درخت لگاؤ اللہ کی دُنیا کو سجاؤ

1940

تنویر اللہ خان
ہم مسلمان ماحولیات کو مذہب کا موضوع نہیں سمجھتے۔ ہمارا خیال ہے کہ پودے لگانا، شور، دھویں میں کمی کی کوشش کرنا مغرب کا نخرا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تحفظِ ماحولیات اگر واقعی آج کا مسئلہ ہے تو اسلام آفاقی، دائمی مذہب ہونے کے ناتے آفاق کے کسی بھی مسئلے کی طرح ماحولیات سے کس طرح لاتعلق ہوسکتا ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ ماحولیات کا مسئلہ دراصل مغرب کا ہی پیدا کردہ ہے، لیکن وہ اس کی سنگینی کو محسوس بھی کرتے ہیں اور اس کے تحفظ کی کوشش بھی کرتے ہیں، لیکن ہم مسلمان بھی اس اہم مسئلے سے لاتعلق نہیں رہ سکتے، کیوں کہ ماحولیات کی خرابی سے تمام جان دار متاثر ہورہے ہیں۔ ماحولیات کے حوالے سے اسلام نے بہت آگے کی فکر دی ہے۔ ہمارے نزدیک موسمی ماحول کے ساتھ اخلاقی ماحول کا تحفظ بھی لازمی ہے۔
اللہ نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا ہے، مسلمان کو تسخیرِ کائنات اور اس کے نظام پر غوروفکر کا ٹاسک دیا ہے، قرآن میں جا بہ جا تنبیہ کی گئی ہے کہ تم غور کیوں نہیں کرتے۔
اسلام کے مطابق کائنات کی ہر چیز کا خالق اور مالک اللہ ہے، اللہ نے انسان کو اس کائنات پر تصرف کا عارضی اختیار دیا ہے۔ ہر انسان ایک محدود وقت کے لیے دُنیا میں آتا ہے، اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزیں استعمال کرتا ہے اور دُنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ یہ سلسلہ ازل سے چلا آرہا ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ لہٰذا اللہ نے جو نعمتیں ہمیں دی ہیں وہ ہمیں گُزرے لوگوں سے ملی ہیں، اور ہمارے پاس آئندہ آنے والوں کی امانت ہیں۔ ہم ان نعمتوں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں لیکن اُنھیں ملیامیٹ کرنے کا اختیار ہمیں بالکل نہیں ہے۔
فرض کریں، ہم کسی بادشاہ کے مہمان بن کر اُس کے محل میں قیام کرنے جائیں اور بادشاہ کی طرف سے ہمیں محل میں موجود ہر چیز استعمال کرنے کی اجازت ہو، تو کیا ہم ان چیزوں کو تباہ و برباد کرنے کا بھی حق اور اختیار رکھتے ہیں؟ ہم محل کے پھول پودے اکھاڑ دیں، محل میں موجود جانوروں کو ہلاک کردیں تو کیا بادشاہ ہمارے اس عمل سے خوش ہوگا؟ یا ہمیں سزا دے گا؟ موٹی عقل کا آدمی بھی یہی کہے گا کہ میزبان کی دی ہوئی سہولتوں سے فائدہ تو اُٹھایا جاسکتا ہے لیکن اُنھیں تباہ کرنا خیانت اور مالک کی ناراضی کا سبب ہوگا۔ اسلام کے مطابق درخت، ہوا، فضا، پانی، جانور سب اللہ کی بخشی ہوئی امانتیں ہیں، لہٰذا ان کی حفاظت کرنا امانت داری کا تقاضا ہے۔
آج کی دُنیا نے ماحولیات کے مسئلے کو چند دہائیوں پہلے دریافت کیا ہے، لیکن اللہ نے بہت پہلے اس معاملے پر انسانوں کی رہنمائی کردی ہے، اوردُنیا میں موجود سمندر، پہاڑ، ہموار زمین، ہوا، فضا، جانور، پھول، پودے، درخت جیسی نعمتوں کو انبیاء کے ذریعے استعمال کرنے کا طریقہ ہمیں بتادیا ہے۔
