سوشل میڈیا ہلچل

350

کیا کہا ؟ایسی کی تیسی یار۔
اُف!حد کردی ہے قسم سے۔
یہ کون لوگ ہیں؟
ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی بات کرنے والا نہیں؟
کسی نے ڈھنگ کاجواب بھی نہیں دیا؟
فضول بکواس کر کے توجہ چاہ رہا ہے ۔
مجھے بھی ایڈ کرادو ۔ایڈمن کون ہے ؟
یہ تو فساد پھیلا رہا ہے۔
میری پوسٹ کیوں اپروو نہیں کر رہا؟
کیا چاہتے ہیں یہ؟
کیا ہم کچھ نہیں کر سکتے؟اِس طرح تو بہت نقصان ہوگا۔
پیج رپورٹ کر دوں؟
آئی ڈی کو بھی ؟
سب کو بول دو اب صرف یہی حل ہے ۔
مل کر کریں گے تو ہی کچھ ہوگا۔
آپ سوچ رہے ہونگے یہ کیا گفتگو چل اور کیسی بے ربط باتیں لکھی گئی ہیں؟ ویسے کچھ نہ کچھ تو سمجھ آگئی ہو گی۔سوشل میڈیا پر ہونے والی گفتگو ہے جوپچاس ہزار سے زائد ممبران کے ایک کلوز گروپ میں جاری تھی ۔پھر وہاں سے میرے منع کرنے پر ایک پرسنل چیٹ کی جانب چلی گئی ۔ میں نے جذباتی احباب کو پوسٹ پر کمنٹس کرنے سے منع کیا ۔اس کے نتیجے میں ہر کمنٹس پر نوٹیفیکیشن آتا اور سب ممبران متوجہ ہوتے اور پوسٹ کی ریچ بڑھتی ۔ پوسٹ ڈالنے والے نے مکمل دماغی کارروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی وال سے گروپ میں پوسٹ ڈالی تھی ۔اس کا براہ راست اثر اُس کی آئی ڈی پر بڑھتی ریچ کی صورت آرہا تھا۔
اس گفتگو کا محرک بننے والی پوسٹ ایک سوال کی صورت ڈالی گئی اور پھر اُس نے ساکت پانی میں لہریں برپا کر ڈالیں۔پوسٹ ایک سوال کی صورت کی گئی تھی اور وہ یہ تھی کہ :
کیا کوئی مجھے سمجھائے گا کہ ہم نے بچپن سے سناہے کہ اللہ پتھر میں چھپے کیڑوں تک کو رزق پہنچاتا ہے، پھر اسے افریقہ و تیسری دنیا کے قحط زدہ ، بھوک سے مرتے کیوں نہیں دکھائی دیتے ؟
سوال دیکھ کر میں فوراًسمجھ گیا کہ یہ کیا کارروائی کی جا رہی ہے ۔ اچھا اگر آپ اس سلسلے کوباقاعدگی سے نہیں پڑھ رہے تو مختصراً دہرا دیتا ہوں کہ سماجی میڈیا کے اس بدترین نشے سے انکار اب ممکن نہیں رہا۔ نظریات کے فروغ کا یہ ایک عالمی ہتھیار بن چکا ہے اور سب اس پر طالع آزمائی کر رہے ہیں۔جو جتنا سمجھ جاتا ہے اپنا کام کرتا ہے ۔ سوشل میڈیا پر آپ کو ہر جانب ہلچل نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ اُس میں گم ہو جاتے ہیں ۔ فلموں پر تبصرے سے لے کر گھریلو ٹوٹکے، سیاسی تجزیہ ، خبریں ، سب کچھ۔اسی طرح جہاں اسلامی ہیں وہاںکئی الحادی گروپس بہت منظم انداز سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا طریقہ واردات ، ان کے اسلوب اور انداز کو سمجھے بغیر ممکن نہیں ہوتا ۔گھاس میںموجود پانی کی مانند ان کے ایجنٹس کام کر رہے ہوتے ہیں ۔ بیک وقت کئی آئی ڈیز ، پیجز اور کئی آئی پیز کے ساتھ یہ پھیلے ہوتے ہیں ، کبھی ہیک کرنے کی کوشش کریں تو پتہ چلے گا کہ سب کے اکاؤنٹس میں بھرپور سیکیورٹی لگی ہوتی ہے ۔اس کی ایک اور تازہ مثال آج مجھے مشال خان کے قتل کوسال گزرنے پر اُس کے چاہنے والوں نے آج ٹوئٹر ٹرینڈ لسٹ میں دوبارہ مشال خان کو زندہ کر کے بڑا گہرا پیغام دیا ہے ، اُن کے مطابق مشال کے قاتلوں کو سزا نہیں ملی اور مشال اس منافق معاشرے میں روشنی کی کرن ہے ۔
