۔’’کھلے سگریٹ‘‘ مضر صحت

336

زاہد عباس
میری عادت ہے کہ بچوں کی ذہنی صلاحیت بڑھانے کی غرض سے کوئی نہ کوئی سوال کرتا رہتا ہوں۔ کل میری بڑی بیٹی ردا کا امتحانی نتیجہ آیا، اچھے نمبروں سے پاس ہونے کی خوشی میں ردا کی جانب سے خاندان کی ساری بچہ پارٹی کو پارٹی دی گئی۔ گھر میں رات گئے تک خوب ہلا گلہ مچایا گیا۔ پاس ہونے پر ردا کے تو مزاج ہی وکھرے تھے۔ اس کا ساتویں سے آٹھویں جماعت میں جانا ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے سے کم نہ تھا۔ اس دوران موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عادتاً میں نے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’ایک شخص اگر ناشتے میں روز ایک انڈہ کھائے تو بتاؤ ایک سال میں اُس نے کتنے انڈے کھائے؟‘‘
گڈو جو ابھی تیسری جماعت میں پڑھتا ہے، بڑے ہی معصومانہ انداز میں بولا ’’انکل! ایک سال میں 365 دن ہوتے ہیں، تو 365 انڈے ہی کھائے ہوں گے ناں۔‘‘
میری جانب سے ’’جواب صحیح ہے‘‘ کی آواز سنتے ہی سارے بچوں نے تالیاں بجانا شروع کردیں۔
’’بس بس، ابھی تو اور بھی بہت کچھ پوچھنا ہے‘‘۔ میں نے بچوں پر ہلکا پھلکا رعب ڈالتے ہوئے کہا۔
’’اچھا عامر اب تم سنو: شبیر صاحب محلے کی دکان سے دن میں دو سگریٹ ادھار لیتے ہیں، ایک سگریٹ کی قیمت آٹھ روپے ہے، یہ بتاؤ کہ شبیر صاحب نے پورے مہینے میں سگریٹ کی مد میں کتنے کا ادھار لیا؟‘‘
عامر چونکہ چھٹی جماعت میں پڑھتا ہے اس لیے اُس نے میرے سوال پر فوراً ہی تنقیدی جواب دے مارا:
’’کس زمانے کی بات کررہے ہیں انکل! اب کھلے سگریٹ نہیں ملتے۔ جب بازار میں کھلے سگریٹ دستیاب ہی نہیں تو شبیر صاحب کو کون دے گا، جب سگریٹ نہیں ملیں گے تو ادھار کیسا! اس لیے یہ سوال نہیں چیٹنگ ہے، کوئی دوسری بات پوچھیں۔‘ُ
عامر نے مجھے لاجواب کردیا۔ میں اس صورتِ حال میں بھلا دوسرا سوال کیسے کرسکتا تھا! میری سوچ کی سوئی تو عامر کے دیے گئے جواب ’’اب کھلے سگریٹ نہیں ملتے‘‘ پر اٹک چکی تھی۔ بات بھی ٹھیک تھی۔ اس وقت میرے ذہن میں بس یہی چل رہا تھا کہ حکومت کی جانب سے کھلے سگریٹ کی فروخت پر پابندی جیسا انتہائی قدم کیوں اٹھایا گیا؟ اور اگر یہ قدم اٹھا ہی لیا گیا ہے تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوئے؟ سو میں نے اس کا کھوج لگانے کی ٹھان لی تاکہ مختلف پہلوؤں سے اس پابندی کی وجہ سے معاشرے پر پڑنے والے مثبت و منفی اثرات کا جائزہ لے سکوں۔
آئیے سب سے پہلے ان نکات پر نگاہ ڈال لیتے ہیں جن کی بنیاد پر وفاقی حکومت نے کھلے سگریٹ کی فروخت پر پابندی عائد کردی۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق ہر سال 60 لاکھ افراد تمباکو نوشی کے باعث مختلف امراض کا شکار ہوکر وقت سے پہلے ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، اور ان کی اکثریت ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ تعداد ایڈز، تپ دق (T.B) اور ملیریا سے ہونے والی اموات کی تعداد سے زیادہ ہے۔ ادارے کا اندازہ ہے کہ اگر اس سلسلے میں خاص طور پر کم عمری میں سگریٹ نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو 2030ء تک تمباکو کے استعمال سے ہونے والی اموات کی سالانہ تعداد 80 لاکھ ہوجائے گی۔