ماحولیات کے حوالے سے استعمال ہونے والی بنیادی اصطلاحات کا ماخذ اسلام ہے۔
مثلاً فطرت، جیسے نیچر بھی کہا جاتا ہے۔ دُنیا میں اس کی دوڑ لگ گئی کہ بغیر کھاد کی سبزی، اناج، پھل اگایا اور کھایا جائے۔ فارمی مرغی سے لوگ پرہیز کرنے لگے ہیں۔ اسی طرح زندگی کے اور بھی شعبوں میں کوشش کی جارہی ہے کہ فطرت کے قریب رہا جائے۔ اس فطرت کا تصور اسلام نے دیا ہے۔
توحید، جس کے مطابق ہر تخلیق کا خالق اللہ ہے۔ کائنات کی ہر چیز اُس کے حکم کے مطابق چلتی ہے، یعنی ذرے ذرے کی کمانڈ اللہ کررہا ہے، اسی لیے ہر چیز ایک دوسرے سے مربوط اور منظم ہے۔ سورج کی تپش سے سمندر کا پانی بخارات بن کر اُڑتا ہے، پھر بارش کی صورت میں زمین پر برس جاتا ہے۔ بارش ہمیشہ سے اسی نظام کے مطابق ہورہی ہے، سورج چاند اپنے مقررہ وقت پر نکلتے ہیں اور ایک متعین راستے پر چلتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچتے ہیں۔ سادہ پانی اُبالیں، اُس کی بھاپ کم ہوتی ہے، اور پانی میں تھوڑا سا نمک ڈال دیں تو اس کی بھاپ میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس عمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو بارش برساتا ہے اُس نے ہی سمندر کو نمکین بنایا، وہی اس کے پانی سے بخارات بنارہا ہے۔ یعنی سمندر، بخارات، بارش سب کا انتظام کرنے والا ایک ہی ہے۔ یہی عمل ماحولیات کی زبان میں سائیکل سسٹم ہے۔
اسی طرح ’’میزان‘‘ یعنی توازن بھی اسلام کی اصطلاح ہے۔ جب تک کائنات کی ہر چیز میں اللہ کا قائم کردہ توازن رہے گا اُس وقت تک کائنات میں موجود چیزیں ہمارے لیے فائدہ مند رہیں گی۔ اگر سمندر اپنا توازن کھو دے تو یہ ساری دُنیا کو منٹوں میں تباہ کردے گا، سورج کی گرمی میں توازن نہ رہے تو کائنات لمحوں میں راکھ کا ڈھیر بن جائے گی، ہوا کا توازن برقرار نہ رہے تو پہاڑ بھی روئی کے گالے کی طرح اڑنے لگیں گے، بارش کا میزان بگڑ جائے تو دُنیا غرقِ آب ہوجائے گی۔ لفظ توازن سے دُنیا کو اسلام نے ہی متعارف کرایا ہے۔
انسان کے اللہ کا خلیفہ ہونے کا تصور بھی اسلام نے دیا۔ بحیثیت خلیفہ انسان اللہ کی بنائی دُنیا کا امین ہے۔ مسلمان کا ایمان ہے کہ یہ دُنیا عارضی ہے اور ہم یہاں مہمان ہیں، اور یہ کہ دُنیا کا اصل مالک اللہ ہے۔ پانی، ہوا، مٹی، درخت، پودے، پرندے اور دوسرے سارے جانور اللہ کے پیدا کیے ہوئے ہیں، لہٰذا یہ تمام چیزیں ہمارے پاس اللہ کی امانت ہیں، ہم اللہ کی دی ہوئی اجازت کے مطابق انھیں استعمال کرسکتے ہیں، لیکن ہم ان کے مالک نہیں، لہٰذا انھیں تباہ یا ان کے استعمال میں تجاوز نہیں کرسکتے۔
پانی ماہرینِ ماحولیات کا اہم موضوع ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کے اسراف سے منع فرمایا ہے، نہر کے کنارے بیٹھ کر وضو کرنے والے کو پانی کے بے جا استعمال سے منع کیا ہے، پانی کو آلودہ کرنے سے روکا ہے، پینے کے پانی میں پھونک مارنے سے منع کیا ہے۔
