برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

439

قسط نمبر 131۔
نواں حصہ
میں پچھلی قسط میں تفصیل کے ساتھ جنگ 1965ء کے محرکات پر بات کرچکا ہوں، مگر ہندوستانی عسکری مصنف بی سی چکرورتی کی زبانی سن لیں کہ ’’فروری 1965ء میں ہی ہندوستان یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ پاکستانی عسکری دستوں کو ’’کانجر کوٹ‘‘ سے نکال باہر کرنا ہے۔ یہ رن آف کچھ میں ایک بہت پرانا قلعہ ہے، جو پاکستان ہندوستان سرحد پر واقع تھا اور اس پر پاکستان کا عمل دخل تھا۔ ہندوستان نے ان پاکستانی فورسز کو یہاں سے نکالنے کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ اس آپریشن کا نام ’’آپریشن کبڈی‘‘ رکھا گیا۔ ہندوستانی ہائی کمانڈ نے آپریشنل آرڈر جاری کیا کہ بارڈر کراس کیا جائے اور کانجر کوٹ پر قبضہ کرلیا جائے۔‘‘ (کتاب ’’ہسٹری آف انڈوپاک وار۔ 1965ء‘‘)
قارئین یہ بات بھی جانتے ہیں کہ پہلی پاکستان ہندوستان جنگ جو کشمیر کے حوالے سے ہوئی تھی اُس کے بعد 1948ء میں سلامتی کونسل نے پاکستان و ہندوستان کے مابین جنگ کی کیفیت کے باعث فریقین کو پابند کیا تھا کہ فوری جنگ بندی کریں، کشمیر سے فوجوں کو نکالا جائے، کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے آئین میں ریاست جموں وکشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی حیثیت اب بھی حاصل ہے۔ مگر اس واضح آئینی حیثیت کے باوجود 1963ء میں ہندوستان نے کشمیریوں کی مرضی و منشا کے بغیر کشمیر کو انڈین یونین میں ضم کرنے کا اعلان کیا، اور پھر دیدہ دلیری کے ساتھ کشمیر پر دسمبر 1964ء میں دفعہ356۔357 کو لاگو کرتے ہوئے قانون سازی اور انتظامی اختیارات پر بھی کنٹرول حاصل کرکے مکمل طور پر کشمیریوں کی آزادی سلب کرلی۔ ظاہر ہے کہ اس نئی زبردستی کو کشمیری کسی صورت قبول کرنے پر تیار نہ تھے۔ دوسری جانب ہندوستان نے کشمیریوں کو مزید محدود کرنے کے لیے جنگ بندی لائن کے آرپار آباد لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر بھی پابندی لگادی تھی، جو کہ انسانی بنیادی حقوق کی سراسر خلاف ورزی تھی۔
اس صورت حال نے کشمیریوں کو مجبور کردیا کہ وہ ہندوستانی مظالم کے خلاف مذہبی و سیاسی جماعتوں کو ملاکر انقلابی کونسل بنا لیں۔ اس انقلابی کونسل نے دیکھتے ہی دیکھتے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی ایک عظیم تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ اس تحریک کو ہندوستان ہمیشہ سے ہی پاکستان کی مداخلت کا رنگ دیتا چلا آیا ہے۔ اُس نے اس من گھڑت پروپیگنڈے کی آڑ لے کر کشمیر میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیاں شروع کردیں۔ ہندوستانی پروپیگنڈے کے جواب میں صدرِ پاکستان ایوب خان کا کہنا تھا کہ ’’ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کررہے جس کا ہم پہلے وعدہ کرچکے ہیں، اور وہ یہ کہ ہم کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کے حصول کی جدوجہد میں ان کی حمایت کریں گے‘‘۔ پاکستان اور کشمیری عوام اپنے عمل اور مؤقف میں حق بجانب تھے، لیکن ہندوستان کو رن آف کچھ کی شکست کا داغ مٹانے کے لیے کسی نئے محاذ کا انتخاب کرنا تھا، جس کی وہ پہلے ہی دھمکی دے چکا تھا۔ اس کے لیے اول کشمیر میں جنگ چھیڑ دی گئی اور آزاد کشمیر کی طرف پیش قدمی کی گئی۔ 25 اگست 1965ء کو 26,000 سے 33,000 پاکستانی فوجیوں نے نہتے کشمیریوں کی مدد کے لیے لائن آف کنٹرول کو عبور کیا۔ جواب میں وہاں پر قابض ہندوستانی افواج نے گولہ باری کرتے ہوئے اپنی برّی فوج کو آگے بڑھایا اور تین اہم پہاڑی مقامات پر قبضہ کرلیا۔ دو تین دنوں میں پاکستانی فوج نے تتوال، پونچھ اور اوڑی کے علاقوں میں پیش قدمی کی، جبکہ ہندوستان نے حاجی پیر پاس میں پاکستانی حدود میں آنے والے کشمیر میں 8 کلومیٹر تک قبضہ کرلیا۔ یکم ستمبر 1965ء کو، پاکستان نے بھرپور جوابی حملے’’آپریش گرینڈ سلام‘‘ کا آغاز کیا، جس کا مقصد جموں کے اہم شہر اکھنور پر قبضہ کرنا تھا۔ اس حکمت عملی سے ہندوستانی افواج کی رسد اور مواصلات کا راستہ بند ہوسکتا تھا۔ جواب میں ہندوستان نے باقاعدہ بین الاقوامی سرحد عبور کرکے لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کیا۔ ہندوستان نے اس مرتبہ اپنی مرضی کے محاذ کھولتے ہوئے لاہور سے سیالکوٹ، چونڈہ، کھیم کرن اور راجستھان سیکٹر تک جنگ کو پھیلا دیا تھا۔ مختلف محاذوں پر جنگ پھیلا کر ہندوستان یہ سمجھتا تھا کہ کمزور پاکستان بیک وقت تین مختلف محاذوں پر اپنی سرزمین کا دفاع نہیں کرسکتا۔
6 ستمبر1965ء کو ہندوستان نے صریحاً بین الاقوامی سرحد عبور کرتے ہوئے پاکستان پر چڑھائی کردی۔ ہندوستان نے حاجی پیر پاس میں پاکستانی کشمیر میں 8 کلومیٹر تک کا علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ 17 روز جاری رہنے والی اس لڑائی میں دونوں ممالک کی عسکری قوت اس طرح تھی: پاکستان لڑاکا جنگی و ٹرانسپورٹ طیارے، تعداد 150۔ ٹینک، تعداد 756 (آدھے سے زیادہ پرانی حالت میں)۔ جبکہ ہندوستان کے پاس لڑاکا طیارے 270، ٹینک 720 جو سب کے سب نئی حالت میں تھے۔ پاکستان کے پاس ہلکے، درمیانی اور بھاری توپ خانے 552، جبکہ ہندوستان کے پاس 628 توپ خانے۔ اسی طرح زمینی فوج جو پاکستان کے پاس تھی اس کی تعداد لگ بھگ 260,000 تھی جس کا مقابلہ ہندوستان کی 700,000 پیادہ فوج سے تھا۔ جبکہ ہندوستان کو یہ ایڈوانٹج بھی حاصل تھا کہ اس کی تمام تر منصوبہ بندی اور لاجسٹک ضروریات پہلے سے مکمل تھیں اور اس کی افواج پاکستان کی سرحدوں کے اندر موجود تھیں۔
پاکستانی سرحد پر اس خطرناک صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے حزبِ مخالف کی تمام جماعتوں بشمول جماعت اسلامی نے حکومت کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے وقتی طور پر ایوب مخالف تحریک روک دینے کا فیصلہ کیا۔ امیر جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اسی دن ایک اخباری بیان میں کہا کہ ’’تمام اہلِ پاکستان سر سے کفن باندھ کر میدانِ عمل میں مرنے مارنے کے لیے تیار ہوجائیں اور اپنی جان و مال سے پاک سرزمین کے ایک ایک انچ کی حفاظت کریں‘‘۔ 11 ستمبر کو حزبِ مخالف کی تمام جماعتوں نے مولانا مودودی کی قیادت میں صوبائی گورنر ملک امیر خان سے ملاقات کی اور اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اگلے دن مولانا مودودی نے راولپنڈی میں صدر ایوب خان سے ملاقات کی اور اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ’’اس حوالے سے مجھے جو بھی کام تفویض کیا جائے گا میں اس کے لیے تیار ہوں۔‘‘
جنرل محمد موسیٰ خان کی قیادت میں پاک فوج ہندوستانی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی تینوں افواج کو میدان میں لے کر آچکی تھی۔ نیوی کی قیادت وائس ایڈمرل سید محمد احسن کے پاس تھی، پاک فضائیہ کے شاہین ایئرمارشل نور خان کی قیادت میں دشمن پر جھپٹنے کو بے چین تھے۔ میجر جنرل ٹکا خان کی قیادت میں 12 واں رجمنٹ آرٹلری (برّی)، میجر جنرل اختر حسین ملک (جنرل آفیسر کمانڈنگ)، 12واں انفنٹری ڈویژن، میجر جنرل افتخار جنجوعہ، بریگیڈیئر جنرل عبدالعلی ملک (24 واں آرمی انفنٹری) اور کموڈور ایس۔ ایم۔ انور (کمانڈر، 25 واں بحریہ) اپنے اپنے دستوں کے ساتھ تینوں محاذوں پر دشمن کا جواب دینے کے لیے موجود تھے۔
