پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کا ایک بار پھر آغاز

233

راشد عزیز
پاکستان نے تیسرے ٹی 20 میچ میں ویسٹ انڈیز کو 8 وکٹوں سے شکست دے کر نہ صرف تین میچوں کی سیریز اپنے نام کرلی بلکہ ٹی 20 فارمیٹ میں اپنا پہلا نمبر بھی برقرار رکھا۔ مہمان ٹیم نے 9 برس بعد کراچی آکر پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کا کام تو انجام دیا لیکن کھیل کے تینوں شعبوں میں انتہائی غیر معیاری کارکردگی کا مظاہرہ کرکے کرکٹ کے مداحوں کو مایوس اور بددل کیا۔ وطن واپسی پر ان کے ہم وطن اور پریس ان کا کس طرح استقبال کرتے ہیں یہ دیکھنا ہوگا، لیکن کرکٹ کے شائقین کا خیال ہے کہ اگر آئندہ بھی اس طرح کی ٹیمیں پاکستان آئیں تو پھر ملک میں کرکٹ مقبول ہونے کے بجائے غیر مقبول ہوگی۔ اس سیریز سے عوام کو مایوسی اس لیے بھی ہوئی کہ چند روز قبل ہی انہوں نے پاکستان سپر لیگ میں بڑی دلچسپ اور معیاری کرکٹ دیکھی تھی، اور اس ٹورنامنٹ میں بھی اگرچہ صفِ اول کے غیر ملکی کھلاڑیوں کی بڑی تعداد نے حصہ نہیں لیا تاہم جو انٹرنیشنل کھلاڑی آئے تھے اُن میں سے اکثر نے بڑی عمدہ بیٹنگ اور بولنگ کا مظاہرہ کیا تھا۔ پاکستان ویسٹ انڈیز سیریز کے لیے اطمینان کا باعث صرف ایک ہی پہلو رہا کہ اس سے یہاں بین الاقوامی کرکٹ کا پھر سے آغاز ہوگیا، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں کون سی غیر ملکی ٹیمیں یہاں آنے پر رضامند ہوتی ہیں، کیونکہ پی ایس ایل میں حصہ لینے والے صفِ اول کے گورے کھلاڑی دبئی ہی سے اپنے وطن واپس لوٹ گئے تھے۔
ویسٹ انڈیز کی ٹیم کراچی پہنچی تو کھلاڑیوں کے نام دیکھ کر شائقین کو مایوسی ہوئی۔ اس ٹیم میں اکثر کھلاڑی نئے یا غیر مقبول تھے۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم جو اب سے دو دہائی قبل دنیا کی سب سے مقبول اور مضبوط ٹیم ہوا کرتی تھی، بتدریج کمزور ہوتی گئی ہے۔ جس ٹیم نے دنیا کے عظیم ترین کرکٹرز گیری سوبرز، روہن کنہائی، ویزلی ہالی، گلکرسٹ، ویوین رچرڈز، برائن لارا، مائیکل ہولڈنگ، کلائیولائیڈ، میلکم مارشل، جوئل گارنر، کرس گیل، کورٹنی والش اور نہ جانے کتنے عظیم کرکٹرز پیدا کیے جن کے خلاف کھیلتے ہوئے دنیا کی ہر ٹیم خوف کا شکار رہتی تھی، وہ دن بدن کمزور ہوتی جارہی ہے اور اب وہاں سے بڑے کھلاڑی ابھر کر نہیں آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ عرصۂ دراز سے ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ اورکھلاڑیوں کے درمیان تنازعات بھی جاری ہیں اور اکثر صفِ اول کے کھلاڑی اپنے ملک کے مقابلے میں انڈین پریمیر لیگ اور کائونٹی کرکٹ کھیلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے کرس گیل بھی اس ٹیم کے ساتھ پاکستان نہیں آیا جو ون ڈے اور ٹی 20 فارمیٹ میں اب بھی دنیا کا مقبول ترین کھلاڑی ہے۔
پہلے ٹی 20 میں ویسٹ انڈیز کی کارکردگی لوگوں کی توقعات سے بھی بہت زیادہ ناقص رہی۔ پاکستانی کھلاڑیوں نے کمزور بولنگ اور ناقص ترین فیلڈنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 5 وکٹوں کے نقصان پر 203 رنز بنالیے۔ پاکستان نے ٹی 20 میچوں میں چوتھی بار دو سو سے زیادہ رنز بناکر اپنے سب سے زیادہ اسکور کا ریکارڈ بھی برابر کردیا جو اس نے بنگلہ دیش کے خلاف کراچی ہی میں بنایا تھا۔ اپنا پہلا بین الاقوامی میچ کھیلنے والے حسن طلعت نے اپنی سلیکشن کو حق بجانب ثابت کرتے ہوئے رنز بنائے، اس نے میچ میں تین کیچ اور ایک وکٹ لے کر مین آف دی میچ کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ فخر زمان نے 39، سرفراز احمد نے37 اور شعیب ملک نے بھی دھواں دھار بیٹنگ کرتے ہوئے صرف 14گیندوں میں 37 رنز بنائے اور ناٹ آئوٹ رہے۔ اس کے جواب میں ویسٹ انڈیز نے بولنگ اور فیلڈنگ سے بھی زیادہ ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور صرف 60 رنز کے اسکور پر پوری ٹیم ڈھیر ہوگئی۔ اس مایوس کن کارکردگی پر کچھ ماہرین نے رعایت دیتے ہوئے یہ کہا کہ چونکہ مہمان کھلاڑیوں کو آتے ہی کھیلنا پڑ گیا لہٰذا جیٹ لیگ کی وجہ سے ایسا ہوا۔ لیکن اگلے میچ میں انہوں نے اسی طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کرکے سیریز پاکستان کے حوالے کردی اور سرفراز احمد کا ٹی 20 سیریز نہ ہارنے کا ریکارڈ برقرار رہا۔ دوسرے میچ میں بھی پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرکے پہلے میچ سے بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور صرف 3 وکٹ کے نقصان پر 205 رنز بنالیے، جس میں بابراعظم کے ناٹ آئوٹ 97 شاندار رنز بھی شامل تھے۔ اس میچ میں مہمان ٹیم نے قدرے بہتر بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور 123 رنز بنائے، لیکن بولنگ اور فیلڈنگ ایک بار پھر مایوس کن رہی۔ حسن طلعت نے اس میچ میں بھی آل رائونڈ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ پی ایس ایل کی دریافت اس نوجوان نے نصف سنچری بنانے کے علاوہ دو وکٹیں بھی لیں اور ٹیم میں اپنی جگہ مزید پکی کرلی۔تیسرے اور آخری میچ میں ویسٹ انڈیز نے پہلے بیٹنگ کی جس کا فائدہ اُن کو یہ ہوا کہ وہ 153 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے، جس میں رام دین کے 42 اور اوپنر فلیچر کے 52 رنز شامل تھے۔ ایک معقول اسکور کرنے کے باوجود ویسٹ انڈیز کی ٹیم ایک بار پھر ناقص بولنگ اور بے جان فیلڈنگ کے باعث حریف ٹیم کو کلین سوئپ سے نہ روک سکی اور پاکستان نے یہ میچ 8 وکٹوں سے جیت کر ویسٹ انڈیز کو آئوٹ کلاس کردیا۔ بابراعظم نے ایک بار پھر شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے 51، فخر زمان نے 41 اور حسن طلعت نے 31 رنز بناکر اپنی اہمیت ایک بار پھر منوالی۔
کرکٹ جاننے اور سمجھنے والوں کا سیریز سے قبل یہ خیال تھا کہ یہ سیریز پاکستان جیتے گا، اور اکثر کا اندازہ تھا کہ یہ فیصلہ ایک کے مقابلے میں دو سے پاکستان کے حق میں ہوگا۔ اس اندازے کی منطق یہ تھی کہ ایک تو مہمان ٹیم کے مقابلے میں میزبان ٹیم کو ہوم گرائونڈ، ہوم کرائوڈ اور موسمی حالات کی برتری حاصل ہوتی ہے، دوسرے یہ کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم نئے اور ناتجربہ کار کھلاڑیوں پر مشتمل تھی۔ لیکن کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ ٹیم اتنی کمزور ہوگی۔ نیشنل اسٹیڈیم کی وکٹ روایتی طور پر بیٹسمینو ںکے لیے سازگار رہی، لیکن مہمان بولرز نے اس وکٹ پر جس طرح بولنگ کی اُس سے اندازہ ہوا کہ نہ صرف ان میں تجربے اور صلاحیت کی کمی تھی بلکہ ان کے رویّے سے ایسا محسوس ہوا کہ ان میں جذبہ اور لگن بھی نہیں تھی۔ دو تین کھلاڑیوں نے انفرادی صلاحیت کی بنا پر قدرے بہتر بیٹنگ تو کرلی لیکن مجموعی طور پر ٹیم اسپرٹ کہیں نظر نہیں آئی، یوں لگا کہ کھلاڑیوں کا کپتان سے کوئی تعلق یا واسطہ نہیں تھا، اس لیے سب سے زیادہ کمزوری فیلڈنگ کے شعبے میں نظر آئی۔ بے شمار رنز اچھی کوشش سے روکے جاسکتے تھے لیکن اس سلسلے میں کپتان سمیت کسی فیلڈر کی دلچسپی نظر نہ آئی۔
سیریز ختم ہوگئی۔ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کا ایک بار پھر آغاز ہوگیا۔ پاکستانی کھلاڑیوں نے بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ نئے کھلاڑیوں کی کارکردگی سے پاکستان کا مستقبل بھی روشن لگتا ہے، لیکن ان کھلاڑیوں کی صلاحیت کا اصل امتحان دیگر اچھی، مضبوط اور پروفیشنل ٹیموں کے خلاف کھیل کر ہوگا، خاص طور پر اپنے ملک سے باہر اجنبی اور مشکل حالات میں۔
سیریز کے اختتام پر چیف سلیکٹر انضمام الحق نے پاکستانی ٹیم کے کپتان، کوچ اور کھلاڑیوں کو ٹی 20 میں اپنی پہلی پوزیشن برقرار رکھنے پر مبارکباد دیتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ اگر ٹیسٹ میچوں میں بھی کامیابی حاصل کرنی ہے تو ہمارے کرکٹرز کو فرسٹ کلاس کرکٹ پر توجہ دینی ہوگی۔ انضمام کا یہ مشورہ صائب مشورہ ہے اور اگر پی سی بی کا تمام زور صرف میلوں ٹھیلوں اور پی ایس ایل پر رہا تو پھر ہماری ٹیم کے لیے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ، جنوبی افریقہ اورسری لنکا کا مقابلہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔ بورڈ کو چاہیے کہ پی ایس ایل کے ساتھ ساتھ فرسٹ کلاس کرکٹ پر بھی سنجیدگی سے توجہ دے۔

حصہ