چلیں یہ تو مختصر پس منظر تھا، واپس چلتے ہیں اُس سوال کی جانب : سوال جیسے ہی معصومیت سے ڈالا گیا لوگوں نے اپنے محدود علم کی بدولت عالمانہ انداز میں جوابات دینے کا نیک کام شروع کر دیا ۔یہ اس طرح کے ہی سوالات کرتے ہیں جیسا کہ کچھ پیش ہیں:
مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ اگر اسلام سارے عالم کے لیے ہے تو امریکہ ،یورپ،افریقہ ہندوستان وغیرہ میں انبیاء کیوں نہیں بھیجے گئے ؟
ویسے جب اللہ کی مرضی کے بغیر پتہ نہیں ہلتا تو شیطان نے سجدے سے کیسے انکار کردیا؟
جب اللہ نے سارے نام سکھائے ہی آدم کو تو فرشتے کیسے جواب دے سکتے تھے؟ ۔بوجوہ آگے لکھنے کی ہمت نہیں پاتا ۔ویسے سچ پوچھیں تو مجھے ِان کو( سوشل میڈیا پر) دیکھ کر ہی سمجھ آیا کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاخلاص کو ایک تہائی قرآن مجید کے برابر قرار دیا؟کیوں پوری عربی زبان میں صرف ’اللہ ‘کا نام مبارک ہی ’لام جلالہ ‘کے ساتھ پڑھا جاتا ہے ، یعنی موٹا کر کے ۔عربی اتنی وسیع و بلیغ زبان ہے کہ یہاں کئی میگزین صرف عربی کی فصاحت و بلاغت پر لائے جا سکتے ہیں اور آپ دیکھیں کہ عربی زبان میں یہ بنیادی قاعدہ ہے کہ حرف ’لام‘ (ل) باریک پڑھا جاتا ہے مگر جب آپ صرف خالق کائنات ، رب کریم ، مالک ذوا لجلا ل کا نام لیں گے تو آپ کو پوری عربی میں جو کہیں نہیں ہوتا وہ کرنا پڑے گا یعنی اُس لام کو موٹا ادا کرنا ہوگا، اسے ہی لام جلالہ کہتے ہیں ۔اللہ کی ذات ہے ہی اتنی واحد و یکتا کہ اُس کا نام پکارنے کے لیے بھی عربی جیسی زبان میں ایک خاص قاعدہ الگ کیا گیا۔یہی اس نام کی ادائیگی کا حقیقی حسن ہے جو آپ کو الگ ہی مزا دیتا ہے۔میں ویسے تو تجوید و مخارج کا کوئی ماہر نہیں ہوں لیکن یہ اللہ کا ہی فضل ہے کہ اُس کا نام مبارک اُس کے من پسند طریقہ اور تلفظ کے مطابق اب لے لیتا ہوں۔
بہر حال بات ملحدین کے حوالے سے جاری تھی ، جن کا عمومی ہدف اللہ کی ذات پاک ہوتی ہے اور وہ ایسے ہی سوالات کے ذریعہ عام مسلمانوں کے ایمان پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔سماجی میڈیا نے تو سب کو ہی ’عاِلم ‘بنا ڈالا ہے تو سادہ لوح مسلمان جذبہ ایمانی سے سرشار ہو کر جواب دینا شروع ہو جاتے ہیں ، جنہیں پھر سمجھانا پڑتا ہے کہ یہ تو ایک جال ہے ، گھیرا لگایا جا رہاہے ، اس میں مت آنا۔ہوتا یہ ہے کہ کوئی اُن کی بات نہ مانے مگر وہ ایسے سوالات ڈال کر ذہن کو انتہائی منتشر اور پراگندہ کرتے ہیں، پھر اُنکے پاس ایسے ایسے اسکرین شاٹ ہوتے ہیں کہ فی الحال یہاں ذکر کرنا موزوںنہیں۔بات یہ تھی کہ آپ کابھی کہیں ایسا ٹاکرا ہو تو پوسٹ پر کمنٹس سے گریز کیجیے گا ، ہاں فیس بک کو آئی ڈی یا پیج ضرور(شکایت) رپورٹ کر دیجیے گا۔
