دل ہے کہ مانتا نہیں

313

فارحہ شبنم
بات تو بہت چھوٹی سی تھی مگر دیارِ غیر میں بعض اوقات دل بلا وجہ ہی ضرورت سے زیادہ حساس ہوجاتا ہے۔ اب دل کو سمجھاتا رہے انسان کہ یہ ناراض ہونے والی بات نہیں ہے، اتنی معمولی بات پر قیمتی جذبات کو نہ ضائع کرو… مگر آنکھیں ہیں کہ بھل بھل آنسوئوں سے بھری جا رہی ہیں جنہیں شوہر اور بچوں سے چھپ چھپ کر پونچھنا بھی دشوار، اور آواز بھرّا جانے کی وجہ سے پیٹھ موڑ کر بات کرنا بھی مشکل۔ ’’یااللہ کیا ہوگیا ہے مجھے؟‘‘ اسماء نے دل میں سوچا۔ صبر اور درگزر کی ساری حدیثیں اور آیات جو درس اور تذکیر میں سنی اور سنائی ہوں گی اب عملاً عقبہ (مشکل گھاٹی) نظر آرہی تھیں۔
ارے ارے، آپ زیادہ پریشان نہ ہوں، میں سسپنس ختم کرتی ہوں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اسماء اپنے شوہر کو اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت سمجھتی تھی۔ بہت کم ڈیمانڈز اور اس سے بھی کم اعتراضات کرنے والے۔
اسما کی بھی کوشش ہوتی تھی کہ گھر میں تمام کام اُن کی مرضی اور خواہش کے مطابق ہوں۔ بچوں کو حفظ ِالقرآن، ہوم اسکولنگ، صحت مندانہ کھیل، متوازن غذا، جنک فوڈ اور اسکرین کا محتاط استعمال، نماز عشاء کے بعد درسِ حدیث… غرض تمام سلسلوں میں ہی Initiative اس کے شوہر کا ہوتا اور اسماء ان چیزوں کو سب کے حق میں دنیا اور آخرت کے لحاظ سے بہترین جانتے ہوئے پورا کرنے کے لیے اپنے تئیں کوشاں رہتی تھی۔ اُس کے شوہر اس سلسلے میں اُس کے قدردان تھے۔ جس دن کا ذکر ہے اُن دنوں اس کے شوہر نظام ہضم کی کچھ خرابی کی وجہ سے فیملی ڈاکٹر کی تجویز کردہ اینٹی بائیوٹک کے دو کورسز بیک وقت لے رہے تھے۔ ایک دوائی، کھانے سے آدھے گھنٹے قبل اور ایک کھانے کے فوراً بعد۔ شام کے وقت آفس سے نکلنے سے پہلے خالی پیٹ ایک دوائی لے کر نکلتے تھے اور دس، بارہ منٹ کی ڈرائیو کرکے گھر پہنچتے تو جتنی دیر میں فریش ہوکر ٹیبل پر آتے، اتنی دیر میں اسماء کھانا گرم کرکے ٹیبل سیٹ کرچکی ہوتی تھی۔ اس دن معمول سے کچھ جلدی گھر واپس آنے پر اسماء نے سلام دعا اور حال چال کے بعد پوچھ لیا ’’کیا کھانا لگا دوں؟‘‘ جواب کی آواز نہ آنے پر اسماء میاں کو بیڈ روم کی طرف جاتے دیکھ کر بچے کا ہوم ورک دیکھنے میں مصروف ہوگئی۔ ذرا دیر کے بعد کچن سے برتنوں کے کھنکنے کی آواز آئی تو کچن میں گئی، دیکھا کہ شوہر صاحب خود کھانا نکال کر بیٹھے کھا رہے تھے۔ ’’ارے آپ نے بتایا نہیں، ورنہ میں کھانا لگا دیتی۔‘‘ اسماء نے کہا۔ ’’کیوں، آپ کو پتا نہیں کہ مجھے آفس سے واپسی پر فوراً کھانا چاہیے ہوتا ہے!‘‘ سپاٹ لہجے میں کہا گیا جملہ گویا اسماء کے دل کو چیر گیا۔
اب حالانکہ بچوں کی ہوم اسکولنگ اور حفظ القرآن کے ساتھ جُڑی مصروفیات کے باوجود وقت نکال کر اہتمام سے ان کا پسندیدہ چنے کی دال گوشت اور تازہ روٹیاں پکائی تھیں کہ جیسے ہی آئیں، کھانا تیار ہو۔ مگر آج اسماء کو ایسا لگا کہ جیسے اس کی ساری تیاری ضائع ہوگئی ہو، اور وہ بمشکل نظریں چرا کر کچن سے باہر نکل گئی۔ بس اس کے بعد سے اسماء کا دل بوجھل تھا۔ ’’ایک جملہ کہنے میں کیا جارہا تھا! پوچھا بھی تو جواب نہیں دیا۔ بتا دیتے کہ فوراً کھائیں گے، مگر…‘‘ اب ایسے دل کو کون سمجھائے جو بلاوجہ ہی رونے کے بہانے تلاش کررہا ہو۔
