خیالی پلاؤ

1968

خالد ظفر
شیخ چلی ایک مشہور آدمی گزرا ہے جس کی بے وقوفی کی کہانیاں تم نے بھی سنی ہوںگی۔ ایک دن شیخ چلی بازار میں جارہاتھا کہ کسی سپاہی نے تیل کا کپا خریدا اور اسے بلا کر کہا ’’ارے میاں! یہ کُپّا اٹھا کر ہمارے گھر تک لے چلو‘ دو آنے مزدوری دیں گے۔‘‘
شیخ چلی نے ’’بہت اچھا‘‘ کہہ کر کُپّا تو سر پر اٹھا لیا اوردل میں خیالی پلائو پکانا شروع کیا کہ وہ دو انے ملیں گے تو ایک مرغی خریدوں گا اور پھر اس کے انڈوں میں سے بہت سے بچے نکلیں گے پھر انہیں بیچ کر ایک بکری لے لوں گا اس کے بچے بڑھتے بڑھتے بہت سے ہو جائیٍں گے تو انہیں بیچ کر ایک بھینس اور بھینس کو بیچ کر کچھ زمین خرید لوں گا۔ بیاہ ہوگا‘ کئی بال بچے بھی ہو جائیں گے میں جب کھیت پر سے بھینس کے لیے چارے کا گٹھا سر پر اٹھا کر گھر میں آیا کروں گا تو بچے ٹانگوں سے چمٹ جائیں گے کہ ابا آئے… ابا آئے… میں جھرک کر ہٹو ہٹو کہتا ہوا گٹھا زمین پر پٹخ دوںگا۔
یہ خیال آتے ہی شیخ نے تیل کے کپے کو چارے کا گٹھا سمجھ کر زمین پر دے اور تیل سارے کا سارا زمین پر گر گیا۔ تیل کے مالک نے کہا ’’ارے نالائق کیا بھنگ پیے ہوئے کہ دس روپے کا تیل گرا کر سب خاک میں ملا دیا۔‘‘
شیخ چلی نے جواب دیا ’’تم تو دس روپے کو روتے ہو‘ میرا سارا کنبے کا کنبہ غارت ہوگیا ہے۔‘‘

بادشاہ اور غریب میں فرق

ایک بادشاہ رحم دل اور نیک مزاج تھا مگر اس کا بیٹا اتنا بے رحم اور تلخ مزاج تھا کہ جب دیکھو غصے میں تیوری چڑھائے ہوئے نوکروں کو ڈانٹتا ڈپٹتا مارتا پیٹا ہی نظر آتا۔ بادشاہ کو یہ خبریں پہنچیں تو بہت رنج ہوا۔ اپنے بیٹے کو بہت سمجھایا مگر اس پر ذرا اثر نہ ہوا۔
تھوڑے عرصے بعد شہزادے کے ہاں لڑکا پیدا ہوا‘ اتفاق دیکھیے کہ اس کے خدمت گار کے گھر بھی عین اسی وقت لڑکا ہوا۔ بادشاہ نے محل میں جا کر دونوں لڑکوںکو ایک پلنگ پر لٹا دیا اور شہزادے کو بلا کر تم ان میں سے اپنا لڑکا پہچان لو۔
شہزادے نے دونوں لڑکوں کو ایک سا دیکھ کر جواب دیا میں تو نہیں پہچان سکتا۔
باپ نے کہا کیا غریب اور بادشاہ میں کوئی فرق نہیں۔
شہزادے نے کہا مجھے تو کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
باپ نے فرمایا بے شک کوئی فرق نہیں اور جب خدا نے کوئی فرق نہیں رکھا تو تم کیوں فرق رکھتے ہو۔
شہزادہ شرمندہ ہوگیا اور اس کے بعد نوکروں پر کبھی سختی نہ کی۔

حصہ