جذبے کی قوت

286

صدف عنبرین
’’یہ دیس ہمارا ہے، اسے ہم نے سنوارا ہے، یہ دیس ہمارا ہے…‘‘ سمعیہ ٹیبلو کے لیے لڑکیوں کو تیز تیز آواز میں ہدایات دے رہی تھی۔ کالج میں ہونے والی ’’یومِ پاکستان‘‘ کی تقریب کے لیے سمعیہ بڑے جوش و خروش سے تیاری کررہی تھی۔
ایک اس کی تقریر تھی، ایک ٹیبلو تھا اس کے پسندیدہ قومی نغمے پر، جس کی تقریباً ساری تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔ ’’ماہرہ! تم ڈاکٹر بنو گی، لیب کوٹ اس دن ضرور لانا۔ اور ہاں رائنہ! تمہیں کالا گائون مل گیا؟ اس کے بغیر معلوم نہیں ہوگا کہ تم وکیل بن رہی ہو… اور تم ماہین؟‘‘ سمعیہ نے اب اپنی کلاس کی سب سے ماڈرن لڑکی کو مخاطب کیا۔ ’’میں ماڈل بنوں گی، آخر ملک کا نام فن کار ہی روشن کرتے ہیں، دوسرے ملکوں میں جاکر پُرفارمنس دیتے ہیں، جیسے عمارہ خان…‘‘
’’بس بس… ٹھیک ہے…‘‘ سمعیہ نے اُس کی بات کاٹی ’’مگر تم ڈریسنگ کیسی کرو گی؟ تمہیں معلوم ہے ناں، میڈم ایسی ویسی ڈریسنگ پر تم کو اسٹیج پر ہی چڑھنے نہیں دیں گی۔‘‘ سمعیہ نے اس کو کالج کی پرنسپل کا ڈراوا دیا جو واقعی کالج کے نظم و ضبط کے علاوہ لڑکیوں کی ڈریسنگ کے معاملے میں بھی بہت محتاط رہتی تھیں۔
’’ہاں ہاں… مجھے معلوم ہے۔ میں تو پہنتی ہی برانڈ ہوں، کوئی سا بھی اسٹائلش سوٹ پہن آئوں گی۔‘‘ ماہین نے قدرے اتراتے ہوئے جواب دیا۔
’’ٹھیک ہے پھر شروع کرو پریکٹس۔‘‘ سمعیہ ابھی کہہ ہی رہی تھی کہ سیکنڈ ایئر کی نمرہ کے گروپ کی تیز آواز اس کے کانوں میں آئی:
’’یہ وطن ہمارا ہے،اسے ہم نے بگاڑا ہے…
کرپشن اس میں پھیلایا ہے، اندھیروں میں ڈُبایا ہے
یہ وطن ہمارا ہے… اسے ہم نے بگاڑا ہے…‘‘
نمرہ اور اس کا پورا گروپ کورس میں گا رہا تھا… ہا… ہا… ہا۔ سب لڑکیاں ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس رہی تھیں۔ سمعیہ نے بمشکل غصہ ضبط کیا اور ان کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی۔
’’چلو بھئی تم لوگ کیوں جم گئے ہو؟ پریکٹس شروع کرو۔‘‘ اس نے رائنہ، عمارہ کو ٹہوکا دیا۔
’’ہاں… ہاں…‘‘ دونوں بے ساختہ مڑیں۔
’’یہ وطن ہمارا ہے… اسے ہم نے بگاڑا ہے…
کچرے سے سجایا ہے… خون میں نہلایا ہے…
یہ وطن ہمارا ہے… اسے ہم نے بگاڑا ہے…‘‘
نمرہ کو اپنی شرارت پر سمعیہ کی اتری ہوئی شکل دیکھ کر مزا آنے لگا تھا۔
’’کیا ہوگیا ہے آپ لوگوں کو… ہاں! آپ کالج کی سینئرز ہیں اور اس طرح ہمیں ہرٹ کررہی ہیں! یہ پروگرام تو آپ کو کرنے چاہیے تھے۔‘‘ سمعیہ آخرکار نہ چاہتے ہوئے بھی نمرہ سے الجھ پڑی۔
’’ہم ایسے تصوراتی پروگرام نہیں کرتے۔ سچ بولو… سچ۔ کیا یہ ہے حقیقت؟ کیا سنوارا ہے بھئی تم نے وطن کو؟ ہونہہ۔ میں تو تقریر کررہی ہوں یومِ پاکستان پر کہ ’’کیا ہم آزاد وطن کے اہل ہیں؟‘‘
نمرہ نے تڑخ سے جواب دیا اور اٹھ کر چل دی۔ سمعیہ سمیت سارے گروپ کا ہی موڈ آف ہوچکا تھا۔ اب پریکٹس کا بھی دل نہیں چاہ رہا تھا، سو سب ہی اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔
…٭…
’’کیا ہوا بیٹا، جب سے کالج سے آئی ہو چپ چپ ہو؟‘‘ سمعیہ کی امی جائے نماز تہہ کرتے ہوئے سمعیہ کے قریب ہی بیٹھ گئیں جو کالج سے آنے کے بعد نماز پڑھ کر بستر پر آلیٹی تھی۔