خشکی اور تری میں فساد کا خیال اسلام نے دیا ہے: ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے، یہ لوگوں کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہے۔‘‘ (سورۃالروم)
زمینی فساد: آلودگی کی وجہ سے زمین کی پیداواری صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے جو غذائی قلت کا سبب ہوسکتی ہے، اور یہ قلت فساد تک جاسکتی ہے۔ ’’اللہ کا دیا ہوا رزق کھائو، پیو، اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔‘‘ (سورۃ البقرہ)
سمندری فساد یہ ہے کہ سمندر میں صنعتی فضلہ ڈالا جائے اور اسی طرح دوسری گندگی سے سمندر کو ڈسٹ بن بنایا جائے۔ کیوں کہ اس سمندری آلودگی کی وجہ سے سمندری حیات کو شدید خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔
فطری نظام میں دخل اندازی بھی فساد ہے۔ فضائی کثافت کی وجہ سے ہوا میں آکسیجن کا تناسب کم ہورہا ہے اورکاربن ڈائی آکسائیڈ کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ یہ عمل اگر اسی طرح جاری رہا تو 2025ء تک فضائی کثافت میں 4 گنا اضافہ ہوجائے گا۔ قدرتی ماحول کی نایابی، فضا میں آلودگی، فصلوں پر ادویہ کے بے جا استعمال نے بیماریوں میں اضافہ کردیا ہے۔ یہ بھی ماحول کو تباہ کرنے کی سزا ہے۔
اس وقت ہمارے گھر، گلی، شہر، ملک اور دُنیا میں ماحولیات کے حوالے سے کیا مسائل ہیں، اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
روس کے 46، برازیل کے 56، سویڈن کے 74، انڈونیشیا کے47، اسپین کے56، جاپان کے 67، کینیڈا کے 31، امریکا کے 30، افغانستان کے .25 0، بحرین کے 0.67، امارات کے 3.5، بھوٹان کے 72، نیپال کے 39.6، انڈیا کے 23، جب کہ پاکستان کے 2فیصد رقبے پر جنگلات ہیں، جب کہ اچھی ہوا، اچھی فضا، کاشت کاری اور بارش کے لیے کم ازکم 33فیصد رقبے پر جنگلات ہونے چاہئیں۔
ان اعداد وشمار میں قابلِ توجہ یہ بات ہے کہ مسلمان ملکوں میں سبزے کی طرف بالکل توجہ نہیں ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقے میں ٹمبر مافیا کی اصطلاح عام ہے۔ اس ٹمبر مافیا کی سرپرستی موجودہ حکومت سے پہلے تمام حکومتیںکرتی رہی ہیں۔
کراچی میں گزشتہ دس برسوں میں درخت لگانے کے بجائے ہزاروں کی تعداد میں درخت کاٹے گئے ہیں۔ صدر ریگل پر گزشتہ پچاس برس سے پتھارا لگانے والے ایک صاحب نے بتایا کہ اس جگہ سے گھنے، قدآور اور قدیم درخت کاٹ دئیے گئے، ہم ان درختوں کے نیچے دوپہر کے وقت لیٹ جاتے تھے اور شام کی دکان داری کے لیے تازہ دم ہوجاتے تھے، اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ صبح سے شام تک ہمارے سر پر سورج آگ برساتا رہتا ہے، اس سے شام تک ہم بے حال ہوجاتے ہیں، ہماری بلدیہ درخت کاٹنے کو ترقی کا کوئی کام سمجھتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں جاہل، وحشی، دینی اور دُنیاوی دونوں علوم سے عاری افسران قابض ہوگئے ہیں، ان وحشیوں نے کراچی کو درختوں سے خالی کردیا ہے۔
