کشمیر، شام، فلسطین اور افغانستان

270

افشاں نوید
ہم لاکھ جدید ٹیکنالوجی کو برا بھلا کہیں اپنے بچوں کو اس سے بچانے کی تدبیریں کریں‘ اس کے نقصانات پر دہائی دیں لیکن یہ بوتل کا ایساجن ہے جو اب واپس بند نھیں ہوسکتا… ضروت ہے اس مثبت سوچ کو اپنانے کی کہ ہم خود اس سے آگاہ ہو اور اپنے بچوں کو اتنا دینی شعور دیں کہ وہ اس کو سچائی کے فروغ اور حق گوئی کے لیے استعمال کریں۔
سوشل میڈیا انقلابی میڈیا ہے آج سے چند برس پہلے ہم سوچ بھی نھیں سکتے تھے کہ ہمارا پیغام یوں آن کی آن میں ہزاروں لوگوں تک اک کلک کے ذریعہ پہنچ جائے گا۔
اک داعی دین کو ضرور ان مروجہ طریقوں سے آگہی ہونا چاہیے اور اپنے پیغام کے لیے اس کا بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔
آج اپنی فیس بک وال سے کچھ منتخب پوسٹ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔
آج جمعے کی شام کچن میں گئی تو اطراف کے فلیٹ میں کہیں سے کسی نوجوان کی دل سوز قرأت کی آواز سماعتوں سے ٹکرائی جو ماقبل کبھی نہیں سنی میں نے‘ وہیں کھڑکی سے لگی سنتی رہی… قندوز کے ننھے پھول سے حفاظ قطار بنائے تصور میں آگئے جیسے کہہ رہے ہوں ’’ہمیں نذرانۂ عقیدت کا یہ طریقہ پسند آیا ہے… ہر گھر سے اسی طرح قرآن کی آوازیں بلند ہونے لگیں… بھولا ہوا سبق قرآنی قوم کو یاد آجائے تو ہمارا لہو کب رائیگاں ہے؟
ہماری موت اگر قوم کی روحانی حیات بنتی ہے تو جو دستاریں تم نے ہمارے معصوم چہروں پر دیکھی تھیں اس دستار کے تم سب بھی حق دار بن جاؤگے۔
دیکھو! اس دکھ کو دوام دے دو… ایسے کہ قرآن سے ٹوٹا تعلق جوڑ لو اپنا اور اپنے خاندانوں کا… دشمن سے انتقام کا یہی طریقہ ہے کہ اس نے مدرسے پر حملہ کیا‘ قرآن سے نفرت کے اظہار کے لیے تم ہاں تم اپنے ہر گھر کو قرآن کی آوازوں کی گونج دے دو بخدا ذلت کو عزت میں بدلنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔
ابھی تو لکھنے والوں کے قلم کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کشمیر کا نوحہ لکھتے لکھتے… آسیہ اندرابی کی آہوں اور سسکیوں میں ڈوبی آواز ابھی تو سماعتوں سے محو بھی نہ ہوئی تھی کہ…
یہ ننھے دولھا منظر عام پر آگئے قندوز کے…
پھر…
وہی نوحے‘ وہی پوسٹوں کی شئیرنگ‘ وہی لائیکس‘ وہی کمنٹس‘ وہی غم جو پرانے ہی ہوکے نہیں دے رہے۔
مگر ہمارے حکمرانوں کے پاس جو سب سے بڑی چیز ہے وہ بیانات کی توپ ہے… دفتر خارجہ کے بیانات‘ بھارت کو سبق سکھانے کے دعوے‘ اقوام متحدہ سے ہاتھ جوڑ جوڑ کر اپیلیں…
ہمارے اطراف میں چاہے افغانستان ہو یا بھارت‘ جو بھی کچھ کھیل کھیلا جارہا ہے یہ نہ صرف ہمارے حکمرانوں بلکہ ہمارا بھی امتحان ہے‘ ہم بھی بے نقاب ہو رہے ہیں…
کیا بات ہوگی اس سے بڑی جو ترمذی شریف میں مذکور ہے کہ ’’ظلم دیکھ کر خاموش رھنے والا ظالم شمار کیا جائے گا۔‘‘
دو دن میں کتنے جنازے دیکھے ہم نے!!!
کچھ وقت کی تعزیتیں پھر اپنے مشاغل…
آسیہ کی آہیں ہیں یا قندوز کا لہو بڑا قرض چھوڑ کر گیا ہم پر کہ جان چھڑاؤ ان حکمرانوں سے جو کٹھ پتلیاں ہیں‘ چھین لو ان سے اقتدار جو اُمہ کا درد نہیں بلکہ اپنے اقتدار کی ہوس رکھتے ہیں‘ جو اقتدار کی آنچ سے اپنے لوہے کو سونا بنانے سے آگے نہیں سوچتے۔
ہماری نمازیں‘ روزے کیسے ہمیں ظالموں میں شریک ہونے سے روک سکیں گے؟