6 ستمبر 1965ء کو ہندوستانی سورماؤں کا ارادہ تھا کہ وہ 7 ستمبر کو صبح کا ناشتا لاہور میں کریں گے۔ چنانچہ رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن نے 6 ستمبر کی صبح ٹھیک 3 بج کر 45 منٹ پر واہگہ پر پاکستانی آبادی پر ایک گولہ فائر کیا۔ یہ گولہ باقاعدہ اعلانِ جنگ تھا۔ پاکستانی حدود میں ایس جے سی پی پوسٹ کے جوان اس حملے پر چوکنا ہوئے اور پلاٹون کمانڈر محمد شیراز نے سرحدی چوکی پر اپنے جوانوں کو دفاعی لائن پر جوابی حملے کا آرڈر دیا، اسی اثنا میں اندھا دھند فائرنگ شروع ہوگئی۔ پلاٹون کمانڈر محمد شیراز نے آگے بڑھ کر فائرنگ مچان پر پوزیشن سنبھال لی۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں جانب سے ہیوی فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا۔ طبلِ جنگ بج چکا تھا۔ پیٹھ دکھانا قوم سے غداری کے مترادف تھا۔ جذبۂ ایمانی سے سرشار پلاٹون نے جان کی بازی لگاتے ہوئے کئی گھنٹے جارح دشمن کو اسی محاذ تک محدود رکھا۔ بھاری فائرنگ میں ہندوستانی فوجی پاکستانی چوکی کے نزدیک آچکے تھے۔ انہوں نے انتہائی قریب آکر دستی بم بھی پھینکنے شروع کردئیے۔ یہ حملہ اس قدر اچانک تھا کہ پچھلے محاذ پر موجود پاکستانی فوج کو فوری کمک دینا ناممکن تھا۔ قریب ترین پاکستانی چوکی بھی چار کلومیٹر دور تھی۔ حملہ اس قدر شدید تھا کہ پلاٹون کے دیگر سپاہی اگلے مورچے پر موجود پاکستانی سپاہیوں کو زمین پر رینگ کر بم تھماتے تھے۔ پلاٹون کمانڈر محمد شیراز دشمن کی گولیوں کی زد میں تھے، اسی دوران گولوں کی باڑھ ان کے سینے میں کئی سوراخ کرگئی۔ محمد شیراز نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر جنگِ ستمبر کے پہلے شہید کا اعزاز حاصل کرلیا۔
1965ء کی لڑائی میں 600 ٹینکوں نے حصہ لیا تھا، جن میں ہندوستان کے پاس سنچورین ٹینک بھی شامل تھے، جس کی طاقت اور توپ کے دہانے پر ہندوستان کو فخر تھا، جبکہ عددی برتری کے لحاظ سے بھی ہندوستان اور پاکستان کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ مگر یہ بات سچ ہے کہ جنگیں طاقت سے نہیں جذبے سے لڑی جاتی ہیں۔ ہندوستان کے ٹینکوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کے جری سپاہیوں نے بہادری کی ایک انوکھی تاریخ رقم کردی اور وطن کی مٹی کی حرمت کے لیے اپنے سینوں سے بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے، اور آگے بڑھتے ہوئے دیوہیکل ٹینک پلک جھپکتے ہی آگ میں بھسم ہوتے چلے گئے۔ اس جذبے اور بہادری کو دیکھ کر دشمن کے اوسان خطا ہوگئے۔ دشمن کے بھاری بھرکم دیوہیکل ٹینک ان کی آنکھوں کے سامنے تباہ و برباد ہورہے تھے۔ ہندوستان میں ’’چاونڈا‘‘ کے مقام کو اب بھی تاریخ میں ٹینکوں کے قبرستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
لاہور کے تھانہ برکی کے مقام پر میجر عزیز بھٹی بطور کمپنی کمانڈر تعینات تھے۔ واہگہ بارڈر سے ہندوستانی زمینی فوج مسلسل پیش قدمی کرتی چلی آرہی تھی۔ جیسے ہی مقامی آبادی کو اس حملے کی خبر ملی، لوگ لاٹھی ڈنڈے لے کر دیوانہ وار پاک فوج کی مدد کے لیے نکل آئے اور اگلے مورچوں کا رخ کرنے لگے، جنہیں پاک فوج کے جوانوں نے بمشکل قابو کیا اور یقین دلایا کہ اگر ضرورت پڑی تو آپ لوگوں کو بھی شاملِ جہاد کیا جائے گا۔ میجر عزیز بھٹی مسلسل 5 دن تک بھارتی ٹینکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہے، 12 ستمبر 1965ء کو بھارتی فوج کے ایک ٹینک کا گولہ میجر عزیز بھٹی کے سینے پر لگا۔ میجر عزیز بھٹی نے ایک انچ زمین بھی دشمن کے حوالے نہیں کی اور آخر وقت تک کامیابی کے ساتھ پاک سرزمین کے دفاع میں شہید ہوکر نشانِ حیدر حاصل کیا۔
(جاری ہے )

حصہ