’’طبیعت تو ٹھیک ہے؟ کھانا کیوں نہیں کھا رہیں؟‘‘ امی نے ماتھے کو چھوتے ہوئے پوچھا۔
’’جی امی! طبیعت ٹھیک ہے۔‘‘ سمعیہ کی نمی میں ڈوبی آواز ہی ان کے لیے کافی تھی۔ انہوں نے سمعیہ کو اپنے قریب کیا ’’پھر بیٹا؟‘‘ سوالیہ نظروں سے وہ اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھیں۔
’’امی! ہم نے اس وطن کو دیا ہی کیا… سوائے کرپشن، بے ایمانی، دھوکا اور گندگی کے؟ آزادی کا دن مناتے ہوئے ہم جوش و خروش سے تقریریں کرکے، جھنڈیاں لہرا کر سمجھتے ہیں کہ اپنا حق ادا کردیا، لیکن جب پڑھ لکھ جائیں گے تو اس وطن کو گالیاں دیتے ہوئے پردیس میں زیادہ کمانے کی ہوس میں چل نکلیں گے۔‘‘ سمعیہ تواتر سے یوں بول رہی تھی جیسے ابھی بھی صدمے کی کیفیت میں ہی ہو۔
’’ٹھیک کہہ رہی ہو بیٹا! مگریہ احساس ہی ہمارے لیے بہت ہے کہ ہمیں اس وطن کے لیے کچھ کرنا ہے۔ یہ سوچنا آپ کا کام ہے کہ ہم اس وطن کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔‘‘ سمعیہ کی امی نرمی سے اس کو سمجھا رہی تھیں۔ امی نے سمعیہ کو سوچنے کا نکتہ دے دیا تھا۔
…٭…
کالج کے آڈیٹوریم میں پروگرام شروع ہوچکا تھا۔ اگلی صف میں کالج کی پرنسپل کے ساتھ وزیر تعلیم کی ڈپٹی سیکریٹری بیٹھی ہوئی تھیں جو اس کالج کی صفائی ستھرائی اور نظم و ضبط سے بہت خوش نظر آرہی تھیں۔ پورا آڈیٹوریم ہی کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔
تھرڈ ایئر کی شاہین جو پروگرام کی کمپیئرنگ کررہی تھی، اس کی آواز ملّی نغمہ ختم ہوتے ہی گونجی ’’بہت خوب… اب میں دعوت دوں گی اس کالج کی نئی پود یعنی فرسٹ ایئر کی سمعیہ، ماہین، عمارہ اور رائنہ کو کہ وہ آکر ٹیبلو پیش کریں۔‘‘
سمعیہ مکمل اعتماد سے مائیک سنبھال کر اسٹیج کے کنارے کھڑی ہوگئی، باقی تینوں لڑکیوں کے کالر پر مائیک لگے ہوئے تھے۔ نغمہ ڈیک پر چلا دیا جاتا ہے:
’’یہ دیس ہمارا ہے… اسے ہم نے سنوارا ہے…
یہ دیس ہمارا ہے…‘‘
ماہرہ سفید کوٹ میں اسٹیتھواسکوپ لگائے بڑے اسٹائل سے آکر کھڑی ہوجاتی ہے، پھر رائنہ کالے گائون میں آکر اس کے برابر میں کھڑی ہوجاتی ہے۔ ابھی ماہین اپنی لانگ میکسی سنبھالتی کیٹ واک کرتی آرہی ہوتی ہے کہ سمعیہ کی آواز گونجتی ہے:
’’کیا واقعی یہ حقیقت ہے؟ ہم نے سنوارا ہے یہ وطن…؟ کیا دیا ہے ہم نے اس وطن کو؟ یہ سفید کوٹ، کالا گائون، یہ دولت و شہرت تو اس وطن نے ہمیں عطا کی ہے، اپنے وسائل ہم پر خرچ کرکے ہمیں یہ علم اور فخر دیا، مگر ہم نے اس وطن کو کیا دیا ہے؟‘‘
سمعیہ کی ٹھیری ٹھیری آواز ہال میں موجود ہر فرد کو جھنجھوڑ رہی تھی۔ ڈیک کی آواز اُس کے اشارے پر کم کردی گئی تھی۔
نمرہ اور اس کی ساتھی لڑکیاں آنکھیں پھاڑے سمعیہ کو دیکھ رہی تھیں، فرسٹ ایئر کو فول بنانا تو خیر ایک مزاح تھا، مگر اتنی بڑی تقریب میں اس طرح کے مذاق کا تو وہ بھی نہیں سوچ سکتی تھیں۔
اچانک عمارہ نے جواب دیا ’’میں دوں گی اس وطن کو اپنی خدمت غریبوں کا مفت علاج کرکے۔‘‘
’’میں اتاروں گی قرض پیارے وطن کا، میری بے لوث محنت بلا معاوضہ ضرورت مندوں کے لیے‘‘۔ رائنہ نے آگے بڑھ کر ہاتھ ہلایا۔