اب ذرا اس ہفتہ کے نمایاں موضوعات کی جانب چلتے ہیں ، جن میں منظور پشتین سے لے کر مولانا خادم رضوی کا لاہور دھرنا، میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین کی تا حیات نا اہلی ، کراچی کے شہریوں پر کے الیکٹرک کی لوڈ شیڈنگ،مقبوضہ کشمیر میں آٹھ سالہ معصوم بچی آصفہ بانو کی اجتماعی زیادتی اور قتل کے موضوعات شامل رہے ۔
پاکستان اور خلیجی ممالک کی معروف کاروباری شخصیت اور تین مرتبہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے مختلف کرپشن کیسز کے دوران صادق اور امین نا پا کر آئین کی دفعہ62کے تحت تا حیات نا اہل قرار دے دیا ۔ اس چکی میں میاں صاحب کے ساتھ تحریک انصاف کے ایک رہنما جہانگیر ترین ( ویسے اتفاق سے وہ بھی ایک معروف کاروباری شخصیت ہیں )بھی تا حیات نا اہل ہونے کا ٹھپہ لگوانے میں کامیاب رہے ہیں۔پاکستان میں ٹوئٹر ٹرینڈ لسٹ پر سپریم کورٹ، آرٹیکل 62، نواز شریف، آئین، اور جہانگیر ترین چھائے رہے ۔سماجی میڈیا پر دلچسپ حقائق اور طنز کا سلسلہ شروع ہوا ۔لوگوں نے اس تاریخی فیصلہ کو دن سے بھی جوڑا اور لکھا کہ ’’ جمعہ کی چھٹی ختم کرنے والے کی بھی چھٹی جمعہ کو ہی ہوئی ‘‘۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی اس فیصلہ پر جارحانہ ٹوئیٹ کی کہ ’’تاحیات نااہل ہونے والے اب استغفار کریں۔ سپریم کورٹ پانامہ لیکس کے دیگر 436افراد کو بھی بلائے۔ بنکوں کو لوٹنے، قرضے معاف کرانے اور دبئی و لندن لیکس والوں سے کوئی رعایت نہ کی جائے۔ کلین پاکستان کیلئے سب کا احتساب ناگزیر ہے۔‘‘معروف ٹی وی اینکر عامر لیاقت حسین نے بھی اپنے ذو معنی انداز میں ٹوئیٹ کیا کہ ’’چار حلقوں سے آغاز ہوا،چار نسلوں کا حساب ہوا۔ چار مرتبہ نااہل تْو نواز ہوا… منصف میں ہیں چار تو مجرم بھی ہیں چار…. ایام میں ہیں چار تو جمعہ میں بھی ہیں چار…‘‘۔مبشر زیدی نے تاریخ کا ایک اور ورق الٹا تے ہوئے کہاکہ ’’یہی عدالت تھی جس نے نااہل نواز شریف کا مقدمہ کئی سال بعد کھول کر اہل قرار دیا تھا۔اب یہی عدالت ہے جو نواز شریف کو بار بار نااہل قرار دے رہی ہے۔چیف جسٹس بدل جاتا ہے تو قانون اور ضابطے بھی بدل جاتے ہیں۔‘‘
مقبوضہ کشمیر میں جہاںبھارتی فوج نے مستقل مسلمانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح بدترین اذیت اور ظلم کا شکار بنا رکھا ہے ، گذشتہ ہفتہ ہی کئی نوجوانوں کی شہادت کے واقعہ کے شور کے دوران ہی یہ کیس سامنے آیا جسے اس ہفتہ جا کر ہائپ ملی ۔ ضلع کاتھوا (مقبوضہ کشمیر) 8سالہ معصوم آصفہ کو ہندوؤں نے اغواء کر کے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر ڈالا۔اس واقعہ پر زینب کی طرح ایک ہفتہ بعد ہی سہی لیکن بھرپور شور مچایا گیا۔پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ میں نمودار ہوا اور یہاں تک کہ مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے یہ ٹوئیٹ کیا کہ ’’میں پوری قوم کو یقین دلانا چاہتی ہوں کہ میں نہ صرف آصفہ کو انصاف دلانے کیلئے وعدہ بند ہوں بلکہ میں اس دردناک واقعہ میں ملوث افراد ،جنہوں نے انسانیت کو شرمسار کرنے والا جرم انجام دیا ہے،کو سخت سے سخت اور مثالی سزا دلاوں گی۔ہم کبھی بھی دوسرے بچوں کو اس طرح کے حالات سے گزرنے نہیں دیں گے۔ہم ایک نیا قانون لائیں گے جس میں معصوم بچوں کی عصمت دری میں ملوث افراد کے لئے موت کی سزا لازمی ہوگی ،تاکہ معصوم آصفہ کے بعد کوئی دوسری بچی درندگی کا شکار نہ بنے اور یہ اس نوعیت آخری واقعہ ہو۔‘‘گو کہ اس کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر دنیا بھر سے لعن طعن کی گئی ۔
منظور پشتین پر بھی خوب معاملہ گرم رہا ، فیض اللہ خان نے ایک جامع تحریر لکھی کہ ’’منظور پشتین اور ساتھیوں کے قول و فعل پہ خورد بین لگاکر بیٹھنے اور ” دیکھا ہم نے نہیں کہا تھا ” جیسے جملوں کا انتظار کرنے کے بجائے انکے وہ تمام مطالبات پورے کریں جو آپکے آئین اور قانون کے نیچے آتے ہیں ہم بھی انہی مطالبات کے ساتھ ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ تحریک کا خمیر پشتون قوم پرستی سے اٹھا ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ انکے کم و بیش تمام ہی مطالبات درست ہیں ان مطالبات کو پورا کرکے آپ حال یا مستقبل کی اس حوالے سے تمام سازشوں کو ناکام بناسکتے ہیں ۔فطری امر ہے ایسی کسی بھی تحریک کو پاکستان مخالف عناصر ہائی جیک کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسلام وطن یا قوم سے محبت کی نفی نہیں کرتا اسکا مطالبہ نہایت سادہ اور صائب ہے کہ اگر آپ اپنی قوم و وطن کی جانب سے ہونے والے کسی ظلم کی تائید کریں گے یا جواز گھڑیں گے تو یہ عصبیت ہے ۔منظور پشتین اپنی قوم کیساتھ ہونے والے ظلم کی بات کررہا ہے۔ہم پہلے مسلمان ہیں پھر پاکستانی اسکے بعد پشتون پاکستان سے محبت کی وجہ پاکستانی ہونا قطعی نہیں بلکہ کلمہ طیبہ ہے جس کی بنیاد پہ ملک بنا ، ہم سے ہماری پہلی شناخت نہ چھینیں کیونکہ حدود اللہ کے سوا ہر آئین قانون اور سرحدات میں تبدیلی ممکن ہے۔‘‘ایک اور دلچسپ موضوع بھی اس دوران نظر سے گزرا جو اسلام آباد میں قائم ہونے والے انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے لیے نام کی تجویز کا تھا ۔کہیں سے اس کے لیے بے نظیر کی صدائیں تھیں، کہیں سے نواز شریف تو کہیں سے یہ صدا بھی دل کو لگی کہ ’’کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے نئے اسلام آبادائیرپورٹ کا نام “برہان مظفر وانی انٹرنیشنل ائیرپورٹ ” رکھا جائے۔اس اقدام سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں مدد ملے گی ۔ اس تجویزسے اگر آپ متفق ہیں تو اس پیغام کو اپنی اپنی وال پر عام کریں۔‘‘

حصہ