ایک طرف اگر سینیٹ کی کمیٹی برائے صحت کی سفارشات کے مطابق وفاقی کابینہ نے کم عمر بچوں میں سگریٹ نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی روک تھام کے لیے کھلے سگریٹ کی فروخت پر پابندی عائد کی، تو دوسری طرف حکومتِ سندھ کی جانب سے بھی18سال سے کم عمر افراد کو سگریٹ کی فروخت پر پابندی عائد کردی گئی۔ اس سلسلے میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے پسِ پشت مزید کیا عوامل کارفرما ہیں، اس کا اندازہ معاشرے میں بڑھتے سگریٹ نوشی کے رجحان پر تیار کی جانے والی اس رپورٹ کو پڑھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں پانچ لاکھ سے زائد دکانوں اور پان کے کھوکھوں پر سگریٹ بآسانی دستیاب ہیں۔ سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ ملک میں روزانہ تقریباً 1200 بچے سگریٹ نوشی کا آغاز کر تے ہیں۔ تمباکو نوشی کی جانب قدم بڑھانے والے ہر پانچ میں سے دو کی عمر 10 سال ہے۔ پاکستان میں 42 فیصد مرد اور 15 فیصد عورتیں سگریٹ نوشی کرتے ہیں، جن میں زیادہ تر کالج اور یونیورسٹیوں کے طالب علم ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب لوگ تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کو معلوم ہے کہ یہ ان کے لیے نقصان دہ ہے۔ پچھلے سال بھی حکومت نے سگریٹ نوشی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے عمر کی پابندی عائد کی تھی، جس میں سگریٹ فروشوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ 18 سال سے کم عمر کے بچوں کو سگریٹ فروخت نہیں کریں گے۔ اسی سلسلے میں جامعات میں نوجوانوں کی سگریٹ نوشی کی طرف بڑھتی رغبت کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے مختلف تعلیمی اداروں میں سگریٹ اور منشیات پر پابندی کے آگاہی بورڈ بھی لگائے گئے۔ حکومت کی جانب سے کھلے سگریٹ کی فروخت پر پابندی کا مقصد معاشرے میں بڑھتے سگریٹ نوشی کے رجحان کا سدباب کرنا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل 2010ء میں حکومت کی جانب سے دس سگریٹ والے پیکٹ کی فروخت پر بھی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
قارئین! یہ ہیں وہ اسباب جن کی بنیاد پر ہمارے ملک میں کھلے سگریٹ کی فروخت پر پابندی عائد کردی گئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہی؟
اس پر ایک عام شہری کیا رائے رکھتا ہے، یا یوں کہیے کہ اس پابندی سے عوام کس حد تک متاثر ہوئے، اس کو جانچنے کے لیے اتنا تحریر کرنا کافی ہے کہ میں گزشتہ دو دہائیوں سے صبح ناشتے کے بعد ایک سگریٹ پیتا ہوں۔ یہ سگریٹ مجھے اپنے دفتر کے قریب کوکھے سے دستیاب ہوجاتا تھا۔ لیکن جب سے کھلے سگریٹ پر پابندی لگی ہے مجھے مکمل ایک ڈبی خریدنا پڑتی ہے۔ ظاہر ہے جب جیب میں سگریٹ کی ڈبی موجود ہو تو مزید سگریٹ پینے کو جی چاہتا ہے۔ اس لیے جہاں میں دن میں ایک سگریٹ پیتا تھا اب پوری ڈبی پینے لگاہوں۔
اسی طرح فیضان کالج میں سیکنڈ ائیر کا طالب علم ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ وہ کھلے سگریٹ کی فروخت پر پابندی سے خوش نہیں۔ پہلے کسی دوست سے ایک یا دو سگریٹ لے کر پیتا تھا لیکن اب پابندی کی وجہ سے اسے پوری ڈبی خریدنا پڑتی ہے۔ سگریٹ نوشوں کا کہنا ہے کہ وہ سگریٹ نوشی کی وبا سے جان چھڑانا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ سگریٹ کا پورا پیکٹ لینے کے بجائے ایک ایک، دو دو کرکے سگریٹ لیتے ہیں جس سے ان کی چین اسموکنگ سے بچت ہوتی ہے، اور طویل دورانیے کا وقفہ ہونے کی وجہ سے وہ سگریٹ نوشی سے دور ہونے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ سگریٹ کا پورا پیکٹ پاس ہونے کی صورت میں عادت سے جان چھڑانا مشکل ہوتا ہے۔ ایک طرف حکومت ’تمباکو نوشی مضر صحت ہے‘ کی تشہیر کررہی ہے، تو دوسری طرف عوام کو روزانہ بیس سگریٹ پینے کا عادی بنانے پر تلی ہوئی ہے۔
پان، چھالیہ اور سگریٹ فروخت کرنے والے ایک دکان دار نے بتایا کہ کھلے سگریٹ اب بھی دستیاب ہیں۔ ’’ہم صرف جاننے والے افراد کو کھلے سگریٹ دیتے ہیں۔‘‘