رات کو اسماء نے سارے کام نمٹاکر بیڈ روم کے لیے سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں تو دل ناراضی کا اگلا بہانہ تلاش کرچکا تھا۔ چھوٹی بیٹی آج خلافِ معمول کچھ جلدی سوگئی تھی، لہٰذا اسماء نے اسے اوپر بیڈ روم میں لٹاکر دروازہ بند کردیا تھا تاکہ شور سے جاگ نہ جائے۔
اب بچوں کو رات کا کھانا کھلا کر جتنی دیر وہ کچن سمیٹ کر برتن دھوتی رہی، اوپر سے مسلسل شوخیوں اور قہقہوں کی آوازیں آتی رہیں۔ باپ بچے سب مل کر خوب چہلیں کررہے تھے اور اسماء دل ہی دل میں کھول رہی تھی، کیونکہ عموماً یہ محفل اس کے بیڈ روم میں لگتی تھی اور اسے ڈر تھا کہ کسی بھی وقت چھوٹی بیٹی شور سے اٹھ بیٹھے گی۔ رات کی اس محفل میں بیٹیاں باپ کی فرمائش پر اُن کے ہاتھوں پر لوشن لگانے کے ساتھ ساتھ زیرِ مطالعہ ناول کی اسٹوری سناتی تھیں، اور بیٹے بہنوں کے ساتھ باپ کی مشغولیت کا فائد اٹھاکر اسٹوری سننے کے ساتھ ساتھ ان کے موبائل پر گیمز کے اگلے مدارج طے کررہے ہوتے تھے۔ یہ تقریباً روزانہ کا معمول تھا جو بچوں کے ساتھ گویا طے شدہ تھا۔
سیڑھیاں اوپر چڑھتے ہوئے اسماء وہ الفاظ سوچ رہی تھی جو بچوں کے بہانے میاں کو سنا کر دل کی بھڑاس نکال سکے، کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اتنے شور میں چھوٹی بیٹی اب تک اٹھ چکی ہوگی۔ اوپر کے فلور پر پہنچنے پر پتا چلا کہ محفل آج لڑکیوں کے کمروں میں لگی تھی۔ اس نے اطمینان کا سانس لے کر دانت صاف کیے اور موقع غنیمت جانتے ہوئے بستر پر سونے کے لیے لیٹ گئی۔
مگر ہائے ری قسمت… چھوٹے چھوٹے لکڑی کے گھر اور دروازے سے لگے دروازے… بچوں کی گفتگو کی آواز خودبخود اسماء کی توجہ اپنی جانب کھینچنے لگی اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی چور بن کر سننے لگی۔
بات ہورہی تھی اولمپک کے کسی زبردست ایتھلیٹ کی، جو دوڑ کے مقابلوں میں ریکارڈ پر ریکارڈ بنا رہا تھا۔ شاید بیٹیوں کی اسٹوری سنانے کی باری ختم ہوچکی تھی۔
’’کتنا زبردست رنر ہے یوسین بولٹ!‘‘ بڑے بیٹے کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
’’ہاں وہ تو ہر مقابلے میں ہی فرسٹ آتا ہے۔‘‘ چھوٹے بیٹے نے بھی اپنی معلومات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ بچوں کی ایسی ہی گفتگو جاری تھی کہ ان کے باپ کی آواز آئی ’’اچھا! ایک بات تو بتائو، اگر یوسین بولٹ کا ایک بھائی گوسین بولٹ ہو!‘‘ (یہ مزاحیہ اور خیالی نام سن کر بچوں کے قہقہے کی آواز آئی، اسماء نے بھی بمشکل اپنی ہنسی روکی)
’’کیوں… کیوں نہیں ہوسکتا؟‘‘ باپ بھی ہنسی ضبط کرتے ہوئے بولے۔
’’مگر ہے تو نہیں ناں‘‘۔ بچوں نے جواباً کہا۔
’’میں نے کب کہا ہے کہ اس کا بھائی گوسین بولٹ ہے؟ میں تو کہہ رہا ہوں کہ اگر اس کا بھائی گوسین بولٹ ہو، اور وہ یوسین بولٹ سے بھی تیز دوڑتا ہو مگر اولمپکس میں حصہ نہ لے تو کیا وہ اولمپک ونر بن سکتا ہے؟‘‘
دونوں بیٹے ہنستے ہوئے یک زبان ہوکر بولے ’’نہیں! جب اولمپکس میں حصہ ہی نہیں لیا تو ونر کیسے ہوگا؟‘‘
’’بیٹا! بالکل اسی طرح یہ بھی یاد رکھو کہ دنیا میں جو کام بھی ہم صرف اللہ کی خوشی کے لیے کرتے ہیں صرف اسی کا اجر ہمیں آخرت میں ملے گا۔ اگر ہم اللہ کو خوش کرنے کے مقابلے میں شامل ہی نہ ہوںگے تو پھر ہمیں مرنے کے بعد اس کا کوئی بدلہ نہیں ملے گا۔ ہمارا وہ عمل دنیا میں ہی ختم ہوجائے گا۔‘‘
