جشنِ ظہور الاسلام جاوید اور 13 واں عالمی اردو مشاعرہ

405

ڈاکٹر نثار احمد نثار
عرب امارات کی ایک اسٹیٹ دبئی میں ادبی شخصیات کے جشن منانے کی روایت نے ابوظہبی کو متاثر کیا اور یہاںبھی شعر و سخن کی معتبر ہستیوں کے لیے بعنوان جشن تقریبات پزیرائی کا سلسلہ شروع ہوگیا اسی تناظر میں گزشتہ دنوں پاکستان بزنس اینڈ پروفیشنل کونسل ابو ظہبی کے زیر اہتمام چیمبر آف کامرس آڈیٹوریم ابوظہبی میں جشنِ ظہورالاسلام جاوید منعقد کیا گیا جس کی صدارت سفیرِ پاکستان برائے عرب امارات معظم احمد خان نے کی جب کہ پروفیسر ڈاکٹر اوجِ کمال نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ عادل فہیم نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ ڈاکٹر اکرم شہزاد نے ظہور الاسلام جاوید کی تحریر کردہ نعت انتہائی خوش الحانی سے پیش کی۔ یہ پروگرام پانچ حصوں پر مشتمل تھا (جشن‘ دستاویزی فلم‘ مکالمہ‘ گائیگی اور 13 واں عالمی اردو مشاعرہ) مقررین میں ڈاکٹر سید قیصر انیس‘ ڈاکٹر کلیم قیصر‘ عباس تابش‘ ڈاکٹر ہادی شاہد‘ نسیم اقبال اور ڈاکٹر اوجِ کمال شامل تھے۔ اس پروگرام میں ظہورالاسلام جاوید پر ندیم اور مدثر کی تیار کردہ دستاویزی فلم پیش کی گئی جس کے اختتام پر حاضرین سے بھرا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اس موقع پر سفیرِ پاکستان برائے عرب امارات نے ظہورالاسلام جاوید کے فن و شخصیت پر ڈاکٹر کلیم قیصر اور اشفاق احمد عمر کی مرتب کردہ کتاب’’کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا کیا؟‘‘ کی رونمائی کی۔ (230 صفحات پر مشتمل اس دیدہ زیب و باتصویر کتاب میں 43 قلم کاروں کے مضامین شامل ہیں) اور پاکستان بزنس اینڈ پروفیشنل کونسل ابوظہبی اور اہلِ قلم متحدہ عرب امارات کی جانب سے ظہورالاسلام جاوید کو ان کی 45 سالہ عظیم الشان ادبی خدمات پر یادگاری شیلڈ پیش کی گئی۔
پروفیسر ڈاکٹر اوجِ کمال نے ظہورالاسلام جاوید کے بارے میں کہا کہ یہ 1965ء سے شعر کہہ رہے ہیں یہ ایک بلند حوصلہ شاعر ہیں جو خیالی دنیا میں نہیں رہتے بلکہ مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ثابت قدمی سے ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ ان کے مجموعہ کلام کا نام ’’موسم کا اعتبار نہیں‘‘ اردو ادب میںگراں قدر اضافہ ہے۔ یہ بنیادی طور پر انجینئر ہیں‘ پاکستان آرمی سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد 1974میں دبئی آگئے۔ انہوں نے حصولِ معاش کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے دن رات کام کیا اب یہ صورت حال ہے کہ 12 عالمی اردو مشاعروںکے آرگنائزر‘ صحافی اور شاعر ظہورالاسلام جاوید عرب امارات کی تمام ریاستوں میں منعقد ہونے والی ادبی تقریبات کی ضرورت بن گئے ہیں۔ انہوں نے 17 مئی 2002ء کو ابوظہبی میں پہلے عالمی اردو مشاعرے کا اہتمام کیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ نسیم اقبال نے کہا کہ بارہ عالمی اردو مشاعروں کے انعقاد کے دوران ظہور بھائی نے اپنے والد محترم انعام الرحمن انعام گوالیاری کی یاد میں دسواں عالمی اردو مشاعرہ کرکے ایک فرمانبردار بیٹے کا جو کردار ادا کیا ہے وہ قابل تقلید ہے ان کے اس اقدام پر تمام حاضرین نے ایک بار پھر کھڑے ہو کر تالیوں سے استقبال کیا۔ ڈاکٹر ہادی سید نے کہا کہ ظہور الاسلام جاوید نے ابوظہبی کو عالمی سطح پر اردو زبان و ادب کا مرکز بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عباس تابش نے کہا کہ ظہور الاسلام جاوید آسمانِ ادب کے مہرتاباں ہیں انہوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کی نذر کیا جو کہ قابل ستائش اقدام ہے۔ ان کی شاعری آسان فہم‘ دل کش اور انداز خوب صورت تراکیب‘ لاجواب تشبیہات‘ اخلاقی قدروں اور سماج درستی کی غماز ہے انہوں نے مزید کہا کہ ایک موقع پر جب عرب امارات میں اردو ادب کا چراغ ٹمٹانے لگا تھا۔ ظہور بھائی نے اسے طوفانی آندھیوں سے بچا کر نئی زندگی دی بالفاظ دیگر تنِ مردہ میں جان ڈال دی۔ ڈاکٹر کلیم قیصر نے کہا کہ ظورالاسلام جاوید ایک ادبی و علمی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں ان کے والد صاحب اردو ادب کے معتبر شاعر تھے‘ انہیں شاعری ورثے میں ملی ہے انہوں نے اپنے کلام میں بہت سے تجربوں کو نظم کیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے بھرپور زندگی گزاری ہے ان کے اشعار میں گیرائی‘ گہرائی‘ شگفتگی‘ شائشتگی اور کلاسیکیت ہے۔ ان کے کلام کے موضوعات میں جو جدت پسندی‘ تخلیقی صلاحیتیں اور صداقتیں دکھائی دیتی ہیں وہی انہیں اپنے ہم عصر شعرا سے ممتاز کرتی ہیں۔ یہ سستی شہرت کے قائل نہیں ہیں انہوں نے اپنی محنت اور قابلیت سے ادبی منظر نامے میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ ڈاکٹر سید انیس قیصر نے انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ظہور الاسلام جاوید گزشتہ چار دہائیوں سے متحدہ عرب امارات میں اردو ادب کی آبیاری کر رہے ہیں جس کے اعتراف میںآج ان کا جشن منایا جارہا ہے۔ میں انہیں تمام بزنس کمیونٹی کی جانب سے خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ظہور بھائی ہمہ جہت شخصیت ہیں‘ قادرالکلام شاعر ہیں‘ کامیاب نظامت کار ہیں اور بہترین منظم اعلیٰ بھی۔ انہوں نے دنیا کی مادیت پرستی‘ گلیمر کی نمود و نمائش‘ انسانی و اخلاقی اقدار کی بے قدری کو نہایت خوب صورت استعاروں اور جدید لفظیات کی شکل دے کر شاعری بنایا ہے۔ سفیر پاکستان معظم احمد خان کے صدارتی خطاب سے قبل 13 ویں عالمی اردو مشاعرے کے مجلے کی رونمائی کی گئی‘ اسپانسر کو نشاناتِ سپاس پیش کیے گئے اس موقع پر معظم احمد خاں (سفیر پاکستان) نے کہا کہ ظہورالاسلام جاوید عالمی سطح پر دنیائے ادب کا اہم نام ہے۔ انہوں نے زبان و ثقافت کی جو خدمت کی ہے وہ ایک ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ آج کا پروگرام ان کی خدمت میں ایک ہدیۂ تہنیت ہے۔ صاحب جشن نے اس موقع پر کہ کہ وہ تمام اہالیانِ امارات کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ جن کی محبتوں نے مجھے نیا عزم و حوصلہ بخشا انہوں نے پاکستان بزنس اینڈ پروریشنل کونسل ابو ظہبی کا شکریہ بھی ادا کیا کہ جن کے زیر اہتمام آج کا پروگرام کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ سامعین کے بے حد اصرار پر ظہورالاسلام جاوید نے دو غزلیں سنا کر خوب داد سمیٹی۔ اس تقریب کے ایک مرحلے پر ظہورالاسلام جاوید سے ایک مختصر مکالمہ ترتیب دیا گیا تھا جس کے ناظمین ڈاکٹر ہادی شاہد اور ترنم احمد تھیں جنہوں نے سوال و جواب کے ذریعے صاحب ِ جشن کی ادبی خدمات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ یہ سیشن بھی بہت پسند کیا گیا۔ ناظمین مکالمہ کے ایک سوال کے جواب میں ظہورالاسلام جاوید نے کہا کہ بعض اوقات مجھے ایسا محسوس ہوا ہے کہ وہ عالمی مشاعرہ نہیں کر پائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ میری مدد کرتا ہے اور وسائل فراہم کرتا ہے جس کے باعث میں اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کر لیتا ہوں۔ تقریب کا چوتھا دور معروف بھارتی گلوکارہ چھبی سکسینہ سہائی کی خوب صورت آواز میں ظہورالاسلام جاوید کی غزلیات کی گائیگی کا تھا۔ گلوکارہ نے تالیوں نے کی گونج میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے حاضرین کے دل جیت لیے۔ اس تقریب کے آخری دور میں پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کی صدارت میں اورڈاکٹر قیصر کی نظامت میں 13 واں عالمی اردو مشاعرہ منعقد ہوا اس موقع پر صاحبِ صدر نے کہا کہ ظہور الاسلام کی شخصیت میں ایک عجب طرح کی مقناطیسیت پائی جاتی ہے جو بھی ان سے ایک دفعہ ملتاہے ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ تہذیب و خلوص‘ سچائی اور استقامت سے گندھا ہوا یہ شخص خلیج کی ریاست ابوظہبی میں باکمال شاعری اور یادگار مشاعروں کی پہچان ہے۔ ان کے ہاں روایتی اورجدید رنگِ بیاں موجود ہے انہوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کو شاعری بنایا ہے۔ ان کی شاعری ایک دردمند‘ حساس اور ذہین آدمی کا اظہار ہے۔ مشاعرے میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم‘ عباس تابش‘ احمد سلمان‘ وجیہ ثانی (پاکستان)‘ ڈاکٹر کلام قیصر‘ نشتر امروہو‘ وجے تیواڑی (بھارت)‘ ڈاکٹر زبیرفاروق (عرب امارات)‘ ناہید ورک (امریکا) خالد سجاد (کویت)‘ فرزانہ خان نینا (برطانیہ) اور قمر ریاض (مسقط) نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

