو جا ! اب زندگی بھر یہ ہی پکا رتے رہنا کہ مجھے نہ چھونا۔ وہ اسی کا مستحق تھا کہ اسے معاشرے سے زندگی بھر کے لیے کاٹ دیا جائے، جیسے اس زمانے میں کوڑھ کے مریض کو دور کر دیا جاتا تھا اور یہ ذمے داری بھی اُسی کی لگائی کہ لوگوں کو اپنے سے دور رکھے ورنہ اس کا نفس نہ جانے کیا کیا گل کھلاتا۔ اور موسیٰؑ نے فرمایا تیرے لیے باز پرس کا ایک دن مقرر ہے جو تجھ سے ہرگز نہ ٹلے گا۔ اور دیکھ اپنے اِس خدا کو جس پر تو ریجھا ہوا تھا‘ اسے ہم جلا ڈالیں گے اور ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہا دیں گے اور اپنی قوم سے کہا لوگو! تمہارا خدا تو بس ایک ہی اللہ ہے جس کے علاوہ کوئی اور خدا نہیں ہے، ہر چیز پر اس کا علم حاوی ہے۔ پھر جب ان کی فریب خوردگی کا طلِسم ٹوٹ گیا اور انہوں نے دیکھ لیا کہ درحقیقت وہ گمراہ ہوگئے ہیں تو کہنے لگے کہ ’’اگر ہمارے ربّ نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہم سے درگزر نہ کیا تو ہم برباد ہوجائیں گے۔‘‘
حضرت موسیٰؑ نے قوم کے سامنے سخت رد عمل کا مظاہرہ کیا یہ نہیں کیا کہ سونے کو کسی اور کام میں لے آئیں بلکہ اسے جلا کر ریزہ ریزہ کر کے دریا برد کر دیا اور پھر اللہ سے اپنے اور حضرت ہارونؑ کے لیے مغفرت طلب کی کیونکہ پیغمبر ہونے کے ناتے آخری ذمے داری آپ نے اپنی ہی سمجھی۔ جواب میں ارشاد ہوا کہ ’’جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا وہ ضرور اپنے رب کے غضب میں گرفتار ہو کر رہیں گے اور دنیا کی زندگی میں ذلیل ہوں گے۔ جھوٹ گھڑ نے والوں کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ اور جو لوگ برے عمل کریں پھر توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں تو یقیناً اِس توبہ و ایمان کے بعد تیرا رب در گزر کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
پھر جب موسٰیؑ کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس نے وہ تختیاں اُٹھا لیں جن کی تحریر میں ہدایت اور رحمت تھی ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس نے اپنی قوم کے ستر آدمیوں کو منتخب کیا تاکہ وہ اس کے ساتھ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر حاضر ہوں اس مرتبہ اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ قوم کے 70 نمائندوں کو بھی طلب کیا۔ ظاہر بات ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے 70 نمائندوں کا انتخاب کر نے کے لیے کوئی کرائیٹیریا طے کیا ہو گا اور انتخاب کا کوئی طریقہ بھی مقرر کیا ہوگا بہرحال یہ طلبی اس غرض کے لیے ہوئی تھی کہ قوم کے 70 نمائندے کوہ ِ سینا پر پیشیِ خدا وندی میں حاضر ہو کر قوم کی طرف سے گوسالہ پرستی کے جرم کی معافی مانگیں اور از سرِ نو اطاعت کا عہد استوارکر یں۔
جب یہ وہاں پنہچے تو اِن لوگوں کو ایک سخت زلزلے نے آپکڑا تو موسٰیؑ نے عرض کیا ’’اے میرے سرکار! آپ چاہتے تو پہلے ہی اِن کو اور مجھے ہلاک کر سکتے تھے۔کیا آپ اس قصور میں‘ جو ہم میں سے چند نادانوں نے کیا تھا‘ ہم سب کو ہلاک کر دیں گے؟ یہ تو آپ کی ڈالی ہوئی ایک آزمائش تھی جس کے ذریعے آپ جسے چاہتے ہیں گمراہی میں مبتلاکر دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں ہدایت بخش دیتے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ کا یہ بیان انتہائی غور طلب ہے اور دل میں بٹھا لینے والا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آزمائش کا موقع انسانوں کے درمیان فیصلہ کُن ہوتا ہے۔ وہ چھاج کی طرح ایک مخلوط گروہ میں سے کارآمد آدمیوں اور ناکارہ آدمیوں کو پھٹک کر الگ کر دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ ایسے مواقع ایمان کا دعویٰ کرنے والوں پر آتے رہتے ہیں ۔ ان مواقع پر جو کامیابی کی راہ پاتا ہے وہ اللہ ہی کی توفیق و رہنمائی سے پاتا ہے اور جو ناکام ہوتا ہے وہ اُس کی توفیق اور رہنمائی سے محروم ہونے کی بدولت ہی ناکام ہوتا ہے۔ اگرچہ اللہ کی طرف سے توفیق اور رہنمائی ملنے اور نہ ملنے کے لیے بھی ایک ضابطہ ہے جو سراسر حکمت اور عدل پر مبنی ہے لیکن بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ ثابت ہے کہ آدمی کا آزمائش کے مواقع پر کامیا بی کی راہ پانا یا نہ پانا اللہ کی توفیق و ہدایت پر منحصر ہے۔حضرت موسیؑ مزید درخواست کرتے ہیں کہ : ’’ہمارے سر پرست تو آپ ہی ہیں۔ پس ہمیں معاف کر دیجیے اور ہم پر رحم فرمائیے، آپ سب سے بڑھ کر معاف فر مانے والے ہیں۔اور ہمارے لیے اس دنیا کی بھلائی بھی لکھ دیجیے اور آخرت کی بھی، ہم نے آپ کی طرف رجوع کر لیا۔‘‘ جواب میں ارشاد ہوا ’’سزا تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں، مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے، اور اُسے میں اُن لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے پرہیز کریں گے، زکوٰۃ دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ جس طریقے پر خدائی کر رہا ہے اس میں اصل چیز غضب نہیں ہے جس میں کبھی کبھی رحم اور فضل کی شان نمودار ہو جاتی ہو بلکہ اصل چیز رحم ہے ہا ں غضب صرف اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب بندوں کا ظلم حد سے بڑھ جائے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ۔ وآخر دعوانا ان لحمدللہ رب العالمین۔

حصہ