پاکستان سے شکست کا خوف، بھارت کا ایشیا کپ کی میزبانی سے انکار

187

راشد عزیز
ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے دورئہ پاکستان کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ میں پاکستان کے دوبارہ سرگرم ہونے اور پاکستان میں غیر ملکی ٹیموں کے دورے کے امکانات روشن تو ہوئے ہیں لیکن کیا بھارت صبر و سکون سے ایسا ہونے دے گا؟ کیا وہ برداشت کرسکتا ہے کہ ماضی کی طرح پاکستان ایک بار پھر عالمی سطح پر ایک کامیاب اور مقبول ٹیم بن کر اُبھرے اور نہ صرف پاکستانی ٹیم دنیائے کرکٹ کی صف اوّل کی ٹیموں سے اُن کے گرائونڈز پر جا کر مقابلہ کرے بلکہ جواباً وہ ٹیمیں بھی پاکستان کے گرائونڈز کو رونق بخشیں۔ ان سوالوں کا جواب صرف اور صرف ایک ہے کہ بھارت کی پوری کوشش ہوگی کہ جس حد تک ممکن ہو پاکستان کو تنہا کیا جائے اور اس کی تازہ مثال بھارت کا ایشیاء کپ کی میزبانی سے انکار ہے۔
پروگرام کے مطابق ایشیاء کپ اس سال ستمبر میں ہوگا اور اس ٹورنامنٹ کی میزبانی کی پیشکش بھارت کو کی گئی تھی لیکن چونکہ ٹورنامنٹ میں بھارت کا سب سے بڑا حریف پاکستان ہے اور تنگ نظر اور ازلی دشمن بھارت دنیا کی کسی بھی ٹیم کو برداشت کرسکتا ہے پاکستان کو نہیں۔ اور خاص طور پر ایسی صورت میں جبکہ اسے پاکستان کے ہاتھوں شکست کا نہ صرف خدشہ بلکہ یقین ہو اور اس شکست کے نتیجے میں اپنی قوم کے غم و غصے اور شدید ردِعمل کا خوف بھی ہو تو پھر ایسے میں وہ کسی ایسے ٹورنامنٹ کے انعقاد کا خطرہ کیسے مول لے سکتا ہے۔ 10 اپریل کو کوالالمپور میں ایشین کرکٹ کونسل کے سالانہ اجلاس میں بھارت کے انکار کے بعد یہ میزبانی متحدہ عرب امارات کو دے دی گئی جہاں یہ مقابلے 13 سے 28 ستمبر تک ہوں گے۔ ان مقابلوں میں پاکستان، بھارت، سری لنکا، بنگلادیش اور افغانستان کے علاوہ ہانگ کانگ، ملائیشیا، نیپال، سنگاپور اور متحدہ عرب امارات میں کوئی ایک ٹیم کوالیفائر رائونڈ کھیل کے اس ٹورنامنٹ میں حصہ لے گی۔
متحدہ عرب امارات کی جانب سے ایشیاء کپ کے انعقاد کی پیشکش بھی بھارت کی بڑی ناکامی ہے کیونکہ نا چاہتے ہوئے بھی اسے پاکستان سے مقابلہ کرنا ہوگا اور ٹورنامنٹ میں اسے سب سے بڑا خطرہ پاکستان ہی سے لاحق ہے۔ حالانکہ گزشتہ دہائی میں جبکہ سری نکا کی ٹیم پر لاہور میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد پاکستان کرکٹ سخت مسائل سے دوچار رہی ہے اور انٹرنیشنل کرکٹ کے ساتھ ساتھ ڈومیسٹک کرکٹ کو بھی بہت نقصان ہوا ہے۔ اس کے مقابلہ میں بھارت کو آئی پی ایل کے انعقاد سے اپنی ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچہ کو مضبوط کرنے اور نئے ٹیلنٹ کو دریافت کرنے میں بڑی مدد ملی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں نئے اور باصلاحیت کھلاڑیوں کی بڑی کھیپ موجود ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ صلاحیتوں کے باوجود بھارتی ٹیم پاکستانی ٹیم سے مقابلہ کرنے سے ڈرتی ہے اور اسی ڈر اور خوف کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان برسوں مقابلے نہیں ہوئے۔
انگلینڈ اور آسٹریلیا کی طرح سے پاکستان اور بھارت روایتی حریف ہیں اور تمام تر سیاسی کشیدگی اور تنازعات کے باوجود دونوں ممالک کے عوام نے کرکٹ کے مقابلوں کو ہمیشہ سراہا ہے اور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے لیکن بار بار بھارت نے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر پاکستان جانے یا پاکستانی ٹیم کو اپنے ملک بلانے سے اعتراز کیا۔
تقسیم ہند کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان پہلی سیریز 1952-53 میں کھیلی گئی جبکہ عبدالحفیظ کاردار کی زیر قیادت پاکستانی ٹیم نے بھارت کا دورہ کیا۔ اگلے برس بھارتی ٹیم نے وینو مشکڈ کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کیا پھر 5 برس تک تعطل رہا۔ 1960-61 میں فضل محمود کی زیر قیادت پاکستانی ٹیم بھارت گئی اور پھر ایک عرصہ تک دونوں ممالک کے درمیان کوئی سیریز نہیں ہوئی۔ 18 برس بعد 1979ء میں ایک بار پھر دونوں ممالک کی کرکٹ کا احیاء ہوا اور پھر وقفہ وقفہ سے یہ سلسلہ جاری رہا اور پھر آخری بار 2012ء میں پاکستانی ٹیم بھارت گئی جہاں اس نے میزبان ٹیم کو ون ڈے سیریز میں ایک کے مقابلے میں دو میچوں سے شکست دی جبکہ ٹی 20 سیریز ایک ایک میچ سے برابر رہی اور اب 6 برس ہونے کو آئے ہیں یہ سلسلہ ایک بار پھر منقطع ہے۔
بھارت پاکستان سے دوطرفہ کرکٹ سے لاکھ انحراف کرے لیکن بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں ان دونوں ٹیموں کا مقابلہ تو ہوگا مثلاً ستمبر 2018ء میں دبئی، شارجہ کے ایشیاء کپ میں دونوں ٹیمیں مدمقابل ہوں گی اور دونوں ہی ٹیموں کے لیے یہ بڑا امتحان ہوگا۔ بھارت کی روایتی بزدلی اپنی جگہ لیکن ہمیں یہ سوچ کر تیاری کرنی ہوگی کہ محدود اوورز کی کرکٹ میں بھارت اب بہت آگے نکل چکا ہے۔ آئی پی ایل کے مقابلوں کے بعد ان کے یہاں بڑی تعداد میں اچھے اور باصلاحیت آل رائونڈرز بیٹسمین اور بولرز کی کھیپ تیار ہوچکی ہے اور جس طرح بھارتی ٹیم سب سے زیادہ اگر کسی ٹیم سے ہارنے سے ڈرتی ہے تو وہ پاکستان ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستانی کھلاڑیوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ کسی بھی ٹیم سے ہارنے پر انہیں اس غصے اور شدید ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جتنا کہ بھارتی ٹیم سے ہارنے پر۔ لہٰذا اس ہزیمت سے بچنے کی تیاری ابھی سے کرلینی چاہیے۔

حصہ