بزمِ تقدیسِ ادب کا مشاعرہ

مشاعروں کے ذریعے زبان و ادب کی آبیاری ہو رہی ہے۔ شعرائے کرام معاشرے کا وہ اہم طبقہ ہے جو حالاتِ زمانہ پر گہری نظر رکھتا ہے‘ سیاسی و سماجی اقدار کی تبدیلیوں پر قلم اٹھاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر منظر ایوبی نے بزمِ تقدیس دب کے زیر اہتمام ہونے والے مشاعرے میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ ادبی تنظیمیں نامساعد حالات کے باوجود ادب کی خدمت کر رہی ہیں۔ بزم تقدیسِ ادب بھی ہر ماہ شادمان ٹائون کراچی میں محفل شعر و سخن سجاتی ہے جو کہ قابل ستائش اقدام ہے۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی سعیدالطفر صدیقی اور مہمان اعزازی رفیع الدین راز تھے۔ احمد سعید خان نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اکرم رازی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ صاحب صدر مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ان میں فیروز ناطق خسرو‘ سید آصف رضا رضوی‘ سید اوسط علی جعفری فیاض علی‘ عبدالوحید تاج‘ عبدالمجید محور‘ سجاد ہاشمی‘ وقار زیدی‘ نشاط غوری‘ پرویز نقوی‘ کشور عدیل جعفری‘ خالد میر‘ آسی سلطان‘ طاہرہ سلیم سوز‘ اسد ظفر‘ سلیم عکاس‘ شارق رشید‘ شکیل وحید‘ زاہد علی سید‘ صغیر جعفری‘ عبداللہ ساغر‘ غلام علی وفا‘ باقر نقوی‘ عزمی جون‘ حامد علی سید‘ حجاب عباسی‘ عاشق شوکی‘ شمس زیدی‘ تنویر سخن‘ یاسر سعید صدیقی‘ عامر شیخ‘ یوسف اسماعیل‘ سرور علی کوثر شامل تھے اس موقع پر بزم تقدیس ادب کے سید فیاض علی اور آصف رضا رضوی نے خطبۂ استقبالیہ اور کلماتِ تشکر ادا کیا۔ ان حضرات نے تمام شعرائے کرام اور حاضرین مشاعرہ کا شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر محفل میں شرکت کی۔ اس مشاعرے میں ادبی تنظیم شعر و سخن کے روح رواں طارق جمیل بھی رونق افروز تھے