’’مگر بابا جان! بل گیٹس تو ملینز میں ڈونیٹ کرتا ہے، کیا اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا؟‘‘ چھوٹے بیٹے نے حیرانی سے سوال کیا۔
’’بیٹا وہ کتنا بھی ڈونیٹ کردے لیکن اگر وہ اللہ کو خوش کرنے کے مقابلے میں شامل ہی نہیں ہوا تو ونر کیسے ہوگا! ہاں اگر وہ اللہ کی خوشی کے لیے خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کو بدلہ دیں گے۔‘‘
بابا، کچھ لوگ ٹیکس بچانے کے لیے بھی تو ڈونیٹ کرتے ہیں ناں؟‘‘ بیٹی نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
’’ہاں بیٹا! لوگ مختلف نیتوں سے ڈونیٹ کرتے ہیں۔ کوئی دوسروں کو Ipmress کرنے کے لیے دیتا ہے کہ دیکھو ہم کتنا دینے والے ہیں، کوئی دوسروں کی اس لیے مدد کرتا ہے کہ وہ اس کے احسان مند بن کر اس کی عزت کریں، کچھ اس لیے دیتے ہیں کہ انہوں نے کمایا ہی غلط طریقے سے ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح اُن کا ڈونیٹ کرنا اُن کا گناہ ختم کردے گا۔ مگر بیٹا یاد رکھنا، اللہ کو حلال کی کمائی سے صرف وہی مال اچھا لگتا ہے جو اللہ کو خوش کرنے کی نیت سے دیا گیا ہو، اور جو صرف اللہ کی خوشی کے لیے مال خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ ضرور اس کا اجر محفوظ رکھتا ہے۔‘‘
’’بابا جان! امی تو بتا رہی تھیں کہ گھر والوں پہ بھی مال خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کو اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’ہاں بیٹا! آپ کی امی نے بالکل صحیح بتایا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سب سے بہترین صدقہ وہ ہے جو ایک مسلمان اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے۔ اچھا اب ذرا بھاگ کر جائو اور دیکھ کر آئو کہ امی نے برتن دھو لیے، اور بچیو! تم لوگوں سے میں نے کہا کہ جس دن برتن زیادہ ہوں تو ڈش واشر لگا دیا کرو، تمہاری امی کے مدد ہوجائے گی، کتنا تھک جاتی ہیں وہ صبح سے کام میں لگے لگے۔‘‘
بیٹے کے قدموں کی آواز آئی اور اسماء کمبل میں آنکھیں بند کرکے ساکت لیٹی رہی۔ وہ الٹے قدموں واپس پلٹ گیا۔ ’’بابا جان! وہ تو سو بھی گئیں۔‘‘
’’ارے سو گئیں؟ چلو بچو، پھر آپ لوگ بھی اب سونے کی تیاری کرو، ورنہ فجر میں اٹھنا مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘
لکڑی کے فرش پر کارپٹ کے باوجود بچوں کے چلنے پھرنے سے پیدا ہونے والی چرچراہٹ اور دانت صاف کرنے کے لیے اپنی باری کے انتظار کے ساتھ باتوں اور قہقہوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔
اسماء کا دل جو پہلے شوہرِ نامدار کی بے اعتنائی کے باعث بوجھل اور شکوہ کناں تھا، ان چند منٹوں میں ہلکا پھلکا ہوچکا تھا۔ بچوں کے لیے باپ کی نعمت، اور وہ بھی ایسا باپ جو آج کے دور میں ان کو دین اور دنیا دونوں کی بہترین رہنمائی دے سکے، ایک نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ اسماء کا دل شکر کے جذبات سے اور آنکھیں آنسوئوں سے لبریز تھیں، مگر اسے یقین تھا کہ یہ آنسو اللہ کی بارگاہ میں بہت قیمتی ہوں گے کیونکہ یہ دل کی گہرائیوں سے صرف اللہ کے احسان کا احساس کرکے نکلے تھے۔

حصہ