یہی حال ہماری ذاتی زندگی کا ہے۔ ہم گھر میں کوئی کچی جگہ نہیں چھوڑتے، پتوں کے کچرے سے بچنے کے لیے پھل دار اور تناور درخت کاٹ دیتے ہیں۔ ہماری مساجد کی انتظامیہ کو کچی زمین برداشت نہیں ہوتی، جہاں اُنھوں نے کچی زمین کا ٹکڑا دیکھا، جھٹ سے موزائیک یا ٹائل لگوا دئیے۔
گھر میں ہمیں درختوں سے بیر ہے، مساجد میں کمیٹی کو درختوں سے دشمنی ہے، شہر میں بلدیہ درختوںکے سر پر کلہاڑا تانے کھڑی ہے، جنگلات میں لالچی ٹمبر مافیا جنگل کے جنگل صاف کررہی ہے، شہروں میں بلڈر درختوں کے درپے ہیں… اس صورت حال میں درختوں کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔
این جی اوز بھی ماحولیات پر رسمی کام کرتی ہیں۔ ان کے کارندے کسی فارنر کو لے کر فائیو اسٹار ہوٹلوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور ماحولیات، درختوں، پانی، ہوا کی تباہی کا شور مچا کر چپکے سے اپنی جیب بھر کر اپنے اپنے گھروں کی راہ لیتے ہیں۔
مسلمان معاشرے میں بلاغرض اورنتیجہ خیز کام مساجد، مدارس، مذہبی جماعتیں ہی کرسکتی ہیں اور کررہی ہیں، جب تک ماحولیات یا شجر کاری پر ان کی توجہ نہیں ہوگی اُس وقت تک پاکستان میں ماحولیات کا موضوع محض دکھاوے اور مال کمانے کا ذریعہ رہے گا، لہٰذا ان مذہبی طبقات کو اس جانب توجہ کرنی چاہیے۔ ہم اگر کچھ بڑا نہیں کرسکتے تو کم ازکم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ اپنے گھر میں اگر کچی زمین بچی ہے تو اُس پر کسی بھی طرح کا پودا لگا دیں، اسکول میں بچوں کو کم از کم ایک پودا لگانے کا پابند کریں اور بچوں میں درختوں کی حفاظت اور افزائش کا شوق پیدا کریں، انھیں درختوں کے فوائد سے آگاہی دیں، مساجد کے اندر اور اُس کے اطراف میں درخت لگائیں… غرض ہر آدمی ایک پودا لگانے کا ارادہ کرلے اور ثواب سمجھ کر اس ارادے پر عمل کرے تو ممکن ہے اللہ ہم سے اس امانت داری پر خوش ہوجائے اور مستقبل میں موسم کی سختی کو نرمی میں بدل دے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس مسلمان نے کوئی درخت لگایا، پھر اس درخت کے پھل کسی انسان نے کھائے، یا کسی جانور نے اس کے پتے کھائے تو یہ چیز اُس کے لیے صدقہ ہوگی۔
ایک اور حدیث میں ارشاد ہوا: اگر اگلے لمحے قیامت برپا ہونے کا یقین ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کوئی پودا ہو تو وہ اُسے زمین میں لگادے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں بھی درخت کاٹنے سے منع فرمایا ہے، فاتحین کو فصلیں خراب کرنے سے روکا ہے۔
امام ابویوسفؒ کہتے ہیں کہ وہ شخص جو قدرتی ماحول کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھتا، وہ اسلامی شریعت کے نفاذکے مناسب طریقہ کار کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔ درخت لگانا غیر مسلموں کے لیے صرف ماحولیات کا مسئلہ ہے لیکن ہمارے لیے یہ اللہ کی دُنیا کو سجانے بنانے کا عمل ہے۔

حصہ