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کا مذاکرہ و مشاعرہ

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام پاکستانی ادب کے عالمی ادب پر اثرات مذاکرہ اور مشاعرہ منعقد کیا گیا جس کی صدارت ملک کے نامور شاعر ادیب‘ ماہر تعلیم ڈاکٹر شاداب احسانی نے کی۔ مہمان خاص راولپنڈی سے آئے ہوئے ادیب شاعر کرنل سعید آغا تھے۔ اعزازی مہمان سید اوسط علی جعفری‘ ریحانہ احسن تھیں۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ عالمی ادب پر نظر ڈالی جائے تو چاہے بھوٹان کی رمزیہ شاعری ہو یا بنگلہ دیش کا ادب ہو‘ نیپال کی لوک شاعری کی روایت سے جڑی ہوئی کوئی کتھا سری لنکا کے گیت یا مالدیپ کا قصہ یا دیگر ممالک کا ادبی جائزہ لیا جائے تو ہر جگہ انسانی دکھوں سے عبارت قدیم سے جدید انسان کا المیہ ایک مختلف پس منظر اور یکسر نئے ماحول کا قصہ دہراتا ہوا نظر آتا ہے۔ کہیں موت کی شکل میں جینے کی تمنا تو کہیں نارسائی کی صورت میں محبت کی دبی ہوئی خواہشات باوجود اس کے دنیا کے تمام ممالک پر پاکستانی ادب کے مثبت اثرات پڑے ہیں۔ تراجم کے ذریعے تمام ممالک کے ادیبوں کو ایک دوسرے کے ادب سے سمجھنے میں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ ادب کی مانند تجربے کی حد تو آسان لیکن اس کی تعریف کرنا دشوار ہے ادب ہی زندگی کی ہمہ وقت درپیش مسائل میں سے فرار کا راستہ بناتا ہے ایک فن اور ہے جو فن کار کے نقطہ نظر کی وضاحت کرتا ہے۔ بیشک وہ فلسفیانہ انداز میں ہو چاہے مذہبی پیراہن میں ملبوس ہو‘ ادب تمام انسانوں کے درمیان چاہے وہ کسی بھی ملک میں رہتا ہوں‘ کوئی بھیء اس کی زبان ہو‘ تمام انسانوں کے درمیان ایک ایسی زبان کی شکل میں جس میں محسوسات اور جذبات کی اہمیت ہوتی ہے‘ نمودار ہوتا ہے‘ ایسی زبان کی تشکیل دینے کی خواہش چاہے وہ شاعری کی صورت میں ہو یا فکشن کے کسی بھی روپ میں مصوری ہو یا مجسمہ سازی فن تعمیر کی شکل میں جلوہ آرا ہو یا رقص وموسیقی کے رنگ میں منعقد درحقیقت ایک کائناتی تصور کی انمول آرزو کا نام ہے پوری دنیا میں تصوف میں سچل سرمست‘ شاہ عبداللطیف بھٹائی‘ بلھے شاہ‘ خواجہ گفلام فرید اور نئی بستیوں مین پاکستانی ادب بستا ہے اور عالمی ادب پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے کہا کہ جنوبی ایشیا صدیوں پرانی عظیم انسانی تہذیبوں اور فکر و نظرکی مہتمم بالشان روایتوں کا گہوارہ رہاہے۔ اس خطے میں علم و دانش اور ادب فنون کی جس درخشندہ روایت کا آغاز ہوا تھا آج بھی اس کا تسلسل ہمارے ملکوں کی تہذیب و ثقافت میں بہت واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے یہی سبب ہے کہ اس کا اعتراف پوری دنیا میں کیا جاتا ہے‘ مختلف مذاہب‘ مختلف زبانوں اور مختلف نسلوں سے آباد سے اس خطے کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو قدم قدم پر تنوع میں اتحاد کی صورتیں واضح نظر آئیں گی جو کہ پاکستانی ادب سے جڑی ہوئی ہیں۔ آخر میں مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جن شعرائے کرام نے اپنا کلام پیش کیا ان میں ڈاکٹر شاداب احسانی‘ سعید راجا‘ ریحانہ احسان‘ سید اوسط علی جعفری‘ عرفان علی عابدی‘ امت الحئی اوفاؔ‘ سیف الرحمن سیفی‘ عظمیٰ جون‘ ہدایت سائر‘ شاہدہ عروج خان‘ خالدہ عظمیٰ‘ زیب النساء زیبی‘ عشرت حبیب‘ شہناز رضوی‘ فہمیدہ مقبول‘ فرح دیبا‘ محسن سلیم‘ خاور حسین‘ محمد رفیع مغل الحاج یوسف اسمعیل‘ سید مشرف علی‘ افضال ہزاروی‘ محمد علی سوز‘ تنویر حسین سخنور‘‘ کاشف علی کاشف‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ اقبال رضوی‘ الطاف احمد‘ حنا علی‘ گل افشاں‘ شفیق احمد شفیق‘ راز عزیز‘ سید صغیر احمد جعفری‘ احمد سعید فیض آباد‘ اظہر بانھن شامل تھے ۔آخر میں قادر بخش سومرو نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

حصہ