میں ذاتی طور پر ایسے کئی دکان داروں کو جانتا ہوں جو پابندی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مہنگے داموں کھلے سگریٹ فروخت کررہے ہیں۔ ایک دکاندار نے بتایا ’’جو سگریٹ پہلے سات روپے کا بکتا تھا، پابندی عائد ہونے کی وجہ سے دس روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ یوں ایک کھلی ڈبی پر ساٹھ روپے بچتے ہیں۔ اس سے پہلے گٹکا، مین پوری اور مختلف ناموں سے فروخت ہونے والے ماوے بھی پابندی کے باعث زائد قیمت پر فروخت ہورہے ہیں جس سے ہمارا منافع ڈبل سے بھی زیادہ ہورہا ہے۔ حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے ہمیں فائدہ ہورہا ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ اس قسم کی اشیاء پر زیادہ سے زیادہ سختی ہو، ایسی پابندیاں ہمارے کاروبار کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔ سگریٹ کے عادی افراد ہر صورت میں سگریٹ نوشی کرتے ہیں، چاہے کھلا سگریٹ ملے یا انہیں پوری ڈبی ہی کیوں ناں خریدنی پڑے۔‘‘
حکومت کے اس اقدام سے پولیس کی کمائی کے ایک اور در کا اضافہ ہوگیا ہے، یہ سب کچھ قانون کے رکھوالوں کی آشیرباد سے ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض دھندے باز پولیس اہلکاروں نے اپنے ’’معاملات‘‘ سیدھے کرنا شروع کردئیے ہیں، جبکہ رہائشی علاقوں اور کچی آبادیوں میں سگریٹ فروشوں پر دھونس جمانا شروع کردی ہے۔ پولیس اہلکار ممنوع اشیاء کی تلاشی کے نام پر سگریٹ فروشوں کے کیبن کا سامان الٹ پلٹ کردیتے ہیں، اور اس دوران رقوم غائب کرنے کے واقعات بھی پیش آرہے ہیں۔ کئی مقامات پر سگریٹ فروشوں کو پولیس اہلکاروں کی جانب سے زدوکوب بھی کیا گیا ہے۔
حکومت جتنے چاہے قوانین بنا لے، ان پر عمل درآمد پولیس کو ہی کروانا ہوتا ہے۔ یہاں تو ’پیسہ پھینک تماشا دیکھ‘ چلتا ہے۔
جب گٹکا، مین پوری، ماوا اور سگریٹ بازاروں میں بآسانی بلیک میں مل رہے ہوں تو حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کو کیا نام دیا جائے؟ اس ساری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اگرحکومت کو اپنے شہریوں کی صحت کا اسی قدر خیال ہے تو وہ سگریٹ پر مکمل پابندی کیوں نہیں عائد کردیتی؟
اگر ایسا نہیں تو ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ اس پابندی کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں، اس کی حقیقت جاننے کے لیے ہمیں پچھلے سال پیش کیے جانے والے بجٹ پر نظر ڈالنا ہوگی۔ 2017ء کے وفاقی بجٹ میں حکومت نے سگریٹ پر ٹیکس کی مد میں 70 ارب 30 کروڑ روپے کا ہدف مقرر کیا تھا۔ کھلے سگریٹ کی فروخت پر پابندی سے سگریٹ زیادہ بِکیں گے تو ظاہر ہے کہ حکومت کو آمدن بھی زیادہ ہوگی۔
مالی سال 2016ء کے بجٹ میں سگریٹ انڈسٹری سے محصولات کا تخمینہ 111 ارب روپے تھا، تاہم اس میں سے 40 ارب روپے کم وصول ہوئے۔
ایف بی آر کے مطابق اس وقت مارکیٹ میں 41 فیصد سگریٹ بغیر ٹیکس ادائیگی کے فروخت ہورہے ہیں۔ اگر انہیں بھی کسی طرح ٹیکس نیٹ میں شامل کرلیا جائے تو سوچیے حکومت کی ’آمدن‘ کہاں تک پہنچے گی؟
ایک سروے کے مطابق 38 فیصد تمباکو نوش 6 سے 7 سگریٹ روزانہ پیتے ہیں۔ 27 فیصد لوگ 11 سے 15 سگریٹ، 23 فیصد ایک سے 5، جبکہ 7 فیصد لوگ 16 سے 20 سگریٹ روزانہ پیتے ہیں۔ ایک سے زائد ڈبی پینے والوں کی تعداد 2 فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔ کھلے سگریٹ پر پابندی کے بعد اب 93 فیصد لوگوں کو بھی ڈبیاں خریدنا ہوں گی۔
بجٹ میں دیے گئے اہداف صاف بتارہے ہیں کہ یہ سارا کھیل صحت سے زیادہ عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے کے لیے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر شہری حکومت کی جانب سے کھلے سگریٹ کی فروخت پر عائد کی جانے والی پابندی کے فیصلے کو غیر منطقی قرار دے رہے ہیں۔

حصہ