’’میں پہنوں گی اب اپنے ملک کے تیار کردہ کپڑے، میرے ملک کا ہنر اِن ٹیگ (Tags) سے زیادہ قیمتی ہے جو قیمتیں بڑھاتے ہیں اور ملک کی مصنوعات کی ویلیو بھی گراتے جاتے ہیں‘‘۔ ماہین نے گلے میں پڑے خوب صورت سندھی کڑھائی کے دوپٹے کو کہتے کہتے سر سے اوڑھ لیا۔
’’اور کوئی؟ اور کوئی ہے جسے ملک کو سنوارنا ہے؟ اپنی تجاویز سے، اپنے ہنر سے…‘‘ سمعیہ کا رُخ اب ہال کی جانب تھا۔
’’جی میں…‘‘ فورتھ ایئر کی ایک طالبہ کھڑی ہوئی۔ سمعیہ جھٹ اُس کے پاس مائیک لے گئی۔
’’جی، میں رکھوں گی اپنی گلی میں بڑا سا ڈسٹ بن، اور بچوں کو کہوں گی کہ اس میں کچرا ڈالیں، اور اپنے جیب خرچ سے کچرے والے سے وہ کچرا روز اٹھوائوں گی۔‘‘
جی… میں بھی۔‘‘ ساتھ ہی سیکنڈ ایئر کی شازیہ کھڑی ہوگئی۔
’’اور ہم بھی…‘‘ اب سمعیہ پچھلی سیٹوں کی جانب بڑھ رہی تھی۔ پیچھے بیٹھی لڑکیاں موبائل آف کرکے بیگ میں ڈال رہی تھیں۔
’’ہم استعمال کریں گے موبائل صرف ضروری کال کرنے کے لیے۔ ہمارا فارغ وقت ’’نیٹ‘‘ کے لیے نہیں ہوگا، بلکہ فارغ وقت میں ہم کم از کم ایک غریب بچے کو پڑھائیں گے‘‘۔ چاروں لڑکیاں عزم کے ساتھ کھڑی تھیں۔ ’’اور میں بھی…‘‘ نمرہ نے ہاتھ اٹھایا۔ ’’میں اپنے بڑوں سے دیانت دار اور امین قیادت کے انتخاب کے لیے کہوں گی تاکہ ملک محفوظ اور ہم ترقی کی منزلیں طے کریں‘‘۔ نمرہ ایک عزم سے کہہ رہی تھی۔
تقریباً ہر لڑکی ہاتھ اٹھائے کھڑی تھی۔ ہر ایک کے پاس تجویز تھی، کیونکہ سب کے پاس جذبہ اور خلوص تھا۔ سمعیہ کے ساتھ سب نے پاکستان کو سنوارنے کا عہد کیا۔

انتخابات ، سید مودودی ؒ کے قلم کی روشنی میں

حمیرا خالد
جماعت اسلامی جس ملک میں کام کررہی ہے، اس کے حالات کے لحاظ سے جو طریقۂ کار اختیار کیا ہے اُس کے دو جز ہیں، لوگوں تک ایک کھلی اور اعلانیہ دعوت دینا۔ اصلاحِ معاشرہ کا دائمی کام کرنا، خواہ انتخابات ہوں یا نہ ہوں۔ لوگوں میں اسلامی نظام کی طلب پیدا کرنا۔ صالح اور غیر صالح کی تمیز دینا۔ ان کو یہ شعور دینا کہ ملک کی بھلائی اور برائی کے ذمے دار وہ خود ہیں۔ ان میں اتنی اخلاقی طاقت اور سمجھ بوجھ پیدا کرنا کہ وہ دھوکے، دھاندلی کا مقابلہ کرسکیں اور اپنے ووٹ کا صحیح طور پر استعمال کریں۔
یہی سارے کام ہم انتخابات میں حصہ لے کر کرتے ہیں، کیونکہ انتخابات سے الگ رہ کر آپ عقائد، اخلاق اور معاملات کی اصلاح کا کام تو کر سکتے ہیں لیکن صالح قیادت کو اوپر لانے کے لیے ووٹروں کی سیاسی تربیت دراصل انتخابات میں حصہ لیے بغیر نہیں ہوسکتی۔ ووٹروں کو فاسد اور نااہل امیدواروں کے حوالے کرکے، اُن کے لیے میدان خالی چھوڑ کر آخر انتخابی عمل کی اصلاح کیسے ہوگی؟ جب نااہل کے مقابلے میں اہل، اور فاسد کے مقابلے میں صالح موجود نہیں ہوگا تو ووٹر کے لیے صالح اور غیر صالح کے درمیان تمیز کیسے پیدا ہوگی؟ رہی یہ بات کہ چند نشستیں حاصل کرنے کا فائدہ کیا ہوگا؟ میں عرض کروں گا کہ اس سے بہت کچھ حاصل ہوگا۔ اب تک آپ صرف پبلک میں آواز اٹھاتے رہے ہیں، ایوانِ حکومت میں آپ کی کوئی آواز نہیں ہے۔ وہاں پہنچ کر آپ کی آواز دونوں جگہ ہوگی۔ آپ کے چند لوگ بھی جب اربابِ اقتدار کے سامنے کلمۂ حق کہیں گے تو غلط چیزوں پر صاف صاف تنقید کریں گے۔ دلیل کے ساتھ صحیح بات پیش کریں گے تو یہ آواز بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