ہر اک کے ایمان کی گواہی کا وقت ہے… اب ووٹ کی پرچی کا غلط استعمال نہایت سنگین ہوگا… خونِ ناحق ہماری گردن پر ہوگا‘ اب بیداری کی مہم میں اپنا آپ لگانا ہوگا‘ لوگوں کو جھنجوڑنا ہوگا کہ حساب صرف حکمرانوں کا نہیں‘ کٹہرے میں وہ بھی کھڑے ھوں گے جنھوں نے ان ظالموں کو منتخب کیا‘ جو کشمیر اور اُمہ کے درد کو صرف اپنے انتخابی منشور میں لکھ کر دھوکا دیتے ہیں اور کمیٹیاں بنا کرعرس کے موقعوں پر ان پر پھولوں کی چادریں چڑھاتے ہیں۔
جانے دیجیے اقوام متحدہ کیا کرتی ہے اور سلامتی کونسل کون سی قرارداد منظور کرتی ہے‘ یہ بھی جانے دیجیے کہ وزارتِ خارجہ اور پارلیمنٹ کیا کرتی ہے؟ اس کا غم بھی چھوڑ دیں کہ او آئی سی کیا کرتی ہے یا عرب لیگ کیا رسپانس دیتی ہے… چھوڑ دیجیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے غم…
آسیہ اندرابی پوچھ رہی ہیں اور قندوز کے ننھے سجیلے دولھا کہ ’’سنو تم کیا کروگے آج کے بعد… ہمارے خون کا قرض کیسے چکاؤ گے…؟‘‘
’’اپنا کھانا خود گرم کرو…‘‘
بات کیا ہے اور کون کہہ رہا ہے؟ کسی بات کے پس منظر میں ہم یہ دونوں باتیں دیکھتے ہیں۔
اس کھانے کے پوسٹر کے جواب میں حضرات نے لمبی لمبی پوسٹیں اور اخبارات میں سیر حاصل مضمون لکھ ڈالے۔
مجھے اس مطالبے سے بہت مثبت سبق ملا کہ واقعی درست توجہ دلائی اور میں تو الرٹ ھوگئی کہ ہم ماؤں کو اپنے بیٹوں کی تربیت ایسی کرنی چاہیے کہ وہ گھر کا کام خود کریں۔
ہم نوے فیصد مائیں اپنے بیٹوں کو گھر کا کام نھیں سکھاتیں… آخر کیوں؟
وہ لڑکا جب بیرون ملک جاتا ہے تو کمرے کی صفائی سے لے کر کھانا بنانے اور لانڈری تک اپنا ہر کام فخریہ کرتا ہے… لیکن ہمارے سماج میں گالی ہے اگر مرد روٹی یا ہانڈی بنا لے۔
ہم مائیں اپنے بیٹوں کے اتنے ناز اٹھاتی ہیں کہ لڑکوں کو چائے بھی بنانا نہیں سکھاتیں۔ معذرت کے ساتھ میں نے ایسی مائیں بھی دیکھی ہیں جو نکھٹو بیٹے کے عیبوں پر یہ کہہ کر پردہ ڈالتی ہیں کہ ’’آنے والی سب ٹھیک کر دے گی۔‘‘ جس بیٹے کو ماں نہ ٹھیک کرسکی‘ آنے والی بیس بائیس برس کی لڑکی کیا کر لے گی اور جب نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچے گی تو مورد الزام بہو‘ کہ گھر بسانے کے گر ہی نہ آتے تھے۔
ہم شادی سے قبل لڑکیوں کی تربیت کی فکر کرتے ہیں لیکن پاکستانی سماج میں بہت کم مائیں ہوں گی جو بیٹوں کی تربیت کی فکر کریں۔
ب دنیا کی سب سے عظیم ذات نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنا گھر کا ہر کام کرتے تھے تو ہمیں بھی اپنے بیٹوں کی تربیت اسی نہج پر کرنا چاہیے۔
یہ مطالبہ ’’نعرہ مساوات‘‘ کے تحت نہیں اٹھانا چاہیے مگر گھر میں بھائی کبھی بہنوں کا امور خانہ داری میں ہاتھ بٹالیں تو کوئی معیوب بات نہیں‘ بیٹا باورچی خانے میں ماں کی مدد کر دے تو اسے کبھی فیس بک چھوڑ کر ماں کا خیال بھی کر لینا چاہیے۔
میں نے تو ان پوسٹرز سے مثبت پیغام لیا کہ واقعی سماج میں عورتوں کو اگر شکایت ہے کہ مرد گھر کے امور میں ہاتھ نھیں بٹا رہے تو قصور ماؤں کا ہے کہ لڑکوں کو بچہ ہی سمجھتی ہیں ساری عمر۔
ہمیں بیٹوں اور بھائیوں کی مجاہدانہ تر بیت کرنی چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ بیوی کو شوہر کے رویے کے خلاف پوسٹر لے کر سڑک پر نہیں آنا چاہیے نہ ہی اپنے گھر کے مردوں کی خدمت کوئی عیب ہے یہ تو سعادت کے مقام ہیں کہ رب نے گھر دیا جو جنت ہے‘ جہاں کے مرد چاہے باپ ہو یا شوہر… بھائی ہو یا بیٹا‘ سب عورت کا مان ہیں‘ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا قرار ہیں۔ مگر بات ہے ہم ماؤں کے سوچنے کی کہ بیٹے کی تربیت میں جھول رہ جاتا ہے ہم سے۔

حصہ