جدید تر اُردو غزل کا فنّی مطالعہ

6291

ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد
غزل کا قافلہ انجمنِ ترقی پسند مصنفین، حلقہ اربابِ ذوق، حلقہ ادبِ اسلامی، پاکستانی ادب اور لسانی تشکیلات کی تحریکوں اور کئی انفرادی رجحانات اور رویّوں سے اخذ و استفادہ کر کے ستر کی دہائی میں ایک نئے منطقے میں داخل ہوتا ہے جہاں تازہ کار شاعروں کا ایک گروہ اس کے لیے نئی بشارتوں کے در وا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ستر کے بعد کی غزل اپنے موضوعات، اسالیب ، لفظیات اور تکنیک کے اعتبار سے جدید غزل سے مختلف ہے۔ جدید غزل نے ساٹھ کی دہائی میں واقعیت زدگی کے رجحان کی لپیٹ میں ا ٓ کر اپنا تشخص کھو دیا اور جدید شعرا نے جدت کے شوق میں غزل کے منظر نامے پر ایسی مضحک تصویریں پیش کیں جو اس صنف کے مزاج سے کسی طور ہم آہنگ نہ تھیں۔عام طور پر اس رجحان کی حامل غزل کو جدید غزل کا ردِ عمل قرار دے کر اسے ’’جدید تر غزل‘‘ کا نام دیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ غزل بدیہی طور پر جدید غزل سے جْڑی ہوئی ہے۔ جدید تر غزل یا مابعد جدید غزل کا اطلاق ستر کی دہائی میں ابھرنے والی غزل پر ہوتا ہے جو اپنے ظاہر اور باطن کے لحاظ سے جدید غزل سے مکمل طور پر الگ حیثیت کی حامل ہے۔ جدید تر غزل نے اپنی شناخت کے لیے نہ تو لسانی تجربوں کو بنیاد بنایا ہے اور نہ واقعیت زدگی ایسے رجحانات کو، اس میں رنگِ میر کی بازیافت کی شعوری کوشش کا عمل دخل نظر آتا ہے نہ یہ اسالیبِ غالب و اقبال کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ یہ غزل اپنے رنگ و روغن اور ظاہر و باطن کے لحاظ سے مختلف اور منفرد ذائقہ رکھتی ہے۔ جدید تر غزل نے غزل کی روایت کو استحکام اور توانائی عطا کی ہے۔ فنی اعتبار سے جدید تر غزل نے اظہار کے جن قرینوں کو رواج دیا ہے وہ غزل کی تابانی کو بہت دیر تک قائم رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔جدید تر غزل میں ترکیب سازی، علامات و استعارات کا استعمال اور پیکر تراشی کے رجحانات ایک نئی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں۔ ان تکنیکی عناصر کے باعث نئے معنوی تناظرات اجاگر ہوئے ہیں جو عصری میلانات اور جدید حسیت کی مؤثر پیش کش میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔علامتی اور استعاراتی اظہار نے غزل کی تہ داری اور رمزیت میں اضافہ کیا ہے۔جدید تر غزل میں تلمیحات کا استعمال ایک خاص انداز سے سامنے آیا ہے۔ قدیم تاریخی اشارے اور تلمیحات نئے سیاق و سباق میں گندھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔جدید تر غزل میں اوزان و بحور کا تنوع دیدنی ہے۔ شعرا نے مروج اوزان میں ارکانِ عروضی کی کمی بیشی سے آہنگ کی نئی اور خوش آیند صورتوں کو رواج دیا ہے۔ اوزان و بحور کے ان تجربوں کے باعث عروضی نظام کا جمود تحرک آشنا ہوا ہے۔جدید تر غزل کی تعمیرو تشکیل میں جن شعرا نے اہم کردار ادا کیا اور تکنیکی ، اسالیبی اور صوتی حوالوں سے غزل کے نئے آفاق کی بشارت دی ، ذیل میں ان کی غزل کا اجمالی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
اسلم انصاری ، خورشید رضوی اور غلام محمد قاصر اگرچہ ستر کی دہائی سے بہت پہلے مطلعِ سخن پر نمودار ہوئے اور اپنے کلام کی نفاست اور لہجے کی نْدرت کے باعث مقبول ٹھہرے مگر ان کا اسلوبِ خاص جو ان کی شناخت کا وسیلہ بنا،ستر کی دہائی میں اپنی تکمیلی صورت میں ظاہر ہوا۔ غزلیہ روایت کے تہذیبی عناصر اور فکر و فن کے کامل ادراک کے باعث ان شاعروں نے جدید تر غزل کی داغ بیل ڈالی۔ ان کی غزلوں میں ’’جدید غزل‘‘ کی مخصوص چاردیواری سے باہر نکل کر نئی منزلوں کی طرف بڑھنے کی کیفیت واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔اسلم انصاری کی غزل پر ناصر کاظمی کے رنگِ خاص کی چھوٹ پڑتی نظر آتی ہے لیکن اس سے اسلم کے انفرادی رنگ کا نقش ماند نہیں پڑتا۔ ناصر سے استفادہ اْس ذہنی اور فکری قربت کا آئینہ دار ہے جس کے باعث ناصر نے اسلم انصاری کو اپنا ہم عصر قرار دیا ہے۔ اسلم انصاری کی غزل روایت کی کوکھ سے پھوٹتی ہے اس لیے اس کے خارج اور باطن میں غزلیہ روایت کے تمام نقش و نگار اپنی جلوہ سامانیوں کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر نجیب جمال کے بقول:
’’ اس کی غزل میں اْردو کی شعری روایت کا تسلسل اپنے تمام تر تہذیبی و سماجی تناظر کے ساتھ اس کے انفرادی لہجے میں ڈھلتا ہے۔ اسلم انصاری کی غزل خارجی تجربے اور داخلی واردات کی کش مکش کو اظہار کا قرینہ عطا کرتی ہے اور جذبہ، تخیل اور فکر کے تثلیثی امتزاج کی حامل ہے۔‘‘
اسلم انصاری کی غزل میں تمثال کاری کا ہْنر اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ عکس فگن ہے۔ ان کی تمثالوں میں ان کا عہد پوری طرح سانس لیتا دکھائی دیتا ہے۔ اگر تصویر سازی اور پیکر تراشی میں زبان و بیان کی جملہ نزاکتیں اور رعنائیاں گندھی ہوئی نہ ہوں تو تصویریں محض خارج کا اظہار یہ بن جاتی ہیں ان میں قلب و نظر سے کلام کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوسکتی۔ اسلم کی تمثال کاری میں صرف ’’موجود‘‘ عکس ریز نہیں ہوتا بلکہ ’’ ناموجود‘‘ بھی جھلکتا ہے جو ان کے خوابوں ، خواہشوں اور تمناؤں کے رنگ سے تشکیل پاتا ہے۔ یہ سارا تخلیق عمل اسلم انصاری کی فنی پختگی اور تکنیکی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے عام فہم اور مانوس لفظیات کو نیا مفہومی منظر نامہ عطا کیا ہے جو عہدِ جدید سے غزل کی ہم آہنگی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اسلم انصاری کے اسلوب کی سج دھج اور دل کشی ذیل کے اشعار سے مترشح ہے:

اپنی صدا کی گونج ہی تجھ کو ڈرا نہ دے
اے دل طلسمِ گنبدِ شب میں صدا نہ دے
جوئے نغمات پہ تصویر سی لرزاں دیکھی
لبِ تصویر پہ ٹھہرا ہوا نغمہ دیکھا
جسے درپیش جدائی ہو ا سے کیا معلوم
کون سی بات کو کس طرح بیاں ہونا ہے
خفا نہ ہو کہ ترا حسن ہی کْچھ ایسا تھا
میں تجھ سے پیار نہ کرتا تو اور کیا کرتا

خورشید رضوی کی غزل بھی کلاسیکی معیارات کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ ان کی غزل سرائی کے ابتدائی دور میں لسانی تشکیلات کے رجحانات نے ’’جدید غزل‘‘ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اس دور کے اکثر غزل گو شاعر الا ما شاء￿ اللہ جدت کے شوق میں مختلف زبانوں کے الفاظ کو غیر فن کارانہ انداز سے غزل میں شامل کر کے داد وصول کر رہے تھے۔ اس دور میں ان رجحانات سے اپنے آپ کو بچا لینا آسان کام نہ تھا۔ خورشید رضوی ان معدودے چند تخلیق کاروں میں شامل ہیں جنہوں نے ان لسانی رجحانات کے کھوکھلے پن اور سطحیت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے آپ کو ان سے الگ رکھا۔ انہوں نے غزل کی پْرانی لفظیات میں معنویت کی تازگی شامل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ فن کے اسرار و رموز سے آشنائی تخلیق کار گھسے پٹے الفاظ کے قالب میں بھی نئی روح پھونک کر انہیں حیاتِ نو کی لذت سے سرشار کر سکتا ہے۔
خورشید رضوی نے مشرقی زبانوں بالخصوص عربی اور فارسی کے ادبیات کے مطالعے سے اظہار کے ان وسیلوں سے فائدہ اٹھایا جو عام غزل گو شاعروں کی نگاہوں سے اوجھل رہے ہیں۔ ان کے علم و فضل نے بہ قول مظفر علی سید ان کی شاعری کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ ثروت مند کیا ہے۔ خورشید رضوی نے تشبیہات و استعارات اور علامات و اشارات کے اچھوتے اور کم یاب رنگوں سے غزل کی زیب و زینت میں اضافہ کیا ہے۔ زبان و بیان پر کامل گرفت اور لفظیات کے استعمال کا شعور ان کی قدرتِ کلام کا مظہر ہے۔ چند شعر دیکھیے:

دل میں یوں اْتر ا کسی کی ساعدِ سیمیں کا دھیان
شاخِ گل جس طرح دیوارِ قفس سے آ لگے
تم صبا کی طرح آئے اور رخصت ہو گئے
ہم مثالِ شاخِ تنہا دیر تک لرزاں رہے
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اْتر جانے کے بعد
اس گلی کی دوسری جانب کوئی رستہ نہیں
لبوں پہ آج سرِ بزم آ گئی تھی بات
مگر وہ تیری نگاہوں کی التجا کہ’ نہیں‘

غلام محمد قاصر نے مضامین کی جدت اور اظہار کی نْدرت کے ساتھ جدید تر غزل کی تعمیر و تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کی غزل میں زبان کا رکھ رکھاؤ اور بندشوں کا حسن غزل کی روایت میں اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ قاصر کے ہاں اوزان و بحور کی تازہ کاری نئے صوتی امکانات کی نشان دہی کرتی ہے۔ انہوں نے مروج بحور میں ارکان کی کمی بیشی سے نئے اوزان کے کام یاب تجربے کیے ہیں جو ان کی عروض آشنائی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں، قاصر نے متوسط اور طویل بحروں میں زیادہ غزلیں کہی ہیں۔ بحروں میں بسرام کے التزام کے باعث ان کے غزلیہ آہنگ میں روانی اور بہاؤ کی نسبت ٹھہراؤ کی کیفیت نمایاں ہے۔ چند اشعار بہ طور مثال دیکھیے:

پلکوں پہ چمکنے سے پہلے تاروں کو کیا تسخیر تو کیا
وہ شخص نظر بھر رک نہ سکا ، احساس تھا دامن گیر تو کیا
خوش ہوں کہ کسی کی محفل میں ارزاں تھی متاعِ بیداری
اب آنکھیں ہیں بے خواب تو کیا، اب خواب ہیں بے تعبیر تو کیا
تابندہ تاروں کا تحفہ صبح کی خدمت میں پہنچا
رات نے چاند کی نذر کیے جو تارے کم چمکیلے تھے
سو گئے سارے مسافر منزلیں محوِ سفر ہیں
پھر بیاضِ رہ گزر میں آہٹوں کا رتجگا لکھ
کشتی بھی نہیں بدلی ، دریا بھی نہیں بدلا
اور ڈوبنے والوں کا ،جذبہ بھی نہیں بدلا

صابر ظفر جدید تر غزل سراؤں میں اپنے لہجے کی سادگی ، بیان کی رعنائی اور موضوعات کی ندرت کے لحاظ سے الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔انہوں نے اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات اور کیفیات واحساسات کو جس فنی اہتمام کے ساتھ غزل میں شامل کیا ہے اس میں کہیں بھی تصنع اور بناوٹ کو دخل نہیں۔ صابر ظفر کی غزل میں غزل کی روایت اپنے تمام تر رنگوں کے ساتھ عکس ریز ہوئی ہے۔ انہوں نے غزل کی روایت کو صرف تحفظ ہی فراہم نہیں کیا بلکہ اس میں اپنے زمانے کا رنگ رس بھی شامل کر کے اس کی تاب ناکی اور جمالیات میں اضافہ کیا ہے۔ صابر ظفر کی غزل میں بہ ظاہر کوئی ایسا آرائشی اور زیبائشی عنصر شامل نہیں ہے جو چونکانے اور متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ، ان کے ہاں تشبیہات و استعارات اور تراکیب و محاورات کا استعمال بھی کم کم ہوا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے اشعار میں وہ سرشاری اور لطافت ہے جو دیر تک قلب و نظر کو اپنی گرفت سے آزاد نہیں ہونے دیتی۔الفاظ کے درو بست اور مصرعوں کی بْنت میں ان کا فنی تجربہ اور تخلیقی ریاضت جھلکتی ہے۔ ذیل کے اشعار ان کی اس خلاقی اور ہْنر مندی کے گواہ ہیں:

کلا م کرتا ہو ا ، راستہ بناتا ہوا
گزر رہا ہوں میں اپنی فضا بناتا ہوا
وہ درد ہی نہیں جس نے دوا کی مہلت دی
وہ زخم ہی نہیں جو اند مال تک پہنچا
کہیں کہیں کوئی تارا، کہیں کہیں میں
نظر کے سامنے وہ شکل خال خال آئی
صورتِ مرگ فقط راہ کی ٹھوکر نکلی
زندگی تو مرے اندازے سے کم تر نکلی
شہر آئے تو سمند ر نے اسے چھین لیا
عکس لائے تھے جو اک گاؤں کے تالاب سے ہم

(جاری ہے)

حصہ