نقطۂ آغاز تو لامحالہ یہی انتخابات ہوں گے، کیونکہ ہمارے ہاں اسی طریقے سے نظام حکومت تبدیل ہوسکتا ہے۔ حکمرانوں کو بھی بدلا جا سکتا ہے۔ کوئی دوسرا ذریعہ اس وقت ایسا موجود نہیں ہے جس سے پُرامن طریقے سے نظام حکومت کو بدل سکیں اور حکومت چلانے والوں کا انتخاب کرسکیں۔ ہوسکتا ہے کہ پہلے انتخاب میں ہم عوام کے طرزِ فکر اور معیارِ انتخابات کو بدلنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکیں۔ لیکن اگر انتخابی نظام درست رکھا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب نظامِ حکومت پورے کا پورا ایمان دار لوگوں کے ہاتھ میں آجائے گا۔ اس کے بعد نظامِ انتخاب پر نظرثانی کرسکتے ہیں اور اس مثالی نظامِ انتخابات کو ازسرنو قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جو اسلامی طریقے کے عین مطابق ہو۔ اہلِ حق کی اصل ذمے داری یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کو مٹادیں اور حق کو اس کی جگہ قائم کردیں، بلکہ ان کی اصل ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنی حد تک باطل کو مٹانے اور حق کو غالب و سربلند کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صحیح اور مناسب و کارگر طریقوں سے کوشش کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ یہی کوشش خدا کی نگاہ میں آپ کی کامیابی و ناکامی کا اصل معیار ہے۔ اس میں اگر آپ کی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہ ہو تو خدا کے ہاں کامیاب ہیں، خواہ دنیا میں باطل کا غلبہ آپ کے ہٹائے نہ ہٹے۔ شیطان کی پارٹی کا زورآپ کے توڑے نہ ٹوٹے۔ ایک قوم خود بددیانت اور بے ایمان کو چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ ان کو زبردستی نیک لوگ نہیں دیتا۔ ان نیک لوگوں کا اجر اللہ کے پاس ہے، وہ ناکام نہیں ہیں۔ مومن کا تو یہ کام ہے کہ اگر اس کے نافذ ہونے کا ایک فیصد امکان نہ ہو بلکہ ایک فی ہزار بھی امکان نہ ہو تب بھی وہ اس کے لیے جان لڑائے۔ اس راستے میں کوشش کرتے ہوئے جان دے دینا کامیابی ہے، اور کسی غلط راستے پر جاکر وزیراعظم یا صدر بن جانا کامیابی نہیں، کھلی ناکامی ہے۔
آپ دیکھیں کہ آپ کا فرض کیا ہے… امکان کی شرط کے ساتھ یہ کام نہیں کرنا، بلکہ اس سوچ کے ساتھ کہ اس کے سوا کوئی کرنے کا کام ہے ہی نہیں۔
نظام باطل کھوکھلا ہے۔ ان میں کوئی بھی دو لوگ ایک حوالے سے مخلص نہیں ہوتے۔ جب تک اللہ کی مشیت ہے ایسے لوگوں کو موقع ملتا رہتا ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قوم کو کوئی بھی چیز بچا سکتی ہے تو یہی نظامِ حق ہے۔ وہ یہاں مضبوط بنیادوں پر قائم ہو، قبل اس کے کہ خدا عذاب کا فیصلہ کردے کہ اس قوم کو زندہ نہیں رہنا چاہیے۔ (رسائل و مسائل، حصہ پنجم، تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل، خطباتِ یورپ)

حصہ